Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1434ھ

ہ رسالہ

5 - 16
ملاقات کے آداب
محترم محمد جمال الدین

اجازت لینا
اسلامی آداب معاشرت کا ایک اہم باب استیذان یعنی اجازت لیناہے،یعنی کسی کی ملاقات کے لیے جایا جائے تو پہلے اس سے اجازت لے لی جائے، اجازت کے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونا اسلامی معاشرت میں ایک ناپسندیدہ اور غیر شرعی حرکت ہے،جو ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا، استیذان کاحکم قرآن پاک میں بڑی تفصیل سے دیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے، لیکن بہت سے مسلمان اس سے غافل ہوگئے، اسلامی احکام میں سب سے پہلے سستی اسی حکم میں شروع ہوئی، حضرت ابن عباس رضي الله عنه نے فرمایا کہ تین آیتیں ایسی ہیں جن پر لوگوں نے عمل کرنا چھوڑ ہی دیا ہے، ایک یہی آیت استیذان: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ …﴾(النور: 58)

اے ایمان والو! اجازت لے کر آئیں تم سے جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں۔ (غلام)
اس آیت میں اقارب اور نابالغ بچوں کو بھی استیذان کی تعلیم ہے، اور اجازت لیے بغیر کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔

اور دوسری آیت:﴿وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَی…﴾ (النساء: 8)
جس میں تقسیم میراث کے وقت وارثوں کو اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر مال وراثت تقسیم کرنے کے وقت کچھ ایسے رشتہ دار بھی موجود ہوجائیں جن کا ضابطہٴ میراث سے کوئی حصہ نہیں ہے تو ان کو بھی کچھ دے دیا کرو، کہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔ تیسری آیت ہے: ﴿إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ﴾․ (الحجرات: 13)

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ معزز ومکرم وہ آدمی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو اور آج کل لوگ معزز ومکرم اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس پیسہ بہت ہو، جس کا مکان ، کوٹھی بنگلہ بہت شاندار ہو( تفسیر ابن ابی حاتم حدیث نمبر: 14789 تحقیق اسعد محمد طیب) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلمنے فرمایا کہ ان تین آیتوں کے معاملہ میں لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے۔(حوالہ سابق حدیث نمبر 14788) حضرت عکرمہ رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ دو حضرات نے حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے ان تین اوقات کے متعلق، جس کے بارے میں قرآن پاک نے اقارب اور بچوں کو بھی اجازت لینے کا حکم دیا ہے، دریافت کیا کہ لوگ اس پر عمل نہیں کرتے؟ تو ابن عباس رضي الله عنه نے فرمایا: ”ان اللہ ستیر یحب الستر“․ (السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر: 13559، باب استیذان المملوک) اللہ بہت پردہ پوشی کرنے والا ہے اور ستر کی حفاظت کو پسند کرتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت معاشرت بہت سادہ تھی، نہ لوگوں کے دروازوں پر پردے تھے، نہ گھر کے اندر پردہ دار مسہریاں تھیں، اس وقت کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آدمی کا خادم یا بیٹا بیٹی اچانک آجاتے اور یہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ مشغول ہوتا، اس لیے اللہ جل شانہ نے ان آیات میں تین وقتوں میں استیذان کی پابندی لگادی تھی اور اب چو ں کہ دروازوں پر پردے اور گھر میں پردہ دار مسہریاں ہیں اس لیے لوگوں نے یوں سمجھ لیا کہ بس یہ پردہ کافی ہے اور اب استیذان کی ضرورت نہیں ہے (حالاں کہ ایسا نہیں ہے)۔ (حوالہ سابق) ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں استیذان کا حکم کتنا اہم ہے، اس سے جانبین کی رعایت اور راحت مقصو د ہے، ذیل میں استیذان کے متعلق کچھ احکام معارف القرآن شفیعی کی روشنی میں درج کیے جاتے ہیں:

استیذان کی حکمت
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کے رہنے کے واسطے جو جگہ عطا کی ہے، خواہ وہ مملوکہ ہو یا کرایہ کی ہو، بہر حال وہ اس کا گھر اور مسکن ہے اور مسکن کی اصل غرض سکون وراحت ہے، قرآن کریم نے اسے نعمت کے مقام میں ذکر کیا ہے؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاللّہُ جَعَلَ لَکُم مِّن بُیُوتِکُمْ سَکَناً﴾․ (النحل: 80) ”اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھروں سے تمہارے لیے سکون وراحت کا سامان دیا ۔“

اور یہ سکون وراحت اسی وقت مل سکتا ہے جب کہ انسان کسی دوسرے شخص کی مداخلت کے بغیر اپنے گھر میں، اپنی ضرورت کے مطابق آزادی سے کام اور آرام کرسکے، اس کی آزادی میں خلل ڈالنا گھر کی اصل مصلحت کو فوت کرنا ہے، جو بڑی ایذا وتکلیف ہے، اسلام نے کسی کو بھی ناحق تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا ہے، استیذان کے احکام میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ لوگوں کی آزادی میں خلل نہ پڑے اور ان کی ایذا رسانی سے بچاجائے۔

