سائنس کی حدود
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾
تفسیر
آیت کریمہ میں لفظ”ثم“ ترتیب اور تقدیم وتاخیر ظاہر کرنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ صرف فرق زمانی ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیة رقم:29)
”اسْتَوَی“ کے صلے میں جب ”إلی“ استعمال ہو تو اس کا معنی قصد اور توجہ ہوتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:29)
لہٰذا آیت کریمہ کا معنی ہوا کہ الله تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کا قصد فرمایا۔ ( تفسیر المدارک، البقرة تحت آیة، رقم:29)
آسمان سے کیا مراد ہے؟
اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ”السَّمَاء“ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، مثلاً چھت کے لیے﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاء﴾ (الحج:15) یعنی إلی سقف البیت․
بادلوں کے معنی میں﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً﴾ (المؤمنون:18)
یعنی من السحاب․ ( الوجوہ والنظائر لکتاب الله العزیز، باب السین، ص:272، بیروت)
لیکن آیت کریمہ ﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾میں سات آسمانوں سے کیا مراد ہے؟ آسمان کوئی وجود رکھتا ہے یا صرف خلا کا نام آسمان ہے؟ آسمان کے بارے میں کتنی آرا ہیں؟ اور ان کی علمی اور شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہاں اسی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پہلی رائے: کائنات کے حقائق کو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے والے سائنس دان او ران کے ہم نواؤں کی رائے یہ ہے کہ آسمان اسی خلا کا نام ہے جو تاحد نظر پھیلا ہوا ہے، اس طبقے کے مفسر سرسید اسی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے ، پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیں ۔ “( تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرہ تحت آیة رقم:29)
اس رائے پہ اشکال ہوا کہ اس وسعت پر سات کے عدد کا اطلاق کس ضرورت کے پیش نظر ہوا ؟ سر سید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”اس زمانے کے لوگ جو بلحاظ سبع سیارات یہ سمجھتے تھے کہ آسماں سات ہیں ، انہیں لوگوں کے خیال کے مطابق سات کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے۔“ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان: البقرہ تحت آیة رقم:29)
دوسری رائے: یہ ہے کہ آسمان سے اجرام علویہ ( ستارے کواکب) مراد ہیں، اس تفسیر پر بھی اشکال ہوا کہ اجرام علویہ ( ستارے وغیرہ) کی تعداد تو اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں شمار میں نہیں لایا جاسکتا ، پھر قرآن کریم میں﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾ فرماکر انہیں سات کے عدد کے اند ر کیوں محدود کر دیا ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ سات کا عدد تحدید کے لیے نہیں،بلکہ ستاروں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے ، جس طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر سات سمندروں سے کثرت سمندر مراد لیے گئے ہیں ۔ ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ﴾․ (لقمان:27)
ترجمہ: ”او راگر جتنے درخت ہیں زمین میں قلم ہوں اور سمندر ہو اس کی سیاہی، اس کے پیچھے ہوں سات سمندر، نہ تمام ہوں باتیں الله کی۔“
تیسری رائے: علمائے ہیئت اور حکمائے یونان کی ہے کہ افلاک کی تعداد نو ہے یونانی حکمت کی کتابیں جب عربی میں ترجمہ ہو کر آئیں تو علمائے ہیئت نے نہ صرف انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، بلکہ اسلامی علوم اور یونانی حکمت میں موافقت پیدا کرنے کی غرض سے یہ دعوی بھی کر ڈلا کہ آسمان کی تعداد نو ہے ، چناں چہ ہماری حکمت کی کتابوں ( شرح چغمینی وغیرہ) میں یہ قول ایک مسلم دعوی کے طور پر مذکور ہے، سات آسمان تو وہی جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے باقی دو عرش اور کرسی ہیں ، جنہیں آسمان قرارا دے کر آسمان کی تعداد نو کر دی گئی ، علمائے ہیئت آسمان او رافلاک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں۔
اس رائے پر بھی اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو آسمانوں کی تعداد سات بتائی گئی ہے پھر آسمان نو کیسے ہوئے ؟ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمہ الله نے اس کا جواب دیا کہ گو قرآن کریم میں سات کے عدد کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، لیکن اس سے زائد عدد کی نفی کہاں ثابت ہوئی؟
