Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 14
منافقین کا بیان
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّہِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِیْن﴾․(سورہٴ البقرہ، آیت:8)
ترجمہ: ”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے الله پر اور دن قیامت پر اور وہ ہر گز مومن نہیں۔“

ربط:
پہلے اہل ایمان کا تذکرہ تھا، پھر ان بدنصیبوں کا ذکر آیا جو ایمان لانے کے بجائے کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے تھے، اب تیسرے گروہ کا تذکرہ ہے جنہوں نے دوغلہ پن اختیار کیا اور منافق کہلائے، یہاں ہم ان کی تعریف، تعارف، اقسام واحکام تفصیل سے ذکر کر دیتے ہیں، آئندہ فقط اشارہ کر دیا جائے گا۔

منافق کی تعریف
جو شخص ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کا پابند ہو، لیکن درپردہ کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو تو ایسے شخص کو شریعت کی زبان میں منافق کہا جاتا ہے۔ (البحرالرائق، کتاب الجہاد، احکام المرتدین،212/5، رشیدیہ)

منافقین کا تعارف
جب حضور صلی الله علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے اور لوگ جو ق در جوق مسلمان ہونے لگے ، مسلمانوں کو شان وشوکت اور اسلام کو غلبہ نصیب ہوا تو بعض دنیا پرست لوگوں نے مصلحت اسی میں جانی کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں شریک ہو جائیں، تاکہ اپنی جان ومال بھی محفوظ رہے اور مسلمانوں کے ساتھ مالِ غنیمت میں بھی حصہ دار بن جائیں ، مدینہ کے بعض یہودی اور قبیلہ اوس وخزرج کے بعض افراد اس گروہ میں شریک تھے ، ان کی لگام عبدالله بن اُبی بن سلول کے ہاتھ میں تھی، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، کافروں کی مجلس میں جاکر مسلمانوں کے راز افشا کرتے اور مسلمانوں کے پاس آکر وفا کا دم بھرتے ، جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت ان کی امتیازی صفات تھیں، چوں کہ مسلمان انہیں اپنا سمجھ رہے تھے، اس لیے ان آیات میں الله تعالیٰ نے ان کے حالات وصفات سے حضور صلی الله علیہ وسلم کو مطلع کر دیا، تاکہ مسلمان ان کے فتنے سے محفوظ رہیں۔

منافقین کی قسمیں
منافقین کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔منافق اعتقادی : وہ ہے جو بظاہر مسلمان لیکن درپردہ کافر ہو ، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں انہیں کے ناشائستہ اعمال وافعال کا تذکرہ ہے۔

۲۔ منافق عملی: اسے کہتے ہیں جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کی ظاہری صفات منافقین سے ملتی جلتی ہوں ، مثلاً جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت جیسے برے افعال میں مبتلا رہتا ہو ۔ ایسا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا۔

منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں؟
منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں جو کسی مصلحت کے پیش نظر اپنے کفر کا اظہار نہیں کر پاتے، تاہم وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے ان پر کفر یا منافق اعتقادی کا حکم لگانا دشوار ہے۔ (فتح الباری، کتاب الفتن، باب اذا قال ضدّ قوم…74/13، دارنشر الکتب الاسلامیہ)۔

منافق اور زندیق میں فرق
اگر منافق اپنے کفریہ عقائد کا اظہار زبان سے کر دے تو وہ زندیق شمار ہوتا ہے ۔ (شرح المقاصد، المقصد السادس،47/3، بیروت)

جب اسلامی ریاست او راسلامی قوانین کی پاس داری نہ ہو تو مسلمان معاشرے میں منافق اعتقادی کی بنسبت زنادقہ بکثرت ہوتے ہیں ، البتہ جب اسلام کو شان وشوکت اور غلبہ نصیب ہو تو سزا کے خوف سے یہی زنادقہ منافق اعتقادی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

