Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 14
نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ مبارک

حافظ محمد زاہد
	
 پچھلا صفحہ  ►
◄  اگلا صفحہ 
    فہرست   

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فراخ د ہنی
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فراخ دہن تھے اور اہل ِعرب مرد کے لیے فراخ دہنی کو بہت پسندیدہ سمجھتے تھے۔حدیث کے الفاظ ہیں:ضَلِیْعَ الْفَمِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)فراخ دہن تھے۔“

مولانا عبد القیوم حقانی اس بارے میں رقم طراز ہیں:
”یہ وسعت ِفم رجا ل میں محمود ہے اور خواتین میں مذموم ہے۔دہن مبارک کشادہ تھا،نہ چھوٹا اور تنگ تھا کہ منہ سے نکلی ہوئی بات میں فصاحت نہ رہتی اور نہ اعتدال و موزونیت سے بڑا تھا کہ بھدّا نظر آتا۔موزوں ‘معتدل اور مناسب کشادہ دہن سے موصوف تھے، جو ایک عمدہ اور اچھی صفت ہے۔“ (شرح شمائل ترمذی‘ج1،ص104)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دندانِ مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دانت مبارک باریک اور چمک دار تھے اور سامنے والے دانتوں میں ذرا فصل تھا ۔ جب بات کرتے تھے تو اس میں سے نور نکلتا ہوامحسوس ہوتا تھا۔حضرت ابن عباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دانتوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اَفْلَجَ الثَّنِیَّتَیْنِ اِذَا تَکَلَّمَ رُاِٴیَ کَالنُّوْرِ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ ثَنَایَاہُ“․ (رواہ الدارمی والترمذی فی الشمائل، ح14)
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اگلے دانت مبارک کچھ کشادہ تھے۔جب آپصلی الله علیہ وسلم بات کرتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا، جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔“

علمائے کرام کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کلام‘ جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا‘ کونور سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن علامہ مناوی کی رائے یہ ہے کہ یہ کلام سے تشبیہ نہیں ہے، بلکہ یہ نور حسی تھا، جو بطور معجزہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے دانتوں سے نکلتا تھا۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ناک مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ناک مبارک باریک‘بلندی کی طرف مائل اور نور سے منور تھی۔حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:
”اَقْنَی الْعِرْنَیْنِ لَہُ نُوْرٌ یَّعْلُوْہُ، یَحْسِبُہ مَنْ لَمْ یَتَاَمَّلْہُ اَشَمَّ“ (شمائل ترمذی‘ ح7)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناک مبارک بلندی مائل تھی اور اس پر ایک نور تھا۔پہلی دفعہ دیکھنے والا آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت بلندناک والاسمجھتا، حالاں کہ ناک مبارک بہت بلند نہیں تھی(بلکہ حسن و چمک کی وجہ سے بلند معلوم ہوتی تھی)۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک نہ بہت زیادہ اُبھرے ہوئے تھے اور نہ بہت زیادہ دھنسے ہوئے تھے، بلکہ اعتدال اور توازن کا دل کش نمونہ تھے ۔ان میں ایسی سرخی مائل سفیدی تھی کہ گلاب کو پسینہ آجائے‘ایسی چمک تھی کہ چاند بھی شرما جائے‘ایسی گدازی تھی کہ شبنم بھی پانی بھرتی دکھائی دے اور ایسی نرماہٹ تھی کہ کلیوں کو بھی حجاب آئے۔حدیث کے الفاظ ہیں:”سَھْلَ الْخَدَّیْنِ“ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)نرم گداز رخسار والے تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک اعتدال کے ساتھ لمبی اور بہت خوبصورت تھی۔حضرت ہند بن ابی ہالہ نے آپ صلی الله علیہ وسلمکی گردن مبارک کو حسین و جمیل مورتی کی گردن سے تشبیہ دی ہے۔ یہ تشبیہہ بھی صرف فرضی ہے، ورنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اعضا کو کسی بھی چیز کے ساتھ تشبیہ دینا آپ صلی الله علیہ وسلمپر عیب لگانے کے مترادف ہے ۔حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
”کَاَنَّ عُنُقَہ جِیْدُ دُمْیَةٍ فِیْ صَفَاءِ الْفِضَّةِ“․ (شمائل ترمذی‘ ح8)
”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گردن ایسی خوب صورت اور باریک تھی)جیسا کہ مورتی کی گردن صاف تراشی ہوئی ہوتی ہے (اور رنگت میں) چاندی کی طرح پرنور تھی۔“

امام بیہقی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک کی بہت پیارے الفاظ میں تشریح کی ہے‘وہ لکھتے ہیں:
”آپ صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک تمام مخلوقاتِ خدا میں سب سے زیادہ خوب صورت تھی۔ نہ بہت زیادہ لمبی تھی اور نہ بہت زیادہ چھوٹی۔گردن کی پیٹھ جہاں سورج کی روشنی اور ہوا کا گزر ہوتا تھاوہ گویا چاندی کا ٹکڑا تھی۔آپ صلی الله علیہ وسلمکی گردن چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی سے زیادہ روشن اور خوب صورت تھی۔اور گردن کا وہ حصہ جس پر کپڑا نہیں ہوتا تھا وہ تو گویا چودھویں رات کا چاند تھا۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی کیفیت
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی کیفیت کے بارے میں احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپصلی الله علیہ وسلم کے بال نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ اتنے پیچ دار کہ جنہیں گھونگریالے کہا جا سکے‘بلکہ آپصلی الله علیہ وسلم کے بال مبارک ہلکے سے گھونگریالے تھے۔احادیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
”وَکَانَ شَعْرُہ لَیْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْط“ٍ ․ (شمائل ترمذی‘ ح2)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے بال نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچ دار۔“

