Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 16
***
وقت کی قدر کیجئے
مفتی عبدالرؤف سکھروی
الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتیں عطا کی ہیں اور وہ تمام کی تمام نعمتیں بہت بڑی نعمتیں ہیں اور سب ہی کی قدر کرنے کی ضرورت ہے اور سب ہی کی قدر کرنے کی تاکید بھی ہے ۔ لیکن بعض نعمتیں عظیم الشان ہیں، اُن کی طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے ، اس لیے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا قیمتی ہونا معلوم نہیں ہے او راگر کسی کی کو تھوڑا بہت معلوم بھی ہے تو اس کو ان کی قدر کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے اور اگر توجہ ہے تو پوری نہیں ہے ۔
بہرحال ، میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب کو ان نعمتوں کا قیمتی ہونا معلوم ہو جائے اور اگر ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کر رہے ہیں تو قدر کرنی شروع کر دیں اور احتیاط سے انہیں استعمال کریں، تاکہ وہ ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ نافع اور مفید ہو جائیں اور اب تک اس سلسلہ میں ہم سے جو غفلت اور کوتاہی ہوئی ہے وہ دور ہو جائے۔
وقت عظیم نعمت ہے
اُن عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک وقت کی نعمت ہے ، جس کی الله پاک نے ”سورة العصر“ میں قسم کھائی ہے ۔ الله پاک نے فرمایا کہ: ﴿والعصر، ان الانسان لفی خسر… ﴾ اور قسم ہے زمانے کی! بلا شبہ انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرتے رہے او رایک دوسرے کو صبر رکھنے کی نصیحت کرتے رہے۔
الله تعالیٰ نے زمانے کے عظیم الشان ہونے کی وجہ سے اس کی قسم کھائی ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد الله تعالیٰ نے ہر انسان کو زمانے اور وقت کی نعمت عطا فرمائی ہے ، اب یہ نعمت یعنی زمانہ اور وقت اور عمر ہر ایک کی الگ الگ ہے ، کسی کی کم، کسی کی زیادہ اور کسی کی بہت کم اور کسی کی بہت زیادہ ۔ بہرحال دنیا میں جو بھی آیا ہے وہ وقت کی نعمت ضرور لے کر آیا ہے او رکامیاب شخص وہی ہے جو اس نعمت کو صحیح طریقے سے استعمال کر لے۔
وقت کے استعمال کی پہلی صورت
وقت کے استعمال کی تین صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وقت کو الله تعالیٰ کی یاد میں ، اطاعت میں اور عبادت میں صرف اور خرچ کیا جائے اورالله تعالیٰ کی یہ اطاعت ویاد صرف چند عبادات کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ سارے دین کا نام ہے اور مسلمان کو ساری زندگی عمل کے لیے دین کا کوئی نہ کوئی شعبہ اس کے سامنے آتا رہتا ہے ۔ لہٰذا زندگی کے کسی بھی موڑ پر دین کا کوئی بھی شعبہ یا دین کا کوئی بھی حکم عمل کرنے کے لیے سامنے آجا ئے تو اس پر عمل کرنا یہ اپنے وقت کو عبادت واطاعت میں گزارنا او راپنے وقت کو قیمتی بنانا ہے ۔ مثال کے طور پر کبھی تبلیغ کا حکم ہے ، کبھی جہاد کا حکم ہے، کبھی اصلاح لینے کا حکم ہے، کبھی نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم ہے ، کبھی اچھے اخلاق سے پیش آنے کا حکم ہے ، اسی طرح والدین کی خدمت او رنماز پڑھنے کا حکم ہے ، اسی طرح جب روزہ رکھنے کا وقت آیا تو روزہ رکھ لیا ، زکوٰة دینے کا وقت آگیا تو زکوٰة دے دی، صلہ رحمی کرنے کا وقت آگیا تو صلہ رحمی کر لی ، سچ بولنے کا موقع آگیا تو سچ بول دیا، حلال کمانے کا موقع آیاتو حلال کما لیا ، حرام سے بچنے کا وقت آیا تو حرام سے بچ گیا ، ٹی وی دیکھنے کا وقع آیا تو اپنے آپ کو اس سے بچا لیا ، گانا سننے کا موقع آیا تو اپنے کانوں کواس سے بچا لیا ، بد نگاہی کا موقع آیا تو بد نگاہی سے اپنے آپ کو بچا لیا ، لڑائی کا موقع آیاتو اپنے آپ کو بچالیا، بے صبری کا موقع آیا تو دامنِ صبر تھام لیا، شکر کرنے کا وقت آیا تو شکر کرنے لگا اورکسی عبادت کا وقت اور موقع آیا تو عبادت کرنے لگا ۔تو یہ تمام احکامات وقتاً فوقتاً انسان کو پیش آتے رہتے ہیں اور ان احکامات میں وقت لگانا الله تعالیٰ کی اطاعت اورعبادت میں وقت لگانا ہے ۔