منافق سے قتال نہ کرنے کی حکمت
چوں کہ منافقین کی وضع قطع مسلمانوں کی سی تھی ، مسلمان معاشرے میں رہتے اور خود کو مسلمان ہی ظاہر کرتے ، ان کے سر قلم کر دینے کی صورت میں خطرہ تھا کہ کہیں حقائق سے ناواقف دور دراز کے لوگ اور قبائل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے ہی رفقا پر تلوار چلا رہے ہیں او راسی غلط فہمی میں پڑ کر اسلام کے قریب آنے کے بجائے دور ہوتے چلے جائیں، اسی مصلحت کے پیش نظر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے قتال نہیں فرمایا، تاہم موقع بہ موقع ان کی سرزنش کرتے رہے، جس سے ان کی ذلت ورسوائی کا سامان پیدا ہوتا رہا، ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے برسر مجلس تمام منافقوں کے نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا۔ (السیرة النبویة لابن ہشام، من اسلم من احبار یہود نفاقاً528/2، المکتبة العلمیة، بیروت)

نعیم الدین مراد آبادی صاحب کے لطیف رمز کی حقیقت
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا﴾ کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں﴿وَمِنَ النَّاس﴾ فرمانے میں لطیف رمز یہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات وانسانی کمالات سے ایسا عار ی ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف وخوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتا، یوں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منافق انسانی صفات سے عاری ہوتا ہے، لیکن ﴿وَمِنَ النَّاس﴾ سے یہ لطیف رمز نکالنا بے جاہے، کیوں کہ قرآن کریم میں ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ﴾․(سورة البقرہ، آیت:207)
ترجمہ:” اور لوگوں میں ایک شخص وہ ہے کہ بیچتا ہے اپنی جان کو الله کی رضا جوئی میں“۔

اسی طرح ایک او رمقام پر ہے :
﴿اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاس﴾․(سورہٴ الحج، آیت:75)
ترجمہ:” الله چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں۔“ ان دونوں آیتوں ﴿من الناس﴾سے اہل ایمان مراد ہیں ، لہٰذا معلوم ہوا کہ﴿ من الناس﴾ کی بنیاد پر یہ لطیف رمز نکالنا درست نہیں، بلکہ بعض مقامات پر تو خطرہ ایمان ہے۔

نعیم الدین مراد آبادی صاحب کی جسارت
نعیم الدین مراد آبادی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:
” اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل وکمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے ، اس لیے قرآن پاک میں جا بجا انبیائے کرام ( علیہم الصلاة والسلام) کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیائے کرام کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے۔“ ( خزائن العرفان، تحت آیہ رقم:8 البقرہ)

نعم الدین مراد آبادی صاحب جس آیت کریمہ کی تفسیر کر رہے ہیں ، اس آیت میں لفظ بشر ہے نہ انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، بلکہ من الناس سے منافقین کی صفات کا بیان ہے ، لیکن نعیم الدین مراد آبادی صاحب یہاں پر بھی اپنے غلط عقیدے کے ثبوت پر زور قلم صرف کر رہے ہیں، انبیائے کرام کی بشریت پر تفصیلی بحث تو اپنے مقام پر آئے گی لیکن سردست اتنا عرض ہے کہ بشر کو حقیر اور ذلیل سمجھنا ابلیس کا نظریہ ہے۔

چناں چہ قرآن کریم میں اس کا یہ قول ذکر ہے کہ﴿ قَالَ أَنَاْ خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْن﴾․ (الاعراف:12)
ترجمہ:” بولا میں اس سے بہتر ہوں، مجھ کو تونے بنایا آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے۔“

