Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 16
***
استاد کا ادب، دنیا و آخرت کی کامیابی
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
ہم سب سے پہلے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ہم سب کو اسلام، ایمان، اور علم دین کی برکت سے مالا مال کیا،یہ اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ جن نعمتوں کو امہات النعم کہا جاتاہے،تو اللہ رب العزت نے ہمیں بڑی بڑی نعمتیں عطا کیں ، ان نعمتوں کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ امہات النعم فرماتے تھے ۔اور بے شمار نعمتیں ہیں،مگر یہ روحانی نعمتیں ہیں، اللہ کی نعمتیں دو طرح کی ہوتی ہیں،ایک ہیں اللہ کی رحمتیں ظاہری اورمادی اوردوسری ہیں باطنی۔
اللہ کی ظاہری اور مادی نعمتیں یہ ہیں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں کھانے کے لیے، پینے کے لیے،پہننے کے لیے اور رہنے سہنے کے لیے بہت کچھ دے رکھا ہے یہ تمام کی تمام اللہ کی ظاہر ی نعمتیں ہیں، اس لیے کہ ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ہوتا ہے آپ کسی بھی چیز کو دنیا میں لے لیجیے جیسے ایک سیب ہے،ایک تو ہے سیب کا ظاہر،اور ایک ہے سیب کا باطن،سبب کا ظاہر کیا ہے،اوپر سے اس کا جو چھلکا ہوتا ہے وہ لال ہوتا ہے اور اندرسے وہ سفید ہوتاہے،اس کو کھایا جاوے تو آدمی کو اس سے لذت محسوس ہوتی ہے،کہ اس سے مٹھا س ملتی ہے لیکن اتنے پر بات ختم نہیں ہوتی،بلکہ اس کی تاثیر ہوتی ہے،کہ آیا یہ سیب اپنے اندر حرارت رکھتا ہے، یابرودت رکھتا ہے، کسی بھی پھل کو آپ اٹھائیں،اس میں حرارت ہوتی ہے یا برودت ہوتی ہے۔
بعض پھل ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تاثیر کے اعتبار سے گرم ہوتے ہیں، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تاثیر کے اعتبار سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔اور اللہ کا عجیب نظام ہے،کہ اللہ رب العزت جن پھلوں میں تاثیر گرم ہوتی ہے،ان پھلوں کو ٹھنڈے علاقوں میں پیدا کرتا ہے، جن پھلوں کی تاثیرٹھنڈی ہوتی ہے، ان پھلوں کو گرم علاقوں میں پیدا کرتاہے،جیسے آپ اخروٹ کو لیجیے، بادام کو لے لیجیے ان کی تاثیر گرم ہے، مگر اللہ رب العزت کا کیا کہنا، اللہ رب العزت اس کو ایسے علاقے میں بناتا ہے جہاں کثرت سے برف ہوتی ہے، جیسے کشمیر ہے، حالاں کہ اس کی تاثیر گرم ہے،مگر اللہ اس کو کہاں پیدا کر رہاہے، جہاں پر بالکل ٹھنڈک ہوتی ہے اوراللہ رب العزت ایسے پھلوں کو جن کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے،پیدا کر تا ہے ایسے علاقے میں جہاں گرمی پائی جاتی ہے، تو بہرحال میں اس بات کو زیادہ لمبا اور طول دینا نہیں چاہتا،بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں،کہ ہر چیز کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے۔
انسان کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے، ہر شخص اپنے ظاہر کو جانتا ہے،لیکن اصل چیز انسان کا باطن ہے،انسان کے اسی باطن کو سنوار نے کے لیے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی بعثت عمل میں آئی،اگر انسان کو اللہ نے باطن نہ دیا ہوتا،بلکہ جانوروں کی طرح صرف ظاہر دے دیا ہوتا، تو اس دنیا میں ایک بھی نبی کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں تھی،مگر انسان کے کمال تک پہنچنے کے لیے ،باطن کی اصلاح یہ انتہائی اہم تھی،لہٰذا انسان کے باطن کو سنوار نے کے لیے حضرات انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو بھیجا اور چوں کہ انسان اپنے باطن کو نہیں حل کرسکتا تھا، اپنے باطن کی اصلاح صرف اپنی عقل کے بل بوتے پر نہیں کرسکتا تھا ، تو اللہ رب العزت نے اپنی کتابوں کو ،اپنی وحی کو، اپنی باتوں کو اور اپنے کلمات کو انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام پر نازل کیااور انبیاء علیہم الصلوة والسلام نے لوگوں کو وہ کلمات سکھائے،سکھانے کے بعد ان کی تعلیم دے کر ،ان کو سمجھایااور سمجھانے کے بعد ان پر عمل کر کے بتلایا۔