بہرحال پہلی صورت یہ ہوئی کہ اپنے وقت کو الله تعالیٰ کی عبادت میں ، اطاعت میں اور الله تعالیٰ کی فرماں برداری میں گزارے اور جس وقت جو بھی دین کا حکم اور تقاضا ہو اس پر عمل کرے اور یہی صورت سب سے بہتر اوراعلیٰ ہے، کیوں کہ اطاعت خدا وندی میں ، الله تعالیٰ کی فرماں برداری میں اور الله تعالیٰ کا حکم بجالا نے میں جو وقت گزر گیا ، بس وہی وقت سب سے سنہری اور قیمتی ہے اور یہ زندگی کا مقصدِ اصلی بھی ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ نے تمام انسانوں او رجنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے اوقات کو الله تعالیٰ کی اطاعت میں گزاریں اور نافرمانی سے بچیں ، کیوں کہ نافرمانی سے بچنا یہ بھی اطاعت ہی ہے۔
دوسری صورت
وقت کے استعمال کی دوسری صورت جس سے الله پاک ہمیشہ ہمیں محفوظ رکھیں، یہ ہے کہ وہ وقت الله تعالیٰ کی نافرمانی، فسق وفجور او رگناہ کرنے میں گزر جائے ، مثلاً بدنگاہی کرنے میں ، جھوٹ بولنے میں ،غیبت کرنے میں ، الزام تراشی میں ، لایعنی باتوں میں، فضول تبصروں میں ، بے کار اور لایعنی خبریں پڑھنے میں ایسی کتابیں اور ایسے رسالے اور ایسے مضامین کے پڑھنے میں، جو بالکل فضول اور لایعنی ہوں ، ایسے گندے ناول اور افسانے جن سے بے حیائی، بے غیرتی، عیاشی اور بد معاشی کی تعلیم دی جاتی ہو اور ان کے پڑھنے والے پر بُرے اثرات پڑتے ہوں تو ایسے گندے ناول وغیرہ پڑھنے میں ، ٹی وی دیکھنے میں ، وی سی آر کے ذریعے فلمیں دیکھنے میں ، انٹرنیٹ کے ذریعے حرام اور ناجائز پروگرام دیکھنے میں، کیبل کے ذریعے ننگی دنیا دیکھنے میں ، نامحرم عورتوں کو شہوت کے ساتھ دیکھنے میں ، بے ریش لڑکوں کو شہوت سے دیکھنے میں، چوری کرنے میں ، ڈاکا ڈالنے میں ، شراب پینے میں ، جان بوجھ کر نماز چھوڑنے میں اور بلاعذر جماعت کی نماز چھوڑنے میں یا کسی اور گناہ میں اگر کسی نے اپنا وقت گزارا تو بس گویا اس نے اپنے وقت کا خون کر لیا اور اپنے کو تباہ وبرباد کر لیا۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت کوئی بندہ گناہ میں مشغول ہوتا ہے تو اس وقت وہ بندہ الله تعالیٰ کی نظر میں انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ ہوتا ہے اور جس وقت کوئی بندہ الله تعالیٰ کی اخلاص کے ساتھ عبادت کر رہا ہوتا ہے ، چاہے وہ سات کمروں میں چھپ کر اور بند ہو کر عبادت کرے تو اس وقت یہ بندہ الله تعالیٰ کا انتہائی پسندیدہ او رمجبوب ہوتا ہے ۔ بہرحال، دوسری صورت یہ ہوئی کہ اگر ہم اپنے وقت کو الله کی نافرمانی میں اور گناہ میں گزار دیں تو جتنا وقت بھی گناہ میں گزرے، اس وقت کو گویا ہم نے ضائع کر دیا، برباد کر دیا، اس وقت کی ناشکری وناقدری کی اور اپنا قیمتی سرمایہٴ، حیات ہم نے ضائع وبرباد کر دیا۔
تیسری صورت
وقت کے استعمال کی تیسری صورت یہ ہے کہ اس وقت کے اندر ہم نہ کوئی نیکی کا کام کریں اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کریں، بلکہ کوئی جائز او رمباح کام کریں ۔ جائز او رمباح کام وہ ہوتا ہے جس کے کرنے میں کوئی ثواب نہیں اور چھوڑنے میں کوئی گناہ بھی نہیں ، یعنی کرنے میں کوئی ثواب نہیں اور نہ کرنے میں کوئی عذاب نہیں تو ایسے کام کو جائز او رمباح کہتے ہیں ۔ مباح او رجائز کاموں کی فہرست بہت طویل ہے۔
