***
قبل از بعثت معجزات نبوت کی ایک جھلک
مولانا محمد جہان یعقوب
خلاصة السیر کے مؤلف نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان معجزات کا ذکر کیا ہے جو بعثت سے پہلے ذات مبارک سے ظہور پذیر ہوئے تھے، ہم ان کا مختصر ذکر کرتے ہیں،رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی والدہ کا بیان ہے:
1…میں نے بحالت حمل خواب میں دیکھا کہ ایک نور میرے اندر سے نکلا جس کی وجہ سے شہر بصریٰ علاقہ شام کے محلات میری نظر کے سامنے چمک اٹھے، پھر پیداہوتے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے سر آ سمان کی طرف اٹھایا۔
2…حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ جونہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نے ایک نور دیکھا جس سے ملک شام کے محل ان کی نظر کے سامنے چمک اٹھے، ابن حبان اور حکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔
3…ابونعیم نے دلائل میں لکھا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نے بیان کیا جب آپ صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے تو فرشتہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تین بار پانی میں غوطہ دیا، پھر ایک ریشمی بٹوے کے اندر سے ایک مہر نکال کر آپ کے شانہ مبارک پر لگائی، جس کی وجہ سے ایک سفید انڈے کی طرح کی چیز پیدا ہوگئی، جو زہرہ کی طرح چمکنے لگی۔
4…بیہقی، ابن ابی الدنیا اور ابن السکن کا بیان ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کی رات کو کسریٰ کے محل میں لرزہ آگیا، اس کے چودہ کنگرے گر پڑے اور کسریٰ خوف زدہ ہوگیا اور فارس کی جو آگ ہزار برس سے نہیں بجھی تھی، وہ بجھ گئی اور ساوہ جھیل خشک ہوگئی۔
5…حضرت عائشہ کی روایت میں آیا ہے کہ ایک یہودی مکہ میں رہتا اور تجارت کرتا تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کی رات کو اس نے قریش سے کہا :اے گروہ قریش! آج رات اس امت کا نبی پیدا ہوگیا ِ،جس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک نشان ہے اور نشان میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار ہے، لوگ یہودی کو لے کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی والدہ کے پاس پہنچے اور نومولود بچے کی پشت کھول کر دیکھی ،یہودی کی نظر جب مسّہ پر پڑی فوراً بے ہوش ہوکر گرپڑا، لوگوں نے پوچھا ارے! ارے!تجھے کیا ہوگیا، یہودی کہنے لگا :والله! بنی اسرائیل سے نبوت نکل گئی۔
6…مواہب لدنیہ میں عمیصا راہب کا قصہ ذکر کیا گیا ہے، عمیصا مکہ والوں سے کہتا تھا: اے اہل! مکہ عنقریب تم میں ایک پیغمبر پیدا ہونے والا ہے، سارا عرب جس کا تابع ہوجائے کا اور عجم پر بھی اس کا اقتدار ہوگا ،یہ زمانہ اس کی پیدائش کا ہے۔
7…حضرت عباس بن عبدالمطلب کا بیان ہے، میں نے عرض کیا یارسول الله(صلی الله علیہ وسلم)! آ پ کے دین میں میرے داخل ہونے کا ایک خاص باعث ہوا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے نبی ہونے کی نشانی میں نے اسی وقت دیکھ لی تھی جب آپ صلی الله علیہ وسلم جھولنے میں پڑے ہوئے چاند سے باتیں کررہے تھے اور انگلی سے اس کی طرف اشارہ کررہے تھے اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ جھک جاتا تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، میں اس سے باتیں کررہا تھا، وہ مجھ سے باتیں کررہا تھا، وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھااور جب وہ عرش کے نیچے سربسجود ہوتا تھا تو میں اس کی آواز سنتا تھا۔
