Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 14
اسلامی مملکت میں حکم رانوں کااحتساب
مولانا سیداحمدومیض ندوی
اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے،اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے،لیکن اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے،یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے گربھی سکھاتاہے، عیسائیت کی طرح اسلام”کلیسا“ اور” ریاست“ کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا،بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:

”اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناں چہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کم زورپڑتاہے تو حکومت بھی کم زورپڑجاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہو تی ہے تودین بھی کم زورپڑجاتاہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔“(محاضراتِ شریعت :ص287)

اسلامی مملکت کیا ہے؟ اور مملکتِ اسلامیہ میں حکم رانوں کے احتساب کی حدود کیا ہیں؟اس قسم کی تفصیلات میں جانے سے قبل ضروری معلوم ہوتاہے کہ پہلے مملکت اسلامیہ کے اجزائے ترکیبی پر روشنی ڈالی جائے اوریہ بتایا جائے کہ اسلامی مملکت کن عناصرسے تشکیل پاتی ہے یا وہ کونسے اصول ہیں جو مملکتِ اسلامیہ میں تشکیلی عناصرکا کردار اداکرتے ہیں۔

اسلامی مملکت کے اجزائے ترکیبی
اسلامی مملکت کے اجزائے ترکیبی یا اس کے بنیادی اصول کودرجِ ذیل نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ عقیدہٴ توحید ۔ عبدیت۔ خلافت ونیابتِ الہی۔ ان تین اجزائے ترکیبی کے وجود میں آ نے سے درجِ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔نیابتی حکومت ۔امانتِ الہی ۔تحکیم بالعدل۔ مساوات۔ شوری۔

عقیدہٴ توحید
مملکتِ اسلامی یا سیاست شرعیہ کی سب سے اہم بنیاد عقیدہٴ توحیدہے،یعنی سارے انسانو ں کامعبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، انسان کوچاہیے کہ وہ اسی کے آگے سر جھکائے، اسی سے مانگے ،اُسے کار ساز جانے،قرآن مجید میں عقیدہٴ توحیدکومختلف انداز سے باربار واضح کیا گیا ہے، ارشادِباری ہے:﴿ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ھوخالق کل شيء فاعبدوہ وھوعلی کل شيء وکیل﴾ (الانعام:102) وہی ایک اللہ تمہارا رب ہے اس کے سواکوئی معبود حقیقی نہیں(وہی)ہرچیز کاخالق ہے،پس تم اس کی بندگی کرواور وہ ہر چیزکانگہبان ہے۔ عقیدہٴ توحید کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان غیراللہ کی غلامی سے نکل کرصرف ایک اللہ کی غلامی میں آجاتا ہے؛ چناں چہ ،ایک مسلمان صرف خداہی کے احکام پرچلتا ہے اورجب وہ کسی غیرمسلم کواسلام کی دعوت دیتاہے تودراصل اسے غیراللہ کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں لاتاہے،جب رستم کے دربارمیں صحابیٴ رسول رِبعی بن عامرسے ان کی آمد کامقصد پوچھاگیاتوانہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اللہ نے ہمیں بھیجا ہے، تاکہ ہم، جسے اللہ نے چاہااسے بندوں کی بندگی سے نکال کراللہ کی بندگی کی طرف لے آئیں:اللہ ابتعثنا لنُخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة اللہ وحدہ․

عبدیت
عقیدہٴ توحیدجب کسی کے اندرون میں راسخ ہوجاتاہے تو اس میں عبدیت کی روح پیدا ہو جاتی ہے اورعبدیت وہ عظیم جوہر ہے جس کے حاصل ہونے سے بندہ کو ہر قسم کی ذہنی و مادی قوتوں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے اورانسان ساری جکڑبندیوں سے چھٹکارا حاصل کرلیتاہے اورغیراللہ کی غلامی کابوجھ اتارپھینکتاہے اوراسے ان مختلف دنیوی خداوٴ ں سے نجات حاصل ہوجاتی ہے جن کی وجہ سے ظلم وستم کابازارگرم ہوتاہے اورایک انسان دوسرے انسان کادشمن اورایک جماعت دوسری جماعت سے نفرت کرتی ہے۔اللہ کی غلامی انسان میں خودغرضی اورتنگ نظری کو جڑسے اکھیڑدیتی ہے،اس کی جگہ خدا کے دوسرے بندوں کے ساتھ ہم دردی اورخیرخواہی کے جذبات کوپروان چڑھاتی ہے۔

