Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1433ھ

ہ رسالہ

7 - 14
”ننگے سر“ رہنا، اسلامی تہذیب کے خلاف ہے
مولانا محمد عبدالقوی
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بالخصوص نوجوانوں میں دینی احکام اور اسلامی تہذیب کا احترام دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے، اس کے برخلاف مغربی تہذیب کو عام کرنے کی کوششیں چاروں طرف سے او رمختلف ذرائع سے عام ہوتی جارہی ہیں ، نتیجتاً ایک ٹوپی ہی کیا، سارا لباس، بلکہ پوری معاشرت ہی اسلامی خصوصیات وامتیازات سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال افسوس ناک ضرور ہے، مگر تہذیبی تصادم او رمغرب کے ناحق دباؤ، نیز عالم اسلام کی تہذیبی مغلوبیت کے مدنظر تعجب خیز بالکل نہیں ہے، تعجب صرف اس پر ہوتا ہے کہ بعض جدیدوغیر معتبر افکار کے حاملین ان یورپ سے درآمدہ فیشنوں کو کلین چٹ، بلکہ اسلامک لیبل کس طرح دیتے ہیں ؟ بیماری حد سے بڑھ جائے اور بد عملی قابو سے نکل جائے تو اسے صحت او رنیکی کا نام دے کر قبول کر لینا او ربڑھاوا دینا کسی عقل مند کے نزدیک صحیح نہیں ہو سکتا۔

ننگے سر رہنے یا نماز پڑھنے کا چلن انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلم معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتا، علماء وصلحاء تو سر ڈھانک کر رہتے ہی تھے، عام شرفاء بھی اسے تہذیب وشرافت کا لازمہ سمجھتے تھے، امام ابن جوزی  تلبیس ابلیس میں فرماتے ہیں:” سمجھ دار آدمی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ سرکا کھلا رکھنابری بات اور ناپسندیدہ حرکت ہے ، کیوں کہ اس میں ترک ادب اور شرافت کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔“

شیخ عبدالقادر جیلانی  غنیة الطالبین میں فرماتے ہیں:
”ننگے سر لوگوں میں گھومنا پھرنا( مسلمانوں کے لیے) مکروہ ہے۔“ (بحوالہ فتاوی رحیمیہ:150/8)

ہندوستانی مسلمانوں میں ننگے سر پھرنا انگریزوں کی آمد کے بعد اورعالم عرب میں مغربی ممالک سے تعلقات کے بعد وجود میں آیا ہے، لیکن یہ تقلید فرنگ شروع میں صرف دفتروں ، کالجوں اور بازاروں تک محدود تھی، مذہبی مجلسوں مسجدوں میں لوگ اس طرح شرکت کو سخت معیوب سمجھتے او راس سے احتزار کرتے تھے ، گویا یہ پہلا مرحلہ تھا، جب مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کو اسلامی سرگرمیوں کے ساتھ مخصوص کرکے انگریزی تہذیب کو زندگی کے بقیہ مرحلوں میں اختیار کر لیا تھا، پھر جب طبیعتیں اس اجنبی تہذیب سے مانوس ہو گئیں او رایک نسل گزر گئی تو اگلی نسل کے لیے یہ جدید کلچر ہی پسندیدہ کلچر بن گیا اور سابقہ تہذیب اجنبی سی ہو گئی۔

اب جدید تعلیم یافتہ طبقے میں ٹوپی پہننا ایسا ہی معیوب ہو گیا ہے جیسے چند سال قبل ننگے سر رہنا معیوب تھا، یہ سب تہذیب جدید یہودیوں کی عالمی واحد تہذیب ( یعنی گلوبلائزیشن) کی کوششوں کی دین ہے ، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ علمائے دین او رامت کے مصلحین کا کام بہر صورت اسلامی ثقافت اور تہذیب کا تحفظ کرنا اور قوم کے اندر اس کے شعور کو باقی رکھنے کی فکر کرتے رہنا ہے، چاہے قوم اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے ، ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے، بلکہ جب ایسا نہ ہو االله تعالیٰ نے سخت پکڑ فرمائی، قرآن کریم میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، اس لیے بطور اتمام حجت کے یہ چند سطریں تحریر کی جارہی ہیں:

قرآن کریم میں نماز وعبادت کے لیے مکمل لباس اور کامل زینت اختیار کرنے کی ترغیب موجود ہے ، سورة الاعراف میں ارشاد ربانی ہے: ﴿یبنی ادم خذوا زینتکم عندکل مسجد﴾ (الاعراف:31) ، ”اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوش نمائی کا سامان( یعنی لباس جسم پر) لے کر آؤ۔“ یہ اگرچہ ننگے بدن کعبة الله کا طواف کرنے والوں کو دی گئی ہدایت ہے، مگر مفسرین کرام نے” کل مسجد“ کے عموم سے یہی سمجھا ہے کہ اس میں نمازوں اور دیگر عبادات کے ادا کرنے اور مقدس مقامات پر جانے کے لیے بھی مکمل لباس اختیار کرنا داخل وشامل ہے او رکل لباس میں جہاں کرتا پاجامہ داخل ہے ، وہیں ٹوپی یا عمامہ بھی شامل ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ننگے سر رہنا یا نماز پڑھانا ثابت نہیں ہے ، حسن سلمان نے ”الدین الخالص“ سے نقل کیا ہے کہ ”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے حالت احرام کے علاوہ ننگے سر نماز پڑھانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، اگر آپ نے پڑھائی ہوتی تو احادیث میں ضرور منقول ہوتا، اگر کسی کو اس کے ثبوت کا دعویٰ ہے تو دلیل اس کے ذمہ ہے ۔ والحق أحق ان یتبع“․ (القول امبین، ص:57)

