خیر خواہی، مسلمان کا حق ہے
مفتی محمد جمال الدین قاسمی
اللہ کے ساتھ خیر خواہی
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میرے بندوں کی عبادت میں سے میرے نزدیک محبوب ترین عبادت میرے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے (مسنداحمدحدیث نمبر: 22191،مسند ابی امامہ) حضرت عبد اللہ ابن مبارک سے سوال کیا گیا کہ سب سے اچھا اور بہتر عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ خیر خواہی کرنا افضل وبہترعمل ہے۔(جامع العلوم والحکم 225/1) ابوثمامہ رضي الله عنه سابقہ مذہبی کتابیں پڑھا کرتے تھے، ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوة والسلام سے حواری حضرات نے دریافت کیا :اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیر خواہی کرنے والا کسے کہا جائے گا؟ آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے حق ادا کرنے سے پہلے خدا کا حق ادا کرتا ہو اور جب ایک ساتھ دو امور پیش آجائیں: ایک دنیا سے متعلق اور دوسرا آخرت سے متعلق تو آخرت کو ترجیح دے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد دنیا سے متعلق امر انجام دیا کرے۔(الزہد للوکیع، حدیث نمبر: 247)
اللہ کے ساتھ خیر خواہی کا مفہوم
اللہ کے ساتھ خیرخواہی کا مطلب یہ ہے کہ اسکی ذات وصفات پر ایمان لائے، سارے صفات کمالیہ اور جلالیہ سے اسے متصف مانے اور تمام نقائص سے منزہ اور پاک سمجھے، اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اوامر کو بجالائے، نواہی کے ارتکاب سے خود کی حفاظت کرے، اللہ کے مطیع اور فرماں بردار بندوں سے دوستی کرے اور نافرمانوں سے دوری اور قطع تعلق کرے، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گذار رہے اور تمام معاملات کو اخلاص اور رضائے خداوندی کے جذبہ کے تحت انجام دیا کرے اور ان امور کی لوگوں کو بھی نرمی وشفقت کے ساتھ دعوت دے۔
اللہ کے ساتھ خیر خواہی کے درجات
علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیر خواہی کے دو درجات ہیں، پہلا درجہ فرض اور ضروری کا ہے کہ اس کے انجام دیے بغیر چارہ نہیں، مثلا: حتی الوسع فرائض کو ادا کرے، محرمات سے بچے اور اگر کسی مرض یا عذر کی بنا پر اسے انجام نہ دے سکے تو اس بات کا عزم مصمم رکھے کہ اعذار ختم ہوتے ہی ہم اس کو ضرور ادا کریں گے، قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ جو ضعیف وکمزور اور بستر مرض پر پڑے حضرات جہاد میں بنفس نفیس شریک نہ ہوسکیں، اسی طرح جو معاشی لحاظ سے کم زور ہوں اور جہاد میں شریک ہونے والوں پر خرچ نہ کرسکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ طاقت سے زیادہ احکام کا کسی کو مکلف نہیں بناتا۔(البقرہ: 286)اور ان حضرات کو چوں کہ جہاد میں شرکت کرنے کی سکت نہیں ہے، اور مال بھی نہیں ہے کہ مجاہدین کے لیے اسباب جہاد مہیا کرسکیں، اس لیے گناہ نہ ہونے کی وضاحت کردی گئی، البتہ عدم شرکت اور عدم انفاق کے باوجود دل سے خدا اور رسول کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ رکھنا بہر حال ضروری ہے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو محسنین کی جماعت میں داخل ہیں اور خدا کی وسیع مغفرت ورحمت سے مستفید ہوں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَیْْسَ عَلَی الضُّعَفَاء وَلاَ عَلَی الْمَرْضَی وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُونَ مَا یُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُواْ لِلّہِ وَرَسُولِہِ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِن سَبِیْلٍ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم﴾ (التوبہ: 91)