دوسری مصلحت خود اس شخص کی ہے جو کسی کی ملاقات کے لیے اس کے پاس گیا ہے کہ جب وہ اجازت لے کر شائستہ انسان کی طرح ملے گا تو مخاطب بھی اس کی بات قدر ومنزلت سے سنے گا اور اگر اس کی کوئی حاجت ہے تو اس کے پورا کرنے کا داعیہ اس کے دل میں پیدا ہوگا، اس کے برخلاف اگر وہ وحشیانہ طرز سے کسی شخص پر بغیر اس کی اجازت کے مسلط ہوگیا تو مخاطب اس کو بلائے ناگہانی سمجھ کر دفع الوقتی سے کام لیے گا، خیر خواہی کا داعیہ بھی مضمحل ہوجائے گا اور اس کو ایذائے مسلم کا گناہ الگ ہوگا۔

تیسری مصلحت فواحش اور بے حیائی کا انسداد ہے کہ بلا اجازت کسی کے مکان میں داخل ہونے سے یہ بھی احتمال ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر پڑے اور شیطان دل میں وسوسہ پیدا کردے، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں احکام استیذان کو حد زنا اور حد قذف وغیرہ احکام کے متصل لایا گیا ہے۔

چوتھی مصلحت یہ ہے کہ انسان بعض اوقات اپنے گھر کی تنہائی میں کوئی ایسا کام کررہا ہوتا ہے جس پر دوسروں کو مطلع ہونا مناسب نہیں سمجھتا، اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے گھر میں آجائے تو وہ جس چیز کو دوسروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا اس پر مطلع ہوجائے گااور کسی کے پوشیدہ راز کو زبردستی معلوم کرنے کی فکر بھی گناہ اور دوسروں کے لیے موجب ایذا ہے، انہی وجوہ سے استیذان کی مشروعیت ہوئی ہے۔

استیذان کا حکم مرد وعورت دونوں کے لیے ہے
استیذان کا حکم اگر چہ ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا﴾ سے شروع کیا گیا ہے، جو مردوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر عورتیں بھی اس حکم میں داخل ہیں، یہی وجہ سے کہ صحابیات رضوان اللہ علیہن کا بھی معمول تھا کہ جب وہ کسی کے گھر جایا کرتی تھیں تو اجازت لینے کے بعد ہی گھر میں داخل ہوا کرتی تھیں، حضرت ام ایاس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتی تھیں اور گھر میں جانے سے پہلے ان سے استیذان کرتی تھیں،جب وہ اجازت دیتیں تب ہم سب اندر جایا کرتی تھیں، (تفسیر ابن ابی حاتم حدیث نمبر: 14363)

لہٰذاجب کوئی عورت کسی عورت کے پاس جائے، یا کوئی مردکسی مرد کے پاس جائے تو انہیں اجازت لینے کے بعد ہی گھر میں داخل ہوناچاہیے، اسی طرح ایک شخص اگر اپنی ماں اور بہن یا دوسری محرم عورتوں کے پاس جائے تو بھی استیذان کرنا چاہیے، حضرت عطاء رحمة اللہ علیہ سے مرسلاً روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے وقت بھی استیذان کروں؟ آپ صلى الله عليه وسلمنے فرمایا: ہاں استیذان کرو۔ اس شخص نے کہا: میں اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی اجازت لیے بغیر گھر میں داخل نہ ہوا کرو، اس نے پھر عرض کیا کہ میں تو ہر وقت ان کی خدمت میں رہتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بھی ان سے اجازت لیے بغیر گھر میں داخل مت ہو، کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اپنی والدہ کو ننگی دیکھو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسی لیے تو استیذان کرنا چاہیے۔ (موٴطا امام مالک حدیث نمبر: 3538، باب الاستیذان، تحقیق الاعظمی)

جس گھر میں صرف بیوی ہو تو؟
جس گھر میں صرف بیوی رہتی ہو تو اس میں داخل ہونے کے لیے اپنے پاوٴں کی آہٹ سے یا کھنکارسے یا کسی اور طرح سے باخبرکردے، پھر داخل ہو، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه جب کبھی باہر سے آتے تھے تو دروازہ پر کھنکارتے، تھوک پھینکتے اور اس طرح اپنے آنے سے باخبر کردیتے؛ تاکہ وہ ہمیں کسی ایسی حالت میں نہ دیکھیں جو ان کو پسند نہ ہو، (مسند احمد حدیث نمبر: 3615، مسند عبد اللہ بن مسعود)

استیذان کے اس صورت میں واجب نہ ہونے کی دلیل وہ روایت ہے جس میں حضرت ابن جریج رحمة اللہ علیہ نے جب حضرت عطاء بن ابی رباح رحمة اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ کوئی آدمی جب اپنی بیوی کے پاس جائے تو وہ بھی بیوی سے اجازت لیا کرے؟ جواب میں حضرت عطاء رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اسے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ”وہذا محمول علی عدم الوجوب، وإلا فالأولی ان یعلمہا بدخولہ، ولا یفاجئہا“․ (تفسیر ابن کثیر37/6)
”یہ روایت عدم وجوب پر محمول ہے، لیکن اولی اور مستحب یہی ہے کہ اپنے داخل ہونے سے اسے آگاہ کردے اور اچانک داخل نہ ہو۔“