”وََلَمْ یَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطِطِ وَلَابِالسَّبْطِ ‘ کَانَ جَعْدًا رَجِلًا“ (ایضاً‘ح6)
”(رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ) بال نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچدار‘بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لیے ہوئے تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی مانگ
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی مانگ کے بارے میں روایات دو طرح کی ہیں ‘ایک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قصداً مانگ نکالنے کا تذکرہ ہے جب کہ دوسری روایات میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلممانگ نکالنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔اس کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ دوسری قسم کی روایات ابتدائے زمانہ پر محمول ہیں کہ اولاً نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مشرکین ِمکہ کی مخالفت اور اہل ِکتاب کی موافقت کی وجہ سے مانگ نکالنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔بعد میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مانگ نکالنے کا قصداً اہتمام کرتے تھے۔حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
”اِنِ انْفَرَقَتْ عَقِیْقَتُہ فَرَقَھَا وَاِلَّا فَلاَ“․ (شمائل ترمذی‘ ح7)
”اگر سر کے بالوں میں خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے ورنہ (آپ صلی الله علیہ وسلم خود مانگ نکالنے کا اہتمام)نہ کرتے۔“

حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مانگ نکالنے اور نہ نکالنے کے حوالے سے کافی تفصیل موجود ہے ۔وہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کاموں میں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ)کی موافقت پسند کرتے تھے جن میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ آیا ہو۔اہل کتاب اپنے بالوں کی مانگ نہیں نکالتے تھے جبکہ مشرکین مانگ نکالتے تھے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے بالوں کو پیشانی پر ڈال دیتے، یعنی مانگ نہ نکالتے۔پھر بعد میں مانگ نکالنی شروع کردی۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی لمبائی
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی لمبائی کے بارے میں روایات مختلف ہیں‘بعض میں بالوں کی لمبائی کندھوں تک(جُمّہ)‘بعض میں گردن تک(لِمَّہ) اور بعض میں کانوں کی لو تک (وَفْرَہ) کا ذکر ہے۔ احادیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
”لَہُ شَعْرٌ یَضْرِبُ مَنْکِبَیْہِ ․“ (شمائل ترمذی‘ ح 4)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے بال کندھوں تک آتے تھے۔“

”عَظِیْمَ الْجُمَّةِ اِلٰی شَحْمَةِ اُذُنَیْہ“ِ (شمائل ترمذی‘ ح3)
”آپ صلی الله علیہ وسلم گنجان بالوں والے تھے، جو کانوں کی لو تک آتے تھے۔“

”یُجَاوِزُشَعْرُہ شَحْمَةَ اُذُنَیْہِ اِذَا ہُوَ وَفَرَہ“ (شمائل ترمذی‘ ح7)
”جب آپصلی الله علیہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کان کی لو سے متجاوز ہوجاتے تھے۔“

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کے حوالے سے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں:
”حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ‘اس لیے کہ بال ایک حالت پر نہیں رہا کرتے‘ کبھی کم ہوتے ہیں، کبھی زائد ہوجاتے ہیں۔اور قصداً بھی کم کیے جاتے ہیں‘کبھی بڑھائے جاتے ہیں۔“ (شرح شمائل ترمذی‘ص15)

بعض شارحین نے ان کی تطبیق یہ کی ہے کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلمبال بنواتے تو کانوں کی لو تک ہوتے‘کبھی ایک ماہ تک بال نہ بنواتے تو گردن تک پہنچ جاتے اور کبھی حالات کے مطابق (یعنی جب حالاتِ سفر میں ہوتے تو )کئی کئی ماہ تک بال نہ بنواتے تو کندھوں تک پہنچ جاتے ۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک
نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی اور گنجان تھی اور بالوں کا رنگ سیاہ تھا۔حدیث کے الفاظ ہیں:کَثُّ اللِّحْیَةِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)گھنی داڑھی والے تھے“اَسْوَدَ اللِّحْیَةِ (دلائل النبوة‘ج1‘ص217) ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)کی داڑی کے بال سیاہ تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مہر نبوت
اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو کچھ نہ کچھ امتیازات دیے ہیں، جو انہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر امتیاز عطا فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلمکے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ثبت کر دی، جو ختم نبوت کی تصدیق کرتی ہے۔یہ مہر نبوت رسولی کی طرح تھی جس پر بال تھے۔حضرت سائب بن یزید اپنے بچپن کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ میری خالہ مجھے دم کرانے کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا‘میرے لیے برکت کی دعاکی اور میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا:
”ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِہ فَنَظَرْتُ اِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ“․ (رواہ البخاری و مسلم)
”پھر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوا ‘پس میں نے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا جو مسہری کی گھنڈیوں کی طرح تھی۔“