خلافت ونیابتِ الہٰی
مملکتِ اسلامی یا اسلامی سیاست کاتیسرا عنصرخلافت ونیابت الہی ہے،یعنی انسان خداکابندہ ہونے کے ساتھ دنیا میں اس کا خلیفہ اور نائب ہے،یعنی اللہ کی زمین میں اللہ کے احکام کانفاذکرکے نیابتِ الہی کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے اپناخلیفہ اورنائب ہونے کی حیثیت سے حضرتِ انسان کوکچھ قوتیں اور محدودقدرتیں عطاکی ہیں،تاکہ انہیں استعمال میں لاکروہ زمین پر اللہ کے احکام نافذ کرے،قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے اس خلافت و نیابت الہی کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا: ﴿انی جاعل فی الارض خلیفة﴾ (البقرة:32) میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والاہوں۔خلافت کسے کہتے ہیں؟ ”اسلام اور فلسفہٴ سیاسیات“کے مولف اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”خلافت کے لغوی معنی جانشینی کے ہیں اورخلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کی مِلک میں اس کے سونپے ہوئے اختیارات کو بحیثیتِ نائب استعمال کرے ۔خلافت میں اختیارات تفویض کردہ ہوتے ہیں،خلیفہ اس مِلک کا بذاتِ خودمالک نہیں ہوتا، بلکہ مالکِ حقیقی کانائب ہوتا ہے،اس وجہ سے اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ عطاکردہ ہوتے ہیں،وہ اپنے منشا ٴ اورمرضی کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا،بلکہ اس کامقصدمالک کی منشا اور مرضی کو سامنے رکھ کران اختیارات کو استعمال کرنا ہوتا ہے“۔(اسلام کافلفسہٴ سیاسیات :80)

چوں کہ کائنات کا مالک ِ حقیقی اللہ تبارک وتعالی ہے،اس لیے کائنات میں اسی کا منشا چلے گا۔اور حکومتِ اسلامی میں اصل اقتداراعلیٰ اسی ربِ کائنات کو حاصل ہے، مملکتِ اسلامی میں خلیفہ حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کانائب اور اس کے تفویض کردہ اختیارات کے صحیح استعمال کا پابند ہوتاہے،سیاستِ شرعیہ اورمملکتِ اسلامی کے مذکورہ بالا تینوں تشکیلی عناصر کے مطالعہ سے جونتائج برآمد ہوتے ہیں ان میں اولین نتیجہ یہ ہے کہ مملکتِ اسلامی دراصل ایک نیابتی حکومت ہے،جسے حکومتِ الہی کی شکل میں اللہ تعالی اپنے بندوں کے سپرد کرتاہے، قرآنِ مجید میں اس حکومت کو خلافت سے تعبیر کیا گیاہے، ارشادِباری ہے:

﴿وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم﴾․(النور:55)
تم میں جو لو گ ایمان لائے اورانہوں نے عملِ صالح کیے،اللہ نے ان سے وعدہ کیاہے کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا،جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔

خلافت جب نیابتِ الہی ہے تو لا محالہ وہ خلیفہ کے ہاتھ میں خداکی امانت ہے،قرآنِ مجید کی آیت:﴿اناعرضنا الامانة علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان﴾․ (الاحزاب :72) میں جس امانت کاذکرہے ،اس میں بالواسطہ حکومت بھی شامل ہے ۔چناں چہ صاحب البحر المحیط علامہ ابوحیان غرناطی ا س آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”انسان عظیم وجلیل ذمہ داریوں کا مکلف ہے، ان کا صحیح استعمال اوراس احساس کے ساتھ ساتھ خداکی حکومت میں وفاداری امانت ہے،جب تک حکم کی اطاعت کی جائے گی امانت باقی رہے گی،کیوں کہ آغازِ تخلیق سے امانت کا تعلق حکومت سے رہاہے۔“(البحر المحیط72/6)

علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:”سنتِ رسول اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ولایت و حکومت ایک امانتِ الہی ہے ،جس کا ادا کرنا اس کے موقع ومحل میں واجب ہے۔“(سیاستِ الہیہ:ص20)جب خلیفہ کے ہاتھ میں حکومت امانت ہے تو یہ ضروری ہے کہ خلیفہ اس امانت کا حق ادا کرے اوراس کا حق یہ ہے کہ عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرے، چناں چہ اللہ نے جہاں امانتوں کے لوٹانے کا حکم دیا ،اس کے فوری بعد فرمایا:﴿واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل﴾ ․(النساء :58)اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کے فیصلے کرو،تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ تہذیبِ اسلامی میں عدل کامطلب یہ ہے کہ قانونِ الہٰی سب کے لیے یکساں ہے،وہ مملکت کے ادنی شخص سے لے کر اعلی تک، سب پر یکساں نافذ ہوگا،قانونِ الہی کے نفاذ میں کسی بھی شخص کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا،اس طرح عدل اور مساوات مملکتِ اسلامی کے نظامِ حکومت کی اساس ہیں۔

