Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 16
***
آنکھوں کی سوئیاں
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
ہندوستان کی کہانیاں اپنے اندر بڑی بڑی حقیقتیں رکھتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ اس ملک کے حکماء نے زندگی کے بڑے بڑے فلسفوں کے عام فہم اور دلچسپ ترجمے کر دیے ہیں یا خشک حقیقتوں کو چلتی پھرتی زندگی میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے ہم ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی مدد سے زندگی کے بہت سے حقائق کو ذہن کی گرفت میں لاسکتے ہیں۔
بچپن میں ہم نے جو کہانیاں سنی تھیں اور دماغ کی سلوٹوں میں کہیں چھپی رہ گئیں، ان میں سے کوئی ایسی کہانی بھی تھی جس میں کسی مظلوم عورت کی داستانِ درد بیان کی گئی تھی ، جس کے سارے جسم میں سوئیاں چھبی ہوئی تھیں، اس کی دشمن سارے دن اس کی سوئیاں نکالتی تھی، لیکن آنکھوں کی سوئیاں قصداً چھوڑ دیتی تھی اور رات ہو جاتی تھی، دوسرے دن پھر نئی سوئیاں چُبھی جاتی تھیں اور پھر وہ سوئیاں نکالتی تھی، لیکن آنکھوں کی سوئیاں چھوڑ دیتی تھی، ہم کو کہانی کے صرف اتنے ہی حصہ سے غرض ہے۔
آپ غور کریں گے تو مظلوم انسانیت کے ساتھ زمانہٴ دراز سے یہی معاملہ درپیش ہے، اس کا سارا جسم سوئیوں سے چھلنی ہو رہا ہے، جسم کے ہر حصہ میں ظالم سوئیاں چبھ رہی ہیں، کچھ ہمدرد ہاتھ اس کی یہ سوئیاں نکالنے کے لیے بڑھتے ہیں لیکن ہر مرتبہ آنکھوں کی سوئیاں چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی نجات کا کام ناتمام رہ جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے روز وہ اسی طرح مجروح اور مبتلا نظر آتی ہے اور از سر نو محنت کرنی پڑتی ہے۔
انسانیت ایک مکمل انسانی جسم او روجود کی نمائندہ ہے، وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو جامع ہے ، اس کے ساتھ جسم بھی ہے ، پیٹ بھی ہے ، دل بھی ہے ، دماغ بھی ہے، روح بھی ہے، ان تمام حصّوں کے ساتھ کچھ مصائب اور آلام بھی ہیں، یہ اس کے جسم کی سوئیاں ہیں، جو اس کو زار ونزار کیے ہوئے ہیں۔
بھوک، فاقہ، اچھی اور صحیح غذا کا نہ ملنا یہ پیٹ کی سوئیاں ہیں ، یقینا ان سے انسانیت کو تکلیف اور دُکھ پہنچتا ہے۔ عالمِ انسانیت کی یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے اور زندگی کا یہ بڑا شرم ناک پہلو ہے کہ قدرت کی فیاضیوں اور غذائی سامان کی پوری فراوانی کے باوجود چند انسانوں کے ناجائز تصرف یا کسی نظام سلطنت کے جابرانہ طرز عمل سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو پیٹ بھر روٹی میسر نہ ہو اور وہ اپنے فطری حق اور ضروری سامان زندگی سے محروم رہے، اس پر غم وغصہ ، اضطراب واحتجاج، اس صورتِ حال کے خلاف جدوجہد ایک قدرتی امر اور صحیح انسانی احساس ہے، جس پر تعجب یا ملامت کا کوئی موقع نہیں۔
