حضرت تھانویؒ کی تعلیمات او رہمارا معاشرہ
پروفیسر احمد سعید
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی زندگی اور آپ کے ملفوظات او رمواعظ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بخوبی واضح ہو جائے گی کہ آپ نے ہمیشہ حقوق العباد کی ادائیگی پے بے حد زور دیا، ملفوظات میں جگہ جگہ اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ دیگر” مشائخ کے یہاں تو بڑا او ربزرگ بناتے ہیں، مگر میرے یہاں انسان بنانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔“ ہمارے معاشرے میں جو برائیاں پیدا ہو گئی ہیں، ان کے سدباب کی جانب حضرت تھانوی قدس سرہ نے بہت کوشش کی۔
معاشرت، دین کا اہم جز
زمانے کی ستم ظریفی ہے کہ ایک عام تاثر یہ پیدا ہو گیا ہے کہ دین صرف نماز ، روزہ اور حج کا نام ہے، عملی زندگی سے دین کوہم نے بالکل خارج کر دیا ہے ، حضرت تھانوی نے اپنے ملفوظات او رمواعظ میں اسی مفروضہ کی بے شمار جگہ تردید کی کہ دین صرف روزہ ، نماز کا نام ہے ، حضرت تھانوی قدس سرہ معاشرت کو دین کا ایک اہم جزو خیال فرماتے تھے، فرمایا:
”معاشرت کو تو لوگوں نے دن کی فہرست ہی سے نکال دیا ہے ، سمجھتے ہیں کہ روزہ ، نماز حج، زکوٰة ، تلاوت اور نوافل ، بس ان چند چیزوں کے متعلق احکام ہیں ، آگے جو چاہیں کرتے پھریں ، جس کے معنی آج کل آزادی کے ہیں ، سوخوب سمجھ لو تم کو آزاد نہیں چھوڑا گیا، بلکہ شریعت نے ہماری گفتار رفتار، نشست برخاست، لین دین، کھانے پینے ، ہر چیز سے تعرض کیا ہے ، شریعت مکمل قانون ہے ۔“ ( الافاضات الیومیہ، ص:604)
فرمایا:” آج کل عوام تو کیا خواص بھی سلیقہ کو دین نہیں سمجھتے ، دین کی فہرست ہی سے خارج کر دیا ہے ، چند چیزوں کا نام دین سمجھ رکھا ہے ، حالاں کہ قرآن مجید او رحدیث میں اس کے متعلق کافی تعلیم موجود ہے ۔“ (الافاضات الیومیہ، ج6، ص:233)
ایک او رجگہ فرمایا: ” آج کل معاشرت کو تو دین کی فہرست ہی سے نکال دیا ہے ، اس کی کوئی اصل ہی نہیں سمجھتے، حالاں کہ احادیث میں ابواب کے ابواب معاشرت کی تعلیم میں مدون ہیں ۔“ ( الافاضات، حصہ ششم، ص:323)
فرمایا:” حسن معاشرت کو تو اچھے لکھے پڑھے لوگوں نے بھی دین کی فہرست سے نکال دیا ہے ، یہ باتیں دین سمجھی ہی نہیں جاتیں، محض روزہ، نماز، حج اور چند عقیدوں کو دین سمجھا جاتا ہے ۔ آگے صفر… حالاں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”اگر دو مسلمان قصداً پاس بیٹھے ہوں محبت کی وجہ سے یا کسی مصلحت کی وجہ سے تو ان کے بیچ میں مت بیٹھو، تو جب ایسی ایسی ہلکی باتوں کی نصوص میں تعلیم ہے تو اس سے اندازہ کر لیا جائے کہ دین میں حسن معاشرت کی تعلیم ہے کہ نہیں ۔“ (الافاضات، ج:4)
حضرت قدس سرہ حسن معاشرت کو جزوشریعت سمجھتے تھے ، چناں چہ اس بارے میں فرمایا:
