Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

7 - 16
***
کم سے کم اتنا تو کیجئے
محترم عبدالله خالد قاسمی
آخر پھر ایک بار اسرائیلی اور یہودی جارحیت اورصرف اسلام دشمنی ہی نہیں بلکہ انسانیت دشمنی کا دل فگار حادثہ رونما ہوگیا اور پوری دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
31 مئی 2010ء میں اسرائیلی افواج کے ذریعہ بین الاقوامی حدود میں اسرائلی ہیلی کاپٹروں اور فوجی جہازوں نے فائرنگ کرکے 19 غیر مسلح رضا کاروں کو صرف اس لیے ہلاک کردیا کہ وہ ”غزہ “ کے عوام، جنھیں اسرائیلی درندوں نے اشیائے خورد ونوش اور زندگی گذارنے کے لیے دیگر ضروری اشیا سے بھی محروم کر رکھا ہے ان کے لیے سامان لے کر جارہے تھے، غزہ 2007ء سے بد ترین حالات سے دوچار ہے ،اسرائیلی افواج نے اس حقیقت کے باوجود حملہ کردیا کہ قافلہ میں سوار افراد سفید جھنڈے لہرارہے تھے اور غیر مسلح تھے ۔
یہ قافلہ فری ڈم فلوٹیلہ سات بحری جہازوں پر مشتمل تھا،قافلہ میں ترکی اور یونان کے جہاز بھی شامل تھے، اس کارروائی میں 33 ملکوں کے رضاکار اور امن پسندشہری تھے، یہ جہاز روز مرہ کی ضرورت کے سامان ،دس ہزار ٹن تعمیراتی سامان ،سیمنٹ، ادویات، طبی آلات، خصوصی تحائف، اسٹیشنری، لکھنے کے کاغذ سے لدے تھے۔یہ قافلہ آئیرلینڈ سے چلا تھا، کیوں کہ اسرائیل نے سخت ناکہ بندی کرکے غزہ میں ضروریات زندگی کی اشیا کی سپلائی میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے،یہ یقینا جینوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ چوتھے جینوا کنونشن کی 33ویں دفعہ کے تحت ان اشیا کی سپلائی پر روک غیر قانونی ہے، کوئی بھی فلسطینی غزہ سے پڑھنے کے لیے باہر نہیں جاسکتا ہے، ان کو آزادی کے ساتھ گھومنے پھر نے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ انٹرنیشنل کونوینٹ برائے اقتصادی و سماجی اور کلچر حقوق 1966 کی 13ویں دفعہ کی خلاف ورزی ہے۔ غزہ کے لوگوں کو یہ حق نہیں کہ وہ مغربی کنارے میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے مل سکیں۔
غزہ میں 2007ء میں جب سے حماس برسراقتدار آیا ہے تب سے اسرائیلیوں نے ان پر یہ پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ یہ سزا غزہ کے لوگوں پر صرف اس لیے تھوپی گئی تھی کہ حماس غاصب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کو دہشت گرد ریاست قرار دیتا ہے۔ اسرائیل کی یہ ناکہ بندی 22دنوں تک چلنے والی اسرائیلی فوج کی بربریت کے دوران بھی چلتی رہی۔ اس بم باری میں اسرائیل نے آپریشن کا سٹ لیڈ کے تحت1439 فلسطینیوں کو شدید بم باری کرکے ہلاک کردیاتھا، مرنے والوں میں 439بچے بھی تھے، دسمبر 2008 سے جنوری 2009ء تک چلنے والی اس بمباری میں شہری سہولیات کے دفاتر، چھ یونیورسٹیوں کی عمارتوں اور سیکڑوں اسکولوں اور 21000 مکانوں اور عمارتوں کو تباہ کردیاگیا تھا۔ جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کو سخت سرد موسم میں کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنی پڑی تھی۔
یہ درندگی اور پھر ابھی 31 مئی کواس قدر انسانیت سوز اقدام ہوا اور پوری دنیا نے اس پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا، لیکن اسرائیلی درندوں کو ذرا بھی حیا نہیں آئی اور انسانیت کے نام پر ان کے ضمیر میں ذرا بھی احساس ندامت نہیں پیدا ہوا ،بلکہ اس وحشت ودرندگی اور کھلی دہشت گردی کو اپنے لیے افتخار سمجھا اور اس کی بے معنی اور جھوٹی تاویلیں کرنے لگے۔