انسان جسم رکھتا ہے اور جسم کو ٹھنڈک اور گرمی کا احساس دیا گیا ہے اور لباس کی طلب بخشی گئی ہے، اس طلب کو پورا کرنے کے لیے زمین پر پورے انصاف اور ضرورت کے مطابق لباس پیدا کرنے والی چیزیں اور لباس تیار کرنے والے ہاتھ پیدا کیے گئے ہیں، پھر بڑی بے انصافی ہے کہ چند آدمیوں کے زائد لباس استعمال کرنے یا بکسوں میں بند کرکے رکھنے یا بے جان دیواروں کو جاندار انسانوں کے کام آنے والا کپڑا اوڑھانے کی وجہ سے انسان سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں ،یا ان کو ستر پوشی کے لیے بھی کپڑا نہ ملے۔
انسان دل رکھتا ہے، اس کی کچھ جائز خواہشات ہیں، ان کا نہ پورا ہونا، بڑی زیادتی اور ظلم ہے ، وہ دماغ رکھتا ہے، اس کا علم سے محروم اور دماغی ترقی اور صحیح قوت فکر سے دور رہنا نا انصافی اور نظام زندگی کا نقص ہے اور اس نقص کو دور کرنا ایک حساس انسان او رایک صحیح الاحساس جماعت کا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے ۔
انسانی تہذیب وتمدن کو پھلنے پھولنے اور انسانوں کی روحانی، ذہنی اور جسمانی طاقتوں کو متوازن نشو ونما حاصل کرنے کے بہترین مواقع تب حاصل ہوتے ہیں جب ان کے راستہ میں کوئی جابر قوت حائل نہ ہو ، عموماً دیکھا گیا ہے کہ غیر ملکی حکومت مسائل زندگی پر قبضہ کر لیتی ہے او ران کی تقسیم کا کام اپنے غیر ہمدرد اور ناانصاف ہاتھوں میں لے لیتی ہے، اس کے اقتدار میں محکوم قوم کے جائز جذبات بھی افسردہ اور اس کی ذہانت کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے وطن میں جیل کے قیدیوں کی طرح زندگی گزارتی ہے ، اس لیے غلامی بھی انسانیت کے لیے ایک بڑی مصیبت اور بلائے جان ہے او راس کا دور کرنا زندگی کے حقیقی لطف سے متمتع ہونے کے لیے شرط ہے۔
اس لیے بلاشبہ فاقہ کشی ، عریانی ، مجبوری ، جہالت اور محکومی وہ سوئیاں ہیں، جو انسانیت کے جسم کو برماتی رہتی ہیں، ان کا دور کرنا ایک بڑی انسانی خدمت ہے ۔ 
لیکن کیا اس دکھی انسانیت کے سارے دکھ اور روگ یہی ہیں اور یہی اس کے جسم کی سوئیاں ہیں ، ان سوئیوں کے نکلتے ہی اس کو دل کا سکون ، جسم کا آرام اور سکھ کی نیند نصیب ہو جائے گی ؟ او راس کی آنکھ کی کھٹک اور دل کی خلش دور ہو جائے گی ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کی مصیبت اسی پر ختم نہیں ہوتی کہ ہر شخص کو پیٹ بھر روٹی، ضرورت بھر کا کپڑا ، جائز خواہشات کی تکمیل کا سامان اور تعلیم کے مواقع حاصل ہو جائیں ، اس کے جسم میں کچھ اور بھی زہر کی بجھی ہوئی سوئیاں ہیں، جو اس کو اندر اندر گھلاتی رہتی ہیں اور ایسی سوسائٹی جس کو زندگی میں اپنی منھ مانگی مراد مل چکی ہو، ان زہر کی بجھی ہوئی سوئیوں کی وجہ سے ہر وقت کراہتی، تڑپتی اور اندر اندر سے گھلتی رہتی ہے۔