استیذا ن کا طریقہ
قرآن پاک میں استیذان کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے:﴿حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا﴾ (النور: 27) یعنی دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو، جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، گویا کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے دو کام کرنے کا حکم ہے، ایک استیناس، اس کے لفظی معنی طلب اُنس کے ہیں، اس سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک استیذان یعنی اجازت حاصل کرنا ہے اور استیذان کو استیناس کے لفظ سے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کرنے میں مخاطب مانوس ہوتا ہے اور اس کو وحشت نہیں ہوتی ہے اور دوسرا کام یہ ہے کہ گھروالوں کو سلام کرو، اس کا مفہوم بعض مفسرین نے تو یہ لیا ہے کہ پہلے اجازت حاصل کرو اور جب گھر میں جاوٴ تو سلام کرو۔ (تفسیر ابن کثیر33/6) علامہ قرطبی نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (تفسیر قرطبی 213/12)

اس مفہوم کے اعتبار سے آیت میں کوئی تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی، پہلے استیذ۱ن کیاجائے اور جب اجازت مل جائے اور گھر میں جائیں تو سلام کریں، اس موقف کی تائید حضرت ابوایوب انصاری رضي الله عنه کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم سے دریافت کیا کہ ﴿وتسلموا علی اہلہا﴾ میں تو سلام کا ذکر ہے، اور ہمیں اس کا طریقہ معلوم ہے، لیکن استیذان کسے کہتے ہیں اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ، الحمد للہ یا اللہ اکبر بول کر گھر والوں کو اپنی آمد کی اطلاع دے دے، یا کھنکار کر ان کو آگاہ کردے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3707، باب الاستیذان) اور علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ اگر اجازت لینے سے پہلے گھر کے کسی آدمی پر نظر پڑ جائے تو پہلے سلام کرے، پھر اجازت طلب کرے، ورنہ پہلے اجازت لے اور جب گھر میں جائے تو سلام کرے۔ (النکت والعیون للماوردی 87/4)

مگر عام روایات سے جو مسنون طریقہ معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ پہلے باہر سے سلام کرے، ”السلام علیکم“ اس کے بعد اپنا نام لے کر کہے کہ فلاں شخص ملنا چاہتا ہے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت کیا ہے کہ جوشخص سلام سے پہلے استیذان کرے اس کو اجازت نہ دو۔ (کیوں کہ اس نے مسنون طریقہ کو چھوڑدیا ہے)۔ (الادب المفرد حدیث نمبر: 1066، باب الاستیذان غیر السلام) بنو عامر کے ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح استیذان کیا: أألج؟ کیا میں گھس آوٴں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے فرمایا کہ یہ شخص استیذان کا طریقہ نہیں جانتا، باہر جا کر اس کو طریقہ سکھلاوٴ کہ یوں کہے: السلام علیکم أ أدخل؟ یعنی کیا میں داخل ہوسکتا ہو؟ ابھی یہ خادم باہر نہیں گیا تھا کہ اس نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات سن لیے اور اس طرح کہا: السلام علیکم أ أدخل؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ (مسند احمد، حد یث نمبر: 23127، احادیث رجال من اصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم) اور علامہ بیہقی رحمة اللہ علیہ نے حضرت جابر رضي الله عنه سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص پہلے سلام نہ کرے تو اسے اندر آنے کی اجازت مت دو۔(شعب الایمان، حدیث نمبر: 8433، فصل قال: ومما یدخل فی ہذا الباب: تسلیم الناس بعضہم علی بعض عند الدخول علیہم)

اس واقعہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اصلاحات فرمائی ہیں: ایک یہ کہ پہلے سلام کرنا چاہیے، دوسرے یہ آنے والے نے أ أ دخل کے بجائے أ أ لج کا لفظ استعمال کیا تھا جو نامناسب تھا، کیوں کہ یہ ولوج سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی تنگ جگہ میں گھسنے کے ہیں، جو تہذیب الفاظ کے خلاف تھا، بہر حال ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ آیت استیذان میں جو سلام کرنے کا ذکر ہے، یہ سلام استیذان ہے، جو اجازت حاصل کرنے کے لیے باہر سے کیا جاتا ہے، تاکہ اندر جو شخص ہے وہ متوجہ ہوجائے، تاکہ جو الفاظ اجازت طلب کرنے کے لیے کہے جائیں وہ سن لے، پھر جب اجازت مل جائے اور گھر میں داخل ہونے لگے تو حسب معمول دوبارہ سلام کرے۔