پہلی رائے پر ایک نظر: سائنس صرف اس چیز کو تسلیم کرتی ہے جو مشاہدات، تجربات اور عقلی دلائل سے اپنا وجود منواسکے، سائنسی عقائد میں ایمان بالغیب کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہیں(اس کی تفصیلی بحث مقدمے میں دیکھیے) اور اسلام نے جس آسماں کا تصور دیا ہے وہ تاحال مشاہدے میں نہیں آیا اس لیے سائنس دانوں نے خلاء ہی کو آسمان قرار دیا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سائنس کے ظنی فنون کو وحی الہٰی میں دخل اندازی کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟ سائنس کی محدود معلومات ومشاہدات کا عالم تو یہ ہے کہ خود ان کے بیان کے مطابق ”ان کی نظر دیوقامت عظیم ترین دور بینوں کے ذریعے بھی صرف دس کھرب میل نوری سال کے فاصلے تک پہنچ سکی ہے ۔“ (خلاصہ تفسیر القرآن، باب اول:101/1)
اور اجرام فلکی اس سے بھی آگے ہیں او رساتوں آسمان تو ان سے بھی بلند وبالا ہیں ، اگر سائنس اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود آسمان کا مشاہدہ نہ کر سکی تو اس میں قصور اور عاجزی سائنس کی ہے ؟ یا وحی کی ؟
البتہ جو لوگ وحی پر ایمان ویقین ہی نہ رکھتے ہوں ان سے اس بات پر گفتگو کرنا بے سود ہے۔
دوسری رائے پر ایک نظر: آسمان سے اجرام فلکیہ (سیارے) مراد لینا دو وجہ سے درست نہیں۔
1...قرآن کریم نے اجرام فلکیہ کو پہلے آسماں کی زینت قرار دیا ہے ﴿ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾․ (الملک:5)
ترجمہ:” اور ہم نے رونق دی سب سے ورلے آسماں کو چراغوں سے۔“
2...﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾․ (الصف:6)
ترجمہ:” ہم نے رونق دی ( سب سے) ورلے آسماں کو ایک رونق جوتارے ہیں۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اجرام فلکیہ (ستارے وغیرہ) اور آسماں دو جدا جدا چیزیں ہیں، انہیں ایک قرار دینا درست نہیں۔اجرام فلکیہ لاتعداد اور بے شمار ہیں اور آسمانوں کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ وہ سات ہیں﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾․
”پھر قصد کیا آسماں کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان“
﴿فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْْن﴾․(فصلت:12)
”پھر کر دیے وہ سات آسمان دو دن میں ۔“
﴿اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُن﴾․ (الطلاق:12)
ترجمہ:”الله وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان او رزمینیں بھی اتنی ہیں۔“
﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً﴾․(الملک:3)
ترجمہ: ”جس نے بنائے سات آسماں تہ پر تہ۔“
مذکورہ آیات میں جس قدر تکرار او راہتمام کے ساتھ آسمانوں کی تعداد بیان کی گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں عدد بیان کرنے کا مقصد آسمانوں کی محدود تعداد کااظہار ہے ، نیز اہل زبان نے بھی یہی مطلب سمجھا، لہٰذا صرف ایک عقلی احتمال کی بنا پر ”عدد“ کو کثرت آسمان کی دلیل بنانا کس طرح درست ہو گا؟
تیسری رائے پر ایک نظر: تیسری رائے ان علمائے ہئیت کی تھی جو یونانی حکمت سے حدر درجہ متاثر تھے، فلسفہ اور شریعت کے کلام میں موافقت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے آسمان اورافلاک کو ایک ہی چیز شمارکرکے آسمانوں کی تعداد نو قرار دی، چناں چہ علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾ (الملک:5) کی تفسیر میں علمائے ہئیت کے اس موقف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”وکون السماء، ھی الفلک، خلاف المعروف عن السلف، وانما ھو قول قالہ من أراد الجمع بین کلام الفلاسفة الأولی وکلام الشریعة، فشاع فی ما بین الاسلام، واعتقدہ من اعتقدہ․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
ترجمہ:” آسماں کو ہی فلک قرار دینا سلفِ صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ، یہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جنہوں نے متقدمین فلاسفہ اور شریعت کے کلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی، پھر یہی قول اہل اسلام میں پھیل گیا او رجس نے چاہا اسے عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا۔“
اب ذیل میں فلک کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے، جو آسمان کے مفہوم سے قطعی طور پر مختلف ہے۔
فلک کا مفہوم آسمان سے مختلف ہے۔
اصطلاح شریعت میں فلک ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں، چناں چہ علامہ راغب اصفہانی رحمہ الله لکھتے ہیں
”الفلک مجری الکواکب وتسمیتہ بذلک لکونہ کالفلک“․ ( مفردات القرآن للراغب، فلک: ص:432)
” فلک سے ستاروں کا مدار مراد ہے اور فلک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کشتی کی طرح گول ہے۔“