انسان اس پر بس نہیں کرتا کہ اس کو پیٹ بھر کر کھانا او راپنی اور اپنے بچوں او رمتعلقین کی ضرورت کا کپڑا اور سامانِ زندگی حاصل ہو گیا ہے، اس کے اندر اس فطری پیٹ کے علاوہ ایک اور مصنوعی پیٹ پیدا ہو جاتا ہے، وہ حرص وہوس کا پیٹ ہے، جو جہنم کی طرف ہل من مزید ( کچھ اور ہے ) ہی پکارتا رہتا ہے ، اس کو روپیہ سے صرف اسی لیے نہیں کہ وہ ضروریات زندگی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، بلکہ بغیر کسی مقصد کے ذاتی محبت وعشق ہو جاتا ہے اور اس کو کوئی بڑی سے بڑی مقدار تسکین نہیں دے سکتی، دولت کے اس ذاتی عشق کی وجہ سے وہ ہر مجرمانہ فعل کا بے تکلف ارتکاب کرتا ہے، رشوت ستانی، چور بازاری، نفع اندوزی اس ذہنیت اور مزاج کے ادنیٰ کرشمہ ہیں۔
اگر دنیا کی اخلاقی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور تعصبات سے الگ ہو کر بد نظمیوں، بے عنوانیوں اور شہری زندگی کے مشکلات کے حقیقی اسباب تلاش کیے جائیں تو ان کی تہہ میں جائز انسانی خواہشات اور حقیقی ضروریات کا ہاتھ کم ملے گا، ان کی تہہ میں عموماً ناجائز خواہشات اور فرضی ضروریات نکلیں گی، انہیں ناجائز خواہشات اور فرضی ضروریات نے ہر زمانہ میں شہری زندگی میں نئی نئی الجھنیں اور ہر نظام حکومت کے لیے نئے نئے مسائل پیدا کیے ہیں ، انہیں فرضی ضروریات نے لوگوں کو مظالم، بددیانتی، غبن، استحصال بالجبر، رشوت خوری، سٹہ بازی، ذخیرہ اندوزی، فریب دہی پر آمادہ کیا او ران کے اثر سے پورے پورے ملک اور بڑی بڑی حکومتیں ” اندھیر نگری چوپٹ راج“ بن کر رہ گئیں۔
آج بھی اگر موجودہ مشکلات اور شکایات کی تحقیق کی جائے گی تو صاف نظر آئے گا کہ موجودہ پریشانی اور بے اطمینانی کا سبب یہ نہیں ہے کہ ملک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یا اکثریت کو ضروریات زندگی میسر نہیں اور اس کی جائز خواہشات پور ی نہیں ہوتیں اور اس ملک میں بھوکوں اور ننگوں کی زیادتی ہے ! انصاف سے اگر دیکھا جائے تو ان بھوکوں اور ننگوں نے کسی کی عافیت تنگ نہیں کی ، عافیت ان لوگوں نے تنگ کی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں ، لیکن ان کا دل دولت سے کبھی نہیں بھرتا، حقیقی ضروریات کا نام بدنام ہے، ان کی فہرست کچھ طویل نہیں ، ساری خرابی فرضی ضروریات نے پیدا کی ہے، جن کی فہرست ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے او رکبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پورے محلہ او رکبھی پورے شہر کی دولت ایک فرد کے لیے کافی نہیں ہوتی۔
آج یہ ہو شربا گرانی اشیاء کی نایابی اور افراط زر کیوں ہے ؟ کیا اس لیے کہ اہل ملک کی اکثریت بھوکی اور ننگی ہے ؟ ظاہر ہے کہ صرف اس لیے کہ دولت کی ہوس بڑھ گئی ہے ، زیادہ او رجلد سے جلد دولت مندی کا شوق جنون کی حدتک پہنچ گیا ہے ، قناعت زندگی سے مفقود ہوچکی ہے، فخر، ریاکاری، جاہ طلبی ، نمائش، شہریت کے خمیر میں داخل ہو چکی ہے۔