”حسن معاشرت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اذیت اور وحشت سے محفوظ رکھے، حسن معاشرت کا تعلق چوں کہ عباد ( بندوں) کی اذیت وراحت سے ہے ، اس لیے وہ بھی جزو شریعت ہے او راصلاح معاشرت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کو اذیت نہ پہنچائے۔“ ( فیوض الخالق، قسط ہشتم، ص:22)
پابندی وقت
یورپ میں لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ آرام کر سکیں، لیکن ہمارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ، وقت کو ضائع کرنا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے، لیکن ایک دسری مشکل یہ ہے کہ ہم لوگوں کو پابندی وقت کی اہمیت کا بالکل بھی احساس نہیں ہے ، حضرت تھانوی قدس سرہ نے اپنی زندگی میں اس طرح کا نظام الاوقات مقرر کر رکھا تھا کہ جن حضرات کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوتا ان کو معلوم ہوتا کہ حضرت اس وقت فلاں کام سرانجام دے رہے ہوں گے اور فلاں کام فلاں مقررہ وقت پر سر انجام دیں گے۔
ایک مرتبہ خود فرمایا: ” میں نے نظام الاوقات کے سلسلے میں کبھی کسی کو پریشانی میں نہیں ڈالا، جو انتظام ایک دفعہ ہو گیا اس کے خلاف کبھی نہیں کیا، اسی واسطے لوگوں کو میری تجویزوں پر اعتماد رہتا ہے۔“
وقت کی قدر وقیمت کے متعلق فرمایا:
”بے کار وقت کا کھونا بہت برا ہے ، اگر کچھ بھی کام نہ ہو تو بھی انسان گھر کے کام میں لگ جائے، گھر کے کام میں لگنے سے دل بھی بہلتا ہے اور عبادت بھی ہے ، یہ مجمعوں میں بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں۔“
پابندی وقت کے متعلق فرمایا:
”ہر شخص اپنے وقت کا حساب کرے تو ثابت ہو جائے گا کہ نصف سے زیادہ وقت خراب ہوتا ہے ، وقت کو خراب نہ کیا جائے تو بہت کام ہو جائیں۔ مگر پابندی وقت ہم لوگوں نے ایسی چھوڑی ہے ، کہ اس کا کرنا نئی بات معلوم ہوتی ہے ، بعض باتیں قومی شعار ہو جاتی ہیں ، پھر سب اس کے خلاف کو عیب سمجھتے ہیں مسلمانوں کے لیے تضیع اوقات شعار ہو گئی ہے ۔ اب کوئی وقت کی پابندی کرے تو اس کو”نَکّو“ بتایا جاتا ہے ۔“ (حسن العزیز، ج4، ص:309)
مبہم بات
اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات واضح طور پر نہیں کرتے، بلکہ مبہم بات کرتے ہیں ، جس سے سننے والے کو سخت تکلیف او رمشکل ہوتی ہے، حضرت تھانوی اس بات کو سخت ناپسند فرماتے تھے کہ مبہم بات کی جائے۔ فرمایا:”تکلفات اور رسومات نے تو معاشرت کا ناس کر رکھا ہے ، مجھ کو مبہم بات سے ایسی پریشانی ہوتی ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ لوگ زیادہ نہ بولنے کو آداب سمجھتے ہیں ، یہ تکلفات ایرانیوں سے سیکھے ہیں، مبہم بات بھی سنت کے خلاف ہے … دیکھیں! حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا کلام کتنا واضح تھا، مگر پھر بھی تین تین بار فرماتے تھے ، چناں چہ دیکھیے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”ایک شخص نے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کو پکارا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے ؟ اس نے کہا: میں ہوں، آپ نے فرمایا: میں، میں کیا ہوتا ہے؟ اپنا نام لو“۔ بعض لوگ آتے ہیں کہ اپنا خادم بنا لیجیے ، مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرید کر لیں ، مگر یہ کلام مجمل ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنے دامن میں لے لیجیے ، اس کاتو مطلب یہ ہونا چاہے کہ داماد بنا لیجیے ، مجمل کلام بولنا تہذیب نہیں ہے ، تعذیب ہے ۔“ (کمالاتِ اشرفیہ، ص:126)