متعدد روایتوں میں آپ کے سر مبارک کا عمامہ یا ٹوپی سے آراستہ ہونا مروی ہے ، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ سفید ٹوپی استعمال فرماتے تھے۔ ( شعب الایمان:256/13)

حضرت عائشہ سے بھی اس طرح منقول ہے۔(جامع صغیر:120/2)

حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ ا ٹوپی عمامے کے تحت بھی او ربغیر عمامے کے بھی استعمال فرماتے تھے۔ ( جامع صغیر:120/2)

حضرت ابو قرصافہ سے مروی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک ٹوپی دے کر اس کے استعمال کی ہدایت دی تھی۔ ( فتح الباری:223/10)

جب آپ صلی الله علیہ وسلم مرض الوفاة میں آخری خطبہ دینے کے لیے مسجد میں تشریف لائے تھے ، تو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک عمامہ یا سرخ پٹی سے ڈھکا ہوا تھا۔ (بخاری:536/1)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تین ٹوپیاں تھیں، ایک کنٹوپ بھی تھی، جسے سفر میں استعمال فرماتے تھے۔ (تخریج احادیث الاحیاء:110/6)

ابن قیم  فرماتے ہیں: ”آپ صلی الله علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے، اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، کبھی بغیر ٹوپی کے بھی عمامہ باندھتے تھے، کبھی بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی پہن لیتے تھے۔“ (زادالمعاد:51)

یہی بات حضرت ابن عباس سے روایتاً بھی منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ٹوپی استعمال فرماتے تھے، عمامے کے ساتھ بھی، بلاعمامے کے بھی۔ (جامع صغیر120/2)

یہ تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا معمول او رعادت شریفہ تھی، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں صحابہ کرام کا رواج بھی یہی تھا اور کیوں نہ ہوتا؟ وہ لوگ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہر ہر ادا کے عاشق اور اس کے متبع تھے، بخاری شریف میں ہے کہ جب حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے مُحرِم کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے ؟ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” قمیص، شلوار، عمامہ اور ٹوپی نہ پہنے۔“ (بخاری:24/2)

معلوم ہوا کہ ٹوپی او رعمامہ کا پہننا صحابہ کرام کے معاشرے کی عام بات تھی، تب ہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دوسرے لباس کے ساتھ اس کا بھی ذکر فرمایا۔ ا بن عاصم سے مروی ہے کہ جب وہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے ملنے کے لیے پہنچے تھے تو صحابہ کرام کو کپڑوں اور ٹوپیوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ( مجمع الزوائد:184/2)

اسی طرح ترمذی میں ہے کہ حضرت عمر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے شہید کے فضیلت بیان کرتے ہوئے بتلا رہے تھے کہ ” اس کے بلند ترین مقام کو یوں سر اٹھا کر دیکھا جائے گا، جب آپ نے سر پیچھے کیا تو ٹوپی سر سے گر گئی۔“ (ترمذی:241/3)

اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام او رتابعین عظام کے بارے میں روایات موجود ہیں کہ وہ ٹوپی کا استعمال فرمایا کرتے تھے ، بخاری شریف میں ہے ، حضرت انس ریشم کی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھے گئے۔ (270/4) اسی طرح ابو اسحاق کے بارے میں ہے کہ انہوں نے نماز کی حالت میں ٹوپی نکال کے رکھی، پھر اٹھا کر پہن لی۔ (515/1)

مصنف ابن ابی شیبہ میں تو متعدد احادیث موجود ہیں، مثلاً جلد دوم کتاب الصلوٰة میں حضرت شریح، اسود، عبدالله بن زید، سعید بن جبیر، علقمہ، مسروق رحمہم الله کے بارے میں اور جلد(12) کتاب اللباس میں حضرت علی بن حسین، حضرت عبدالله بن زبیر، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک اور ابراہیم نخعی اور ضحاک کے بارے میں ٹوپیوں کا استعمال کرنا منقول ہے، اسی طرح حضرت حسن بصری سے بخاری شریف میں مروی ہے کہ صحابہ کرام ٹوپیوں او رعمامے کی کوروں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے۔ (بخاری:232/1)

اس سے تو صحابہ کرام کا عمومِ استعمال صراحتاً معلوم ہو گیا، فتح الباری میں عبدالله بن ابی بکر سے مروی ہے کہ قرآن کریم کے تمام قراء( صحابہ) کے پاس ٹوپیاں ہوا کرتی تھیں۔ (34/16)