شوریٰ مملکت اسلامی کاایک اہم بنیادی اصول
نیابتِ الہی اور امانتِ الہی جیسی ٹھوس بنیاد رکھنے والی اسلامی مملکت میں شوریٰ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،شوریٰ مملکتِ اسلامی کاایک بنیادی عنصر ہے،جس کے بغیر سیاست شرعیہ اور اسلامی حکومت نامکمل کہلائے گی۔ شوریٰ اسلامی نظامِ حکومت کی شناخت،شریعتِ اسلامی کی روح،اسلامی خلافت وسیاست کی اہم بنیاد ،اسلام میں قانون سازی کی اساس اورمسلم حکم رانوں کے لیے ایک لازمی وصف کی حیثیت رکھتی ہے،قرآن وسنت میں شوریٰ کی جس طرح تاکید آئی ہے اس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے، قرآن مجیدمیں دو مقامات پرواضح اندازمیں شوریٰ کاحکم ہے،ارشادہے: ﴿وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ﴾․(آل عمران) حکومت و انتظام کے معاملہ میںآ پ لوگوں سے مشورہ کریں،اورجب آپ متعلقہ معاملہ میں عزم کریں تو اب اللہ پر اعتماد کیجیے۔دوسری آیت سورہ شوریٰ کی ہے:﴿وامرھم شوریٰ بینھم﴾(شوری)ان کے درمیان معاملات باہم مشورہ سے انجام پاتے ہیں۔فقہاء کے درمیان شوری کے وجوب پر اتفاق ہے،امام ابن عطیہ لکھتے ہیں کہ” شوری شریعت کے قوانین میں سے ایک بنیادی قانون ہے اورحکومت کے اہم فیصلوں کی اساس ہے“۔(الوجیزفی التفسیر609/1) شوریٰ کی اہمیت کے لیے بس یہی ایک بات کافی ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باوجود منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے شوریٰ کا حکم دیا گیا،حضرت ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ جب شوری کا حکم آیا توحضور نے فرمایا کہ:
” اگرچہ اللہ اور اس کا رسول شوریٰ سے بے نیاز ہے، مگر شوریٰ کا یہ حکم اس لیے آیا تاکہ امت کے لیے رحمت ہواورامت کے افرادکبھی اعلی درجہ کی رہنمائی سے محروم نہ ہوں“۔

اس آیت کے ذیل میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ: ” آپ پر وحی نازل ہونے کے باوجوداپنے صحابہ سے مشورہ کا حکم محض اس لیے تھا کہ قوم کا ضمیر مطمئن ہوجائے اورشوریٰ امت کے لیے قانون بن جائے۔“(فتح الباری286/3)

آپ صلی الله علیہ وسلم کوبظاہر مشورہ لینے کی ضرورت نہیں تھی، اس کے با وجود آپ تمام اہم معاملات میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیتے تھے ۔ چناں چہ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرنے والا انسان نہیں دیکھا۔غزوہٴ بدرکے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابتدا میں اپنے صحابہ سے مشورہ کیا،جب قریش اپنے تجارتی قافلوں کی حفاظت کی خاطرنکلے توآپ نے پھر اپنے صحابہ سے مشورہ کیا،اسی طرح غزوہٴ احد کے موقع پر دشمنوں سے جنگ کرنے کی نوعیت کے سلسلہ میں صحابہ سے مشورہ کیا،غزوہ ٴ احزاب میں سلمان فارسی کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے خندق کھودنے کا حکم دیا، نیز مدینہ کے تہائی پھلوں کے عوض قبیلہٴ غطفان سے مصالحت سے متعلق صحابہ سے مشورہ کیا،قبیلہ ہوازن کے لوگ جب مشرف باسلام ہوئے تو اس قبیلہ کے قیدیوں کی رہائی کے تعلق سے بھی صحابہ سے مشورہ کیا،اسی طرح طائف کا محاصرہ جاری رکھنے یا محاصرہ اٹھالیے جانے سے متعلق حضرت نوفل بن معاویہ سے مشورہ کیا ۔

شوریٰ کی حیثیت
شوری اسلامی نظامِ حکومت کا ایسا امتیازہے کہ موجودہ جمہوری نظام کسی طرح اس کی ہم سری نہیں کرسکتا،شوری پر مبنی اسلامی نظامِ حکومت میں سربراہ مملکت کے انتخاب سے لے کر چھوٹے بڑے تمام معاملات ارباب ِ حل وعقد کے اجتماعی مشورہ سے طے پاتے ہیں، شوری کی حیثیت کیا ہے؟ اس تعلق سے علمائے کرام کی توضیحات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی  کے مطابق شوری کا مفہوم آرا کا حاصل کرنا ہے، اس کی دو جہتیں ہوتی ہیں ،ایک طرف رائے لینے والے ہوتے ہیں تو دوسری طرف رائے دینے والے سیاسی اربابِ اقتداراہم اجتماعی امور میں دوسرے فریق کی رائے کے مطابق سلامتی و کام یابی کے پیشِ نظر کسی فیصلہ پر پہنچ جاتے ہیں اوراسی کانام شوریٰ ہے۔(مفردات القرآن325/2) ابوحیان اندلسی کے یہاں شوری کے مخاطب امت مسلمہ کے تمام افراد ہیں،جس کے تحت لازم ہے کہ امت کے افراد اجتماعی شکل میں بیٹھ کر متعلقہ مسئلہ پراپنی عقل وفراست کے مطابق غور وفکر کریں ۔(البحرالمحیط98/3)صاحب تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ شوری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:” شوری کی روح یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد کسی مسئلہ میں اپنے علم اور قابلیت کے مطابق اپنے افکار وخیالات کوپیش کردے اورپھرباہمی تال میل سے کوئی فیصلہ لیاجائے۔(تفسیر مظہری162/2) اسلامی مملکت میں حکم رانوں کے احتساب کا مسئلہ اسلام کے شورائی نظامِ حکومت سے جڑا ہوا ہے،اس لئے مملکت اسلامی میں اربابِ حل وعقد پر مشتمل شوریٰ اور سربراہِ مملکت کی شورائی حیثیت کیا ہے اسے جاننا از حد ضروری ہے، مملکت اسلامی میں شوری کی اہمیت وافادیت اوراس کے وجوب کے تعلق سے کسی کو اختلاف نہیں، اس لیے کہ شورائیت ظلم واستبداد اور انانیت وانفرادیت کی جڑوں کو کاٹ دیتی ہے،ہر معاملہ میں بہتر سے بہتر شکل کو اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے،فرد وجماعت میں سے مملکت ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتی ہے،جماعتوں کو صحیح راستہ دکھاتی ہے اور اسے اسلام کے سیاسی نظام میں اساسی رکن کی حیثیت حاصل ہے۔اگر شوری فرد کے لیے صاحب خانہ کے لیے اورمصلح کے لیے ضرور ی ہے تو ہر ایک قائد کے لیے اس کی پابندی ان تمام لوگوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ (ترجمہ: الشوری ودورھافی اصلاح الفردوالمجتمع :ص16)