صفائی
حضرت تھانوی قدس سرہ نے اپنے ملفوظات میں بے شمار جگہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کی اچھی عادات او راصولوں کو غیروں نے اختیار کرکے ترقی کر لی ہے او رمسلمانوں نے اپنے ہی اصولوں کو خیر باد کہہ دیا ہے ، ان ہی اعلیٰ اصولوں میں ایک عادت صفائی کی بھی تھی۔ فرمایا:
” غیر مسلم اقوام نے اسلام کے اصول لے لیے ہیں اور مسلمانوں نے چھوڑ دیے ہیں ، پریشان ہیں ، تکلیف اٹھا رہے ہیں ، مدراس میں ایک انگریز مسلمان ہوا ، مسجد میں نماز کے لیے آیا، دیکھا کہ نالی میں صفائی نہ تھی ، اس پر اس نے خادم مسجد سے کہا کہ ذرا صفائی رکھنا چاہیے ، تو جاہل لوگوں نے کہا کہ بڑا صفائی صفائی گاتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک عیسائی ہے ، گویا مسلمان وہ ہے جس میں صفائی نہ ہو، میلا کچیلا رہے، لاحول ولاقوة الا بالله․ لوگوں میں بالکل حس نہیں رہی ، دیکھے حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”نظفوا فنیتکم“ یعنی گھر سے باہر جو اس کے سامنے میدان ہے ، اس کو صاف رکھو ، سو ظاہر ہے کہ جب مکان سے باہر کی صفائی کا اس قدر اہتمام ہے تو خود گھر کی صفائی کس قدر مطلوب ہے۔“ (الافاضات الیومیہ، ج5 ، ص:337)
دورانِ گفتگو، سلام ومصافحہ
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دو اشخاص جب مصروفِ گفتگو ہوں تو آکر بیچ میں مصافحہ کرنے لگتے ہیں ، حضرت تھانوی قدس سرہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی ، آپ فرماتے تھے کہ ” اگر دوا افراد مصروفِ گفتگو ہوں تو آنے والے شخص کو چپکے سے آکر بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بیچ میں آکر سلام کرکے لٹھ سامار دیا اور مصافحہ کرنے لگے۔ یہ بڑی سخت بد تمیزی ہے اور ایذا کا موجب ہے ۔“ ( حسن العزیز ، ص:222)
ایک مرتبہ مغرب کی نماز کے بعد ایک صاحب سے حضرت تخلیہ کی گفتگو فرمارہے تھے۔ ایک صاحب پاس آکر بیٹھ گئے او رکچھ کہنا چاہا، حضرت نے فرمایا کہ جہاں دو آدمی بیٹھے تخلیہ کی باتیں کر رہے ہوں ، وہاں بلا اجازت آکر بیٹھنا شرعاً گناہ ہے ، یہ سن کر وہ سلام کرکے چلے گئے۔ فرمایا:
”یہ لیجیے ، کہا یہ تھا کہ اس طرح آکر بیٹھنا گنا ہ ہے، بس سلام کرکے اٹھ کر چلے گئے ، یہ نہ ہوا کہ ان کے فارغ ہونے کے بعد مل لیتے، اب مجھے بد اخلاق کہتے ہوں گے ، حکم شرعی سے بھی اطلاع نہ کرتا، ایسی خوش اخلاقی تو نہیں کر سکتا۔“
انتظام کی اہمیت