کم طاقت لوگوں پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ ان لوگوں پر جن کو خرچ کرنے کو میسر نہیں، جب کہ یہ لوگ اللہ اور رسول کے ساتھ(اور احکام میں) خلوص رکھیں۔ (ان) نیکوکاروں پر کسی قسم کا الزام (عائد )نہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے، بڑی رحمت والے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعذار وموانع کی وجہ سے دیگراعمال شرعیہ موٴخر اورکبھی ساقط بھی ہوجاتے ہیں، لیکن اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ نصح وخیر خواہی ایسا مامور بہ ہے جو کبھی ساقط نہیں ہوتا ہے، دل سے تو انسان اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ بہر صورت ہوسکتا ہے، اس سے اس مامور بہ کی مزید اہمیت واضح ہوتی ہے۔
اور خیر خواہی کا دوسرا درجہ نفل کہلاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر محبوبات ومرغوبات کو اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کردے، دل میں اللہ کے مقابلے میں کسی اور کی محبت نہ ہو، اعضا وجوارح سے بھی صرف اس کے اوامر کو بجالایا جائے اور دنیا کی کسی چیز کو اللہ کے اوامرکے بجالانے میں حارج نہ سمجھاجائے اور اس پر دل میں فرحت وانبساط محسوس کرے، یہ درجہ بہت اونچاہے اور مقربین کو حاصل ہوا کرتا ہے۔(جامع العلوم والحکم220/1)
کتاب اللہ کے ساتھ خیر خواہی کا مفہوم
قرآن پاک خدا کی طرف سے بندوں کے لیے ایک پیغام ہے، اسے پڑھے، اس کے معانی ومطالب کو سمجھے، اس میں غوروفکر کرے، اس کے مطالبات پر عمل کرے اور ممنوعات ومحرمات سے بچے، جیسا کہ اپنے بڑوں اور عزیزوں کی طرف سے آئے ہوئے خطوط کو انسان سمجھنے اور اس کے مندرجات سے واقف ہونے کی کوشش کرتا ہے، اگر خود اس میں کام یاب نہیں ہوتا ہے کہ زبان سے واقف نہیں ہے، یا مضمون ہی سمجھ سے باہر ہے تو دوسروں کی خدمات حاصل کرتا ہے، لیکن بہرحال سمجھنے کی غیر معمولی کوشش کرتا ہے، یہی حال اس کا قرآن پاک کے ساتھ بھی ہونا چاہیے، خود اس زبان کو سیکھے اور اس کے مطالبات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اگر ابتدا میں ایسا نہ ہوسکے تو کوشش جاری رکھے اور واقف کار سے اس بارے میں راہ نمائی حاصل کرے، تلاوت کرنے میں اس کے حروف کی صحیح ادائیگی پر توجہ دے، غنہ، اخفاء، مد اور دیگر صفات کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے اور لحن جلی وخفی سے بچے ، آواز میں درد اور حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اسے عام کرنے کی کوشش کرے، تاکہ دوسرے حضرات بھی اسی طرح تلاوت کریں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھیں۔
اللہ کے رسول کے ساتھ خیر خواہی کا مفہوم
حضورصلى الله عليه وسلم کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رسالت کی تصدیق کی جائے، اللہ کی طرف سے جو بھی پیغام لے کر وہ آئے ہیں ان پر ایمان لایا جائے، ان کے اوامر ونواہی کی بجا آوری کی جائے، ان کی تعظیم وتوقیر کی جائے، احادیث وسنت کی نشرواشاعت میں حصہ لیا جائے، علوم حدیث کی تحصیل میں جدوجہد کی جائے اور اس سے منتسب افراد کی بھی توقیر وتعظیم کی جائے، ان کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ کیا جائے، اہل بیت اور صحابہ کرام سے اظہار محبت اور عزت وتکریم کا برتاوٴ کیا جائے، بدعات کو رواج دینے، انہیں عملی جامہ پہنانے اور صحابہ کی شان میں بے ادبی کرنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا جائے اور اخلاق وعادات میں حضورصلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام کواپنا نمونہ بنا جائے۔
علامہ آجری فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خیر خواہی کی دوصورتیں ہیں، ایک تو وہ حضرات ہیں جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی الله علیہ وسلمکی صحبت سے مستفید ہوئے اور ایک وہ ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد آئے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کا دیدار نہ کرسکے، تو جن حضرات نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ پایااور جنہیں عرف عام میں صحابہ جیسے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے ان پر اللہ تعالیٰ نے یہ لازم کیا تھاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وہ توقیر وتعظیم کریں، نصرت وحمایت کریں،آپ صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کو غورسے سنیں اور اس پر عمل کریں، ا ن حضرات نے اپنی یہ ذمہ داری بحسن وخوبی ادا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی وفاداری کی تعریف کرکے اس پر مہر تصدیق ثبت فرمادی۔