ہاں البتہ اس میں اختلاف ہے کہ آیا کسی بھی فیصلہ کو اکثریت کی رائے کے مطابق لیا جائے گااورامیر وحاکم کے لیے اس فیصلہ کو نافذکرنا واجب ہوگا ،یااکثریت کی رائے کے باوجود امیروحاکم اپنی رائے پر عمل کرسکتا ہے؟بعض عرب علماء کا کہنا ہے کہ امیرپر شوری کی اکثریت کا فیصلہ ماننا ضروری نہیں،ان کا کہنا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بعض معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے کے خلاف فیصلہ لیا،مسلمانوں میں اکثریت کی رائے تھی کہ صلح نامہ کاآغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا جائے ،لیکن آپ نے باسمک اللھم سے شروع کرنے کی کفارکی شرط کو قبول فرمالیا،تمام مسلمانوں کا کہنا تھاکہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر ہمارے درمیان آ جاتاہے توپھر ہم اسے مشرکین کی طرف نہیں لوٹائیں گے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویزکو قبول نہیں کیا،نیز آپ نے صلح کی تمام شرطوں کوخاموشی کے ساتھ تسلیم کرلیا،جب کہ ان شرطوں کے خلاف مسلمانوں میں غم وغصہ تھا ،صلح حدیبیہ کو لے کرڈاکٹرحسن ہویدی اور ان کے ہم نوا ہل علم کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ امیر یا حکم ران مجلس شوری کی رائے کا پابند نہیں ہے۔(الشوری فی الاسلام،ڈاکٹرحسن ہویدی:ص 11,12) لیکن صلح حدیبیہ سے اس فریق کا استدلال ا س لیے درست نہیں کہ یہ سب کچھ آپ نے وحی کی بنیاد پر فرمایا تھا،اوریہ بات طے ہے کہ نص قطعی کی موجودگی میں شوری کی گنجائش نہیں رہتی۔(الشوری وآثرھا فی الدیموقراطیة :ص133) اس مسئلہ کی تنقیح کے لیے براہ راست قرآن وسنت اور تعاملِِ خلفائے راشدین کی طرف رجوع مناسب معلوم ہوتاہے،جیساکہ سطور گزشتہ میں بتایا گیا،شوری کے تعلق سے قرآن مجید میں دو جگہ تاکید کی گئی، ان میں سے ایک کا تعلق تو براہ راست حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے اور وہ: ﴿وشاورھم فی الامر فاذاعزمت فتوکل علی اللہ﴾ہے اور دوسری آیت:﴿وامرھم شوری بینھم﴾ ہے، جس کا تعلق امت سے ہے۔صاحبِ اصول الفقہ شیخ عبدالوہاب خلاف ﴿شاورھم﴾کے اشارة النص سے استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”المثال الثالث لإشارة النص: فاعف عنھم واستغفر لھم وشاورھم فی الامر یفھم منہ الاشارة ایجاب ایجاد من الایة تمثلھا وتستشار فی امرھا، لان تنفیذ الامر ومشاورة الایة یستلزم ذلک“․ (اصول الفقہ:ص246)

”اشارةالنص کی تیسری مثال ﴿وشاورھم فی الامر﴾ہے،اس سے اشارة النص کے طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امت میں ایک ایسی جماعت کا پیدا کرناواجب ہے جوامت کی نمائندہ ہو اور جس سے امت کے معاملات میں مشورہ کیا جائے، اس لیے کہ مشورہ کے بعد تنفیذلازم ہے۔“