آج جس چیز نے زندگی کو عذاب اور دنیا کو دارالعذاب بنا رکھا ہے اور جس سے ہر موڑ پر سابقہ ہے، وہ بڑھی ہوئی رشوت ستانی، چور بازاری اور ظالمانہ نفع خوری ہے ، لیکن کیا ان جرائم کا ارتکاب بھوک، فاقہ کشی اور برہنگی کی مجبوری سے کیا جاتا ہے ،یہ تو اسی طبقہ کی حرکات ہیں، جس کو اپنی خوراک سے زیادہ غلہ اپنے حصہ سے زائدہ کپڑا او راپنی ضرورت سے فاضل سامان زندگی حاصل ہے ۔ ہزاروں مجرمین میں ایک بھی نان شبینہ کا محتاج اور سردی سے ٹھٹھرنے والا انسان نہیں ملے گا، یہ متوسط اور دلت مند طبقہ کے اعمال ہیں جس کے پاس ضرویات زندگی میں سے کوئی چیز کم او رارتکاب جرم کے لیے کوئی مجبوری نہیں ہے۔
حقیقت میں انسانوں کی فطری اور واجبی ضروریات کا معاملہ کچھ مشکل نہیں، یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ملک میں ہر شخص کو پیٹ بھر کر کھانا ضرورت کا کپڑا اور سامان زندگی میسر ہو جائے ، لیکن کیا دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی حکومت اور بہتر سے بہتر نظام کسی مختصر سے مختصر آبادی کے لیے بھی اس کی فرضی ضروریات مہیا کرسکتا ہے اور کسی ایک انسان کے بھی مصنوعی پیٹ کو بھر سکتا ہے، جس کی جھوٹی بھوک اور(ا شتہائے کا ذب) سارے انسانوں کا رزق کھا کر بھی نہیں مٹتی؟ پھر جب سوال حقیقی ضروریات کا نہیں، بلکہ فرضی ضروریات کا ہے اورمرض اشتہائے صادق نہیں، بلکہ اشتہائے کاذب ہے ، تو کوئی ایسا معاشی فلسفہ یا اقتصادی نظام، جو سوسائٹی کے ضمیر کو نہیں بدلتا ،جو صرف انسانوں کو پیٹ بھرنے او ران کا تن ڈھکنے کی ذمہ داری لیتا ہے او رجومادی احساس میں اعتدال پیدا کرنے کے بجائے اشتعال پیدا کرتا ہے ، کیا کسی سوسائٹی کو بھی اندرونی طور پر مطمئن کر سکتا ہے اور زندگی کی موجودہ مشکلات سے نجات دے سکتا ہے ؟
غور سے دیکھا جائے تو رشوت ستانی ، چور بازاری ، حد سے زیادہ نفع خوری او راخلاقی جرائم اصل پیچیدگیاں نہیں ہیں ، اصل پیچیدگی وہ ذہنیت اور مزاج ہے، جو ان بد اخلاقیوں اور بے اصولیوں پر آمادہ کرتا ہے ، اگر ایک دروازہ بند کیا جائے گا تو دس دروازے کھل جائیں گے، انسانی ذہن اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت سے چور دروازے رکھتا ہے ، اگر اس میں کوئی گہری تبدیلی نہ ہو تو اس کا راستہ روک کر کوئی عاجز نہیں کرسکتا، اس کو اپنی مطلب برآری کے لیے بہت سے تدبیریں اور حیلے آتے ہیں، وہ ان سے اپنا مطلب نکال لے گا۔
موجودہ زندگی کی اصل خرابی یہ ہے کہ پوری سوسائٹی کا ضمیر خود غرض اور مطلب پرست بن گیا ہے، اس کا ایک فرد اپنی غرض کے لیے، بے تکلف، بڑی سے بڑی بے اصولی کا ارتکاب کر لیتا ہے، اگر وہ کسی شعبہ کا امین بنایا جاتا ہے تو اس کو خیانت میں باک نہیں ، اگر کسی قومی ادارہ کا رکن منتخب ہوتا ہے تو اس کو اپنے حقیر فائدہ کے لیے بڑے سے بڑے قومی وجماعتی فوائد کو پامال کرنے اور دوسروں کا گھر اُجاڑ کر اپنا گھر آباد کرنے میں عذر نہیں ، اگر وہ ماتحت ہے تو کام چور ، سست کار اور احساس فرض سے عاری ہے، وہ اپنے کسی متوقع فائدہ یا