دراصل یہودی ذہنیت تاریخ کے ہر دور میں دوسروں کی ترقی میں رکاوٹ بنی رہی اور اپنے احساس برتری کو باقی رکھنے کے لیے منظم انداز سے خودساختہ اصولوں کی بنیاد پر امن و سکون اور باہمی اتحاد و اتفاق کی فضا کو مسموم کرتی رہی ہے اور اپنی عظمت، امارت کی بحالی اور حکومت کرنے کے لیے صدیوں خفیہ کانفرنسیں کرتی رہی ہے۔
1770ء میں ماسونیت (یہودی مفاد کے لیے پوری دنیا میں کام کرنے والی ایک تنظیم) نے اپنے چند بنیادی اصول مرتب کیے، جن میں سب سے اہم بات اسلام اور عیسائیت دشمنی تھی، اسی تنظیم کے تحت ملکی طاقت کو کمزور کرنے اور حکومتوں کو منتشر کرنے کے لیے ایک ذیلی تنظیم ”صہیونیت“ قائم کی گئی، جس کا بانی تھیوڈر ہرٹزل (1860ء-1904ء) ہے، اس کے دل میں برسوں سے یہ خواب تھا کہ یہودیوں کی آزاد حکومت قائم ہوجائے، لہٰذا ایک دفعہ یہودیوں کا نمائندہ بن کر ترکی سلطان عبدالمجید کے دربار میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرکے ان کو اندرونی خود مختاری دے دی جائے تو یہود آپ کی حکومت کو اتنا سونا فراہم کریں گے کہ عثمانی حکومت کی کمزور بنیادیں پھر سے مضبوط ہوجائیں گی، اس کے علاوہ یہود، عثمانی خلافت کو پابندی کے ساتھ کثیر دولت فراہم کرتے رہیں گے۔ 
سلطان عبدالمجید نے اسے منظور نہیں کیا اور ہر ٹزل کو خائب و خاسر واپس کردیا۔ جاتے جاتے اس نے دھمکی دی کہ یہود اپنی طاقت کی بنیاد پر اپنا مطلوب حاصل کرلیں گے۔ 1897ء میں ہرٹزل نے دنیا کے تمام سربرآوردہ یہودیوں کی ایک کانفرنس بلائی اور یہودآزاد ریاست کے لیے قراردادیں پاس ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مئی 1946ء کو باضابطہ یہودیوں نے آزاد یہودی ریاست ”اسرائیل“ قائم کرلی اور فلسطینیوں کو خانما بربادی پر مجبور ہونا پڑا۔ 1967ء میں اسرائیل نے یروشلم کو اردن سے چھین لیا اور 1969ء میں مسجد اقصی میں آگ لگادی۔
یہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ غاصب اسرائیلی درندے نہتے اور معصوم فلسطینیوں پر ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں، میزائلوں اور دیگر خطرناک ترین اسلحہ سے اندھا دھند بمباری کرکے مسلمانوں کو شہید کررہے ہیں، لیکن پوری دنیا خاموش تماشائی بن کر مسلمانوں کے قتل عام کا ”نظارہ“ کررہی ہے۔ 
نام نہاد سپر پاور امریکہ منافقانہ طرز عمل اختیار کررہا ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگتی اور اقوام متحدہ جو کہ دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کے بعد مستقبل میں تصادم اور جنگوں سے محفوظ رہنے کی خاطر وجود میں آیا، یہ بھی آنکھیں بند کیے ہوئے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے، جب کہ مسلمان اتنے کمزور اور بے بس ہوچکے ہیں کہ وہ سب کچھ بے چارگی کے عالم میں برداشت کررہے ہیں، غور طلب امر یہ ہے کہ ان سے ایسا ظلم و ستم کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالاں کہ اگر زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو کرہ ارض پر ایک ارب 30کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں اور یہودی صرف چند لاکھ تک محدود ہیں تو پھر یہود آبادی میں کم ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے کیوں سوہان روح بنے ہوئے ہیں؟ ان کے پس پشت ایسے کون سے محرکات ہیں جن کو بروئے کار لاکر یہ عناصر سازشوں میں مصروف ہیں اور آئے روز یہود فلسطین میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر خون مسلم کی ندیاں بہانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر اسرائیلی مظالم دن بدن بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں؟