8…حضور صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بات بھی شمار کی گئی ہے، کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جھولنے کو فرشتے جھلاتے تھے، یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ پیدا ہوتے ہی آپ نے کلام کیا تھا۔
9…ابویعلیٰ اور ابن حبان نے حضرت عبدالله بن جعفر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دایہ حضرت حلیمہ نے کہا: جب میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی گود میں لے لیا تو فوراً میری چھاتیاں بقدر ضرورت دودھ سے بھر آئیں، پہلے میرا بچہ عبدالله بن حارث بھوکا رہنے کی وجہ سے سوتا نہ تھا، اب دونوں نے سیر ہوکر پی لیا اور دونوں سو گئے، پہلے میری پستان میں اتنا دودھ ہی نہ تھا جو ایک بچہ کے لیے کافی ہوتا، نہ ہماری اونٹنی کے پاس دودھ تھا جو بچہ کو پلایا جاسکتا، اب جو میرا شوہر اونٹنی کے پاس گیا تو دیکھتا کیا ہے کہ اونٹنی کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں، میرے شوہر نے اس کو دوہا اور میں نے خوب سیر ہوکر پیا اور شوہر نے بھی خوب پیا اور وہ رات بڑے چین سے گزری، محمد صلی الله علیہ وسلم کو لے کر جب میں واپس آ ئی اور گدھی پر سوار ہوئی تو خدا کی قسم! وہ تو اتنی تیز چلنے لگی کہ ساتھیوں کا کوئی گدھا اس کا مقابلہ نہ کرسکا، ساتھ والیاں کہنے لگیں ا:ری ابی ذویب کی بیٹی! ذرا ٹھہرو تو، کیا یہ تیری وہی گدھی ہے جس پر تو آئی تھی؟ میں نے کہا ہاں!بات یہ تھی کہ کمزوری اور لاغری کی وجہ سے میری گدھی ساتھ والے قافلہ کے لیے بار ہوگئی تھی ،باربار ان کو رکنا پڑتا تھا۔
10…حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت حلیمہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا : ”الله اکبر کبیرا، والحمد لله کثیرا وسبحان الله بکرة واصیلا“ یہ آپ کا سب سے پہلا کلام تھا۔
11…حضرت ابن عباس کا بیان ہے: حلیمہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دور نہیں جانے دیتی تھیں، تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے ان کو بے خبری نہ رہے، ایک روز آپ اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ باہر چلے گئے اور جہاں جنگل میں اونٹ تھا وہاں جاپہنچے، حلیمہ تلاش میں نکلیں، آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی بہن کے ساتھ کہیں مل گئے، حلیمہ نے کہا اس گرمی میں تم کہاں پھر رہے ہو؟ شیما نے کہا اماں !مجھے اپنے بھائی کے ساتھ تو گرمی محسوس ہی نہیں ہوئی، برابر ان کے اوپر ایک بدلی سایہ کیے رہی، جب یہ کہیں ٹھہرجاتے تھے ،بدلی بھی ان کے اوپر ٹھہر جاتی تھی ،یہ چل دیتے تھے تو بدلی بھی ان کے اوپر چل دیتی تھی۔
12…شمائل مجدیہ میں مذکور ہے کہ حلیمہ نے کہا: جس روز ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو لیا کبھی ہم کو چراغ کی ضرورت نہیں رہی ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ کی روشنی تو چراغ سے زیادہ نورانی تھی، اگر ہم کو کسی جگہ چراغ کی ضرورت پڑتی تو ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کو وہاں لے جاتے، آپ کی برکت سے تمام مقامات روشن ہوجاتے۔
13…یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حلیمہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو لے کر کربتوں کی طرف گئیں تو ہبل اور دوسرے بت آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم میں اپنی اپنی جگہ سرنگوں ہوگئے اور سنگِ اسود کے پاس لے کر گئیں تو سنگ اسود خود اپنی جگہ سے نکل کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے منہ کو چمٹ گیا۔