کسی ذاتی رنجش کی بنا پر ایک گھنٹہ کے کام میں با آسانی ایک مہینہ لگاسکتا ہے اور آسان سے آسان معاملہ کو برسوں الجھا سکتا ہے او راس طرح سے اپنے ذاتی فوائد کے لیے نظام حکومت کے ناکام یا بدنام کرسکتا ہے، اگر وہ صاحب اختیار ہے تو اعزہ نوازی، احباب پر وری ، بے جاپاس داری اور شخصی یا خان دانی فوائد کی بنا پر صریح بے اُصولی کا ارتکاب کرکے ملک وقوم کو نقصان پہنچاتا ہے ، اگر تاجر ہے تو دولت میں غیر ضروری اضافہ کرنے کے لیے چوربازاری اور ناجائز نفع خوری کرکے لاکھوں غریبوں کو پیٹ کی مارمارتا ہے اور دانہ دانہ کو ترساتا ہے ، اگر وہ روپیہ کا کاروبارکرتا ہے تو سود خوری اور مہاجنی کے ذریعہ صدہا غریبوں کا بال بال قرض میں جکڑ دیتا ہے او ران کوپیسہ پیسہ کا محتاج بنا دیتا ہے۔
افراد سے بڑھ کر جماعتوں اور پوری پوری قوموں پر خود مطلبی اور خود غرضی کا شیطان مسلط ہو گیا ہے ، سیاسی جماعتیں جماعتی خود غرضی اور خود بینی میں مبتلا ہیں ، یورپ اور امریکا کی جمہورتیوں پر قومی خود غرضی کا بھوت سوار ہے۔ جس کے پاؤں کے نیچے چھوٹی او رکمزور قومیں سبزہ کی طرح پامال ہوتی رہتی ہیں ، اس قومی خود غرضی نے ساری دنیا کو تجارت کی منڈی یا لوہار کی بھٹی بنا رکھا ہے اور ساری زمین کو ایک وسیع میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ اسی قومی خود غرضی کی خاطر بڑی سے بڑی بے اصولی اور بے آئینی روا ہے ، اس کے ادنیٰ اشارے پر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو بے د ریغ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ، ایک قوم پر دوسری قوم کو مسلط کر دیا جاتا ہے ، بھیڑ، بکریوں کی طرح ایک قوم کو دوسری قوم کے ہاتھ بیچ ڈالا جاتا ہے۔ متحد ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں ، یورپ کی اسی قومی خود غرضی نے پہلے عربوں کو ترکوں کے خلاف اُبھار ااور کل عرب سلطنت کا خواب دکھایا، پھر اسی خود غرضی نے شام جیسے چھوٹے ملک میں چار مستقل حکومتیں قائم کیں، پھر اسی نے یہودیوں کو وطن الیہود کا سبز باغ دکھایا، آج بھی فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اوراس کی گتھی جس طرح الجھتی جارہی ہے، وہ محض امریکا، برطانیہ اور روس کی قومی خود غرضی کا نتیجہ ہے ،ہندوستان میں سو برس جو کچھ ہوتارہا ہے اور پھر آخر میں جس طرح اس امن پسند ملک کو قتل گاہ بنا کر چھوڑا گیا ہے، وہ یا تو برطانیہ کی براہ راست قومی خود غرضی کا کرشمہ ہے، یا اس کی پیدا کی ہوئی اس بدترین قومی خود غرضی کا، جس کا زہر یہاں کی آبادی کے جسم میں سو برس تک سرایت کرتا رہا ہے ،مغربی تہذیب اور مغربی سیاست کی لائی ہوئی اس قومی خود غرضی نے 47ء میں یہاں کے لوگوں کو اتنا اندھا اور دیوانہ بنا دیا کہ ان سے وہ غیر انسانی افعال صادر ہو ئے،جن کی نسبت سے چوپایوں اور درندوں کو بھی شرم آئے گی اور آدم خوروحشیوں کی گردن شرم سے جھک جائے گی اور زمانہٴ آئندہ کا مورخ ان واقعات کی تصدیق میں سخت پس وپیش کرے گا۔ 