اور جو حضرات آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، بعد میں آئے مثلا: تابعین، تبع تابعین اور بعد میں آنے والے حضرات تو ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو محفوظ کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت تک اسے پہنچائیں اور احکام شریعت سے ان کو واقف کرائیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کریں، اگر وہ ان ذمہ داریوں کو نبھائیں گے توہ وہ وارثین انبیاء کہلائیں گے۔ (شرح بخاری لابن بطال 131/1) ، باب الدین النصیحة)
ائمہ مسلمین کے ساتھ خیر خواہی اور احادیث
ائمہ مسلمین میں مسلمان حکام اور علماء دونوں داخل ہیں، دونوں کے ساتھ خیر خواہی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا مستقل حکم ہے، ائمہ مسلمین کا متبادر معنی چوں کہ مسلمان حکم راں ہے؛ اس لیے ان کے تعلق سے احادیث میں جو تاکید ہے اسی طرح ان کے ساتھ خیر خواہی کا جو مفہوم ہے اسے مختصر طور پر ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے، حضرت ابوہریرةؓ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں سے خوش ہوتے ہیں اور تین باتوں سے ناراض ہوتے ہیں، جن تین باتوں سے خوش ہوتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراوٴ، دوسرے یہ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور تیسری بات یہ ہے کہ اپنے حکم رانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرو اور جن تین باتوں سے اللہ کو ناراضگی ہوتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان قیل وقال کرنا شروع کردے، مال ضائع کرنے لگے اور سوال کی کثرت کردے۔ (مسند احمد حدیث نمبر: 8799، مسند ابی ہریرہ) اور حضرت زید بن ثابت رضي الله عنه آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ تین صفات ایسی ہیں جن کے بارے میں کسی مسلمان کا دل کبھی بھی دغا نہیں کرسکتا، عمل میں اخلاص، مسلمانوں کے حکام کے ساتھ خیرخواہی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا، کیوں کہ جماعت مسلمین کی دعائیں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ (مسند احمد حدیث نمبر: ۲۱۵۹، مسند زید بن ثابت) حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں کہ ایک صاحب نے حضرت عمر بن خطاب رضي الله عنه سے دریافت کیا کہ میرا ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوف کھانا بہتر ہے یا اس سے بے پروا ہو کر اپنے کام کی طرف متوجہ رہنا اچھا ہے؟ جو اب میں آپ رضي الله عنه نے فرمایا کہ جو حاکم وقت ہو، اور مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار ہو، اسے تو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوف نہیں کھانا چاہیے اور جو حاکم وقت نہ ہو اور کوئی ذمہ داری اس پر نہ ہوتو وہ اپنی اصلاح میں لگا رہے اور اپنے امیر اور حاکم وقت کے ساتھ خیر خواہی کرتا رہے۔ (التمہید لابن عبد البر285/21)
ائمہ مسلمین کے ساتھ خیر خواہی کا مفہوم