صبح وشام آدمی جتنے کام کرتا ہے ، ان میں عموماً یہ تینوں صورتیں ہوتیں ہیں۔ صبح سے شام تک کا آدمی یہ جائز ہ لے کہ آج کا یہ دن میں نے کس طرح گزارا ہے تو وہ خود یہ محسوس کرے گا کہ کچھ تو اس نے نیک کام کیے ہیں ، کچھ برے کام بھی کیے ہیں اور کچھ ایسے کام کیے ہیں جنہیں نہ اچھا کہا جاسکتا ہے اور نہ برا کہا جاسکتا ہے، جو اچھے کام کیے ہیں ان پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اسی کی توفیق سے میں نے یہ کام کیے ، اس میں میرا کوئی کمال نہیں ، اس پر فخر نہ کرے اور عجب میں مبتلا نہ ہو اور جو برے کام کیے ہیں ، یعنی جوو قت کسی گناہ کے کام میں گزارا، مثلاً کسی کو کوئی ایک جملہ ایسا کہہ دیا جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچی ، کسی کی برائی کر دی ، کسی پر تہمت لگادی ، کسی کو ناجائز اور بلاوجہ ڈانٹ دیا، والدین کو ستایا، بہن بھائیوں کوپریشان کیا یا کوئی اور گناہ کیا، تو ان پر فوراً توبہ واستغفار کرے اور الله تعالیٰ سے معافی مانگے اور گڑ گڑائے اور اس سے آئندہ بچنے کا اہتمام کرے ۔
اور کچھ وقت پورے دن میں ایسا گزرا کہ جس میں ایسے کام کیے کہ ان پر نہ ثواب ہے اور نہ عتاب ہے،بلکہ جائز او مباح کام کیے ، مثلاً سونا، کھانا، پینا، زائد از ضرورت پہننا، زیب وزینت اختیار کرنا، کسی سے ملنے کے لیے جانا، اب اگر الله کے لیے ملنے گیا تو یہ عبادت بن جائے گا اور اگر ویسے ہی گیا تو یہ جائز او رمباح ہو گا ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مباح کام انسان دن بھر کرتا ہے ، تو ان پر نہ ثواب ہے اور نہ عذاب ہے۔
حسن نیت سے مباح کام بھی عبادت بن جاتا ہے 
البتہ جائز او رمباح کام بھی ایسے ہیں کہ انہیں بھی حسنِ نیت کی وجہ سے آسانی کے ساتھ عبادت بنایا جاسکتا ہے ، ایک کام جو اپنی ذات کے اعتبار سے جائز ہے ، اگر اس کو کرتے وقت ہم اچھی نیت کر لیں تو وہی جائز او رمباح کام آسانی سے عبادت بن جائے گا ، وہ کام بذات خود تو جائز او رمباح ہی رہے گا، لیکن حسنِ نیت کی وجہ سے وہ عبادت بن جائے گا اور ہمارے لیے باعث اجر وثواب ہو جائے گا ۔ تو جتنے بھی جائز او رمباح کام ہوں ان میں اچھی نیت کو ہم اپنے دامن میں باندھ لیں، یعنی ہر مباح کام کرتے ہوئے اس میں اچھی نیت کر لیں تو یہ ہمارے لیے عبادت بن کر اجر وثواب کا موجب ہو جائے گا ، حسن نیت اتنا بہترین عمل ہے کہ اس میں نہ پیسہ خرچ ہوتا ہے ، نہ طاقت خرچ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خاص وقت خرچ ہوتا ہے ، ذرا سا دل کا رخ صحیح کر لیں تو وہ جائز او رمباح کام ہمارے لیے نیکی بن جائے گا۔
نیت کا دوسرا رخ
نیت کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر خوانخواستہ کسی عبادت میں بری نیت کر لی تو عبادت بھی گناہ بن جاتی ہے ، مثلاً نفلی نماز پڑھتے وقت کوئی یہ نیت کرے کہ لوگ مجھے عابد وزاہد کہیں ، حج اس لیے کرے کہ لوگ مجھے حاجی اور الحاج کہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ اس لیے حسن سلوک کرے کہ برادری کے لوگ کہیں کہ اس کو تو بہت ہی زیادہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رہتا ہے ، یہ تو قوم کا بہت ہی ہمدرد اور بہی خواہ ہے ، تو اب ان تینوں صورتوں میں پیسے بھی خرچ ہوئے ، وقت بھی خرچ ہوا اور محنت ومشقت بھی برداشت کی ، لیکن پھر بھی اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جائے گا کہ یہ نمائشی اور ریا کار ہے اور اس کی ایسی کوئی عبادت قابلِ قبول نہیں اور اگر یہی تینوں کام الله کی رضا کے لیے کر لیے جائیں تو یہ سارے کام عبادت بن جائیں اور کندن بن جائیں اور تھوڑی سی عبادت بھی بہت ہو جائے او رمقبول ہو جائے۔
بہرحال، یہ نیت ایسی پیاری چیز ہے کہ اگر اس کو جائز او رمباح کاموں میں اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو تمام جائز کام بھی باعثِ اجروثواب ہو جائیں۔
کمرہ کی مثال