پھر اس خود غرضی نے ساری دنیا میں اور ملک کے تمام طبقوں میں ایک مخصوص مزاج پیدا کر دیا ہے ،جس کا خاصہ ہے کہ انسان اپنے حقوق کے مطالبہ میں بڑامستعد ہے اور فرائض وحقوق کے ادا کرنے میں سختکوتاہ اورحیلہ جو ، اس ذہنیت اور سیرت نے ساری دنیا میں انفرادی جماعتی اور طبقاتی کش مکش برپا کر دی ہے ، ہر شخص اپنا حق مانگتا ہے اور دوسرے کا حق ادا کرنے سے گریز کرتا ہے ، اگر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو ساری دنیا حقوق طلبوں کی ایک آبادی نظر آئے گی ،جس میں حق طلبی کا نعرہ تو ہر زبان پر ہے، لیکن ادائے فرض کا احساس کسی دل میں نہیں ، جس آبادی میں ہر شخص حق طلب ہو، لیکن فرض شناس کوئی نہ ہو، وہاں کی زندگی کی الجھنوں اور دقتوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور وہاں کی کش مکش کو کوئی انسانی تدبیر یا تنظیم دور نہیں کرسکتی۔
ہم اس خود غرضی پر خواہ کتنے چیں بہ جبیں ہوں اور اس سے ہمیں خود اپنی روز مرہ کی زندگی میں خواہ کتنی مشکلات پیش آئیں وہ ہے بالکل ایک قدرتی چیز، جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں ، اس مادی زندگی کی لذتوں اور فائدوں کے سوا کسی اور حقیقت کا یکسر وجودنہیں اور ہمارا سارا ادب، فلسفہ اور پورا ماحول اسی کی تلقین کرتا ہو ، اسی کی مثالیں سند اور معیار کے طور پر پیش کر رہا ہو، زندگی بعد موت کا ہر تصور ختم ہو چکا ہو ، اخلاقی قدروں اور زندگی کی دوسری بلند اور لطیف تر حقیقتوں نے خالص مادی وجسمانی احساسات کے لیے جگہ خالی کر دی ہو ، پیٹ او رجسم نے پھیل کر زندگی کی ساری وسعت گھیر لی ہو او رتمام دوسری حقیقتوں کو نگاہ سے اوجھل کر دیا ہو ، وہاں انسان خود غرض کیوں نہ ہو؟ اور وہ اس اول و آخر زندگی کی لذتوں او رمنفعتوں کو کس دن کے لیے اٹھا رکھے اور اس زندگی سے لطف اندوزی میں کس لیے بخل اور احتیاط سے کام لے؟ پھر جب اس کو کسی بالاتر نگرانی اور کسی قادر وتوانا ذات اور کسی ہمہ بیں وہمہ داں ہستی کا بھی اعتقاد اور خوف نہ ہو تو وہ ان اغراض کے حصول کے لیے جو اس کی زندگی میں خوش حالی یا لذت ولطف پیدا کریں ان اسباب وذرائع کے اختیار کرنے میں کیوں پس وپیش سے کام لے، جو اس کے لیے کسی وقت بھی ممکن ہو سکیں؟
اور پھر جب مادہ پرست سیاسی فلسفہ نے انسان کی زندگی کو ایک قوم اور ایک وطن کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور ہر ایسے تصور اور ہمدردی کو ذہن سے نکال دیا ہے، جس کا دائرہ ایک قوم یا وطن سے زیادہ وسیع ہو اور ہر ایسی چیز کو راستہ سے ہٹا دیا ہے، جو انسانیت کا وسیع تر تصور اور زندگی کا غیر فانی تخیل پیش کرتی ہو تو انسان کی فطری خود غرضی اپنے انتہائی ارتقا میں بھی قومی اور وطنی خود غرضی کی سطح سے کس طرح بلند ہو سکتی ہے اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی جائز وناجائز فعل کے ارتکاب سے کس طرح احتیاط کر سکتی ہے ؟