مسلمان حکام کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ صحیح کاموں میں ان کا تعاون کیاجائے، ان کے احکام مانے جائیں، لوگوں کو بھی ماننے پر آمادہ کیاجائے، حدود سے تجاوز کرنے پر نرمی وملاطفت کے ساتھ انہیں نصیحت کی جائے اور مسلمانوں کے معاملات بہتر طور پر حل کرنے کی تلقین کی جائے، ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیاجائے ، لوگوں میں ان کی محبت عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ امام خطابی فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ خیر خواہی میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے، ان کے جھنڈے تلے جہاد کیا جائے اور اموال زکوٰة بیت المال میں جمع کیا جائے اور اگر ان کی طرف سے ظلم ہونے لگے تو پند ونصائح سے اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائی جائے، ان کے حق میں خیر وصلاح کی دعا کی جائے، ان کی واقعی تعریف کی جائے، خلاف واقعہ تعریف کرنے سے گریز کیاجائے، ان کے بارے میں لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں ہوں تو انہیں زائل کرنے کی جدوجہد کی جائے اور ان کے ساتھ حسن ظن سے کام لیا جائے۔
ائمہ مسلمین کو نصیحت کب کی جائے؟
حضرت مالک بن انس سے پوچھا گیا کہ حکام وقت کے پاس آدمی بغرض وعظ ونصیحت جا سکتا ہے، تاکہ اسے امور خیر کی طرف راہ نمائی کی جاسکے؟ آپ نے فرمایا کہ جب قبول کرنے کی توقع ہو تو جانا چاہیے اور اگر ایسی توقع نہ ہو تو پھر ان کے یہاں پندو نصیحت کے لیے جانا ضروری نہیں ہے۔(التمہید لابن عبد البر285/21) حضرت ابو عمرو فرماتے ہیں کہ اگر حکام وقت کو پندو نصیحت کرنے پر قادر نہ ہوتو صبر کرے اور صلاح وتقوی کی دعا کرے۔ (حوالہ سابقہ)
ائمہ مسلمین کو نصیحت کیسے کرے؟
ائمہ مسلمین کو نصیحت کرنے میں بڑی نزاکت ہے، ایک طرف ان کی حیثیت عرفی کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کو حق کی اطاعت کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے، بسا اوقات بھرے مجمع میں ٹوکنا ان کی حیثیت عرفی پر حملہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے، اس لیے تنہائی اور خلوت میں ان کو نصیحت کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص حاکم کو کسی معاملہ میں پندونصیحت کرنا چاہے تو علی الاعلان نصیحت نہ کرے، بلکہ تنہائی میں نصیحت کرے، اگر اس نے قبول کر لیا تو مقصد حاصل ہوگیا، ورنہ تو تم نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 15333، ومن حدیث ہشام بن حکیم) اس حدیث کی بنا پر علما نے لکھا ہے کہ حکام وقت کو نصیحت خلوت میں کی جائے، علانیہ نہ کی جائے، کیوں کہ نصیحت کے مفہوم ہی میں خیرداخل ہے، اور سراً نصیحت کرنے میں خیر کا پہلو غالب ہوا کرتا ہے، اس لیے اس کو ترجیح دینی چاہیے، البتہ کسی منکر پر انکار علانیہ ہوا کرتا ہے؛ اس لیے انکار تو علانیہ کرنا چاہیے، آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ جو کسی منکر کو دیکھے تو اس کی اصلاح اپنے ہاتھ سے کرے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے کرے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے اسے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔ (مسلم، حدیث نمبر: 49، باب بیان کو ن النہی عن المنکر من الایمان الخ) اور تنہائی میں نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات صرف ناصح اور منصوح کے علم میں ہو، دوسرے حضرات اس پر آگاہ نہ ہوسکیں، لہٰذا اگر کسی نے نصیحت تو تنہائی میں کی، لیکن بعد میں لوگوں کے سامنے واضح کردیا کہ میں نے حاکم وقت کو ایسا ایسا کہا ہے اور اس کے تحت انہوں نے فلاں حکم جاری کیا ہے، تو پھر یہ تنہائی کی بات نہیں ہے، بلکہ علانیہ ہوگئی، اس لیے اس سے ہر ناصح کو بچنا چاہیے اور اس کو اپنی فضیلت وبزرگی میں اضافہ کا ذریعہ نہ سمجھا جائے، کیوں کہ اس سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور حکام وقت کو اپنی ہتک عزت محسوس ہوتی ہے، اور پھر وہ نصیحت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے پوچھا گیا کہ حاکم وقت پر علانیہ انکار کیا جاسکتا ہے؟ آپ رضي الله عنه نے فرمایا: ایسا نہ کرو، ان کو نصیحت کرنی ہو تو تنہائی میں کرو۔( جامع العلوم والحکم 225/1) بخاری کی روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدرضي الله عنه کے پاس ایک جماعت آئی اور کہا کہ آپ حضرت عثمان رضي الله عنه کو نصیحت کیوں نہیں کرتے ہیں؟ آپ رضي الله عنه فرمایا کہ میں ان کو نصیحت کر چکا ہوں ؛لیکن میں علانیہ نکیر کر کے فتنہ کا دروازہ نہیں کھولوں گا۔(بخاری مع فتح الباری، حدیث نمبر: 7098 ،باب الفتنة التی تموج) اسی لیے سلف صالحین جب کسی کو نصیحت کرتے تھے تو تنہائی میں کرتے تھے، حضرت امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ جو تنہائی میں نصیحت کرتا ہے تو وہ واقعی خیر خواہ ہے اور جو علانیہ نصیحت کرتا ہے وہ فضیحت کرتا ہے۔ (مرقاة المفاتیح، باب الامر بالمعروف ،حدیث نمبر: 5137) حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے پوچھا گیا کہ حاکم وقت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جائے یا نہیں؟ آپ رضي الله عنه نے فرمایا کہ اگر تم کرنا چاہتے ہو تو تنہائی میں کرو، علانیہ نہ کرو۔(جامع العلوم والحکم 225/1) ایک صاحب نے مامون کو نصیحت کی اور اس نے سخت وسست جملے استعمال کیے، مامون نے کہا کہ تم سے بہتر آدمی نے مجھ سے زیادہ شریر شخص کو نصیحت کی تھی، مگر ان کو حکم تھا کہ نرمی وملاطفت سے نصیحت کرنا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کو نبی بنا کر فرعون کے پاس بھیجا تھا، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا تھا:
﴿فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّنًا لَّعَلَّہ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشٰی﴾ (طہ:44)
پھر اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید وہ (برغبت) نصیحت قبول کرلے، یا (عذاب الہی سے) ڈر جائے۔
ماتحتوں کی رعایت
جس طرح اسلام نے امیر اور حاکم وقت کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کی اطاعت فرماں برداری کا پابند بنایا ہے، اسی طرح امیر وحاکم کو بھی اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جو حاکم وذمہ دار اپنے ماتحتوں سے غفلت برتتا ہے، اس کے بارے میں بڑی وعیدیں آئی ہیں، حضرت معقل بن یسار رضي الله عنه آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس انسان کو کسی جماعت کا نگراں بنایا گیا اور وہ اس کے ساتھ خیر خواہی کا برتاوٴ نہیں کرتا ہے تو وہ جنت کی خوش بو بھی نہیں پائے گا۔ (بخاری، حدیث نمبر: 7150، باب من استرعی الخ) اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردے گا۔ (مسلم، حدیث نمبر: 142 ،باب استحقاق الوالی) اور ایک روایت میں ہے کہ ایسا حاکم اپنے ماتحتوں کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔ ( مسلم، حدیث نمبر: 142، باب استحقاق الوالی) حضرت ابن عمر رضي الله عنه آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ دار سے اس کے ماتحت کے متعلق سوال ہوگا، مرد اپنے گھروالوں کا ذمہ دار ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے، اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا، سن لوکہ ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ دار سے اس کے ماتحت کے بارے میں سوال ہوگا،(بخاری، حدیث نمبر: 2409، باب العبد راع فی مال الخ) اس لیے حاکم وقت کو بھی اپنی رعایا کے تعلق سے ہروقت فکر مند رہنا چاہیے، ان کے مسائل سے دل چسپی لینی چاہیے، ان کے دکھ در د اور آلام ومصائب میں شریک رہنا چاہیے، ان کے ساتھ خیر خواہی کا برتاوٴ کرنا چاہیے، ان سے صرف کام لینے کا طریقہ جاننے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ ان کے آرام، ذاتی ضروریات اور پیش آمدہ مسائل پر بھی سنجیدگی سے غور کر نا چاہیے۔
عامة المسلمین کے ساتھ نصیحت کا مفہوم