اسی طرح مصرکے دوسرے عالم الشیخ ابوزھرة آیتِ بالا کوبطور مثال پیش کرکے لکھتے ہیں:
” یہ آیت عبارة النص سے یہ بتلاتی ہے کہ اسلامی حکومت مسلمانوں کے درمیان شوریٰ کی اسا س پر قائم ہوگی اور یہی آیت دلالت التزامی کے طور پر بتلاتی ہے کہ امتِ مسلمہ میں سے ایک ایسی جماعت کا انتخاب واجب ہے جو حاکم پر نگراں ہواور نظامِ حکومت کی تشکیل میں حاکم کے ساتھ شریک کار ہو۔“(اصول الفقہ:ص135)

اسی طرح سورہ نساء کی آیت :﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم﴾․ (النساء: ) سے بھی حاکم پر شوریٰ کی بالا دستی کے لیے استدلال کیا گیا ہے،اس کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ طنطانوی لکھتے ہیں:
”ارشاد باری ﴿واولی الامر منکم﴾ میں مرادامم اسلامیہ کے اربابِ حل وعقد ہیں،جن کے درمیان تمام معاملات باہم مشورہ سے طے ہوتے ہیں اور اکثریت کی رائے کے مطابق عمل ہوتا ہے۔(تفسیر الجواہر:54/3)

جہاں تک احایث رسول کا تعلق ہے تو ان سے بھی شوریٰ کی بالادستی ثابت ہوتی ہے،ارشادباری ہے:
”عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اذاکان امراء کم خیارکم واغنیاء کم سمحاء کم وامورکم شوریٰ بینکم فظھر الارض خیر لکم من بطنھا، اذاکان امراء کم شرارکم واغنیاء کم بخلاء کم وامورکم الی نساء کم فبطن اللارض خیرلکم من ظھرھا“․(ترمذی51/2)

حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے حکمراں تم میں کے بہتر افراد ہوں اورتمہارے اغنیا سخی ہوں اور تمہارے معالات شوری سے طے ہوتے ہوں تو زمین کی پشت تمہارے لیے زمین کے اندرون سے اچھی ہے اور جب تمہارے امراتم میں سے بد ترین افراد ہوں اور تمہارے اغنیا بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو زمین کا اندرون تمہارے لیے زمین کی پشت سے بہترہے۔

حدیث کی وضاحت کرتے ہوتے ہوئے مولانا ریاست علی بجنوری لکھتے ہیں :
”اس ارشاد میں امورکم شوری بینکم بالکل عام ہے کہ تمام معاملات کا شوری کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے ،اگر خدا نخواستہ یہ وصف زائل ہوگیا تو امت کو زوال سے کون بچائے گا؟اصول فقہ کی اصطلاح میں اس کی تعریف اس طرح کی جائے گی کہ کسی حکم کے ساتھ کوئی حد یا کوئی وعید وارد ہوجاتی ہے تو اس سے وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہاں شوری سے معاملات طے نہ کرنے پر شدید وعید آ ئی ہے کہ تمہارامر جانا بہتر ہے،اس لیے آپ کے ارشاد سے شوری کا وجوب سمجھاجائے گا(شوری کی شرعی حیثیت:ص235)

اس سلسلہ کی اور ایک حدیث زیادہ واضح ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت مستخلفا احداعن غیرمشورة لاستخلفت ابن ام عبد ․
اگر میں مشورہ کے بغیرکسی کوخلیفہ بناتا تو ابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود) کو خلیفہ بناتا۔

اس سے زیادہ کیا صراحت ہوگی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے بارے میں فرما رہے کہ میں بھی کسی کو مشورہ کے بغیر خلیفہ مقرر نہیں کروں گااورجب آپ بھی مقررنہیں فرمائیں گے تو امت کے دیگرافراد کویقینا اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ استبداد بالرائے کے طور پر اس طرح کا کوئی اقدام کریں۔(حوالہ ٴ سابقہ)

چھٹی صدی کے مشہور مفسر ابن عطیہ کہتے ہیں کہ :
”شوری شریعت کے اساسی قوانین اور واجب احکام میں سے ہے، جوخلیفہ یا امیر اہل علم یا اہل دین سے مشورہ نہ کرے،اسے معزول کر دینا واجب ہے، یہ وہ نقطہٴ نظر ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔“ (البحرالمحیط19/3)

اس تعلق سے حضرات خلفائے راشدین کا نمونہ پیش کرنا مناسب معلوم ہوتاہے ،شوری کی بالا دستی اور حاکم وسربراہ کے احتساب کے جوازکا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں اکثریت کی رائے کوترجیح دی جائے توامیرکی رائے بھی عام لوگوں کی رائے کے برابر سمجھی جائے گی ،خلافت راشدہ میں اس کے نمونے ملتے ہیں، حضرت عمر  نے عراق اور شام کی زرخیز مفتوحہ زمینوں کے تعلق سے مجلس شوری بلائی اوراس میں انہوں نے تمہیدی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
”انی لم ازعجکم الا لان تشترکوا فی امانتی فیما حملت من امورکم، فانی واحد کاحدکم“ (کتاب الخراج للقاضی أبي یوسف:ص14)

میں نے آپ حضرات کوصرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس بار امانت میں شریک ہوں جومیرے اوپرڈال دیا گیا ہے اورا س مجلس شوری میں میری حیثیت تم میں سے کسی ایک فردکے برابر ہے۔