14…یہ بھی مروی ہے کہ حلیمہ آپ ا کو دودھ پلانے لگیں تو پستانوں سے اتنا دودھ بہنے لگا جو دس بلکہ اس سے بھی زیادہ بچوں کے لیے کافی ہوتا۔
15…جب حلیمہ آپ کو لے کر کسی خشک وادی سے گزرتیں تو وہ فوراً سرسبز ہوجاتی۔
16…حضرت حلیمہ خود سنتی اور دیکھتی تھیں کہ پتھر اور درخت آپ کو سلام کرتے تھے اور درختوں کی شاخیں آپ کی طرف جھک جاتی تھیں۔
17…رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آ پ کا رضاعی بھائی دونوں ساتھ ساتھ بکریاں چرایا کرتے تھے، رضاعی بھائی کا بیان ہے کہ میرا رضاعی بھائی جب کسی وادی پر جاکر کھڑا ہوتا تھا تو وہ فوراً سرسبز ہوجاتی تھی۔
18…اور بکریوں کو پانی پلانے کے لیے ہم کنویں پر آتے تھے تو کنویں کا پانی ابل کر کنویں کے منہ تک آجاتا تھا۔
19…جب آپ صلی الله علیہ وسلم دھوپ میں کھڑے ہوتے تھے تو بدلی آکر سایہ کرلیتی تھی اور جنگل کے جانور آپ کے پاس آکر آپ صلی الله علیہ وسلم کو چومتے تھے۔
20… رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دایہ حضرت حلیمہ نے کہا:ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم ہمارے اونٹوں کے مقام پر تھے، اچانک آپ صلی الله علیہ وسلم کا رضاعی بھائی دوڑتا ہوا آیا او رکہنے لگا کہ دو سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کو پکڑ کر زمین پر لٹا کر پیٹ پھاڑ دیا ہے، حضرت حلیمہ کا بیان ہے: ہم یہ بات سن کر فوراً ان کی طرف نکل کھڑے ہوئے، جاکر دیکھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم منہ لپیٹے کھڑے ہوئے تھے، ہم نے آپ کو چمٹا لیا اور دریافت کیا کیا واقعہ ہوا؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :دو آدمی سفید پوش آئے اور انہوں نے مجھے لٹا کر میرا پیٹ پھاڑا، پھر اس کے اندر کسی چیز کو ٹٹولا، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا چیز نکالی حضرت شداد بن اوس کی روایت سے ابویعلی، ابونعیم او رابن ابی عسا کرنے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث نقل کی ہے کہ تین آدمیوں کا ایک گروہ آیا، ان کے پاس سونے کا طشت تھا، جو برف سے بھرا ہوا تھا، ان میں سے ایک نے مجھے زمین پر لٹایا (اور پیٹ پھاڑ کر) پیٹ کے اندر کی چیزیں نکالیں، پھر ان کو برف سے دھویا اور خوب دھویا ،پھر ان کو ان کی جگہ دوبارہ رکھ دیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا، اس نے میرا دل نکل کر پھاڑا (اور اس کو صاف کیا) یہ سب باتیں میں دیکھ رہا تھا، پھر ایک سیاہ بوٹی اس کے اندر سے نکال کر پھینک دی، پھر دائیں بائیں طرف ہاتھ گھمانے لگا، معلوم ہوتا تھا کوئی چیز تلاش کررہا ہے، پھر مجھے نظر آیا کہ اس کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی ہے جو مجسم نور ہے، اس کو دیکھنے سے نگاہ چکا چوند ہورہی تھی، اس انگوٹھی سے اس نے میرے دل پر مہر لگادی، مہر لگاتے ہی میرا دل نور سے بھر گیا، یہ نبوت ودانش کا نور تھا، پھر دل کو لوٹا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا، میں اس مہر کی خنکی اپنے دل میں مدت تک محسوس کرتا رہا، پھر تیسرے شخص نے اپنے ساتھی سے کہا تم ہٹ جاؤ (وہ ہٹ گیا)۔ تیسرے شخص نے سینے کی وسطی لکیر (خط ابیض) کے آغاز سے زیرناف کے آخری حصہ تک ہاتھ پھیرا، فوراً شگاف جڑ گیا۔
حضرت انس کا بیان ہے کہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے سینہ پر سلائی کا نشان دیکھتا تھا۔
