Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 16
***
ابتدائی عمر میں بچوں کی اسلامی ریاضت
امام ابن جوزی 
معلوم ہونا چاہیے کہ بچہ ماں باپ کے پاس امانت ہے اور اس کا دل ایک سادہ وصاف جوہر۔ وہ ہر نقش کو قبول کر سکتا ہے۔ اگر اسے نیکی کی عادت ڈالی جائے گی تو اس کی نشو ونما اسی پر ہو گی اور اس کے ماں باپ اوراستاد اس کے ثواب میں شریک ہوں گے او راگر اسے برائی کی عادت ڈالی جائے گی تو اسی پر بڑھتا چلا جا ئے گا او راس کا بوجھ اس کے سرپرستوں پر ہو گا ، تو چا ہیے کہ اسے برائی سے بچائیں اور ادب وتہذیب اور اچھے اخلاق سکھائیں ۔ برے ساتھیوں کے پاس بیٹھنے سے روکیں۔ ناز ونعمت کی عادت نہ ڈالیں اور آرام اور زینت کے اسباب اس کی نظروں میں محبوب نہ بنائیں، کیوں کہ وہ بڑا ہو کر پھر انہیں کی طلب میں اپنی زندگی برباد کرے گا۔
اول عمر ی سے بچے کی نگرانی کرنی چاہیے۔ اُسے دودھ پلانے اور پرورش کرنے والی کوئی نیک اور متدین عورت تلاش کرنی چاہیے، جو حلال کی روزی کھاتی ہو، کیوں کہ حرام کی خوراک سے حاصل ہونے والے دودھ میں کوئی برکت نہیں ہوتی ۔ پھر جب اس میں تمیز کے آثار معلوم ہونے لگیں اور سب سے پہلے شرم وحیا ہو گی اور یہ شرافت کی علامت ہے اور یہ بالغ ہونے کے بعد کمال عقل کی بشارت بھی ہے ، تو اس کی اسی صفت سے اس کی تادیب اور تہذیب میں مدد لی جائے۔
سب سے پہلے جو صفت بچے پر غالب آئے گی وہ کھانے کی خواہش ہے ، تو چاہیے کہ اُسے کھانے کے آداب سکھائے او راسے عادت ڈالے کہ کبھی کبھی وہ روکھی روٹی بھی کھائے، تاکہ سالن کو ہر وقت ضروری نہ سمجھے اور اسے بتائے کہ زیادہ کھانا بُرا اور زیادہ کھانے والا چارپایوں کی طرح ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ اُسے سفید کپڑوں کی ترغیب دلائے اور ریشمی اور رنگین کپڑوں سے پرہیز کرائے او ربتائے کہ یہ عورتوں اور مخنثوں کا لباس ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ اُسے نازو نعمت میں رہنے والے بچوں سے الگ رکھے۔ وہ کچھ بڑا ہو جائے ( ہمارے ملک میں پانچ یا چھ سال کی عمر) تو اُسے مدرسہ میں قرآن وحدیث اور نیک لوگوں کے حالات کی تعلیم میں مشغول کرے، تاکہ اس کے دل میں نیک لوگوں کی محبت پیدا ہو اور وہ عشقیہ اشعار یاد نہ کرے۔
جب بچے سے کوئی اچھا فعل یا اچھا خلق ظاہر ہو تو اس پر اس کی عزت کی جائے اور جس چیز سے وہ خوش ہو اسے وہ تحفے کے طور پر دی جائے اور لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کی جائے ۔ پھر اگر کسی وقت اس کے خلاف اس سے کوئی فعل ظاہر ہو تو اس سے چشم پوشی کی جائے ، اس کے کام کو ظاہر نہ کیا جائے اگر دوبارہ کرے تو اسے پوشید طور پر ملامت کرے اور ڈرائے کہ لوگوں کو میں اس کی اطلاع دے دوں گا۔ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے کہ اس سے ملامت کا سننا بے حقیقت ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اپنی ہیبت کو برقرار رکھے۔
ماں کو چاہیے کہ بچے کو باپ کا خوف دلائے اور اُسے دن کو نہ سونے دے کہ اس سے سستی پیدا ہوتی ہے ۔ رات کو سونے سے نہ روکے ، لیکن اسے نرم اور آرام دہ بستر نہ دے، تاکہ اس کے اعضا سخت ہو جائیں اور وہ بستر او رلباس اور طعام میں سختی کا عادی ہو جائے ۔ اسے چلنے پھرنے، حرکت کرنے اور ورزش کی عادت ڈالے ، تاکہ اس پر سستی غالب نہ ہو ، اسے ماں باپ کے کمالات یا اپنے کھانے اور لباس پر فخر کرنے سے روکے اور اپنے ساتھیوں سے تواضع سے پیش آنے کی تاکید کرے۔ نیز اس بات سے بھی روکے کہ وہ کسی بچے سے کوئی چیز لے۔ اسے بتائے کہ لینا کمینگی ہے ، بلندی دینے میں ہے۔ اُس کے ذہن سے سونے چاندی کی محبت نکالے او راسے عادت ڈالے کہ نہ مجلس میں تھوکے نہ ناک صاف کر ے۔ نہ دوسروں کی موجودگی میں جماہی، ہچکی یاا بکائی لے اور نہ پاؤں پر پاؤں رکھ کر لیٹے۔ زیادہ بولنے سے بھی اسے روکے۔ عادت ڈالے کہ وہ صرف جواب میں بولے ۔ یہ بھی سمجھائے کہ جب کوئی آدمی گفتگو کرے تو اسے غور سے سنے۔ اپنے سے بڑے کے لیے کھڑا ہو جائے او راس کے سامنے مؤدب ہو کر بیٹھے۔