مثلاً ایک کمرے میں تین چار ساتھی رہتے ہیں او رسب ساتھیوں کا اس طرح مل کر رہنا یہ ایک جائز او رمباح کام ہے ، اب اگر کوئی شخص اس طرح ساتھ رہنے میں یہ نیت کر لے کہ میں اس کمرے میں اپنے ساتھیوں کی خدمت کرنے کے لیے رہوں گا اور چوں کہ وہ سب ساتھی طالب علم ہیں اور دین کا علم حاصل کرنے آئے ہوئے ہیں تو میں ان کی خدمت اس لیے کروں گا، تاکہ اور زیادہ دلچسپی سے وہ الله کا دین حاصل کریں اور پھر جب فارغ ہو کر جائیں گے تو وہ الله کے دین کو پھیلائیں گے اور اس طرح وہ دین کی خدمت میں لگیں گے تو مجھے ثواب ملے گا۔ اب اس نیت سے ساتھیوں کے ساتھ مل کر رہنا بھی عبادت بن جائے گا، اب یہ شخص دن کو بھی عبادت میں ہے ، رات کو بھی عبادت میں ہے او راس کے علاوہ جب بھی اور جتنا بھی وقت کمرے میں گزرے گا وہ عبادت میں شمار ہو گا۔
ایک سے زیادہ نیتیں
اس نیت کے اندر الله پاک نے ایک سہولت او ربھی رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سے زائد نیتیں بھی انسان کر سکتا ہے اور ہر نیت کا علیحدہ ثواب ملے گا۔جیسے کمرے میں رہنے میں ایک نیت تو ساتھیوں کی خدمت کرنے کی ہو گئی اور الله کے لیے اپنے دوستوں، بہن ، بھائیوں او رحتی کہ عام انسانوں کی خدمت کرنا یہ خود اعلیٰ درجے کی عبادت ہے اور پھر طلباء وعلماء کی خدمت کرنا اس کا اور بھی زیادہ ثواب ہے ۔ اس میں دوسری نیت یہ بھی کر سکتا ہے کہ اگر ان ساتھیوں میں سے کوئی بیمار ہو گاتو میں اس کی بیماری پرسی کروں گا۔ اور بیمار کی بیمار پرسی کرنا، اس کی عیادت کرنا او راس کی بیماری میں اس کی دیکھ بھال کرنا یہ بھی عبادت ہے۔
تیسری نیت یہ بھی کرسکتا ہے کہ الله تعالیٰ ان ساتھیوں کو علم عطا فرمائیں گے ، میں ان سے یہ علم حاصل کروں گا اور الله پاک جو علم مجھے عطا فرمائیں گے محض اپنے فضل سے ، وہ علم میں ان تک پہنچا دوں گا ، اب اس میں تکرار، مطالعہ اور زبانی مذاکرہ سب داخل ہو جائیں گے۔
چوتھی نیت ساتھیوں کے ساتھ رہنے میں یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مجھے ان کے ساتھ رہنے میں ان کے ذریعہ نیک صحبت میسر آجائے گی ، یہ میرے ساتھی الله والے او رنیک ہیں اور یقینا مجھ سے افضل ہیں ، کیوں کہ ہر مسلمان کے لیے دوسرا مسلمان فی الحال اس سے افضل ہے او رمجھے کسی نہ کسی نیک صحبت میں رہنا چاہیے تو میں نیک ساتھیوں کے ساتھ رہتا ہوں، تاکہ ان کی نیک صحبت میں رہنے سے مجھے بھی فائدہ ہو تو اس نیت کا الگ ثواب ملے گا۔
دیکھیے! ایک ہی وقت میں مختلف نیتیں کرنے سے انسان ان سب کا ثواب حاصل کر سکتا ہے ، جیسا کہ مذکورہ مثال سے واضح ہوا کہ کمرہ ایک ہے، ساتھی بھی وہی ہیں اور وقت بھی ایک ہے، مگر نیتیں مختلف کرنے سے ہر نیت کا علیحدہ ثواب مل رہا ہے۔ اسی طرح مختلف نیتیں درس گاہ کے لیے بھی ہم کرسکتے ہیں او رمارکیٹ جانے کے لیے بھی مختلف نیتیں کرنے سے ان سب کا ثواب حاصل کرسکتے ہیں ، کیوں کہ جب یہ اچھی اچھی نیتیں کرکے انسان مارکیٹ جائے گا تو وہاں جاکر جو کام کرے گا وہ بھی عبادت میں شمار ہو گا اور اس کا آنا جانا یہ بھی عبادت میں شامل ہو کر اس کے لیے باعثِ اجروثواب ہو جائے گا۔
اسی لیے میں عرض کر رہا ہوں کہ نیت کو ہم سب اپنے پلے میں باندھ لیں، کیوں کہ یہ ایک ایسی عجیب وغریب نعمت ہے کہ اس سے وقت بہت جلد اور بہت ہی زیادہ قیمتی بن جاتا ہے۔
مباح کاموں میں زیادہ وقت گزرتا ہے
بہرحال! عبادات کا وقت اور حصہ تھوڑا ہوتا ہے او رمباحات کا وقت اور حصہ بہت زیادہ ہوتا ہے او رگناہ کا وقت بھی بہت تھوڑا ہوتا ہے ، اِلا یہ کہ انسان گناہ پر کمر ہی کس لے” الله بچائے“ کیوں کہ گناہ کے مواقع بھی صبح سے شام تک بہت کم آتے ہیں، زیادہ وقت انسان عام طور پر مباح کام کرنے میں ہی گزارتا ہے ، تو مباح کاموں میں جو وقت گزرتا ہے اس وقت کو قیمتی بنانے کے لیے نیت کا استعمال بہت زیادہ کر دیں، تاکہ ہمارے اجر وثواب اور نیکیوں میں اضافہ ہوتارہے۔
حسن نیت کا ایک واقعہ