اس آیت کے مضمون کے پیش نظر معلوم ہوا کہ بشر میں اس کے فضائل وکمالات کے انکار کا پہلو تلاش کرنا ابلیس کا طریقہ ہے ، نعم الدین مراد آبادی صاحب کا یہ دعوی کہ ” قرآن پاک میں جابجا انبیائے کرام علیہم السلام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا۔“ بہت بڑی جسارت اور الله تعالیٰ پر افترا اور بہتان ہے، کاش! اتنے بڑے دعوے کے بعد اس کی تائید میں ایک ہی آیت پیش کر دیتے ہیں۔

پورے قرآن کریم میں اس مفہوم کی آیت نہیں ہے، البتہ ایسی آیات جا بجا ملتی ہیں جن میں کفار ومشرکین کی طرف سے انبیائے کرام کی بشریت پر اعتراض کیا گیا ہے، چند آیتیں درج ذیل ہیں۔
﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُواْ إِذْ جَاء ہُمُ الْہُدَی إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّہُ بَشَراً رَّسُولا﴾․(بنی اسرائیل، آیت:94)
ترجمہ:” اور لوگوں کو روکا نہیں ایمان لانے سے جب پہنچی ان کو ہدایت، مگر اسی بات نے کہ کہنے لگے کیا الله نے بھیجا آدمی کو پیغام دے کر۔“
﴿فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَبِدُونَ﴾․ (المؤمنون، آیت:47)
ترجمہ:” سوبولے کیا ہم مانیں گے اپنے برابر کے دو آدمیوں کو اور ان کی قوم ہماری تابع دار (خدمت گار) ہیں۔“
﴿ذَلِکَ بِأَنَّہُ کَانَت تَّأْتِیْہِمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ یَہْدُونَنَا ﴾․(التغابن، آیت:6)
ترجمہ: ”یہ اس لیے کہ لاتے تھے ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں، پھر کہتے کیا آدمی ہم کو راہ سمجھائیں گے؟“
﴿یُخَادِعُونَ اللّہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَہُم وَمَا یَشْعُرُون﴾․(البقرہ، آیت:9)
ترجمہ:” دغا بازی کرتے ہیں الله سے اور ایمان والوں سے اور دراصل کسی کو دغا نہیں دیتے، مگر اپنے آپ کو اور نہیں سوچتے“۔

تفسیر
منافقین کی خصوصی صفت کا تذکرہ ہے کہ یہ دورنگی پالیسی اختیار کرکے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم او رمسلمانوں کو دھوکہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، لیکن الله تعالیٰ نے ان کے احوال سے آپ کو آگاہ فرما دیا، اب مسلمان تو ان کی دھوکہ دہی سے محفوظ رہیں گے، البتہ ان کی چال بازیاں خود ان کے لیے نقصان وہ ثابت ہوں گی۔

ایک شبہ اور اس کا جواب
آیت کریمہ میں ہے کہ منافقین الله تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں، حالاں کہ دھوکہ اور فریب تو اسے دیا جاسکتا ہے جولاعلم اور حقیقت سے ناواقف ہو ۔ الله تعالیٰ تو علیم وخبیر ذات ہے، اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی، پھر اسے کیسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں ﴿یخادعون الله﴾ میں رسول محذوف ہے یعنی ”یخادعون رسول الله“، منافقین الله کے رسول کو دھوکہ دیتے ہیں۔(دیکھیے، تفسیر مدارک، مظہری، قرطبی، کبیر، خازن، روح المعانی)۔

آیت کے اسلوب بیان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عظمت کی طرف اشارہ ہے ، جس طرح مال غنیمت میں پانچواں حصہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے، لیکن الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔﴿واعلموا أنما غنمتم من شيء فأن لله خمسہ﴾․
ترجمہ:” او رجان رکھو کہ جو کچھ تم کو غنیمت ملے کسی چیز سے سو الله کے واسطے ہے۔“

فائدہ:
تمام مفسرین نے ﴿یخادعون الله﴾کے شبہ کے جواب میں آیت میں رسول کو محذوف قرا ر دیا اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب کلی ذاتی طور پر حاصل تھا نہ عطائی طور پر، اگر آپ کے لیے علم غیب کلی ذاتی یا عطائی مان لیا جائے تو پھر منافقین کی طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دھوکہ دینے کا کیا مطلب ہو گا؟