اجازت لینے والا اپنا نام ظاہر کرے
اجازت لیتے وقت اپنے نام کو ظاہر کرکے اجازت لینی چاہیے، حضرت عمر رضي الله عنه جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ رضي الله عنه نے دروازہ پر کھڑے ہو کر عرض کیا: السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیکم ایدخل عمر؟ (ابوداوٴد حدیث نمبر: 5201، باب فی الرجل یفارق الرجل، ثم یلقاہ: السلام علیہ) یعنی سلام کے بعد کہا کہ کیا عمر داخل ہوسکتا ہے؟ اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابوموسی اشعری رضي الله عنه حضرت عمر فاروق کے پاس گئے تو استیذان کے لیے پہلی مرتبہ فرمایا: السلام علیکم، ہذا عبد اللہ بن قیس، عبد اللہ بن قیس ابوموسی اشعری کا اصل نام تھا، لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا، پھر آپ رضي الله عنه نے السلام علیکم ہذا ابوموسی فرمایا: پھر بھی کوئی جواب نہیں آیا، اس کے تھوڑی دیر بعد پھر فرمایا: السلام علیکم ہذا الاشعری، مگر اس مرتبہ بھی جواب نہیں ملا، تو حضرت ابوموسی اشعری رضي الله عنه واپس ہوگئے۔(مسلم حدیث نمبر: 2154، باب الاستیذان) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے آپ رضي الله عنه نے اپنا اصلی نام بتایا، پھر وضاحت کے لیے ابو موسی فرمایا اور مزید وضاحت کے لیے الاشعری فرمایا اور یہ اس لیے کہ جب تک آدمی اجازت لینے والے کو نہیں پہچانے گا تو جواب دینے میں اسے تشویش ہوگی، جس سے مخاطب کو بچانا چاہیے۔

اجازت لینے کا غلط طریقہ
آج کل بہت سے حضرات جب کسی سے ملنے کے لیے جاتے ہیں تودروازہ پر دستک دینے کے بعد خاموش رہتے ہیں، حتی کہ اند رسے جب پوچھا جاتا ہے تو بھی کوئی جواب نہیں دیتے، یہ مخاطب کو تشویش میں ڈالنا اورایذا پہنچانا ہے، جس سے استیذان کی مصلحت ہی فوت ہوجاتی ہے، اسی حکم میں وہ صورت بھی ہے جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی،لیکن اپنا نام ظاہر نہیں کیا، اندر سے پوچھا گیا کہ کون صاحب ہیں؟ تو جواب میں کہہ دیا گیا کہ” میں ہوں“، یہ سائل کے سوال کا جواب نہیں ہے،جس نے اول آواز سے نہیں پہچانا وہ ”میں“ کے الفاظ سے کیا پہچانے گا؟ حضرت علی بن عاصم واسطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں بصرہ پہنچا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضي الله عنه سے ملنے کے لیے ان کے گھر پر حاضر ہوا، میں نے دروازہ پر دستک دی، اندر سے حضرت مغیرہ رضي الله عنه نے دریافت کیا کون؟ تو میں نے جواب دیا: انا (یعنی میں ہوں) تو حضرت مغیرہ رضي الله عنه فرمایا کہ میرے دوستوں میں تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کا نام ”انا“ ہو، پھر باہر تشریف لائے اور حضرت جابررضي الله عنه  کی یہ حدیث سنائی، حضرت جابر رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت لینے کے لیے دروازہ پر دستک دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر سے پوچھا کون صاحب ہیں؟ تو میں نے کہہ دیا ”انا“ (میں ہوں) آپ صلى الله عليه وسلم نے بطور تنبیہ فرمایا: ”انا ، انا“ یعنی انا انا کہنے سے کیا حاصل ہے، اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا؟ (الجامع لاخلاق الراوی، حدیث نمبر: 229، لفظ الاستیذان وتعریف الطالب نفسہ)

دستک زور سے نہ دے
حدیث بالا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ استیذان کے لیے دروازہ پر دستک دینا جائز ہے، لیکن دستک اتنی زور سے نہ دے کہ سننے والا گھبرااٹھے، بلکہ متوسط انداز سے دے، جس سے آواز اندر تک تو چلی جائے؛ لیکن کوئی سختی ظاہر نہ ہو، حضرت انس بن مالک رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ جو صحابہ  رضي الله عنهم  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دیتے تھے ان کی عادت یہ تھی کہ وہ ناخنوں سے دروازہ پر دستک دیتے تھے۔(شعب الایمان، حدیث نمبر: 1437، باب تعظیم النبی صلی الله علیہ وسلم) اور یہ اسلئے ہوتا تھا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو، جو شخص استیذان کے مقصد کو سمجھ لے کہ اصل اس سے استیناس ہے، یعنی مخاطب کو مانوس کرکے اجازت حاصل کرنا، وہ خود بخود ان سب چیزوں کی رعایت کو ضروری سمجھے گا، اور جن چیزوں سے مخاطب کو تکلیف ہوسکتی ہے ان سے بچے گا۔