21…ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ ایک سال قحط پڑا، ابوطالب حضور صلی الله علیہ وسلم کو ساتھ لے کر بارش کی دعا کرنے کعبے کے پاس پہنچے، کعبہ کی دیوار سے اپنی پشت لگائی اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی انگلی پکڑی، اس وقت آسمان پر بادل کا ٹکڑا بھی نہ تھا، فوراً ادھر ادھر سے بادل آگیا اور موسلا دھار خوب بارش ہوئی، اتنی کہ ساری وادی بہہ نکلی، اسی واقعہ کی طرف ابوطالب نے ذیل کے شعر میں اشارہ کیا ہے۔
”ان کا رنگ گورا ہے، ان کے طفیل میں بارش کی دعا کی جاتی ہے، وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور رانڈوں کی عصمت بچانے والے ہیں۔“
22…خلاصة السیر میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بارہ سال کی عمر میں ا پنے چچا ابوطالب کے ساتھ ملک شام کی طرف گئے، مقام بصریٰ میں پہنچے تو بحیراراہب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ دیکھ کر پہچان لیا اور دست مبارک کو پکڑ کر کہا، یہ رب العالمین کے رسول ہیں، الله ان کو انسانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمائے گا۔ راہب سے دریافت کیا گیا تم کو اس کا علم کیسے ہوا؟ راہب نے کہا جب تم لوگ گھاٹی سے نکل کر آرہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ہر درخت اور پتھر ان کی طرف جھک رہا تھا اور ایسا صرف نبی کے لیے ہی ہوتا ہے، ہم نے اپنی کتابوں میں ان کے حالات پڑھے ہیں، پھر ابوطالب سے بحیرا نے کہا، اگر تم ان کو لے کر شام کو گئے تو یہودی ان کو قتل کردیں گے، چنانچہ راہب کے مشورے سے ابوطالب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بصریٰ سے ہی واپس کردیا ۔
23…دوبارہ حضرت خدیجہ کے غلام کو ساتھ لے کر تجارت کی غرض سے آپ صلی الله علیہ وسلم ملک شام کو گئے اس وقت سن مبارک پچیس سال کا تھا اور حضرت خدیجہ سے نکاح نہیں ہو پایا تھا، شام میں پہنچ کر ایک راہب کے گرجے کے پاس اترے، راہب نے اوپر سے میسرہ کی طرف جھانک کر دریافت کیا، تمہارے ساتھ یہ کون شخص ہے؟ میسرہ نے کہا :باشندگان حرم میں سے ایک قریشی شخص ہے، راہب نے کہا، اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے کبھی کوئی اور نہیں اترا۔
24…بعض روایات میں آ یا ہے کہ راہب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں آپ پر ایمان لایا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ وہی نبی ہیں جن کا ذکر الله نے توریت میں کیا ہے، پھر مہر نبوت کو دیکھ کر چوما اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ الله کے رسول نبی امی ہاشمی عربی ہیں، آپ ہی صاحب حوض ہیں، آپ ہی شفاعت کرنے والے ہیں، آ پ ہی کے ہاتھ میں لواء الحمد ہوگا۔
25…بعض روایات میں آیا ہے کہ میسرہ نے بیان کیا دوپہر کا وقت ہوا اور گرمی سخت ہوگئی تو دو فرشتے اتر کر آ پ پر سایہ کرنے لگے، تاکہ گرمی اور سورج کی تیزی سے آپ کو تکلیف نہ ہو، آپ اس وقت اپنے اونٹ پر سفر کررہے تھے، حضرت خدیجہ نے میسرہ کا جب بیان سنا تو آپ کے دل میں حضور صلی الله علیہ وسلم سے نکاح کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔
سہیلی نے راہب مذکور کے قول کا مطلب اس طرح بیان کیا، راہب کی مراد یہ تھی کہ اس وقت درخت کے نیچے پیغمبر ہی فروکش ہوا ہے، سہیلی کو تاویل کی ضرورت اس لیے پڑی کہ انبیاء کے دور کو گزرے ہوئے ایک طویل مدت (تقریباً پانچ سوسال) گزر چکے تھے، اتنی طویل مدت کسی ایک درخت کا باقی رہنا بعید ازعقل تھا، پھر درخت بھی سرراہ تھا، آ نے جانے والے ضرور اس کے نیچے آ رام لیتے رہے ہوں گے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لب راہ درخت کے نیچے کوئی مسافر سوائے نبی کے کبھی نہ اترا ہو!!