نیت کے بہترین استعمال کرنے پر ایک واقعہ یاد آیا جو کہ ہمارے دارالعلوم کے ہی ایک استاد صاحب کا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بتایا کہ میں نے فجر کی نماز کے بعد ٹہلنے کے معمول میں پچاس نیتیں سوچیں۔ تو آپ غور کریں کہ صبح صبح ٹہلنا ، یہ ایک ہی عمل ہے اور اس میں ایک ہی وقت صرف ہوتا ہے مگر وہ فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے میرے ذہن میں اس وقت اس کے بارے میں پچاس نیتیں ڈالیں تو میں نے وہ پچاس کی پچاس نیتیں کر لیں ، اس طرح ایک ہی وقت اور ایک ہی عمل میں ہر نیت کا الگ الگ ثواب مل جائے گا۔
اہل الله کا کمال
الله والوں کا یہی کمال ہے کہ اول تو ان کا وقت غفلت میں بہت ہی کم گزرتا ہے ، پھر الله پاک انہیں یہ گر استعمال کرنے کی بھی توفیق دے دیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کے اوقات میں شاید ہی کوئی وقت ایسا ہو جو غفلت میں گزرے، وگرنہ ان کا سارا وقت یا تو یاد الہٰی میں گرزتا ہے یا حسن نیت کی وجہ سے عبادت میں گزرتا ہے او راگر کہیں کمی کوتاہی ہو گئی تو توبہ واستغفار میں گزرتا ہے، اس طرح ان کی زندگی کے اوقات کسی نہ کسی طرح عبادت میں گزرتے ہیں۔
مرید کا پیر صاحب کو گھر لے جانا
ایک واقعہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے مواعظ میں بھی آتا ہے کہ ایک مرید نے اپنا نیا مکان بنوایا، جب مکان بن کر تیار ہو گیا تو اس نے اپنے پیر صاحب کو دعوت دی کہ حضرت ! آپ گھر تشریف لے چلیں او رگھر کا افتتاح فرما دیں او رساتھ ساتھ کھانا بھی تناول فرمائیں او ربرکت کے لیے دعا بھی فرما دیں، آپ کے آنے کی وجہ سے گھر میں برکت ہو جائے گی۔
پیر صاحب اس مرید کے گھر تشریف لے گئے ، اس نے اپنے حضرت کو اپنی نئی بیٹھک میں بٹھایا، اس بیٹھک میں اس نے ایک کھڑکی بھی لگوائی تھی، حضرت کو کھڑکی کے قریب ہی بٹھایا او رخود بھی حضرت کے سامنے ہی بیٹھ گیا ، پیر صاحب نے پوچھا کہ بھئی یہ کھڑکی کیوں لگوائی ہے ؟ تو اس نے کہا کہ حضرت ! ہوا اور روشنی آنے کے لیے لگوائی ہے۔ تو حضرت نے قدرے تأسف سے فرمایا کہ اگر نیت اس کھڑکی کے لگوانے میں یہ کر لیتا کہ میں کھڑکی اس لیے لگوا رہا ہوں کہ اس میں سے اذان کی آواز آئے، تو اذان کی آواز آنے کی نیت سے جب تک یہ کھڑکی یہاں رہتی ، تمہیں اس کا ثواب ملتا رہتا۔ ”سبحان الله“ کیا بہترین تعلیم فرمائی۔ تو دروازے او رکھڑکیاں عام طور پر آنے جانے اور ہوا اور روشنی کی نیت ہی سے لگوائے جاتے ہیں، جو ایک جائز اور مباح نیت ہے ، لیکن اس کے ساتھ بہت سے نیک کام بھی تو وابستہ ہیں ، اگر عقل ہو، جو الله والوں کو نصیب ہوتی ہے ، الله پاک ان کے طفیل ہمیں بھی نصیب فرمائے ، تو پھر ایسی ایسی نیتیں بھی ہو سکتی ہیں کہ وہ دروازہ، وہی کھڑکی ہو گی، مگر حسن نیت ان کو عبادت میں تبدیل کر دے گی اور ہوا اور روشنی تو پھر بھی آکر ہی رہے گی۔
بہرحال! تیسرا وقت ہمارا صبح وشام ایسا ہو گا کہ جس میں ہم نہ نیکی کر رہے ہوں گے اور نہ ہی کوئی بُرا کام کر رہے ہوں گے ، بلکہ وہ وقت ایک جائز او رمباح کام میں صرف ہو رہا ہو گا ، تو اگر صرف جائز او رمباح کام میں کوئی وقت صرف ہوا تو بھی یہ ایک طرح کا نقصان ہے ، اس لیے کہ کسی وقت میں گناہ کرنا یہ تو واضح نقصان ہے ہی ، لیکن ایک صورت یہ ہے کہ تھوڑے سے وقت میں معمولی عمل سے ہم بہت سارا ثواب حاصل کر سکتے تھے، مگر اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے وہ وقت جائز اور مباح کام میں صرف کرکے وہ ثواب حاصل نہ کرسکے تو یہ بھی ایک طرح کا نقصان ہی ہے اور اسی کو عدم النفع کہتے ہیں ۔ یعنی نفع کا نہ ہونا یہ بھی ایک طرح کا نقصان ہے اور دنیا والے تو اس کو نقصان سمجھتے ہیں مگر دین والے الا ماشاء الله اس کو نقصان نہیں سمجھتے، یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔
ایک تاجر کا واقعہ