اجازت لینے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے
اجازت لینے کے طریقے ہر زمانے اور ہر ملک میں مختلف ہوسکتے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ دروازہ پر دستک دینے کا تو خود روایات سے ثابت ہے، اسی طرح جو لوگ اپنے دروازہ پر گھنٹی لگالیتے ہیں تو اس کا بجادینا بھی واجب استیذان کی ادائیگی کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ گھنٹی بجانے کے بعد اپنا نام بھی ایسی آواز سے ظاہر کردے کہ مخاطب سن لے، اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جو کسی جگہ رائج ہو اس کا استعمال کرلینا بھی جائز ہے، آج کل اپنا کارڈ جس پر خود کا نام اور ضروری تعارف اس میں درج ہوتا ہے اس کا مخاطب تک پہنچادینا بھی مقصد استیذان کواچھی طرح پورا کردیتاہے، اس لیے اس کا بھجوادینا بھی جائز ہے، کیوں کہ اجازت دینے والے کو اجازت چاہنے والے کا پورا نام وپتہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے بغیر کسی تکلیف کے معلوم ہوجاتا ہے۔

ملاقات کی اجازت نہ ملے تو ؟
اگر استیذان کے بعد مخاطب نے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت ملاقات نہیں ہوسکتی، لوٹ جایئے، تو اس سے بُرا نہیں ماننا چاہیے، کیوں کہ ہر شخص کے حالات اور اس کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، بعض وقت وہ مجبور ہوتا ہے، باہر نہیں آسکتا، نہ آپ کو اندر بلا سکتا ہے، تو ایسی حالت میں اس کے عذر کو قبول کرنا چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِن قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہُوَ أَزْکَی لَکُم﴾(النور: 28)

اور بُرا نہیں ماننا چاہیے اور نہ وہیں جم کر بیٹھناچاہیے کہ مخاطب آپ سے ملنے کے لیے مجبور ہی ہوجائے، بعض حضرات سلف سے منقول ہے وہ فرماتے تھے کہ میں عمر بھر اس تمنا میں رہا کہ کسی کے پاس جاکر استیذان کروں اوروہ مجھے یہ جواب دے کہ لوٹ جاوٴ تو میں اس حکم قرآن کی تعمیل کا ثواب حاصل کروں، مگر عجیب اتفاق ہے کہ مجھے کبھی یہ نعمت نصیب نہیں ہوئی۔ (قوت القلوب فی معاملة المحبوب 279/1، ذکر ما احدث الناس من القول والفعل فیما بینہم الخ)

بلا مجبوری ملنے سے عذر نہ کرے
آیت بالا میں جس طرح آنے والے کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر استیذان کرنے پر اجازت نہ ملے اور کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جاوٴ تو کہنے والے کو معذور سمجھو اور خوش دلی کے ساتھ واپس ہوجاوٴ اور بُرا نہ مانو، اسی طرح ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو ہدایت دی ہے: ”ان لزورک علیک حقاً“ (بخاری، حدیث نمبر: 1974، باب حق الضیف فی الصوم) جو شخص ملنے کے لیے آئے اس کا بھی تم پر حق ہے۔

اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اپنے پاس بلاوٴ یا باہر آکر اس سے ملو، اس کا اکرام کرو، بات سنو، بلا کسی شدید مجبوری اور عذر کے ملاقات سے انکار نہ کرو۔

استیذان کا جواب نہ آئے تو؟
اگر کسی کے دروازے پر جاکر استیذان کیا اور اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو سنت یہ ہے کہ دوبارہ پھر استیذان کرے، پھر بھی جواب نہ آئے تو تیسری مرتبہ پھر کرے، اگر تیسری مرتبہ بھی جواب نہ آئے تو لوٹ جانا چاہیے، کیوں کہ تین مرتبہ کہنے سے تقریباً یہ تو متعین ہوجاتا ہے کہ اس نے آواز سن لی ہے، مگر وہ یا تو ایسی حالت میں ہے کہ جواب نہیں دے سکتا، مثلا نماز پڑھ رہا ہے، یا بیت الخلاء میں ہے یا غسل کررہا ہے اور یا پھر اس وقت وہ ملنا نہیں چاہتا ہے، دونوں حالتوں میں وہیں جمے رہنا اور مسلسل دستک دیتے رہنا یا گھنٹی بجاتے رہنا موجب ایذا ہے، جس سے بچنا واجب ہے، کیوں کہ استیذان کا اصل مقصد ہی ایذا سے بچنا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إذا استاذن أحدکم ثلاثا فلم یوٴذن لہ فلیرجع“․ (بخاری، حدیث نمبر: 6245، باب التسلیم والاستیذان)

اجازت نہ ملنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
حضرت قیس بن سعد رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور ”السلام علیکم ورحمة اللہ “ کہا، ہمارے والد حضرت سعد بن عبادہ رضي الله عنه نے سلام کاجواب آہستہ سے دیا، حضرت قیس رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے عرض کیا کہ آپ رضي الله عنه حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواندر آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے ہیں؟ ہمارے والد نے فرمایا: ٹھہرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمارے اوپر زیادہ سے زیادہ سلامتی کی دعا ہورہی ہے، اتنے میں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ”السلام علیکم ورحمة اللہ“ کہا، پھر ہمارے والد نے آہستہ سے جواب دیا، تیسر ی مرتبہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ”السلام علیکم ورحمة اللہ“ کہا، ہمارے والد نے پھر آہستہ جواب دیا، تین مرتبہ ایساکرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے، جب حضرت سعد رضي الله عنه نے دیکھا کہ اب آواز نہیں آرہی ہے تو گھر سے نکل کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دوڑے اور یہ عذر پیش کیا کہ یارسول اللہ! میں نے ہر مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام سنا اور جواب بھی دیا، مگر آہستہ دیا، تاکہ زبان مبارک سے زیادہ سے زیادہ سلام کے الفاظ میرے بارے میں نکلیں اور میرے لیے موجب برکت ہو، اس کے بعد حضرت سعدرضي الله عنه  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے گھر ساتھ لے گئے اور غسل کے لیے پانی وغیرہ رکھنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں غسل فرمایا، حضرت سعد رضي الله عنه نے رنگین چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحفةً پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زیب تن فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا فرمائی،