بُری گفتگو او ربرے لوگوں کی مجلس سے روکے ، کیوں کہ بچوں کی اصلی حفاظت یہ ہے کہ اُن کو بُرے ساتھیوں سے بچایا جائے ، تاہم مدرسے سے فارغ ہو نے کے بعد اُسے اچھے کھیل سے نہ روکا جائے کہ تعلیم وتربیت کی تھکاوٹ سے آرام پائے، جیسا کہ کہا گیا ہے : ” راحت پانے والے دل نصیحت قبول کرتے ہیں۔“
بچے کو والدین اور اُستاد کی اطاعت اور تعظیم سکھانا چاہیے۔ جب وہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دے اورطہارت کے چھوڑنے میں چشم پوشی نہ کرے ۔ اسے جھوٹ اور خیانت سے ڈرائے او رجب بلوغت کے قریب ہو تو کوئی کام اس کے سپرد کر دے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ کھانادوا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ الله کی اطاعت کے لیے بدن میں قوت پیدا ہو جائے۔
یقینا یہ دنیا فانی ہے ۔ موت دنیا کی نعمتیں ختم کر دے گی۔ چاہیے کہ ہر وقت اس کا انتظار رہے۔ عقل مند وہ ہے جو آخرت کا سامان بنالے۔
اگر بچے کی تربیت صحیح ہوگی، تو سب باتیں اس کے دل میں اس طرح بیٹھ جائیں گی جیسے پتھر میں نقش ہوتا ہے۔
حضرت سہل بن عبدالله نے کہا:” میں تین برس کا تھا اور رات کے وقت کھڑا ہو کر اپنے ماموں محمد بن سوار کو نماز پڑھتے دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے کہا: کیا تو الله کا ذکر نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا ہے ؟“ میں نے کہا:” میں اس کا ذکر کیسے کروں؟“ تو انہوں نے کہا: اپنے دل میں بغیر زبان ہلائے تین مرتبہ کہو: الله معی ۔ الله ناظری۔ الله شاھدی ( الله میرے ساتھ ہے۔ الله مجھے دیکھتا ہے۔ الله میرا گواہ ہے ) میں نے کئی رات ایسا ہی کیا۔ پھر آپ کو بتایا تو کہا: ” اسے ہر رات گیارہ مرتبہ پڑھا کرو۔“ میں نے ایسا ہی کیا تو میرے دل میں اس کی لذت پیدا ہو گئی ۔ پھر ایک سال گزر گیا ، تو ماموں نے مجھ سے کہا:” جو میں نے تجھے سکھایا ہے اس کو یاد رکھ اور قبر میں جانے تک اس پر مداومت کر۔“ چناں چہ میں نے کئی سال تک اس کی پابندی کی اور مجھے اپنے باطن میں اس کی لذت معلوم ہوئی۔ پھر میرے ماموں نے کہا: ’ اے سہل ! جس کے ساتھ الله ہو اور وہ اس کو دیکھ رہا ہو اور وہ اس کا نگران بھی ہو تو کیا ایسا شخص الله کی نافرمانی کرسکتا ہے؟ الله کی نافرمانی سے بچ۔“
پھر میں مدرسہ میں چلا گیا اور میں نے چھ یا سات سال کی عمر میں قرآن پاک یاد کر لیا۔ اب میں ہمیشہ روزے رکھتا اور میری غذا جو کی روٹی تھی۔ میں ساری رات قیام بھی کرنے لگا۔“
آخرت کا خوف
معلوم ہونا چاہیے کہ جس نے آخرت کو اپنے دل سے یقینی طور پر دیکھ لیا وہ لازماً اسی کو چاہے گا اور دنیا سے بے رغبت ہو گا۔ جس کے پاس کوڑیاں ہوں وہ ایک نفیس ہیرا دیکھ لے تو کوڑیوں کی طرف اُس کی رغبت نہیں رہے گی ۔ اگراس سے کہا جائے کہ کوڑیوں سے ہیرا خرید لو، تو وہ بڑی جلدی کرے گا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جس کو الله تعالیٰ ان چیزوں پرتنبیہ کر دے ۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ گناہوں سے بچے۔ یہ اجتناب گویا ایک قلعہ ہے، جس میں وہ محفوظ رہے گا۔ اُس پر لازم ہے کہ نفس کی مخالفت کرے اور وظائف واوراد میں اعتدال کو ملحوظ رکھے۔
ریاضت کی انتہا یہ ہے کہ دل ہمیشہ الله کے ساتھ ہو اور یہغیر الله سے خالی ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ خوبی لمبے مجاہدے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔

Flag Counter