Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 16
***
عید کو مکدر نہ کیجیے!
مفتی عبدالرؤف
عید الفطر کا دن مسلمانوں کے لیے بڑی مسرت او رخوشی کا دن ہے او ریہ خوشی اس بنا پر ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے رمضان شریف کے روزے رکھنے کی توفیق بخشی اور شب میں تراویح ادا کرنے او راس میں کلام الہٰی پڑھنے اور سننے کی سعادت عطا فرمائی، حق تعالیٰ کے نزدیک عید کا دن اور عید کی رات دونوں ہی بہت مبارک اور بڑی فضیلت والے دن ہیں، جس کا اندازہ آپ کو اس حدیث سے ہو گا۔
عید اور شب عید کی خاص فضیلت
حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جنت کو رمضان شریف کے لیے خوش بوؤں کی دھونی دی جاتی ہے او رشروع سال سے آخر سال تک رمضان کی خاطر آراستہ کیا جاتا ہے، پس جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے، جس کا نام مشیرہ ہے ( جس کے جھونکوں کی وجہ سے ) جنت کے درختوں کے پتے اور کواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں،جس سے ایسی سریلی آواز نکلتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی، پس خوش نما آنکھوں والی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بالاخانوں کے درمیان کھڑے ہو کر آواز دیتی ہیں کہ کوئی ہے الله تعالیٰ کی بار گاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا، تاکہ حق تعالیٰ شانہ اس کو ہم سے جوڑ دیں …؟ پھر وہی حوریں جنت کے داروغہ رضوان سے پوچھتی ہیں کہ یہ کیسی رات ہے؟ وہلبیک کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ رمضان شریف کی پہلی رات جنت کے دروازے محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت لیے (آج) کھول دیے گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رضوان سے فرما دیتے ہیں کہ احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں پر جہنم کے دروازے بند کر دے اور جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ زمین پر جاؤ او رسرکش شیاطین کو قید کرو اور گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو کہ میرے محبوب محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت کے روزں کو خراب نہ کریں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی کو حکم فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے کہ ہے کوئی مانگنے والا جسے میں عطا کروں ؟ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اس کی توبہ قبول کروں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟ کون ہے جو غنی کو قرض دے ایسا غنی جو نادار نہیں؟ ایسا پورا پورا اداکرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا؟حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جوجہنم کے مستحق ہوچکے تھے او رجب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد ہو کر گئے تھے ان کے برابر اسی ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں او رجس رات شب قدر ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ، حضرت جبرئیل کو حکم فرماتے ہیں وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں ان کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتاہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ الصلاة والسلام کے سو بازو ہیں، جن میں سے دو بازوں کو صرف اسی رات میں کھولتے ہیں جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں، پھرحضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ جو مسلمان آج کی رات میں کھڑاہو یا بیٹھا ہو ، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہو، اس کو سلام کریں او رمصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہیں، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہو جاتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام آواز دیتے ہیں کہ اے فرشتوں کی جماعت! اب کوچ کرواور چلو۔ فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا؟ وہ کہتے ہیں الله تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔
صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول الله ! وہ چار شخص کون ہیں ؟ ارشاد ہوا کہ : 