”اللہم اجعل صلواتک ورحمتک علی آل سعد بن عبادة“․ (ابوداوٴد ،حدیث نمبر: 5185، باب کم مرة یسلم الرجل؟)

”اے اللہ! اپنا نظر کرم اور رحمت سعد بن عبادہ کے آل واولاد پر متوجہ فرما۔“ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے کھانا تناول فرمایا،اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہونے لگے تو حضرت سعد رضي الله عنه نے ایک سواری کا انتظام فرمایا اور اس پر اچھی طرح زین کسا اور اچھے قسم کا کپڑا اس پر ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے، پھر حضرت سعد رضي الله عنه نے اپنے صاحب زادے حضرت قیس رضي الله عنه سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاوٴ، حضرت قیس رضي الله عنه کہتے ہیں کہ جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی سوار ہوجانے کا حکم فرمایا، لیکن میں نے احتراماً انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ یا تو میرے ساتھ سوار ہوجاوٴ ،ورنہ اپنے گھر واپس ہوجاوٴ، حضرت قیس رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں نے واپس ہونا ہی مناسب سمجھا، اس لیے میں واپس ہوگیا۔(حوالہ سابق)

حضرت سعد رضي الله عنه کا یہ عمل غلبہٴ عشق ومحبت کا نتیجہ تھا، اس وقت ان کا ذہن اس طرف نہ گیا کہ سردار دو عالم دروازے پر تشریف فرما ہیں، مجھے فورا جا کر ان کے قدم چوم لینے چاہییں، بلکہ ذہن میں یہ آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے السلام علیکم جتنی مرتبہ زیادہ نکلے گا، میرے لیے زیادہ مفید ہوگا، بہر حال اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ استیذان کے بعد جواب نہ آئے تو سنت یہ ہے کہ لوٹ جائے، وہیں جم کر بیٹھ جانا خلاف سنت اور مخاطب کے لیے موجب ایذا ہے کہ اس پر دباوٴ ڈال کراسے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔

صحابہ  رضي الله عنهم کا عمل
صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مر مٹنے والے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو اختیار کرنا اور اسے اپنے لیے نمونہ بنانا ان حضرات کا شیوہ تھا، استیذان کے باب میں بھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار تھے، حضرت ابو سعید خدری رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابو موسی اشعری رضي الله عنه گھبرائے ہوئے آئے، ہم لوگوں نے ان سے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے عمر رضي الله عنه نے بلایا تھا، میں جب ان کے یہاں پہنچا اور یکے بعد دیگر ے تین مرتبہ اجازت طلب کی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں واپس ہوگیا، پھر انہوں نے اندر نہ آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے واقعہ بتایا کہ تین مرتبہ اجازت آپ رضي الله عنه سے میں نے طلب کی؛ لیکن آپ رضي الله عنه نے اجازت نہیں دی، اس لیے میں لوٹ گیا، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے: ”إذا استأذن أحدکم ثلاثا فلم یوٴذن لہ فلیرجع“․ (ابوداوٴد، حدیث نمبر: 5180، باب کم مرة یسلم الرجل؟)

”جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ استیذان کرے پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس ہوجاوٴ۔“

یہ سنتے ہی انہوں نے فرمایا کہ یہ واقعی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، اس پر بینہ پیش کرو، بس یہی وجہ ہے کہ گھبرایا ہوا تم لوگوں کے پاس آیا ہوں، تم میں کوئی ایسا ہے جو اس بارے میں گواہی دے سکے، حضرت ابی بن کعب رضي الله عنه نے فرمایا کہ ضرور اس حدیث کے بارے میں گواہی دی جائے گی، مگر گواہی دینے کے واسطے یہاں پر موجود لوگوں میں عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹا گواہی دے گا، حضرت ابوسعید خدری رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ میں وہاں موجود لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا، میں حضرت ابوموسی اشعری رضي الله عنه کے ساتھ گیا اور یہ گواہی دی کہ واقعةً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تین مرتبہ اجازت طلب کرے، پھر بھی اس کو اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائے۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 11029، مسند ابی سعید خدری)

یہ حکم اس وقت ہے جب کہ سلام یا دستک وغیرہ کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کی تین مرتبہ کوشش کرلی ہو، تو اب وہاں مزید بیٹھنا موجب ایذا ہے، لوٹ آنا چاہیے، یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ  رضي الله عنهم  کا عمل تھا۔