﴿فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾․ (البقرہ، آیت:10)
ترجمہ:” ان کے دلوں میں بیماری ہے، پھر بڑھا دی الله نے ان کو بیماری، ان کے لیے عذاب دردناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔“

﴿فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَض﴾ منافقین کی پہلی خصلت
اس مرض سے جسمانی مرض مراد نہیں، بلکہ روحانی مرض ”نفاق“ مراد ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیہ رقم:10)

قلب سے کیا مراد ہے ؟ احادیث مبارکہ کے مقابلے میں سائنس کی حیثیت کیا ہے؟
قلب دل کو کہتے ہیں، لیکن قرآن کریم میں مختلف مواقع پر مختلف معانی کے لیے استعارةً استعمال ہوا ہے، مثلاً، علم، فہم، رائے وغیرہ۔

جیسے اس آیت میں: ﴿إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَن کَانَ لَہُ قَلْب﴾ ․ (ق، آیت:37)
ترجمہ:”اس میں سوچنے کی جگہ ہے اس کو جس کے اندر دل ہے“۔
اس آیت میں قلب سے علم وفہم مراد ہے ۔ ( مفردات القرآن للراغب، ص:458، بیروت)
اور آیت کریمہ﴿تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعاً وَقُلُوبُہُمْ شَتَّی﴾․ (الحشر:14)
ترجمہ:” تو سمجھے وہ اکھٹے ہیں او ران کے دل جدا جدا ہور ہے ہیں۔“
یہاں قلب سے رائے مراد ہے۔ (الوجوہ والنظائر لألفاظ کتاب الله العزیز، ص:385، بیروت)

تاہم مذکورہ آیت میں قلب سے دل مراد ہے ، جو لوگ قرآن کریم کی تفسیر کا سائنسی اسلوب اختیار کرکے سائنس کے ہر نظریہ کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی خدمت میں مصروف ہیں ، ان کے سامنے جب اس طرح کی آیات آئیں جن میں دلوں پر مہر لگانے کی بات کہی گئی ﴿خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہم﴾․ (البقر:7)ترجمہ:” مہر کر دی الله نے ان کے دلوں پر“۔

یا دل میں نفاق کے روحانی مرض کی نشان دہی کی گئی ، یا جس آیت میں دلوں کو نابینا قرار دیا گیا: ﴿فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور﴾․(الحج، آیت:46)
ترجمہ:” سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی، پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں۔“

تو ان پر سائنسی اشکال ہوا کہ دل تو محض خون کی روانی برقرار رکھنے کا ایک آلہ ہے ، اس میں نفاق کا مرض ہونے یا نابینا ہونے او رمہر لگانے کا کیامطلب ؟

جب ان لوگوں سے اس کی کوئی سائنسی توجیہ نہ بن سکی تو انہوں نے اس شبہ سے بچنے کے لیے لغت کا سہارا لیا کہ عربی زبان میں قلب عقل کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی قلب عقل کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، لہٰذا قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے عقلوں پر الله تعالیٰ نے مہر لگا دی۔ اس نادر تفسیر پر اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو قلب کا مقام سینہ او رچھاتی بھی بتایا گیا:﴿فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور﴾․
ترجمہ:” سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں۔“

صدر سینہ او رچھاتی کو کہتے ہیں،اگر قلب سے مراد عقل ہی ہے تو عقل کا مقام سر ہے نہ کہ سینہ، پھر قلب کے صدر ( سینہ) میں ہونے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ صدر کا معنی سینہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وسط درمیان بھی ہوتا ہے ۔اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ وہ عقول اندھی ہیں جو وسط میں ہیں۔ یہ تاویل اس قدر لغو ہے کہ اس پر کلام کرنا بھی ضیاع وقت ہے ، تاہم ان سائنس زدہ مفکرین سے یہ سوال ہے کہ اگر سائنسی اشکال سے بچنے کے لیے قلب سے عقل ہی مراد لی جائے تو ان احادیث کا کیا بنے گا جن میں قلب دل ہی کو کہا گیا ہے ۔ مثلاً ایک مشہور حدیث ہے۔