ایک وہ شخص جو شراب کا عاد ی ہو ۔
دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔
تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔
چوتھا وہ شخص جو کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلة الجائزہ ( انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے او رجب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں ، راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ او راسی آواز سے جس کو جنات اورانسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں اے محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت! اس کریم رب کی در گاہ کی طرف چلو، جوبہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ، فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے…۔ تو حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اورمغفرت عطا کر دی۔ اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم ،میرے جلال کی قسم! آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جوسوال کروگے عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا(اور ا ن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں ( اور کافروں) کے سامنے رسوا اورفضیحت نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہو گیا۔ پس فرشتے اس اجر وثواب کو دیکھ کر، جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں او رکھل جاتے ہیں ۔ (فضائل رمضان)
حق تعالیٰ کی اس ذرہ نوازی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ان کے اور زیادہ فرماں بردار او راطاعت شعار بندے بنتے، تاکہ اور زیادہ اطاعت پر زیادہ رحمتوں او ربرکتوں کے حق دار ہوتے ۔ لیکن افسوس ہلال عید نظر آتے ہی ہم نے ایسا رخ پلٹا اور ایسے نکلے اور نظریں پھیریں کہ پیچھے مڑ کر ہی نہ دیکھا اور اتنی دور نکل گئے کہ مرکز ہی کو بھول گئے اور ایسے ایسے کاموں کا ارتکاب کیا کہ جن سے بجائے مورد رحمت بننے کے حق تعالیٰ کی ناراضگی غصہ او رعذاب کامورد بننے لگے، عید الفطر کی شب اور اس کا دن انعامات الہٰی کی وصولی اور خوش نودی حاصل ہونے کا مبارک دن ہے، ہم نے اس کو ان کی ناراضگی کا سبب بنانے میں کون سی کسر نہ چھوڑی اور تعجب یہ ہے کہ ہم ایسی باتوں کو گناہ بھی نہیں سمجھتے، جو اور بھی خطرناک بات ہے، یہاں ذیل میں کچھ ایسی ہی چند باتیں عرض کرتا ہوں، صرف اس امید پر کہ شاید کوئی الله کا بندہ توجہ سے ان باتوں کو پڑھے اور اسے توفیق عمل ہو جائے، حق تعالیٰ ہم سب کو ان منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے… آمین ثم آمین
عید کارڈ
ہمارے معاشرے میں عیدین کی موقع پر بالخصوص میٹھی عید پرعید کارڈ بھیجنے کا بہت ہی رواج ہے، ہر خاص وعام، پڑھا لکھا یا جاہل عید کارڈ بھیجنے کا ضرور اہتمام کرتا ہے او رایک نہیں متعدد کارڈ بھیجتا ہے اور خوب صورت سے خوب صورت کارڈ روانہ کرتا ہے، عید الفطر آنے سے ہفتوں پہلے بک اسٹالوں کا چکر لگانا شروع کرتا ہے، جہاں شروع رمضان ہی سے نت نئے عید کارڈ فروخت کے لیے موجود ہوتے ہیں، جن میں اعلیٰ اور ادنی ہر قسم کے ہوتے ہیں او راعلیٰ سے اعلیٰ قیمتوں والے کارڈ بھی موجود ہوتے ہیں،انہیں خریدنے اور ارسال کرنے کو نہ کوئی گناہ سمجھتا ہے اور نہ خلافت شریعت۔ بلکہ اظہار مسرت اور عید کی مبارک بادی کا ایک جدید او رمہذب طریقہ سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ بحالات موجودہ عید کارڈ اس قدر منکرات او رمفاسد پر مشتمل ہوتا ہے کہ جن کی موجودگی میں اس کو خریدنے اور بھیجنے سے مسلمانوں کو پرہیز کرنا چاہیے …، چناں چہ عید کارڈ میں چند گناہ کی باتیں یہ ہیں۔
*…بہت سے عید کارڈ جان داروں کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں، کسی میں کبوتر، کسی میں طوطا، کسی میں بگلہ، کسی میں کوئی دوسرا خوب صورت پرندہ یا جانور بنا ہوتا ہے، جب کہ جان داروں کی تصویر کھینچنا، بنانا، چھاپنا، دیکھنا اور پسند کرکے دوسرے شخص کے پاس بھیجنا سب گناہ ہی گناہ ہے۔
*… بہت سے عید کارڈ فلمی ستاروں، ایکڑوں اور اداکاروں کی رنگین تصاویر پر مبنی ہوتے ہیں، جنہیں خاص مقبولیت حاصل ہوتی ہے، ایسے عید کارڈں کے گناہ عظیم ہونے میں کیا شک ہے ؟!