ا س کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناریاست علی بجنوری لکھتے ہیں:
”حضرت عمر  کا ارشاد ”وانی واحد کاحدکم“ شوری کے موقع پر امیر کا درجہ متعین کرنے میں نص صریح کا درجہ رکھتی ہے،اس تمہیدی تقریر میں آگے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تمہارے سامنے قرآن موجود ہے، میں نہیں چاہتا کہ آپ میری ہویٰ (خواہش یعنی رائے) کے مطابق بات کہیں، بلکہ قرآن کریم کے مطابق جو صحیح موقف ہواس کے مطابق رائے دیں،میری رائے تم میں سے کسی ایک فردکے برابرہے۔(شوری کی شرعی حیثیت:296)

مختصر یہ کہ اسلامی حکومت کا حکم ران اپنے تمام معاملات میں ارباب حل وعقد اور مجلس شوری سے مشورہ کا پابند ہے اور حکم راں کے کسی غلط اقدام یا اس کے کسی غلط طرز عمل پر شوری کے ارکان اس کااحتساب کر سکتے ہیں اور وہ مجلس شوریٰ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، اس کی حضرت ابو بکر وعمر کے ان خطبات سے بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے خلیفہ بننے کے بعد عامة المسلمن کی موجودگی میں ارشاد فرمائے تھے،حضرت ابوبکر نے خلافت کی بیعت کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں لوگوں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”اے لوگو! میں تمہارا ذمہ دار بنایا گیا ہوں،حالاں کہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں،اگرمیں صحیح کام کروں گا تو تم لوگ میری مددکرنا،اگر میں غلط کام کروں گا تو تم لوگ میری اصلاح کردینا،جب تک میں اللہ اور رسول کی اطاعت کروں گا تم لوگ میری اطاعت کرنااوراگر میں کسی معاملہ میں اللہ اوررسول کی نافرمانی کروں توا س صورت میں تمہارے اوپر میری اطاعت لازم نہیں ہے“۔ خلیفہ اول کے اس خطبہ کے ایک ایک لفظ سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلامی مملکت کا سربراہ ارباب حل و عقد اورمنتخب مجلس شوری کے سامنے جواب دہ ہے اور خدا ورسول کی اطاعت سے ہٹنے کی صورت میں مسلمانوں کواس کے مواخذہ کا مکمل حق حاصل ہے،ڈاکٹر محمود بابلی حضرت سیدنا ابو بکر  کے اس خطبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”پوری امت مسلمہ کو کھلی دعوت تھی کہ وہ اللہ کی اطاعت کے معاملہ میں ان پر نظر رکھے اورجب وہ اطاعت کے دائرہ سے نکل جائیں توان کا محاسبہ کریں۔“(الشوری فی الاسلام:ص20)

عہد خلافت راشدہ میں خلفا کے احتساب کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو خلافت فاروقی میں پیش آیا،ایک شخص نے بھری محفل میں علانیہ طور پر امیر المومنین حضرت عمر  سے کہا کہ ” اگر ہم نے تمہارے اندر کوئی کجی دیکھی تو ہم اپنی تلوارکی دھار سے اسے سیدھا کر دیں گے“ اور جب کسی شخص نے اس شخص کی سر زنش کرنی چاہی تو حضرت عمر نے اس پر اپنی نا پسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے کہا:” اگر تم ایسی باتیں نہ کہو تو میں یہ سمجھوں گاکہ تمہارے اندر کوئی خیر(اخلاص)نہیں ہے اور اگر میں اسے قبول کرنے میں تردد محسوس کروں تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ میرے اندر کوئی خیر نہیں ہے۔“(الشوری ودورھا فی اصلاح الفردوا لمجتمع مترجم:ص16)

خلفا کے احتساب کی کھلی چھوٹ، بلکہ اس کی ترغیب ہی کا اثر تھا کہ ایک عام مسلمان بھی کوئی قابل گرفت بات دیکھتا تو خلیفہ کے سامنے بلاتکلف اظہارکرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا تھا،ایک مرتبہ حضرت عمر نے اپنے خطبہ میں مہر میں غلو کرنے سے منع فرمایاتو ایک بڑھیا کھڑی ہوئی اور کہنے لگی، عمر! کیا ہم آپ کی بات مانیں یا خدا کی بات ؟حضرت عمر نے فرمایا خداہی کی بات قابل تسلیم ہے،اس پر وہ کہنے لگی کہ خدانے تو قرآن میں: ﴿واتیتم احداھن قنطارا فلا تاخذوامنہ شےئا ﴾․فرمایا لیکن تم مہر کو زیادہ باندھنے سے منع کرتے ہو؟حضرت عمرکو فورا ً تنبہ ہوااور اپنی بات سے رجوع فرمالیا،علاوہ ازیں احادیث میں خلیفہ اور حکم راں کی اطاعت کی جہاں تاکید کی گئی ہے ،وہاں اس کی بھی صراحت ہے کہ خلاف شرع کاموں میں امیر کی اطاعت نہیں ہے،چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : حکم کو سننا اوراطاعت کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے، خواہ وہ حکم پسند آئے ،یا نہ آئے جب تک حاکم کسی گناہ کا حکم نہ دے، اور جب وہ کسی گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب نہیں۔(بخاری ومسلم)مسلم حکم راں شریعت پر عمل آوری کا پابند ہے،یہی وجہ ہے کہ قاضی ابو یعلی محمدبن حسین الفراحنبلی(المتوفی :4584) نے اپنی کتاب ”الاحکام السلطانیہ“ میں اسلامی حکومت کے سربراہ اورخلیفة المسلمین کے لیے دس فرائض تحریرکیے ہیں،جن میں سب سے پہلا فرض امور دین کی اس اصول پر حفاظت ہے،جو اسلاف سے ثابت ہو۔(الاحکام السلطانیہ لابی یعلی :ص27)