”ان فی الجسد مضغة إذا صلحت، صلح الجسد کلہ، وإذا فَسَدت فی الجسد کلہ، ألا، وھی القلب“․(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:52)

”بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ اصلاح یافتہ ہو تو سارا جسم صالح ہوتا ہے او راگر گوشت کے اس لوتھڑے میں فساد پیدا ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے ۔ جان لو! وہ لوتھڑا دل ہے ۔“

تمام محدثین نے لوتھڑے کی تشریح دل سے کی ہے، کیوں کہ دل ہی ہے جو گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوتا ہے نہ کہ عقل۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ ” مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب (دل ) میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے ، اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے رک جاتا ہے تو اس کا قلب (دل) پہلے کی طرح صاف وشفاف ہو جاتا ہے او راگر وہ مسلسل گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر پورے قلب (دل) پر چھا جاتا ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہی وہ زنگ ہے جسے الله تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے :﴿کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون﴾․ (سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، رقم الحدیث،4244)

کیا یہاں قلب سے مراد عقل ہے ؟ بالفرض عقل کو مراد لے لیا جائے تو کیا سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ گناہ کرنے سے عقل پہ سیاہ نقطہ پڑتا ہے؟

اب ایک طرف یہ احادیث مبارکہ ہیں جو درحقیقت قرآن کریم کی اصل شارح ہیں ، دوسری طرف وہ لغوی تاویلات ہیں، جو سائنس زدہ مفکرین بیان کرتے ہیں او رحق تو یہی ہے کہ احادیث مبارکہ کے سامنے ایسی لغوی بحثیں اور ظنی ووہمی سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں۔

اسلاف کا طریقہ تفسیر یہی رہا کہ وہ قرآن کریم کو ہی بنیاد بنا کر باقی نظریات کے حق وباطل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، کیوں کہ قرآن کریم ہی وہ میزان علم ہے جس میں تول کرہر نظریے کی حقانیت کو جانچا جاسکتا ہے۔

سائنس کو قرآن کریم سے ثابت کرنے میں کیا فکری گمراہیاں پنہاں ہیں؟ کیا سائنس اس قابل ہے کہ اسے معیار علم ٹھہرایا جائے؟ اس کی تفصیلی بحث مقدمہ میں دیکھیے۔

﴿فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً﴾․” پھر بڑھا دی الله نے ان کی بیماری۔“

تفسیر
جوں جوں قرآن کریم کانزول ہوتا جاتا ہے تو ان کا مرض نفاق بھی بڑھتا جاتا ہے ، کیوں کہ یہ قرآن کریم کی ہر آیت کو بظاہر تو مان لیتے ہیں لیکن دل میں اس کے منکرہی رہتے ہیں او رجب مسلمانوں کی شان وشوکت کو دیکھتے ہیں تو مزید بغض وحسد کی آگ میں جلتے بھنتے ہیں۔ (روح المعانی، البقرة، ص:10)

﴿وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾․
ترجمہ:”ان کے لیے عذاب درد ناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔“

یہ منافقین کی سزا اور ان کے انجام کا ذکر ہے ۔

﴿ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾”ب“ سببیت کے لیے ہے اور ”ما“ مصدریہ ہے اور فعل ناقص دوام واستمرار کے لیے ہے یعنی یہ سزا ان کے مسلسل جھوٹ بولنے اور اپنے نفاق پر اصرار کا نتیجہ ہے۔ (تفسیر أبی السعود، البقرہ:10) (جاری)
 
Flag Counter