*… بعض عید کارڈ ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں عریاں یا نیم عریاں عورتوں کی رنگین تصاویر ہوتی ہیں، جن کو دیکھنا، بنانا، چھاپنا سب گناہ ہی گناہ، انہیں خرید کر بھیجنا اور بھی بڑا گناہ ہے۔
*… بعض عید کارڈ آیات قرآنی پر مشتمل ہوتے ہیں اور عید کارڈ وصول ہونے کے بعد دیکھنے اور پڑھنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے یا او رکسی جگہ ڈال دیا جاتا ہے، جس سے آیات الہٰی کی بے ادبی اورسخت بے حرمتی ہوتی ہے، جو بلاشبہ گناہ ہے۔
*…پھر عید کارڈ بھیجنے والوں کا آپس میں اعلیٰ سے اعلیٰ عید کارڈ بھیجنے کا مقابلہ ہوتا ہے، ہر شخص دوسرے سے بہتر اور عمدہ عید کارڈ بھیجنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ اس کے عید کارڈ کی سب سے زیادہ تعریف اور تذکرہ ہو، یہ کھلی ریا کاری ہے، جو گناہ عظیم ہے اور نیز گناہ کے کام میں مسابقت اور مقابلہ اس کی سنگینی کو اوربڑھا دیتا ہے۔
*… پھر جو شخص گھٹیا عید کارڈ بھیجتا ہے یا نہیں بھیجتا تو اس کو طرح طرح کے طعنے دیے جاتے ہیں، حالاں کہ اول تو کسی کو طعنہ دینا خود گناہ عظیم ہے، پھر ایک گناہ کی بات پر دوسرے کو طعنے دے کر مجبور کرنا یا ابھارنا اور بھی زیادہ گناہ کی بات ہے۔
*…بعض جگہ عید کارڈ بھیجنے میں ادلہ بدلہ کا تصور بھی کارفرما ہوتا ہے، آپ نے بھیجا تو دوسرا بھی بھیجے گا، اگر آپ نے نہ بھیجا تو دوسرا بھی نہ بھیجے گا اور گناہ میں ادلہ بدلہ بھی گناہ ہے اور گلہ شکوہ بھی برا ہے۔
*… بعض عید کارڈ ان ظاہری خرافات سے خالی ہوتے ہیں، مثلاً گلاب کے پھول ہوتے ہیں، جن میں حضرات اہل بیت رضی الله عنہم کے نام درج ہوتے ہیں، بعض میں حرمین شریفین کے نقشے یا خوب صورت باغات اور سبزیاں ہوتی ہیں، جن میں جان داروں کی تصاویر نہیں ہوتیں لیکن ایسے عید کارڈ بھی خریدنے اور بھیجنے سے بچنا چاہیے۔
*… عید کارڈ بھیجنے میں یہاں تک غلو ہو چکا ہے کہ ہزاروں بندگان خدا روزہ کی نعمت سے محروم ہیں اور صدقة الفطر ادا نہیں کرتے، لیکن عید کارڈ قیمتی خریدنا اور احباب کو روانہ کرنا نہیں بھولتے کہ جیسے یہ بھی کوئی فرض ہے، کس قدر غفلت او رگناہ کی بات ہے!
*… بعض لوگ ٹیلی فون او رتار کے ذریعہ عید کی مبارک باد دینا ضروری تصور کرتے ہیں، حالاں کہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ، یہ محض ایک رسم ہے۔
اس طرح بے شمار گناہوں کے ساتھ عید کارڈوں میں ہزاروں لاکھوں روپیہ ضائع وبرباد ہوتا ہے، جو بلاشبہ اسراف وتبذیر میں داخل ہے اور گناہ در گناہ ہے، اگر اتنی رقم غرباء ، فقراء اور مساکین پر خرچ کی جائے تو کتنے ہی تنگ دست گھرانے خوش حال ہو جائیں۔ بیمارتندرست ہو جائیں ۔ روزی کے محتاج بر سر روز گار ہو جائیں، حق تعالیٰ فہم صحیح عطا فرمائیں او راس گناہ عظیم سے بچنے کی توفیق بخشیں، آمین۔
عید کی تیاری
ایک اور فتنہ” عید کی تیاری“ کا ہے، جو عید الفطر میں زیادہ اور بقر عید کے موقع پر کچھ کم برپا ہوتا ہے، عید الفطر او رعید الضحیٰ کو الله تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بلاشبہ مسرت کا دن قرار دیا اور اتنی بات بھی شریعت سے ثابت ہے کہ اس روز جوبہتر سے بہتر لباس کسی شخص کو میسر ہو وہ لباس پہنے، لیکن آج کل اس غرض کے لیے جن بے شمار فضول خرچیوں اور اسراف کے ایک سیلاب کو عیدین کے لوازم میں سمجھ لیا گیا ہے، اس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج یہ بات فرض واجب سمجھ لی گئی ہے کہ کسی شخص کے پاس مالی طور پر گنجائش ہو یا نہ ہو، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح گھر کے ہر فرد کے لیے نئے سے نئے جوڑے کا اہتمام کرے ، گھر کے ہر فرد کے لیے جوتے ٹوپی سے لے کر ہر چیز نئی خریدے، گھر کی آرائش وزیبائش کے لیے نت نیا سامان فراہم کرے، دوسرے شہروں میں رہنے والے اعزہ اور اقارب کو قیمتی کارڈ بھیجے اور ان تمام امور کی انجام دہی میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ ایک متوسط آمدنی رکھنے والے شخص کے لیے عید اور بقر عید کی تیاری ایک مستقل مصیبت بن چکی ہے، اس سلسلے میں وہ اپنے گھر والوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے جب جائز ذرائع کو ناکافی سمجھتا ہے تو مختلف طریقوں سے دوسروں کی جیب کاٹ کر وہ روپیہ فراہم کرتا ہے، تاکہ ان غیر متناہی خواہشات کا پیٹ بھر سکے۔ او راس عید کی تیاری کا کم سے کم نقصان تویہ ہے ہی کہ رمضان اور خاص طور سے آخری عشرے کی راتیں اور اسی طرح بقر عید کے پہلے عشرے کی راتیں بالخصوص بقر عید کی شب جو گوشہ تنہائی میں الله تعالیٰ سے عرض ومناجات اور ذکر وفکر کی راتیں ہیں وہ سب بازاروں میں گزرتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دس دن اوران کی راتیں ، عید اور شب عید بڑی مبارک ہیں اورآخرت کمانے کا بہترین سیزن ہے، بندہٴ مومن جس کی زندگی کا مقصد صرف حق تعالیٰ کی رضا اور حصول جنت ہے اس کے لیے یہ بہت ہی نادر موقع ہے، جو حق تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے عطا فرمایا ہے، ان ایام او رمبارک لیل ونہار کو بے حد غنیمت سمجھا جائے اور ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت وطاعت، ذکر وتلاوت، تسبیح ومناجات اور توبہ واستغفار کرنے کااہتمام کرنا چاہیے اور زیادہ نفلی عبادت وطاعت نہ کرسکے تو کم از کم مذکورہ بالا اور دیگر گناہوں سے تو اپنے کو دور ہی رکھے او رتمام رات کوئی نہ جاگ سکے تب بھی کچھ حرج نہیں، آسانی اور بشاشت کے ساتھ جتنی دیر جاگ کر عبادت کرسکے اتنا ہی کر لے۔
عید کے دن بارہ چیزیں مسنون ہیں
*… اپنی آرائش کرنا۔
*… غسل کرنا۔
*… مسواک کرنا۔
*…عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس موجود ہوں وہ پہننا۔
*… خوش بو لگانا۔
*… صبح سویرے اٹھنا۔
*… عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر دے دینا۔
*… عید گاہ میں بہت سویرے جانا۔
*… عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً چھو ہارے وغیرہ کھانا۔
*… نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنا اور عید گاہ سے واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرنا۔
*…پاپیادہ جانا۔
*… راستے میں ”الله اکبر، الله اکبر،لا الہ الا الله والله اکبر، الله اکبر، وللہ الحمد“ پڑھنا ،جہاں عید کی نماز پڑھی جائے وہاں نماز سے پہلے اور بعد کوئی اور نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا نماز عید نہیں پڑھ سکتا، اس لیے کہ جماعت اس میں شرط اور دوسرے عید گاہ جانا سنت موکدہ ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اپنی مقدس مسجد کو انتہائی فضیلت کی باوجود عید ین کے دن چھوڑ دیتے تھے اور عید گاہ تشریف لے جاتے تھے۔
عید الفطر کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس طرح نیت کرے۔
”میں نے دو رکعت واجب نماز عید کی چھ واجب تکبیروں کے ساتھ نیت کی ۔“
نیت کے بعد ہاتھ باندھ لے اور سبحانک اللھم پڑھ کر تین مرتبہ الله اکبر کہے اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور بعد تکبیر کے ہاتھ لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیرٹھہرے کہ تین مرتبہ سبحان الله کہہ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکانے کے بجائے باندھ لے اور اعوذبالله، بسم الله پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھ کر حسب دستور رکوع اور سجدے کرکے کھڑا ہواور دوسری رکعت میں پہلے سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ لے، اس کے بعد تین تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں کہی ہیں، البتہ دوسری رکعت میں تیسری تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ باندھنے کے بجائے لٹکائے رکھے اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے۔
شوال کے چھے روزے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے او راس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے اس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔ 
(ف) ایک معمولی محنت پر، اتنا بڑا اجروثواب الله تعالیٰ کی بے انتہا رحمت ہے او رعمر بھر کے لیے روزے کا ثواب حاصل کرنے کا نہایت آسان اورکم خرچ نسخہ ہے، حق تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، اس پر مزید آسانی یہ ہے کہ ان کے رکھنے میں اختیار ہے، خواہ شروع شوال میں رکھیں یا درمیان میں یا آخر میں، یہ بھی اختیار ہے خواہ مسلسل رکھیں یا متفرق، شرعاً کسی طرح کوئی پابندی نہیں۔ ( مسلم شریف)

Flag Counter