حضرت تھانوی قدس سرہ ہر کام کوانتظام سے کرنے پر بے حد زور دیتے تھے، فرمایا: ”انتظام بڑی برکت کی چیز ہے ، ہر کام میں انتظام کی ضرورت ہے ، اگر میں یہ خاص قواعد او راصول منضبط نہ کرتا تو اس قدر کام نہ ہو سکتا تھا، بہت وقت فضول، ضائع او ربیکار ہی جاتا ، یہ سب انتظام کی برکت ہے اور یہ سب اسلام کی ہی تعلیم ہے ، مسلمانوں نے اس کو چھوڑ دیا ہے ۔ غیر قوموں نے اختیار کر لیا ہے اور وہ راحت میں ہیں۔“ (الافاضات الیومیہ ج5، ص:337)
گھر میں ایک چیز جہاں سے اٹھاتے تھے، اس کو وہیں رکھ دیتے، اس سے ایک تو چیز کو تلاش کرنے میں جو ذہنی کوفت ہوتی ہے، اس سے بھی بالکل محفوظ تھے، دوسرے وقت کا ضیاع بھی نہیں ہوتا تھا، اس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: ” لوگوں کو تو عادت نہیں صفائی او رانتظام کی ، الجھی ہوئی طبیعتیں ہیں، میرا تو گھر میں بھی یہی معمول ہے کہ جو چیز جہاں سے اٹھاتا ہوں وہیں خود رکھتا ہوں ، مثلاً قلم دان، دیا سلائی گھر میں جہاں سے اٹھاتا ہوں، وہیں رکھتا ہوں ، دوسرے پر اس کام کو نہیں چھوڑتا ہوں ۔“ ( الافاضات الیومیہ، ج2، ص:40)
ایک مرتبہ کسی چیز کو حضرت قدس سرہ نے ایک خاص جگہ رکھا تھا، اٹھانے والے نے دوسری جگہ رکھ دیا، ڈھونڈنے میں دقت ہوئی، فرمایا:
” میرے اصول ہیں کہ جہاں سے جو چیز اٹھاؤ اس کو وہیں رکھ دو ، لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سختی کرتا ہے ، دیکھیے یہ پریشانی ہوتی ہے ، گو تھوڑی ہی پریشانی ہے ، لیکن کسی مسلمان کو دوسرے کے فعل سے یہ پریشانی ہو ، کیا مشکل ہے کہ جو چیز جہاں سے اٹھاؤ، وہاں رکھ دو۔“ (حسن العزیز، ج1، ص:142)
دوسروں کی راحت رسانی
حضرت تھانوی قدس سرہ اپنی راحت سے زیادہ دوسروں کی راحت اور آسانی کا کس قدر خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ صرف اس بات سے ہو سکتا ہے، فرمایا:
” میں تو یہاں تک خیال رکھتا ہوں کہ لفافہ میں جو خط رکھتا ہوں، اس کا خیال رہتا ہے کہ کہیں نشیب وفراز نہ رہے، مناسبت کے ساتھ کاغذ موڑ کر رکھتا ہوں، یوں جی چاہتا ہے کہ کسی کو ذرا سی بھی الجھن نہ ہو ۔“ (الافاضات ج4، ص:572)
کم آمدنی والوں کے لیے اہم اصول
ہم اپنی روزہ مرہ زندگی میں بار بار اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ہماری آمدنی کم ہے او رخرچ زیادہ ، حضرت تھانوی قدس سرہ کے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ تھا کہ جو چیز ہمارے اختیار میں ہے، اس کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اپنے روپے کو طریقہ سے خرچ کریں ، لیکن اس مسئلے کے سب سے اہم پہلو کی جانب سب سے زیادہ زور دیتے تھے ، یعنی آمدنی جائز ہو ، فرمایا:
”ہم لوگوں کے کسی کام میں بھی سلیقہ نہیں رہا، کچھ ایسی بے حسی چھا گئی ہے ، آمدنی کو دیکھو تو اس میں جائز ناجائز کی پروا نہیں، خرچ کو دیکھو تو اس میں موقع محل کا کہیں پتہ نہیں ، اس کے متعلق میرٹھ کے ایک رئیس زادے نے عجیب بات کہی، کہتے تھے کہ لوگ بڑے بے وقوف ہیں، جو چیز غیر اختیار ی ہے، یعنی آمدنی اس کی توفکر کرتے ہیں اور جو چیز اختیاری ہے یعنی خرچ کم کرنا، اس کی فکر نہیں، بڑے کام کی بات کہی ہے ، واقعہ یہی ہے کہ آمدنی مسلمانوں کی کچھ کم نہیں ، بشرطیکہ طریقہ سے ضرورت میں صرف کریں تو کبھی پریشانی نہ ہو گی۔“ (الافاضات الیومیہ، ج4، ص:634)