علامہ فخر الدین رازی رحمہ الله﴿وکل فی فلک یسبحون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”الفلک فی کلام العرب کل شئيء دائرة، جمعہ أفلاک، واختلف العقلاء فیہ فقال بعضہم: الفلک لیس بجسم، وانما ھو مدار النجوم، وھو قول ضحاک“ ․ (التفسیر الکبیر، الانبیاء تحت آیة رقم:33)
اہل عرب کے محاورے میں ہر گول چیز کو فلک کہتے ہیں، اس کی جمع افلاک ہے ، فلاسفہ کا اس میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہفلک کوئی جسم نہیں رکھتا، درحقیقت یہ ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں اور یہی ضحاک کا قول ہے۔ تفسیر کبیر کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ فلک ستاروں کا مدار ہے ۔
کمالین حاشیہ جلالین میں ہے۔
”… ان الفلک غیر السماء، قال الجمہور: الفلک موج مکفوف تحت السماء تجری فیہ الشمس والقمر والنجوم․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الأیة 33، حاشیہ:13)
فلک آسمان کے علاوہ ایک چیز ہے، جمہور علماء فرماتے ہیں کہ فلک آسمان کے نیچے ایک ٹھہری ہوئی موج کا نام ہے، جس میں سورج اور چاند ستارے تیرتے رہتے ہیں۔
مذکورہ عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ فلک او رآسمان دو جدا جدا چیزیں ہیں ، نیز فلک آسمان کے نیچے ہے اور ستاروں کا مدار ہے ۔
حاشیہ کمالین میں علامہ عسقلانی رحمہ الله نے صاف لفظوں میں فرمایا:” السمٰوت السبع عند اہل الشرع غیر الأفلاک․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الایة 33، حاشیہ:13)
یعنی اہل شرع کے نزدیک سات آسمانوں سے افلاک مراد نہیں ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾ کی تفسیر میں فلک اور آسمان کی بحث کرتے ہوئے ان لوگوں کو خطاوار اور سلف صالحین کے موقف کا مخالف گردانا ہے جو آسمان اور فلک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں ، چناں چہ لکھتے ہیں۔
” وقد اخطئوا فی ذلک، وخالفوا سلف الأمة فیہ، فالفلک غیر السماء“․ (روح المعانی، الصف، تحت آیة رقم:6)
” یہ آسمان اور فلک کوایک ہی چیز سمجھنے والے سر اسر غلط فہمی کا شکار ہیں او ران کا موقف سلف صالحین کے موقف سے میل نہیں کھاتا، فلک اور آسمان جدا جدا چیزیں ہیں۔“
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا علمائے ہیئت کا موقف کہ آسمان اور فلک ایک ہی چیز ہے ا وران کی تعداد نو ہے ، غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالی نے ایسے لوگوں پر بہترین الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ۔
”ان من تصدی لتطبیق الآیات والاخبار علی ما قالہ الفلاسفة مطلقاً فقد تصدی لأمر لایکاد یتم لہ، والله تعالیٰ ورسولہ أحق بالاتباع․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
”آیات واحادیث اور فلاسفہ کے اقوال میں موافقت پیدا کرنے والا شخص کبھی اپنے مقصد میں بامراد نہیں ہوسکتا، اتباع کے لائق تو صرف الله تعالیٰ اور اس کے رسول ہی ہیں۔“
آسمان کا اسلامی تصور
آسمانوں کے اسلامی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ عبدالحق حقانی دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”الہامی کتابوں بالخصوص قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آسمان کوئی مجسم چیز ہے، جو قیامت کو پھٹ جائے گی، عام ہے کہ وہ کوئی جسم اور کسی قسم کا ہو، قال الله تعالی: ﴿إذا السماء انفطرت﴾ وقال: ﴿إذا السماء کشطت…﴾ کیوں کہ اگر آسمان فضا یا بُعد موہوم کا نام ہے، جیسا کہ بعض مقلدین یورپ کا قول ہے تو وہ ایک عدمی چیز ہے ، اس کا پھٹنا او راس کے چھلکوں یعنی طبقات کا اکھڑنا اور ا س کو پیدا کرنا او ربنانا جس طرح کہ زمین او راس کی چیزیں بنائیں یا اس کی کھڑکیاں کھلنا جس کا توراة میں ذکر ہے اوراس کو سقف محفوظ ( چھت) کہنا چہ معنی دارد؟۔ “( تفسیر حقانی، البقرہ: تحت آیة رقم:29)
خلاصہ کلام یہ ہے:
فلک اور آسمان دو مختلف چیزیں ہیں۔
فلک ، شمس وقمر اور سیاروں کا مدار ہے۔
فلک سے آسمان مراد لینا سلف صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ۔
سیاروں کے مدار فلک کو آسمان قرار دینے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی فلک قمر کو آسمان اول ، فلک عطارد کو آسمان دوم، فلک زہراء کو آسمان سوم، فلک شمس کو آسمان چہارم ، فلک مریخ کو آسمان پنجم، فلک مشتری کو آسمان ششم اور فلک زحل کو آسمان ہفتم، فلک الثوابت کو آسمان ہشتم (عرش الہی) فلک الأفلاک کو آسمان نہم ( کرسی) قرار دینا شرعاً شدید ترین غلطی ہے ، کیوں کہ ساتوں آسمان تمام سیاروں، ستاروں او راجرام فلکی کے اوپر واقع ہیں۔
آسمانوں کی تعداد سات ہے۔ (جاری)