استیذان کے بغیر کسی کا انتظار کرنا
اگر کسی عالم یا بزرگ کے دروازہ پر بغیر استیذان کیے ہوئے اور بغیر ان کو اطلاع دیے ہوئے کوئی بیٹھ رہے کہ جب وہ اپنی فرصت کے مطابق باہر تشریف لاویں گے تو ملاقات ہوجائے گی تو یہ ممنوع نہیں ہے، بلکہ عین ادب ہے، خود قرآن کریم نے لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں ہوں تو ان کو آواز دے کر بلانا ادب کے خلاف ہے، بلکہ لوگوں کو چاہیے کہ انتظار کریں، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضرورت کے مطابق باہر تشریف لاویں تو اس وقت ملاقات کریں۔ (الحجرات : 5-4) حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ جب میں تحصیل علم میں مشغول ہوا تو سب سے زیادہ علم مجھے حضرات انصار کے پاس ملا، میں جب کسی انصاری صحابی کے پاس جاتا اور ان کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا کہ وہ آرام فرمارہے ہیں تو میں اپنی چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا، جب وہ ظہر کی نمازکے لیے نکلتے تو مجھ سے پوچھتے کہ آپ رضي الله عنه کب سے یہاں ہمارے انتظار میں تھے؟ میں کہتا کہ بہت دیر سے، وہ فرماتے: آپ رضي الله عنه نے اچھا نہیں کیا، آپ رضي الله عنه کو اپنی آمد کی اطلاع دینی چاہیے تھی، میں جو ابا ًکہتا کہ ادب یہی ہے کہ جب آپ اپنی مصروفیات سے فارغ ہو کر از خود نکلیں تب میں آپ سے علم حاصل کروں۔ (سنن دارمی، حدیث نمبر: 585،باب الرحلة فی طلب العلم واحتمال العنا ء فیہ)

رفاہ عام والے مکانات میں استیذان کا حکم
وہ مکانات ومقامات جو کسی خاص فرد یا کسی خاص قوم کے لیے خصوصی طور پر رہائش گاہ نہ ہوں، بلکہ افراد قوم کو عام اجازت وہاں ٹھہرنے اور استعمال کرنے کی ہو، جیسے مسافر خانے، ڈاک خانہ، ریلوے اسٹیشن، ہوائی اڈے، قومی تفریحات، ہسپتال، دینی مدارس، خانقاہیں اور عام مساجد، یہ سب رفاہ عام کے ادارے ہیں، وہاں ہر شخص بلا اجازت جاسکتا ہے، حضرت ابو بکر صدیق رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ جب استیذان کی آیات نازل ہوئیں، جن میں بغیر اجازت کے کسی مکان میں داخل ہونے کی ممانعت تھی تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یار سول اللہ! اس ممانعت کے بعد قریش کے تجارت پیشہ لوگ کیا کریں گے، کیوں کہ مکہ اور مدینہ سے ملک شام اور بیت المقدس تک ان کے تجارتی اسفار ہوتے ہیں اور راستہ میں جابجا مسافر خانے بنے ہوتے ہیں، جن میں دوران سفر وہ لوگ قیام کرتے ہیں، ان میں کوئی مستقل رہنے والا نہیں ہوتا ہے تو وہاں استیذان کی کیا صورت ہوگی اور اجازت کس سے حاصل کی جائے گی؟ اس پر درج ذیل آیت نازل ہوئی:﴿لَّیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ مَسْکُونَةٍ فِیْہَا مَتَاعٌ لَّکُم﴾(النور: 29)

”اور تم کو ایسے مکانات میں چلے جانے میں گناہ نہ ہوگا جن میں کوئی نہ رہتا ہو، (اور) ان میں تمہاری برت ہو“

آیت میں لفظ متاع کے لغوی معنی کسی چیز کے برتنے ، استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ہیں اور جس چیز سے فائدہ اٹھایا جائے اس کو بھی متاع کہا جاتا ہے، آیت میں متاع کے لغوی معنی ہی مراد ہیں، جس کا ترجمہ برَت سے کیا گیا ہے، یعنی برتنے کا استحقاق، لہٰذا جن مقامات کو برتنے کی عمومی اجازت ہو اس میں داخل ہوتے وقت کسی اجازت کی ضرورت نہ ہوگی۔ (تفسیر مظہری 490/6)

رفاہ عام کے بعض مخصوص مکانات
رفاہ عام کے اداروں میں جس مقام پر اس کے مالکان یا متولی حضرات کی طرف سے داخلہ کے لیے کچھ شرائط اور پابندیاں ہوں تو اس کی رعایت شرعاً واجب ہوگی، مثلا ریلوے اسٹیشن پر اگر پلیٹ فارم ٹکٹ لیے بغیر جانے کی اجازت نہیں ہے تو پلیٹ فارم ٹکٹ حاصل کرنا ضروری ہوگا اور اس کی خلاف ورزی ناجائز ہوگی، اس طرح ہوائی اڈے کے جس حصہ میں جانے کی ممانعت محکمہ کی طرف سے ہو وہاں بغیر اجازت جانا شرعا جائز نہ ہوگا، اسی طرح مساجد، مدارس، خانقاہوں، ہسپتالوں وغیرہ میں جو کمرے وہاں کے منتظمین یا دوسرے لوگوں کی رہائش کے لیے مخصوص ہوں، دفاتر ہوں، وہ سب بیوت غیر مسکونہ کے حکم میں نہیں ہیں، بلکہ مسکونہ کے حکم میں ہیں، ان میں بغیر اجازت جانا شرعا ممنوع اور گناہ ہے۔