نہ کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم جیسا ہوگا ‘نہ کوئی آپ جیسا تھا!
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ مبارک اور حسن و جمال ایسا کامل تھا کہ آپ اک شاہ کار نظر آتے تھے، جسے اس کے خالق نے بڑی محبت اور چاہت سے تخلیق کے سانچے میں ڈھالا تھا #

وہ اِک شہکارِ فطرت جس پہ خود خالق کو پیار آئے
آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم کا ہر عضو اور حصہ کمالِ حسن کو پہنچا ہوا تھا۔کسی ذی روح نے آپ جیسانہ آپ صلی الله علیہ وسلمسے پہلے کبھی دیکھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گا‘ اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلمہر اعتبار سے حسن کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ بلااختیار پکار اٹھا کہ ہم نے اس سے پہلے حسن و جمال کا ایسا پیکر کبھی نہیں دیکھا ۔

٭…  حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں:
مَارَاَیْتُ شَیْئًا قَطُّ اَحْسَنَ مِنْہُ․ (شمائل ترمذی‘ح3)
”میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی چیز (چاہے انسان ہو یا غیر انسان )نہیں دیکھی۔“

٭…حضرت علی جنہوں نے بچپن بھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ گزارا‘فرماتے ہیں:
لَمْ اَرَ قَبْلَہ وَلَا بَعْدَہ مِثْلَہ․ (شمائل ترمذی‘ح5)
”میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جیسا نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ کے بعد۔“

٭… حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں :
رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فِیْ لَیْلَةِ اَضْحِیَانٍ، وَعَلَیْہِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَاِلَی الْقَمَرِ، فَلَھُوَ عِنْدِیْ اَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ ․(شمائل ترمذی‘ح9)
”میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن فرمائے ہوئے تھے۔میں کبھی آپ صلی الله علیہ وسلمکی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف (یعنی میں فیصلہ کرنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے کو ن زیادہ خوب صورت ہے؟بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیاکہ)آپ صلی الله علیہ وسلم چاند سے بھی کہیں زیادہ جمیل و حسین اور منور ہیں۔“

٭…حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ شَیْئًا أَحْسَنَ مِنَ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم کَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِہ ․
”میں نے نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا، گویا ان کے چہرہ میں چمکتا سورج چلتا ہے۔“

٭…اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا:
لَرَاٰی زَلِیْخَا لَوْ رَاَیْنَ جَبِیْنَہ
لَاَثَرْنَ بِقَطْعِ الْقُلُوْبِ عَلَی الْیَدِ
”زلیخا کی سہیلیاں(جنہوں نے حضرت یوسف کے حسن کو دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو کاٹ لیا تھا)اگر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے دلوں کو کاٹ لیتیں۔“
نہ کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم سا ہوگا نہ کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم جیسا تھا
کوئی یوسف سے پوچھے مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا حسن کیسا تھا

٭… نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حسن کی جو تعبیر شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت نے کی ہے، وہ کسی شاہ کار سے کم نہیں ہے:
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
”آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ کسی ماں نے آپ سے زیادہ خوب صورت جنا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم تو ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں، گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے جیسا چاہا ویسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تخلیق کر دی گئی۔“ (سبحان اللہ!)

اختتامی کلمات
کچھ عنوانات ایسے ہوتے ہیں جن پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم بلکہ نہ ہونے کے برابر معلوم ہوتا ہے‘مثلاً سورة الکہف ‘آیت 109 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کے حوالے سے فرمایا:
”(اے نبی صلی الله علیہ وسلم!)کہہ دیجیے کہ اگرہوجائے سمندر روشنائی میرے ربّ کے کلمات (لکھنے)کے لیے تو ختم ہوجائے گا سمندر، پیشتر اس کے کہ ختم ہوں میرے ربّ کے کلمات۔ اور اگر ہم لے آئیں اس کے مثل اور روشنائی(تب بھی کلماتِ رب ختم نہ ہوں گے)۔“

اسی طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف ‘مدح اور حسن وجمال بھی ایک ایسا ہی عنوان ہے جس کو بیان کرنا شروع کریں تو اوراق کم اور سیاہیاں ماند پڑ جائیں۔بقول شاعر #
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے!

اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیَّدِناَ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ بِقَدْرِ حُسْنِہ وَ جَمَالِہ․

اَخذ و استفادہ
٭…شمائل ترمذی‘امام ترمذی (جن احادیث مبارکہ کے ساتھ حوالہ درج نہیں ہے وہ شمائل ترمذی کے باب اول سے لی گئی ہیں۔)
٭…دلائل النبوة‘ امام بیہقی
٭…وسائل الوصول الی شمائل الرسول‘یوسف بن اسماعیل النبہانی‘ مترجم: محمد میاں صدیقی
٭…شرح شمائل ترمذی‘ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا
٭…شرح شمائل ترمذی‘مولانا عبد القیوم حقانی
Flag Counter