اسی لیے ابن عربی  فرماتے ہیں:
”ٹوپی انبیا ، صالحین واولیا کے لباس میں داخل ہے، سر کی حفاظت کرتی ہے او رعمامہ کو جماتی ہے ، جو کہ سنت ہے ، البتہ سر سے چمٹی ہوئی ہو بلند نہ ہو، البتہ اگر آدمی بخارات دماغ کے خروج کی ضرورت محسوس کرے تو سوراخ دار بلند ٹوپی بھی پہن سکتا ہے ۔“ ( فیض القدیر:299/5)

فتح الباری کتاب الحج(186/5) میں محرم کے لیے سر ڈھانکنے کے متعدد طریقوں کا ذکر کرکے ان کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ جس سے اتنا تو معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ سر ڈھانکنا قدیم رواج ہے۔

مذکورہ بالا احادیث وآثار، جن میں بعض صحیح اور بعض ان کی مؤید ہیں، یہ بتلا رہی ہیں کہ سر کو ڈھکنا یعنی ٹوپی یا عمامہ سے آراستہ رکھنا، بالخصوص نماز کے اندر ننگے سر ہونے سے بچنا اسلامی تہذیب کا حصہ اور مسنون لباس میں داخل وشامل ہے ، اس کے برخلاف ٹوپی نہ پہننے یا ننگے سر رہنے کی ترغیب وفضیلت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، نہ صحیح حدیثوں میں، نہ ہی ضعیف روایتوں میں ۔معلوم ہوا کہ موجودہ زمانے کا یہ فیشن اور آزادی چاہنے والوں کا چلایا ہوا چلن غیر اسلامی اورناپسندیدہ ہے، جس سے احتیاط ضروری ہے۔

جہاں تک ان لوگوں کا ان روایتوں سے استدلال کرنے کا تعلق ہے جن میں ایک اور دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے وہ یا تو وقتی ضرورت پر محمول ہے یا بیان جواز کے لیے ہے ، ورنہ دائمی معمول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا سر ڈھانک کر رہنا ہی ہے ، بالخصوص نمازوں میں تو کبھی ننگے سرامامت فرمائی ہی نہیں۔

شیخ ناصر الدین البانی ایک بڑے عالم گزرے ہیں (غیر مقلد) علماء اور عوام کا ایک طبقہ انہیں خاتمة المحدثین سمجھتا ہے ، چوں کہ ننگے سر کا کلچر عام ہو رہا ہے، بلکہ باقاعدہ عام کیا جارہا ہے، ان کی چشم کشائی کے واسطے شیخ کی تحقیق ذیل میں نقل کی جارہی ہے، وہ فرماتے ہیں:

”جہاں تک ہمار ی تحقیق کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس لیے کہ نماز کا مکمل ہیئت اسلامی میں ادا کرنے کا پسندیدہ ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے ، کیوں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” الله تعالیٰ اس بات کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے اپنے آپ کو سنوارا جائے “، نیز ننگے سررہنے کی عادت ڈال لینا ،یا بازاروں میں ننگے سر گھومنا یا مقامات عبادت میں ننگے سر داخل ہونا، سلف صالحین کے مبارک عرف میں ہئیت حسنہ کے خلاف اور غیر اسلامی تہذیب کا امتیاز ہے ، جو کفار کے بلاد اسلامی میں داخل ہونے کے بعد شائع ہوا ہے، وہاں کے مسلمانوں نے بلاد لیل شرعی ان بری عادتوں کو قبول کرکے اس مسئلے میں اسی طرح بعض او رتہذیبی مسائل میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید ترک کر دی ہے ، پس یہ نئی رسم اس لائق نہیں ہے کہ اسلام کے سابقہ عرف اور طریقے کے مقابل بن سکے اور نہ ہی اس رسم کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جاسکتا ہے۔“

اس کے بعد بعض علماء کے غلط استدلال کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جہاں تک مصر کے بعض علماء کا حج کے دوران سر کھلے رکھنے اور اسی طرح نماز پڑھ لینے سے استدلال کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کا یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے فاسد ہے، اس لیے کہ اولاً تو وہ مناسک حج کے ساتھ خاص ہے اور شعائر حج میں سے ہے، اس کو عام نہیں کیا جاسکتا او راگر اس سے ہر حال میں سرکھلے رکھ کر نماز پڑھنے کا ثبوت نکل سکتا ہے تو پھر وجوباً ماننا پڑے گا، جوازاً نہیں، کیوں کہ احرام میں سرکھلا رکھنا واجب ہے ، یعنی ننگے سر نماز پڑھنے کو واجب کہنا پڑے گا جوکوئی نہیں کہتا، پس یہ ایسا الزام ہے کہ ان لوگوں کو اپنے قیاس فاسد سے رجوع کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ، ہمیں امید ہے کہ یہ علماء اپنی غلطی سے رجوع کر لیں گے۔“ (تمام المنہ فی التعلیق علی فقہ السنة:164/65)
Flag Counter