اگر خلیفہ یا مسلم حکمراں ایسی حرکت کرے جس سے امور دین کا ضیاع لازم آتا ہوتو مجلس شوری کو اس کے محاسبہ کا حق حاصل ہوگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف امیرو حکم راں کی حتی المقدور اطاعت کی تاکید فرمائی، دوسری جانب ان لوگوں کی حوصلہ افزائی فرمائی جوظالم حکم رانوں کے سامنے اظہارحق کافریضہ انجام دیتے ہیں،حضرت طارق بن شہاب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا، جب کہ میں نے اپنا ایک پیر گھوڑے کی زین پر رکھا تھا،جہاد میں افضل جہاد کونساہے؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:ظالم وجابر بادشاہ (حکمراں) کے سامنے حق بات کہنا۔ (مسند احمد315/4) ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:کوئی اس بات کو معمولی نہ سمجھے کہ کسی دینی معاملہ میں کوئی خامی پائے اوراس کی نشان دہی نہ کرے، اللہ تعالی اس سے پوچھیں گے کہ اس معاملہ میں تنبیہ کرنے سے کونسی چیز مانع بنی ؟ تووہ شخص جواب دے گا کہ اے میرے پروردگار!میں لوگوں کی ملامت سے ڈرگیا۔ اس پراللہ تعالی فرمائیں گے میں زیادہ حق دارتھاکہ تو مجھ سے ڈرتا اورغلطی پر نکیر کرتا۔(مسنداحمد30/3)نبیٴ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی ارشادات کا اثر تھا کہ صحابہ، تابعین،تبع تابعین اورسلف صالحین میں ایک بڑی تعدادان افرادکی تھی جوخلاف شرع باتوں پر حکم رانوں کامحاسبہ کرنے میں کسی طرح کا خوف محسوس نہیں کرتے تھے ،عباسی خلیفہ ابوجعفرمنصور نے اس دورکے ایک مشہورمحدث حضرت عبداللہ بن طاوٴس بن کیسان کو اپنے پاس مدعوکیا ،ان کے ساتھ حضرت امام مالک بن انس بھی موجودتھے، جب دونوں خلیفہ منصور کے پاس پہنچے تو کچھ دیر بعد خلیفہ ابن طاوٴس کی جانب متوجہ ہوا اورکہنے لگا آپ اپنے والد طاوٴس کی کچھ باتیں سنائیے ،اس پر حضرت عبداللہ بن طاوٴس نے فرمایا،میرے والد نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن سب سے کٹھن عذاب اس شخص کو ہوگا جس کو اللہ نے حکم رانی میں اپنا شریک بنایا تھا ،اس نے انصاف میں ظلم کی آمیزش کی ،یہ حدیث سنانا تھا کہ خلیفہ منصور پر تھوڑی دیر کے لیے خاموشی طاری ہوگئی ،امام مالک کہتے ہیں کہ میں اپنے کپڑے سمیٹنے لگا اس ڈرسے کہ آدمی کے خون سے رنگے نہ جائیں ،پھر خلیفہ حضرت ابن طاوٴ س کی جانب متوجہ ہوا اورکہنے لگا،ابن طاوٴس! مجھے کچھ نصیحت کیجیے اس پر انہوں نے فرمایا کہ اے امیرالموٴ منین! اللہ رب العزت کا فرمان ہے :﴿الم تر کیف فعل ربک بعادارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد وثمود الذین جابوا الصخر بالواد وفرعون ذی الاوتاد الذین طغوافی البلاد فاکثروافیھا الفساد فصب علیھم ربک سوط عذاب ان ربک لبالمرصاد﴾․(الفجر:14-6) امام مالک کہتے ہیں کہ میں اپنے کپڑے سمیٹنے لگا کہ خون سے رنگے نہ جائیں،خلیفہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا،پھر کہا مجھے روشنائی لادیں۔امام مالک کے دینے سے رکے رہنے پر خلیفہ منصور نے پوچھا آپ نے مجھے روشنائی کیوں نہیں دی ؟ امام مالک نے فرمایا کہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ کہیں تم اس سے ایسا فرمان نہ لکھو جس سے اللہ کی نا فرمانی ہو۔ بالآخرخلیفہ نے دونوں کو جانے کی اجازت دی ،ابن طاوٴس نے کہا کہ ہماری بھی یہی خواہش تھی، امام مالک کہتے ہیں کہ میں اس دن سے ابن طاوٴس کی حق گوئی کاقائل ہوا۔(تذکرة الحفاظ160/1)

اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا المیہ شورائی نظام سے محرومی اورحکم رانوں کا فکر احتساب سے بے خوف ہونا ہے، ورنہ جہاں تک اسباب اورقدرتی وسائل کی بات ہے،تو سب سے زیادہ ان کی فراوانی مسلم ممالک میں ہے،پٹرول جیسا سیال سونا عرب ممالک کے دست رس میں ہے اس وقت دنیا کے نقشہ پر 55سے زائد مسلم ممالک ہیں،لیکن سب کے سب دشمن کے دست نگر اور اہل مغرب کے ہا تھو ں کاسہ ٴ گدائی لیے پھرنے والے ہیں ، اقوام عالم اور بین الاقوامی اداروں میں ان کا کوئی وزن نہیں، اگر ان ممالک میں صحیح شورائی نظام اور خلافت علی منہاج النبوة والا طرز حکم رانی رائج ہو جائے تو پھر حالات کا رخ یکسر بدل سکتا ہے،ذلت کی جگہ عزت،زوال کی جگہ عروج اورضعف وکم زوری کی جگہ طاقت وقوت آسکتی ہے،بیشتر مسلم ملکوں میں جس قسم کا طرز حکم رانی ہے وہ کسی بھی طرح سیاست شرعیہ سے میل نہیں کھاتا،عالم اسلام کو مغربی طرزکے جمہوری نظام کی نہیں،بلکہ اسلامی شورائی نظام خلافت کی ضرورت ہے،خلیفہ اقتدار کو امانت الہی سمجھتا ہے،خلافت کی عظیم ذمہ داری کا احساس اس کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیتا ہے ،وہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹ سے کوسوں دور اور سادگی کاپیکر ہوتاہے،وہ حکومت کے کسی اہم معاملہ کومجلس شوری سے مشاورت کے بغیر طے نہیں کرتا، مملکت کے ایک معمولی انسان کے لیے بھی اس کا دروازہ ہروقت کھلارہتا ہے ،ایک معمولی کسان بھی اس کے کسی قابل گرفت عمل پر گرفت کرسکتاہے،خلافت وشوری کے اس نظام سے محرومی آج عالم اسلام پر آفتیں لارہی ہے، اس وقت مغرب نواز، دنیا پرست اقتدارکے پجاری، حکم راں عالم اسلام پر مسلط ہیں، جن کی نگاہو ں میں شراب وشباب اور عشرت کدوں کے علاوہ کسی چیزکی وقعت نہیں،عرب ممالک کا حالیہ طوفان اسی کا رد عمل ہے ،لیکن اسلام دشمن طاقتیں اپنے مغرب نواز پٹھوں کے ذریعہ انقلاب کے ثمرات کا اغوا کرنا چاہتی ہیں۔

حضرت مولانا عبیداللہ سندھی علیہ الرحمہ کے ایک قیمتی اقتباس پراس مقالہ کا اختتام کیا جاتاہے،حضرت نے سلاطین اور حکم رانوں کوشوری پر فوقیت اور شوری کودرجہٴ وجوب سے گھٹا کر استحباب کا نقطہ ٴ نظر پیش کرنے والوں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال فرما یاہے:

”مشاورت کامسئلہ اسلام میں بہت بڑامسئلہ ہے،لیکن اسلامی حکومتوں کو مشورہ سے خالی کرکے مطلق العنان جاہل حکم رانوں اور امیروں کا کھیل بنا دیاگیا، وہ مسلمانوں کی امانت(سرکا ری خزانے) سے ا پنی شہوت پرستیوں پرروپیہ صرف کرتے ہیں، وہ بڑی سی بڑی مصلحتوں کے مقابلہ میں خیانتیں کرتے ہیں اوران سے کوئی پوچھنے والانہیں،اس قسم کی غلطیوں کا خمیازہ مسلمانوں کو صرف اس غلط تفسیر (جس میں شوری کی حیثیت وجوب سے ہٹا کر استحباب کردی گئی ہے)کی وجہ سے بھگتنا پڑا،ورنہ ہر ایک مسلمان ایک حاکم کے ا وپرننگی تلوارہے اوروہ حاکم کیوں قانونِ الہٰی کی رعایت نہیں کرتا،اگروہ اطاعت نہیں کرتا تو کس بنیا د پر ہم سے اطاعت کاطلب گار ہوتا ہے،یہ طاقت مسلمانوں میں پھر پیداہوسکتی ہے اور اس سے ان کی جماعتی زندگی آسانی کے ساتھ قرآن کے مطابق بن سکتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ شوری کو مستحب بنا کر اسے سیاست اسلامی سے نکال ڈالنے والوں نے اس کو سخت نقصان پہنچایاہے۔“(عنوان انقلاب:ص127 ،بحوالہ شوری کی شرعی حیثیت :ص241)۔ 
Flag Counter