استیذان کے وقت دروازہ کے سامنے نہ کھڑا ہوا جائے
کسی کے مکان پر ملاقات کے لیے جانا ہو تو اجازت حاصل کرنے کیلئے دروازہ کے بالکل سامنے کھڑا نہیں ہونا چاہیے، حسب سہولت دروازہ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، اور نہ اندر جھانکنا چاہیے،کیوں کہ استیذان کی مصلحت تو یہی ہے کہ دوسرا آدمی جو چیز آپ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے اس پر آپ کو اطلاع نہیں ہونی چاہیے، اگر پہلے ہی گھر میں جھانک کر دیکھ لیا تو یہ مصلحت فوت ہوگئی، حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے، حضرت سہل بن سعدرضي الله عنه  فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں جھانکا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی، جس سے سر مبارک کھجارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری آنکھ کو پھوڑ دیتا، استیذان تو تاک جھانک سے روکنے ہی کے لیے ہے۔ (بخاری، حدیث نمبر: 6241، باب الاستیذان من اجل البصر) اور ایک حدیث میں ہے کہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوشش کررہے تھے۔ (حوالہ سابق حدیث نمبر : 6242) اور حضرت عبد اللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم جب کسی کے یہاں تشریف لے جاتے تو دروازہ کے بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے، دروزہ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہو کر ”السلام علیکم، السلام علیکم“ کہاکرتے تھے، دروازہ کے بالمقابل کھڑے ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے اجتناب فرماتے کہ اول تواس زمانے میں دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے (اور پردہ بھی ہو تو کھل جانے کا احتمال بہرحال ہے)۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 5186، باب کم مرة یسلم الرجل؟)

حادثہ کے وقت استیذان کا حکم
بغیر استیذان کے کسی کے گھر میں داخل ہونے کی جو ممانعت ہے یہ عام حالات کے لحاظ سے ہے، لیکن کسی گھر میں کوئی حادثہ پیش آجائے، آگ لگ جائے،، یا مکان کا کوئی حصہ منہدم ہوجائے تو اجازت لیے بغیر بھی اس میں جاسکتے ہیں اور امدادکے لیے جانا بھی چاہیے۔ (تفسیر مظہری 488/6)

قاصد کے ساتھ آنے والے کے لیے استیذان
جب کوئی شخص اپنے قاصد کو بھیج کر کسی کو بلائے اور وہ اس کے قاصد کے ساتھ ہی آجائے تو اس کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، قاصد کے ساتھ اس کا آجانا ہی اجازت ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اذا دعی أحدکم إلی طعام فجاء مع الرسول فإن ذلک لہ إذن“․ (ابوداوٴد حدیث نمبر: 5190، باب فی الرجل یدعی یکون ذلک اذنہ)

”جب تم میں سے کسی کو کھانے پربلایا جائے اور وہ قاصد کے ساتھ ہی آجائے تو یہی اس کے لئے اندر آنے کی اجازت ہے۔“

ہاں اگر اس وقت نہ آیا، کچھ دیر کے بعد پہنچا تو اجازت لینا ضروری ہے۔ (تفسیر مظہری 488/6)

فون کرنے کے آداب
استیذان کے احکام کے ذیل میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ استیذان کا اصل مقصد لوگوں کی ایذا رسانی سے بچنا ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو ایسے وقت میں فون کرنا جو اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں مشغول ہونے کا وقت ہو، بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔ (معارف القرآن 382/6)

فون پر طویل گفتگو کرنی ہو تو پہلے اجازت لی جائے
فون پر اگر لمبی گفتگو کرنے کی ضرورت ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں، کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فون کی گھنٹی بجنے پر آدمی طبعا مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے اور وہ اپنے ضروری کام کوبھی چھوڑ کر اٹھاتا ہے، اب اگر کوئی بے رحم آدمی اس وقت لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف ہوتی ہے، اس لیے لمبی بات اجازت ملنے کے بعد ہی شروع کرنی چاہیے۔ (حوالہ سابق)

فون پر بات کرنے کے لیے اجازت لینا
جس شخص سے فون پر بات اکثر کرنا ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کرلیاجائے کہ آپ کو فون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے، جو وقت بتائے اس کی پابندی کیا کرے۔ (حوالہ سابق)

فون نہ اٹھانا
بعض حضرات فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور سننے کے باوجود نہیں اٹھاتے ہیں، یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے، حدیث میں ہے ”ان لزورک علیک حقا․“ (بخاری حدیث نمبر: 1974، باب حق الضیف فی الصوم) یعنی جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے کہ اس سے بات کرو اور بلاضرورت ملاقات سے انکا ر نہ کرو، اسی طرح جو آدمی آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں۔ (حوالہ سابق)
Flag Counter