یہ خود غرضی اور مطلب پرستی اس موجودہ نظام معاشرت وسیاست کا جنم روگ ہے، جب تک اس کا ازالہ نہ ہو ظاہری انتظامات ، اصلاحات وترقیات کچھ زیادہ نتیجہ خیز نہیں ، سیاسی طور پر ملک آزاد وخود مختار ہو یا غیر ملکی حکومت کے ماتحت جب تک ہماری سوسائٹی پر خود غرضی مسلط ہے، دولت وعزت کا عشق تمام ملک پر چھایا ہوا ہے ، ذمہ داری کا احساس افراد کے دلوں سے نکل چکا ہے اور معاشرہ کا قلبی رجحان زیادہ سے زیادہ لطف اندوزی، فرضی ضروریات کے حصول اور خواہشات نفس کی تکمیل کی طرف ہے، عملاً وہ سوسائٹی زندگی کی حقیقی مسرتوں اور آزادی کے عملی نتائج سے محروم رہے گی۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ سوسائٹی پر ایک غیر طبعی فربہی چھا رہی ہے ، وہ اپنی ظاہری آرائش میں بھی ترقی کر رہی ہے، فاقہ کشی اور عریانی کا تناسب بھی کم ہو رہا ہے اور بعض ملکوں میں معاشی ناانصافی کا خاتمہ ہو گیا ہے، تعلیم عام ہو رہی ہے، نئے نئے شعبوں کی کثرت ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس سوسائٹی کو اندر سے روگ لگ چکا ہے، جو اند ر اندر سے اس کو گھلا رہا ہے ، جب دلوں میں ناانصافی گھر کر گئی ہو تو محض معاشی ناانصافی کو مٹا دینے سے کسی ملک میں حقیقی انصاف اور عام ہمدردی پیدا نہیں ہو سکتی، معاشیات کے علاوہ بھی زندگی کے بہت سے میدان ہیں، جن میں انسان کو انسان پر ظلم کرنے ، اس کا حق دبانے اور کم سے کم اس کو تنگ کرنے کے پورے مواقع حاصل ہیں ، جب تک دلوں سے اس ناانصافی اور ظلم کی طرف رحجان اور خود غرضی کا بیج نہ نکالا جائے، کوئی شہری نظام ظلم ونا انصافی اور بد دیانتی سے پاک نہیں ہو سکتا۔
ایشیا میں ابھی حال میں جو نئی خود مختار ریاستیں قائم ہوئی ہیں یا جن ممالک کو نئی نئی آزادی حاصل ہوئی ہے، وہ بھی اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ملک کی خوش حالی اور قوم کی ترقی صرف زندگی کی ظاہری تنظیمات اوروسائل کے حصول میں نہیں ہے، بلکہ اُن مقاصد کی صحت میں ہے، جن کے لیے یہ وسائل استعمال ہوتے ہیں ، رحجان کی درستی اور انصاف وہمدردی کے قلبی جذبات میں ہے اور یہ چیزیں کسی مشینی طریقہ اور سیاسی تنظیم سے نہیں پیدا ہوتیں ، اگر یہ کسی مشینی طریقہ یا سیاسی نظام سے پیدا ہو سکتیں اور وسائل زندگی کی فراہمی اور ملکی ظاہری تنظیم ، حقیقی خوش حالی ، امن واطمینان ، قلبی سکون کا گہوارہ ہوتیں اور وہ ممالک جنت نظیر ہوتے ، مگر سب جانتے ہیں کہ ان ممالک کو حقیقی اطمینان نصیب نہیں ، وہاں کی اندرونی الجھنیں کوئی چھپا ڈھکا واقعہ نہیں۔