یہود کے یہاں دولت کی فراوانی ہے اور یہ مال ودولت عالمی پیمانے پر اپنی مصنوعات کو فروغ دے کر حاصل کررہے ہیں،مسلسل فلسطینی علاقوں میں گھس کر وحشیانہ اور اندھا دھند فائرنگ اور بمباری کے ذریعہ مختلف علاقوں پر قبضہ کرکے بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام میں اسرائیل کے ہونے والے جانی و مالی نقصان کو پورا کرنے کی خاطر خالصتاً صہیونی عزائم کی حامل یہودی مشروب ساز کمپنی ”کوکاکولا“ نے اپنی چار دن کی آمدنی اسرائیل کو دینے کا اعلان کیا تھا،اسی طرح خالص یہودیوں کی ایجاد سگریٹ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان صرف سگریٹ نوشی کی مد میں ہی روزانہ 94 لاکھ ڈالر اسرائیل کو ادا کررہے ہیں۔ 
ستم ظریفی تویہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے چھ ارب آبادی میں سے مسلمانوں کی آبادی ایک ارب30 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے 40 کروڑ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سگریٹ کمپنی (فلپس مورس) کے مالکان یہودی ہیں، جو کہ اپنے منافع کا21فیصد اسرائیل کو بطور عطیہ دیتے ہیں ،یعنی مسلم دنیا سے تقریباً 8سو ملین ڈالر روزانہ اس کمپنی کو جاتے ہیں، جس میں کمپنی کا اوسطاً منافع 10فیصد جو کہ80ڈالر روزانہ بنتا ہے، اسی طرح دنیا بھر کے ایک اور مقبول سافٹ ڈرنک ”پیپسی“ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اس کولڈ ڈرنک کی فروخت کی مد سے روزانہ لاکھوں ڈالر اسرائیل کو مل رہے ہیں۔
آج مسلمانانِ عالم ،دشمنان اسلام خاص طور سے یہودیوں کی اسلام دشمنی اور مسلم کشی کو محسوس تو کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی اقدامی پوزیشن میں نہیں ہیں اورحالات ایسے بنادیے گئے ہیں کہ وہ عملاً کسی زور اور طاقت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ،لیکن جن امور کے ذریعہ احتجاج اور اظہارِ ناراضگی کا شرعاً اور قانوناًانھیں حق حاصل ہے اس کو تو بروئے کار لانا چاہیے، وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ایسی کمپنیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور ملکی و اسلامی مصنوعات کے معیار میں مزید بہتری لاکر عوام کو راغب کیا جائے کہ ہر شعبہ میں اسلامی وملکی مصنوعات کو اپنا یا جائے اور انہیں ہی استعمال کیا جائے، تاکہ عالم اسلام اپنے کو یہود و نصاریٰ کے مکروفریب سے بچاتے ہوئے اپنے پیسہ کو غیروں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے اور وہ ان پیسوں کے بل بوتے پر طاقت اور درندگی ،وحشت اور دہشت گردی کا مظاہرہ ہم پرنہ کرسکیں۔
دشمنان اسلام کی عداوت اور کاشانہ اسلام پر ان کی یورشیں تاریخ کے ہر دور میں پائی جاتی ہیں، لیکن اگر ایمان و یقین کی صلابت، عقائد کی پختگی اور کردار و اعمال کی درستگی ہو تو دشمنان اسلام اور اعدائے دین کی تمام عداوتیں اور سازشیں یقینا تار عنکبوت ثابت ہوں گی۔
آج کے اس پر فتن اور پر آشوب دور میں دشمنان دین یہود اور مشرکین اپنی عداوت اور دشمنی میں پہلے سے زیادہ پیش پیش ہیں، اس لیے آج انابت الی اللہ اور اللہ کی طرف رجوع کی بھی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
اللٰہم وفقنا لما تحب وترضیٰ

Flag Counter