عدم النفع کو نقصان سمجھنے پر ایک تاجر کا واقعہ یاد آیا، ہمارے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ کے ہاں ایک تاجر آیا کرتے تھے او رجب بھی آتے تو سال بھر کی تجارت کا خسارہ حضرت کو سناتے تھے کہ حضرت ! اس سال بیس کروڑ کا خسارہ ہو گیا ، اس اس سال دس کروڑ کا خسارہ ہو گیا اور اس سال پانچ کروڑ کا خسارہ ہو گیا۔ تو وہ کروڑوں اور لاکھوں میں حضرت کو اپنا نقصان بتاتے اور حضرت یہ سن کر بہت دل گیر ہوتے کہ یہ بے چارہ مسکین سال بھر محنت کرتا رہتا ہے اورآخری میں اس کو اتنا بھاری نقصان ہو جاتا ہے۔ آخر ایک دن حضرت رحمة الله علیہ نے اس تاجر سے پوچھا کہ بھائی! تم ایسا کون سا کاروبار کرتے ہو کہ اس میں نفع کا کوئی خانہ ہی نہیں ، کبھی یہ نہیں بتاتے کہ اتنا نفع ہوا، بلکہ جب بھی بتاتے ہو تو نقصان ہی نقصان کا ذکرکرتے ہو ، تو تمہیں کون سی ایسی مجبوری ہے کہ اتنے نقصان والے کاروبار کو اختیار کیے ہوئے ہو؟ یہ کیسا نقصان ہے کہ تم ہمیشہ اس کو برداشت کرتے رہتے ہو او رذکر کرتے رہتے ہو؟ مگر اس کو چھوڑنے کا نام تک نہیں لیتے؟ بھئی !اگر اتنا بڑا نقصان تمہیں مستقل برداشت کرنا پڑ رہا ہے تو اس کاروبار کو چھوڑ کر کوئی ایسا کاروبار کرو جس میں نفع بھی ہو ، ہمیشہ خسارہ دینے والے کاروبار کو چھوڑ دو۔ تو اس تاجر نے کہا کہ حضرت دراصل بات یہ ہے کہ ہم جب کوئی فیکٹری یا کارخانہ لگاتے ہیں یا کوئی مال وغیرہ خریدتے ہیں تو ہم اپنے ذہن میں یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سال اس میں ہمیں اتنا نفع ہونا چاہیے، مثلاً ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سال اس فیکٹری یا کارخانے میں ہمیں دس کروڑ کا فائدہ ہونا چاہیے او رپھر اس میں اگر پانچ کروڑ کانفع ہوا تو ہم لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ اس میں پانچ کروڑ کا نقصان ہوا ہے ، یا مثلاً ہم نے یہ تخمینہ لگایا کہ اس سال ہمیں پچاس لاکھ کا فائدہ ہونا چاہیے اور چالیس لاکھ کا نفع ہوا تو ہم کہتے ہیں کہ دس لاکھ کا نقصان ہو گیا۔ یعنی دس لاکھ جو کہ متوقع نفع تھا، اس کو نقصان شمار کرتے ہیں او رحقیقت میں جو چالیس لاکھ کا فائدہ اور نفع ہوا اس کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کرتے۔ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ نے جب یہ سنا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ میں سمجھا کہ اس بچارے کا کتنا نقصان ہو رہا ہے، مگر معلوم ہوا کہ ان تاجر لوگوں کے ہاں عدم النفع بھی خسارہ ہے اور عموماً ہمارے یہاں اس کی زیادہ اہمیت نہیں ، حالاں کہ آخرت کے اعتبار سے ہمیں اس کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ جن جن اوقات ولمحات او رجن کاموں میں ہم حسن نیت کے ذریعہ یا کسی اور طرح سے آخرت میں ثوابِ عظیم حاصل کرسکتے ہیں تو کر لینا چاہیے او راگر نہ کر سکیں تو یہ بہت بڑا خسارہ اور نقصان ہے۔
تہجد کی عظیم فضیلت
تہجد کے بارے میں ایک فضیلت اس وقت مجھے یاد آئی ، وہ آپ کو سناتا ہوں ، ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں نماز پڑھے تو اس کو دس ہزار گنا نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے ، بعض روایتوں میں پچاس ہزار کا بھی ذکر ہے ، مگر اس روایت میں دس ہزار کا ذکر ہے ، ورنہ عام طور سے مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں پچاس ہزار گنا اور بیت المقدس میں پچیس ہزار گنا ثواب ملنے کا ذکر ہے او راس روایت میں اس طرح ہے کہ مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں نماز پڑھنے کا ثواب دس ہزار گنا زیادہ ہے او رحرم شریف میں نماز پڑھنے کاثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور سرحد اسلام کی حفاظت کے دوران نماز پڑھنے کا ثواب بیس لاکھ کے برابر ہے اور تہجد کے وقت دو رکعت نفل پڑھنے کا ثواب اس سے بھی زیادہ ہے ۔ تو تہجد کی دو رکعت نماز پڑھنے کا ثواب بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہے تو کہاں بیس لاکھ اور کہاں دو رکعت؟