عامة المسلمین کے ساتھ نصح وخیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مصالح اور نفع بخش امور کی طرف راہ نمائی کی جائے، ان کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے، کم زوریوں کو دور کرنے پر توجہ دی جائے، دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کی جائے، دھوکہ نہ دیاجائے اور حسد اور کینہ ان سے نہ رکھا جائے، ان کی لیے وہی چیز پسند کی جائے جو اپنے لیے پسند ہو، اگر وہ فسق وفجور میں مبتلا ہوں تو نرمی کے ساتھ ان کو سمجھا یاجائے، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا اکرام کیاجائے، ان کی عزت وآبرو پرحرف آرہا ہو یا مال ودولت پر کسی قسم کا حملہ ہورہا ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے، محتاجوں کی مدد کی جائے، جاہلوں کی جہالت کو ختم کرنے کی جدوجہد کی جائے، اگر اپنی دنیا کا نقصان کرکے بھی دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی شکل بن سکتی ہو تو اس سے بھی گریز نہ کیاجائے،سلف صالحین کہا کرتے تھے کہ اگر مخلوق اللہ کی اطاعت وفرماں بردای میں لگ جائے اور اس کے نتیجے میں میرے جسم کا گوشت قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تو بھی میں اس پر تیار ہوں (جامع العلوم والحکم223/1)
حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے تھے کہ کاش! میں خدائی حکم کو روئے زمین پر نافذ کرتا اورمیں بھی اس پر عمل کرتا اور لوگ بھی اس کی پابندی کرتے اور اس کے نتیجے میں میرا ایک ایک عضو گرتارہتا، حتی کہ آخری حکم کی تنفیذ کے ساتھ میری روح بھی تن سے جدا ہوجاتی ۔(جامع العلوم والحکم 223/1)
کاش ! نصح وخیر خواہی کے بارے میں ایسے ہی بلند خیالات ہم لوگوں میں بھی عام ہو جائیں اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں اس پرعمل پیرا ہوجائے، تاجر اپنی تجارت میں، کارخانے کامالک اپنی ایجادات میں، معلم اپنے شاگرد کے بارے میں، باپ اپنے بیٹے اور افراد خانہ کے بارے میں، شوہر اپنی شریک حیات کے بارے میں، کاشت کار اپنی زراعت میں، طالب علم اپنے مذ۱کرہ اور اپنے مدارس وجامعات کے بارے میں، معالج مریض کے حق میں اور آجر مزدور کے حق میں ویسا ہی خیر خواہ بن جائے تو یہ دنیا جنت نشاں بن جائے گی اور کسی کو دوسرے سے تکلیف نہیں پہنچے گی اور ہر ایک بھائی بھائی بن کر زندگی گذارے گا۔
نصیحت کے وقت درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھے
نصیحت کرتے وقت اگر چند باتوں کو ناصح ملحوظ رکھے تو اس سے فائدہ کی توقع زیادہ ہے۔
نرمی وملاطفت سے نصیحت کرے، خفگی کا اظہار نہ کرے، سخت وسست جملوں کے استعمال سے پرہیز کرے، بسا اوقات خشونت ودرشتی سلجھے ہوئے کاموں کو بھی الجھادیتی ہے،۔
موقع ومحل دیکھ کر نصیحت کرے، بے موقع نصیحت کا اثر الٹا پڑتا ہے، بے محل گفتگو کرنے سے بھی مخاطب پر اچھا اثر نہیں پڑتا ہے اور ایک طرح کا تکدر پیدا ہوجاتا ہے، جو قبولِ نصیحت کے لیے مانع بن جاتا ہے۔
نصیحت ایک کڑوی چیز ہے، اس لیے ناصح کو حکمت سے کام لینا چاہیے، نصیحت کے لیے عمدہ الفاظ اور اچھے اسلوب کو اختیار کرنا چاہیے، اسی لیے قرآن پاک میں حکمت اور موعظہٴ حسنہ کے ساتھ دعوت دینے کی تلقین کی گئی ہے اور اسے پہلے اور دوسرے نمبر پر ذکر کیا گیا ہے، جب کہ جدال حسن کو تیسرے نمبر پر جگہ دی گئی ہے۔(النحل: 125)
نصیحت کرتے وقت ناصح خود کو مخاطب سمجھے، سامنے والے شخص کو مخاطب نہ سمجھے، ایک مرتبہ حضرت حسین وحسن رضی الله عنہما نے ایک بوڑھے شخص کو صحیح طور سے وضو نہ کرتے ہوئے دیکھا تو ان میں سے ہر ایک وضو کرنے لگے اور بوڑھے سے کہا کہ آپ ہم دونوں کے بارے میں فیصلہ کریں کہ کون صحیح وضوکرتا ہے، بوڑھے نے غور سے دیکھنے کے بعد کہا کہ تم دونوں صحیح کرتے ہو، میں نے ہی غلط وضو کیا تھا۔ اس حکمت سے ان دونوں نے ایک بوڑھے کو نصیحت کی اور اسے احساس بھی نہیں ہوا۔
نصیحت کا جواب اگر تلخی سی ملے تو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، ناصح کی ہمیشہ یہی تاریخ رہی ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بد سلوکی کی گئی ہے، پھولوں کے تاج کے بجائے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا ہے، اسے خیر خواہ سمجھنے کے بجائے بدخواہ سمجھاگیا ہے، انبیاء اور مصلحین قوم کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے، اس لیے کام کرتے رہنا چاہیے ، ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