مقاصد کی صحت، رحجان کی درستی اور انصاف وہمدردی کے قلبی جذبات کا سر چشمہ ایک صحیح وطاقت ور اخلاقی وروحانی مذہب ہی ہے، جو انسان کے جسم کے ساتھ اُس کے دل پر بھی حکومت کرے، جو اس کی خواہشات کو اپنے ضبط ونظم میں رکھے، جو اپنی روحانی طاقت سے ، اُس سے بنی نوع کے حق میں ایثار وقربانی کراسکے، جو اس محدود مختصر زندگی کے علاوہ کسی ایسی غیر فانی زندگی کو اس کی نگاہ میں اس طرح حقیقت بنا سکے کہ اس کے شوق میں آدمی اس زندگی میں اعتدال واحتیاط سے کام لے ، جو اس کے سامنے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، دولت وعزت حاصل کرنے اور حیوانی تقاضوں کو انسانی عقل وہنر مندی سے پورا کرنے کے علاوہ انسانیت اور زندگی کے کچھ اور معانی بتلا سکے اورانسان کی زندگی کے کچھ زیادہ بلند مقاصد انسان کے سامنے لاسکے ، ایسے ہی مذہب کی صحیح تعلیم اس خود غرضی اور کوتاہ نظری کو زائل کرسکتی ہے، جس سے ہمارا موجودہ نظام معاشرت وسیاست داغ داغ ہو رہا ہے۔
مبارک ہیں وہ ہاتھ جو مظلوم انسانیت کے جسم کی سوئیوں کو نکالنے کے لیے بڑھیں، مگر یاد رہے کہ آنکھوں کی سوئیاں نکالے بغیر اس کو سکھ کی نیند اور دل کا چین حاصل نہیں ہو سکتا ، آزادی اور حکومت خود اختیاری کا حاصل کرنا بڑا ضروری کام او راعلیٰ مقصد ہے ملک سے فاقہ کشی ، برہنگی اور افلاس کو دور کرنا، معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ کرنا اور ہر شخص کے لیے ضروری وسائل زندگی کا مہیا کرنا نہایت مبارک کام ہے او رجو لوگ اس میں حصہ لیں وہ انسانوں کے شکریہ کے مستحق ہیں ، لیکن ان کو اپنے کام کو بالکل ادھورا اور ناقص سمجھنا چاہیے ، جب تک انسانیت کے دل کی پھانس اورآنکھ کی کھٹک دور نہ ہو ، اس کا ضمیر خدا ترس او رپاک باز نہ ہو جائے ، اس میں ذمہ داری کا احساس نہ پیدا ہو جائے، اس کی نظر شکم پروری اور تن پروری سے بلند ہو کر بنی نوع انسان کے عام فائدوں پر نہ ہو ، اس میں وسعت نظر اور عالی حوصلگی نہ پیدا ہو جائے، وہ ضروریات زندگی اور فضولیات زندگی میں فرق نہ کرسکے او راس کو ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنے او راپنے نفس کے خلاف کرنے میں دقت نہ ہو۔
کئی بار اس جسم کی سوئیاں نکالنے کے لیے انسانیت کے ہمدرد ہاتھ بڑھے، لیکن ہر بار انہوں نے آنکھوں کی سوئیاں چھوڑدیں اور رات ہو گئی، کسی ملک کو اس کے فرزندوں نے اپنی قربانیوں او ربہادری سے آزادی دلائی ، کہیں ارادے کے پکے انسانوں نے جابر شخصی سلطنتوں کا تختہ اُلٹ کر ملک میں جمہوری نظام اور عوامی حکومت قائم کی، لیکن دل کی پھانس دل کے دل ہی میں رہ گئی ، ملک کا نظم ونسق کرنے والے بد ل گئے، مگر نظم ونسق کا طریقہ اور حکومت کی روح اور اس کا مزاج نہ بدلا، اب بھی کئی ملکوں میں معاشی انقلاب کی جدوجہد جاری ہے، لیکن لوگ پیٹ کی سوئیاں دیکھ رہے ہیں اور آنکھوں کی سوئیوں کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، انسانیت فریادی ہے کہ رات آنے سے پہلے جسم کی سوئیوں کے ساتھ آنکھوں کی سوئیاں بھی نکال دی جائیں، تاکہ اس کو حقیقی سکون، دیر پاراحت اور متوازن زندگی حاصل ہو۔

Flag Counter