اب تہجد کے لیے اٹھنا ہم میں سے ہر ایک کے اختیار میں ہے اور آسان ہے، کوئی مشکل نہیں ہے ، بس ذرا سی ہمت اور دعا اور نیت کی ضرورت ہے ، آج کل تو موقع بھی ہے کیوں کہ سردیوں میں راتیں لمبی ہوتی ہیں ، ساڑھے پانچ بجے بھی اگر آدمی اٹھ جائے تو وضو کرکے آرام سے دور کعتیں پڑھ سکتا ہے او رجوان دنوں میں پابندی کر لے گا تو گرمیوں میں بھی اس کے لیے ان شاء الله تعالیٰ اٹھنا آسان ہو جائے گا ۔ بہرحال یہ کام کوئی اتنا مشکل نہیں ہے ، الله تعالیٰ ہمارے لیے آسان فرما دیں ۔ آمین۔
بہرحال تہجد کی دو رکعتوں کا ثواب بیس لاکھ سے زیادہ ہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ دو رکعت میں بمشکل عام طور سے ڈھائی یا تین منٹ لگتے ہیں اور ذرا ٹھہر ٹھہر کر آرام سے پڑھے تو چار یا پانچ منٹ میں آسانی سے دور کعت مکمل ہو جاتی ہیں، لمبی قرأت اور لمبے رکوع وسجود کی بات علیحدہ ہے ، تو ان دو رکعتوں میں کتنا قلیل او رمعمولی سا وقت خرچ ہوتا ہے، لیکن یہی وقت اتنا قیمتی بن جاتا ہے کہ ایک دم دو رکعت پڑھنے سے بیس لاکھ نمازوں کا ثواب آخرت میں اس کے نامہ ٴ اعمال میں درج کیا ہوا ملے گا۔
بیس لاکھ نیکیاں
اسی طرح: ”لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ،احدا صمدا، لم یلد، ولم یولد، ولم یکن لہ کفوا احد“․
یہ کلمہ بہت مشہورومعروف ہے، اس میں آدھی تو قل ہو الله ہے، جو کہ ہر بچے کو یاد ہوتی ہے ، شروع میں کلمہ شریف ہے وہ بھی ہرمسلمان کو یاد ہوتا ہے، بس درمیان میں دو لفظ احداً صمداً یہ نئے ہیں ، انہیں یاد کر لیں ۔ تو اس کلمے کے بارے میں یہ فضیلت ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ یہ کلمہ پڑھ لے تو اس کو بیس لاکھنیکیاں ملتی ہیں ۔ آپ سوچیے کہ اس میں کتنا وقت گزرا ہے ، ایک منٹ نہیں بلکہ چند سیکنڈ صرف ہوئے ہیں ، تو یہ چند سکینڈ کتنے قیمتی ہیں جواس کے پڑھنے میں گزر گئے کہ بیس لاکھ نیکیاں اس کے نامہٴ اعمال میں درج ہو گئیں او راگر پانچ مرتبہ پڑھ لیا تو ایک کروڑو نیکیاں مل گئیں ، دس دفعہ پڑھ لیا تو دو کروڑ نیکیاں ہو گئیں ، روزانہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ پڑھ لیں تو دس کروڑ نیکیاں روزانہ اس کے نامہٴ اعمال میں درج ہو جائیں گی۔ دیکھیے اس میں وقت تھوڑا سا لگ رہا ہے اور کروڑوں نیکیاں اس کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔
دس ارب نیکیاں 
اسی طرح حج کے اندر یہ فضیلت ہے کہ منیٰ سے عرفات تک جو شخص پیدل جائے تو اس کو از روئے حدیث دس ارب نیکیاں ملتی ہیں ۔ حالاں کہ چھ میل کا فاصلہ ہے اور اس میں پیدل چلنے میں چھ گھنٹے بھی نہیں لگتے ،بمشکل چند گھنٹے لگتے ہیں او ردس ارب نیکیاں نامہٴ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ۔آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے یہ لمحاتِ زندگی کتنے قیمتی ہیں کہ اگر انہیں بچا بچا کر انسان اچھے کاموں میں خرچ کرے تو تھوڑے سے وقت میں نہ جانے کتنے اجر وثواب کا مالک بن جائے۔
جنت میں محل
دس مرتبہ قل ھو الله پڑھنے سے جنت میں ایک محل تیار ہوتا ہے اور ایک مرتبہ اپنے والد یا والدہ کی طرف محبت سے نظر ڈالنے میں ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ اس حدیث میں مقبول کی بھی صراحت ہے ، ورنہ ایک لاکھ روپیہ خرچ کرکے بھی اگر کوئی حج کر آئے تو اس کے مقبول ہونے کا یقین کرنا مشکل ہے اور پھر اس میں وقت بھی بہت زیادہ خرچ ہو گا، لیکن والد یا والدہ کی طرف محبت سے ایک نظر ڈالنے میں وقت بھی معمولی لگے گا اور پھر ثواب بھی مقبول حج کا ملے گا۔ اب اگر کسی نے محبت کی نظر اپنی والدہ یا والد پر ہزاروں بار ڈالی تو اس کے نامہٴ اعمال میں ہزاروں مقبول حج کا ثواب درج ہو جائے گا۔ سبحان الله!