مہمان نوازی کے آداب
مہمان نوازی مسلمانوں کا ایک مذہبی شعار ہے، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اس میں بھی تکلفات اور رسومات کو شامل کر لیا جس سے مہمان نوازی میں بھی بہت خلل پیدا ہو گیا، عام طور پر ایک رواج یہ ہو گیا ہے کہ مہمان کے لیے اپنی پسند کا کھانا تیار کیا جاتا ہے ،حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ مہمان کی پسند کو فوقیت دی جائے ، مثلاً اگر میزبان مرغ پسند کرتا ہے، لیکن مہمان کو چاول پسند ہیں تو لازمی امر ہے کہ مہمان اس دعوت سے لطف اندوز نہیں ہو سکے گا، حضرت تھانوی اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ مہمان کی مرضی اور اس کے مذاق کے موافق کھانا تیار ہونا چاہیے۔ فرمایا: ” خدا جانے یہ رواج کیا ہے کہ مہمان کے لیے کھانا اپنے مذاق اور خواہش کے موافق پکاتے ہیں ، حالاں کہ موٹی سے بات ہے کہ جب اس سے خوش کرنا مقصود ہے مہمان کا تو اس کے مذاق کے موافق ہونا چاہیے، ورنہ اس کی خوشی تو نہ ہوئی ، یہ تو اپنی خوشی ہوئی ، فرض کرو ، کسی کو چاول نقصان دیتے ہیں ، تو کیا انسانیت ہے کہ چاول اس کو ضرور کھلائے جائیں، اگر اس کو چاول سے نقصان ہو تو یہ کیا مہمانی ہوئی؟ مگر رسوم ایسے غالب آئے ہیں کہ اس کی کچھ پروا نہیں ، میرے نزدیک مہمان کو وہی چیز کھلانی چاہیے ، جو اس کو مرغوب ہو، لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ۔“ (حسن العزیز ،ج4، صفحہ:199)
مہمان نوازی کے بارے میں حضرت قدس سرہ کو یہ بات بالکل ناپسند تھی کہ مہمانوں کی فوج ہی میزبان کے گھر پہنچ جائے ، چناں چہ فرمایا: ”آج کل معاشرت تو اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ اس کی قطعاً کوئی پروا نہیں کی جاتی کہ ہمار ی اس بات سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے گی یا اس کی پریشانی کا سبب ہو گا ، اب مہمان داری ہی کو لیجیے ، گاڑیاں چھکڑے بھر بھر کر میزبان کے گھر پہنچ جاتے ہیں ، نہ یہ خیال کہ اس غریب کے گھر کھانے کو ہے یانہیں ، خصوصی طور پر کسی کی بیماری یاموت کے موقع پر تو ایسا کرنا بہت ہی ظلم اور بے رحمی کی بات ہے۔“ (الافاضات الیومیہ، ج2، ص:170)
بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ میزبان نے کھانا ختم کر دیا ہے، لیکن مہمان کی بھوک ابھی ختم نہیں ہوئی، چناں چہ مہمان بے چارے کو بھی اپناکھانا ختم کرنا پڑتا ہے، حضرت تھانوی قدس سرہ نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ مہمان کے ساتھ ساتھ کھانا چاہیے ، تاکہ مہمان کو اکیلے کھانے پر شرمندگی نہ ہو، فرمایا: ”لوگوں نے معاشرت کے متعلق تو سوچنا چھوڑ دیا ہے، شریعت نے طرز معاشرت کو نہایت مکمل بنایا ہے ۔“ (مقالات حکمت،ص:127)