مغرب کی اسلام دشمنی اوردین حق کی مقبولیت
محترم یرید احمد نعمانی
یورپ اورمغرب کا اسلام سے تعصب کوئی ڈھکا چھپانہیں ۔یہود ونصاریٰ نے ہمیشہ اسلامی تہذیب وثقافت،شعائر اسلام اورشخصیات اسلام کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈاکیاہے۔ماضی میں ان اعدائے اسلام کی جانب سے دنیا کو یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام ایک انتہاپسند،رجعت پسند اورتشدد پر یقین رکھنے والا مذہب ہے۔اسلام میں عورت کے کوئی حقوق نہیں۔اسے گھر کی چاردیواری میں قید رکھاجاتاہے۔آج بھی زمانہ حال کی تمام ترجدتوں اورابلاغ کی تمام صورتوں کو بروئے کار لا کر دین مبین کے دشمنوں نے اسلام کے خلاف اپنا متعصبانہ،جارحانہ اورمعاندانہ طرزعمل جاری رکھاہواہے۔وقفے وقفے سے یورپ کے اندر اسلام دشمنی کی کوئی نہ کوئی تازہ لہراٹھتی رہتی ہے۔معاذ اللہ کبھی گستاخانہ خاکے تو کبھی حجاب پر پابندی۔کبھی مساجد پر حملے توکبھی کلام الٰہی کی بے حرمتی۔کبھی اسلامی سزاؤں پر تنقید توکبھی احکام اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی۔
تازہ خبر کے مطابق نسل پرست گروپ فاررائیٹ کی جانب سے جرمنی کے شہر بون میں اسلام مخالف ریلی کا انعقاد کیاگیا۔ریلی کے 30شرکا نے ہاتھوں میں گستاخانہ خاکے اٹھارکھے تھے،جب کہ انہیں جرمن پولیس کی جانب سے مکمل سیکورٹی بھی فراہم کی گئی تھی۔اس ریلی کو 600کے قریب مسلمانوں نے اس وقت روک دیا،جب یہ ریلی شاہ فہد اکیڈمی کے سامنے پہنچی، اس دوران دونوں فریقوں کے مابین شدید تصادم ہوا۔بتایاجاتاہے کہ مظاہرین نے ریلی کو تحفظ دینے کے لیے پہنچنے والے پولیس اہل کاروں پر بھی پتھر پھینکے، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے،جن میں 30پولیس افسران بھی شامل ہیں۔اطلاعات کے مطابق پولیس کو صورت حال سنبھالنے میں 45منٹ لگ گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے جرمنی کی ایک عدالت نے الیکشن مہم کے دوران اشتعال انگیز گستاخانہ خاکوں کے استعمال پر پابندی اٹھالی تھی،جس کے بعد اس فیصلے کو مسلم حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامناتھا۔جب کہ عدالتی فیصلے کے بعد اسلام مخالفین کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ایساہی ایک اورمظاہرہ جرمنی کے دوسرے شہر لولنگن میں بھی کیاگیا۔دوسری جانب اسلام دشمن نازی پارٹی کا کہنا تھاکہ 25مساجد کے سامنے ایسے مظاہرے کیے جائیں گے۔اس اعلان کے بعد بون شہر میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔واضح رہے کہ نازی پارٹی نے ڈنمارک کے گستاخ کارٹونسٹ ویسٹر گارڈ کے بنائے گئے خاکے 13مئی کو ہونے والے انتخابات کی مہم کے سلسلے میں استعمال کیے ہیں۔اس پارٹی نے اسلام مخالف خاکوں پر انعام کا بھی اعلان کررکھاہے۔دوسری طرف جرمن حکومت کے ایک عہدے دار نے نازی پارٹی کو ہی ساری صورت حال کا ذمہ دار قراردیاہے۔جب کہ جرمنی کے عیسائی وزیر دفاع فریڈرچ کا کہناہے کہ معاملے کا کوئی حل نکال لیاجائے گا۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ جرمنی میں ہی 2009ء کے دوران ایک مصری خاتون مرواشیربینی کو ایک جرمن دہشت گرد شہری نے کمرہ عدالت میں سرعام خنجر مار کرشہیدکردیاتھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس مذموم واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ جرمنی کے شہر ڈرسٹن میں28 سالہ جرمن شہری الیکس مرواشیر بینی کا پڑوسی تھا۔ شیربینی جب بھی حجاب پہنے اپنے گھر سے باہر نکلتی تو الیکس اسے تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتا تھا۔ اگست 2008ء میں مروا جب اپنے 3 سالہ بچے کو گھر کے قریب واقع پارک میں جھولا جھلا رہی تھی تو اسی اثنا میں الیکس پارک میں داخل ہوا اور شیربینی کو حجاب پہنے دیکھ کر اسے” مسلم انتہا پسند، دہشت گرد“ اوردیگر غیر اخلاقی کلمات کہتارہا۔ مروا اور اس کے شوہر نے الیکس کے، مذہب کی بنیاد پر تعصبانہ اور نازیبا رویے پر جرمن عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں اپنے بیان میں الیکس نے کہاتھا کہ اس شدت پسند مسلم خاندان کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ جس کے بعدعدالت نے الیکس کو مسلم خاتون کے مذہب کی توہین کرنے پر مجرم پایا اور اس پر صرف 780 یورو جرمانہ کیا۔
یکم جولائی 2009ء کو شیربینی اپنے خاوند عکاظ اور تین سالہ معصوم بیٹے کے ہمراہ مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت میں موجود تھی۔ اس موقع پر شیربینی کو حجاب میں دیکھ کر الیکس نے چاقو کے اٹھارہ وار کرکے شیربینی کو شہید کر دیا ،جو اس وقت تین ماہ کی حاملہ تھیں۔ شیربینی کا شوہر عکاظ بھی اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش میں قاتل کے چاقو اور پولیس کی گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گیا تھا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویے کا اعتراف کرلیاہے۔رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پبلک فورم میں ایک طالب علم نے امریکی وزیرخارجہ سے سوال کیا:” امریکا اسلام کے خلاف کیوں ہے؟“جس پر امریکی وزیر خارجہ نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اورکہاکہ ان سے جو سوال پوچھا گیاہے ،اس کا جواب بدقسمتی سے ہاں میں ہے۔تاہم انہوں نے فوراًہی پینترابدلتے ہوئے کہاکہ دراصل اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے والے انتہاپسندوں نے امریکا پر حملہ کیا ،لہٰذا صرف امریکا کوہی قصوروارٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔
یادرہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں امریکی ریاست فلوریڈا میں ملعون پادری ٹیری جونز نے ایک مرتبہ پھر شیطانی عمل دہراتے ہوئے قرآن پاک کی شدیدبے حرمتی کی اور اس عمل کی ویڈیو انٹرنٹ پر جاری کی تھی۔ امریکی میڈیاکی رپورٹ کے مطابق ملعون جونز اوراس کے ساتھی ایک پادری نے فلوریڈا میں ایک چرچ کے سامنے احتجاج کیا۔جس کے دوران وہ ایرانی جیل سے سزائے موت پانے والے عیسائی پادری یوسف نادر خانی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔امریکی اخبار ”دی جنیسویلی سن“ کی رپورٹ کے مطابق (نعوذ باللہ) قرآن پاک کے نسخے نذر آتش کیے جانے کے موقع پر20کے قریب افراد موجود تھے، جب کہ چرچ کی طرف جانے والی سڑک پر پولیس افسران تعینات تھے، تاکہ ملعون پادری کو اس مذموم عمل کے سرانجام دینے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ واقعے کے چند لمحے بعد شہر کے محکمہ آگ نے چرچ کو شہر کے فائر آرڈیننس کی خلاف ورزی کا نوٹس بھیجا۔جب کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے بھی ملعون امریکی پادری کے طرز عمل کے خلاف صرف ایک رسمی سابیان جاری کیا۔
اگرچہ اس وقت طاغوت اسلام اورقرآن کو مٹانے پر تلاہواہے۔ تاہم حیرت انگیز امریہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔جب کہ دنیا بھر کی اہم شخصیات اپنا پرانا مذہب ترک کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی نورین بوتھ پہلی اسلام قبول کرنے والی خاتون نہیں ہیں، بلکہ لورین سے پہلے بھی متعدد نامور شخصیات اسلام قبول کر چکی ہیں۔عالمی شہرت یافتہ قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف اور گبون کے صدر عمر بونگھ نے بھی اپنا پرانا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا۔ ان دونوں صدور کی جانب سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے وہاں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور لوگ اسلام کو ترجیحی بنیادوں پر سمجھ رہے ہیں۔اسی طرح پاکستانی عیسائی کرکٹر یوسف یوحانہ نے بھی اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام محمد یوسف رکھا۔ جب کہ 2001ء میں طالبان کی قید سے رہائی پانے والی برطانوی خاتون صحافی ایوان رڈلے نے بھی اپنا پرانا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا اور اب ان کا اسلامی نام مریم ہے۔ایک سروے کے مطابق یورپ کے بعض ممالک جرمنی، فرانس، امریکااور روس سمیت کئی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں اپنا پرانا مذہب ترک کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہاں اسلام کی حقانیت سے متاثرہوکر اسے قبول کرنے والی خاتون ”مونیکا ہانگسلم “ کا یہ بیان ذکر کرناہی کافی معلوم ہوتاہے ،جس میں انہوں نے کہا ہے :” میں پردے کو عورت کی توہین نہیں سمجھتی، بلکہ میں اسے عورت کی سہولت اور آسانی کے لیے انتہائی ضروری سمجھتی ہوں۔ میں نے اتفاقا ًاسلام قبول نہیں کیا ہے،بلکہ یہ مسئلہ چند سال پراناہے ۔ میں اس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں مرد رات کو نشہ میں دھت گھر آتے ہیں اور اپنی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی اور ان کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں۔ میں نے اسلام کو امن ، صلح اور رحمت کا دین سمجھ کر منتخب کیا ہے۔میں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا اور اس کا انجیل سے موازنہ کیا ،اس کے بعد میں قرآن کریم کی الہٰی تعلیمات کی مجذوب ہو گئی۔“
مونیکا کے بقول انہوں نے نہ صرف قرآن مجید کا مطالعہ کیا، بلکہ فقہ اور سیرت نبوی علیٰ صاحبھاالصلوٰة والسلام سے بھی آشنائی پیدا کی۔ نومسلم مو نیکا کہتی ہیں کہ یورپ میں لوگ انجیل کا نام تو لیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں کرتے ۔تاہم جن مسلمانوں نے مجھے اسلام اور قرآن سے آشنا کیا، وہ الٰہی اور قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور جو کچھ قرآن وسنت میں موجودہے، اس کا خاص خیال کرتے ہیں۔ یہ وہ چند اہم چیزیں تھیں جن کو دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔
اہل مغرب کو چاہیے کہ وہ ان نومسلموں کے تاثرات کو ہی کم از کم پڑھ لیں جو ان کے ہم وطن اورہم قبیلہ ہیں۔جنہوں نے اپنی پوری زندگی یورپ کے مادرپدر آزاد ماحول میں بتائی،لیکن آج وہ حق کو پاکر روحانی مسرت سے سرشار ہیں۔بلاشبہ یورپ میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت ومحبوبیت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ نورخداوندی کفر کی پھونکوں سے نہیں بجھ سکتا۔