زندگی کی قیمت پہچانیں
ہمیں سوچنا چاہیے کہ الله پاک نے ہمیں کتنی قیمتی زندگی دے رکھی ہے ، مگر ہم اس کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کسی نے اس کو کیا خوب کہا ہے #
ہو رہی ہے عمر مثلِ برف کم
چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم
کہ یہ زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ز ندگی کی مثال برف بیچنے والے کی سی ہے کہ برف بیچنے والے کا کل سرمایہ برف ہے اور وہ برابر پگھل پگھل کر بہہ رہا ہے اور اس کا قطرہ قطرہ نالی میں جارہا ہے ، اس کا فائدہ اس میں ہے کہ جتنی جلدی برف بک جائے گی اتنی جلدی پیسے کھرے ہو جائیں گے اور جو بچ جائے گی وہ اس کا سرمایہ پانی بن کر بہہ جائے گا ۔ بالکل اسی طرح ہماری زندگی کے یہ سانس بھی گنے چنے ہیں ، جو سانس ایک مرتبہ لے لیا وہ لے لیا، اب دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا ، اب نیا سانس آئے گا۔ اسی طرح جو منٹ ، گھنٹہ ، دن، ہفتہ ، مہینہ، حتی کہ جو سال گزر گیا وہ گز ر گیا، اب دوبارہ واپس نہیں آئے گا، وہ ختم ہو گیا ، جو گیا سو گیا اور جو آیا اس کو اگر صحیح استعمال کر لیا تو کھر ا کر لیا، اگر ضائع کر دیا تو کھو دیا۔
وقت کو ضائع کرنے سے بچیں
الله تعالیٰ ہمیں اپنے سرمایہ حیات کو محض اپنے فضل سے حقیقتاً اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ ہمارا وقت بے کار او رفضولیات میں ضائع نہ ہو اور فضول مجلسوں ، فضول بیٹھکوں، فضول کاموں اور فضول باتوں میں ضائع نہ ہو ۔ آج کل اس کی بہت عادت ہے کہ ہمارا وقت یا تو معاصی میں ضائع ہو تا ہے، الا ماشاء الله یا پھر فضول او ربے کار بیٹھے ہوئے ہیں ، بے کار لیٹے ہوئے ہیں، بے کار باتیں کر رہے ہیں ، ادھر ادھر کے تبصرے ہو رہے ہیں کبھی اخبارات پر ، کبھی ان کی خبروں پر ، کبھی حکومت پر ، کبھی اپنے ملک پر اورکبھی دوسرے ممالک پر کہ جن کا نہ تو کوئی فائدہ ہے ، نہ ضرورت وحاجت ہے او رنہ ہی اس کا کوئی نتیجہ اورحاصل ہے ، بس فضول وقت ضائع کیا جارہا ہے۔
اسی طرح اگر کمروں میں جاکر بیٹھتے ہیں تو فضول بیٹھے ہوئے ہیں اور گھنٹوں ادھر ادھر کی باتیں ہانکنے میں لگے ہوئے ہیں، ان میں فضول اور لایعنی باتیں تو خود معصیت ہیں ہی ، اس کے علاوہ ان میں غیبتیں ، جھوٹ ، الزام، بہتان، دل آزاری، بدتمیزی، بد تہذیبی ، بد اخلاقی اور ساتھ ساتھ ایسا مذاق واستہزا کہ جس سے دوسرے کو تکلیف اور اذیت ہو ، یہ سب شامل ہوتے ہیں ، اس طرح وقت گزارنا یہ تو معصیت میں وقت گزارنا ہے اور جس وقت کوئی بندہ معصیت میں وقت گزار رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ بندہ الله تعالیٰ کی نظر میں انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ ہوتا ہے۔
دعا
اس لیے میرے عزیزو اور بزرگو! دعا کریں کہ الله تعالیٰ ہمیں اپنے اس قیمیتی سرمایہ حیات کو، جو کہ اس نے محض اپنی رحمت سے ہم سب کو عطا فرمایا ہوا ہے، زیادہ سے زیادہ آخرت کے کاموں میں او رزیادہ سے زیادہ اچھے کاموں اور حسن نیت کے ساتھ جائز اور مباح کاموں میں لگانے کی توفیق دیں اور جو وقت گزر گیا اس کو الله تعالیٰ معاف فرما دیں اور جو خصوصاً وقت گناہ اور معصیت اور لایعنی وفضول کاموں میں گزرا ہے، اس کو بھی معاف فرما دیں۔ او ران کی قدرت میں یہ بھی داخل ہے اور ان کے خزانہ رحمت میں کوئی کمی بھی نہیں آئے گی کہ جونیک کام ان اوقات ماضیہ میں ہو سکتے تھے اور ہم نہ کر سکے ، الله پاک ان کا ثواب بھی ہمارے اعمال ناموں میں درج فرما دیں۔ ہمیں دعا تو کرنی چاہیے، وہ کریم الکرماء ہیں، انہوں نے دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے: ﴿ادعونی استجب لکم﴾․
تم مجھے سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
دل وجان سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ یا الله! ہم تو ناواقف اورنالائق ہیں ، بس آپ ہم پر اپنا کرم فرما دیجیے، آپ کے کرم سے ہی اول بھی کام چلے گا اور آپ ہی کے کرم سے آخر میں بھی کام چلے گا اور اے الله! جو وقت ہم غفلت میں گزار چکے ہیں، اے کریم! آپ اس وقت کو بھی کھرا کر دیجیے، اورہماری نمازوں، حج، تسبیح او رنیک کاموں پر ثواب لکھ دیجیے اور ہم سے جو گناہ ہو گئے ہیں ان پر معافی کا قلم پھیر دیجیے اور اب تک جووقت گزرا سو گزرا، اب ان شاء الله ہمارا کوئی وقت غفلت او رنافرمانی میں نہیں گزرے گا اور جائز ومباح کام میں بھی جووقت گزرے گا تو ان شاء الله کوشش کرکے، حسن نیت کرکے اس کو بھی کار آمد بنائیں گے ۔
اور مستقبل کے لیے بھی یہ تہیہ کر لیں اور دعا بھی کرتے رہیں کہ یا الله! اب جو وقت ہمارا باقی رہ گیا ہے وہ گناہوں، نافرمانیوں، فضولیات اور بے کار کاموں میں نہ گزرے، بلکہ آپ کی یاد میں اور آپ کی اطاعت اور فرماں برداری میں گزرے، الله تعالیٰ ہم سب کو توفیق عمل عطا فرمائے۔ آمین!

Flag Counter