تو میں اور آپ اور ہم جیسے جتنے بھی لوگ مدار س سے منسلک ہیں، وہ تمام کے تمام لوگ مدرسے کی طرف کیوں آئے ہیں؟مدرسے کی طرف آنے کی وجہ کیا ہے؟حضرت مولانا علی میاں ندوی  فرمایا کرتے تھے،مدارس یہ انسان بننے کی فیکٹریا ں ہیں، مدارس میں انسان کو انسانیت کے درس دیے جاتے ہیں،کہ ایک انسان اپنی زندگی کیسے گزارے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کیسے رہے ایک انسان کا تعلق دوسرے انسان کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے؟یہ تمام کی تمام چیزیں مدارس کے اند ر سکھائی جاتی ہیں،کیوں ؟اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دے کر بھیجا گیاوہ علم اسی مقصد کے لیے بھیجا گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی: إقرأ پڑھیے۔ مگر آج ہمارا معاشرہ عجیب ہے،صرف إقرأ پڑھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول پر سب سے پہلی وحی إقرأ نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ علم کی بہت اہمیت ہے،مگر صرف إقر أ پڑھ لینے سے کام نہیں چلتا ،بلکہ آپ آگے کی دو چار آیتیں پڑھیے،قرآن کریم نے کن حقائق کو بیان کیا ہے اور لوگ صرف إقرأ کے لفظ کو لے کر کتنی گمراہیوں میں مبتلا ہونے والے تھے،ان تمام کی تمام گمراہیوں کو قرآن نے دو چار آیتوں میں سمیٹ کر رکھ دیا،قرآن کیا کہتاہے: إقرأ ،پڑھ، بإسم ربک الذی خلق، اس رب کے نام سے جس نے تجھ کو پیدا کیا۔ قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ مطلق پڑھ۔ نہیں، مطلق پڑھنا مقصود نہیں ہے، بإسم ربک الذی خلق رب کے نام سے پڑھنا مقصود ہے،جس رب نے تجھ کو پیدا کیا ، قرآن یہ بھی کہہ سکتا تھا، إقرأ بإسم اللہ الرحمن الرحیم لیکن قرآن کریم کی تعبیر پر آپ غور کیجیے،قرآن کہتا ہے إقرأ پڑھ، بإسم ربک اس رب کے نام سے، الذی خلقجس نے تجھے پیدا کیا؛اس کو کہا جاتا ہے دعوی مع الدلیل۔ قرآن کریم نے یہاں دعوی بھی پیش کیا، حکم بھی دیا اور دلیل بھی دے دی اور اس کی علت بھی بیان کر دی، قرآن نے کہا پڑھ، بإسم ربک رب کے نام سے،تو ایک سوال پیدا ہوا، میں کیوں رب کے نام سے پڑھوں؟ انسان نے علت تلاش کی، تو اللہ رب العزت نے اس کا جواب دیا: الذی خلق۔ اس لیے کہ اسی نے تجھے پیدا کیا ،اگر تو اس کے نام سے نہیں پڑھے گا ، تو اور کس کے نام سے پڑھے گا؟تو معلوم ہوا کہ إقرأ کی تعلیم دے کر سب سے پہلے تعلیمات اسلامیہ کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا،انسان سب سے پہلے وہ علم حاصل کرے جو علم انسان کو خالق سے ملانے والا ہو، جو علم انسان کو اللہ کے ساتھ جوڑنے والا ہو،جو علم انسان کو اللہ تک پہچانے والا ہو،وہ علم انسان حاصل کریں، اس کے بعد قرآن کریم کہتا ہے: ﴿إقرأ بإسم ربک الذی خلق، خلق الإنسان من علق﴾قرآن کو معلوم تھا کہ تھوڑا سا اس کو علم آجائے گا،اس کو بڑے ناز اورنخرے آجائیں گے،یہ بڑے غرور اور تکبر کے اندر مبتلا ہو جائے گا،اور پتا نہیں کیسی کیسی باتیں کرنا شروع کردے گا۔
قرآن کریم نے فوراً انسان کی حقیقت کو بیان کیا:﴿إقرأ بإسم ربک الذی خلق خلق الإنسان من علق﴾ کہا کہ انسان تو اپنے آپ پر اترا مت﴿ خلق الإنسان من علق﴾اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تجھ کو علق سے پیدا کیا ، یہ کیا ہے علق؟ علق کے بارے میں مفسرین نے دو باتیں بیا ن کیں، علق خون کے لوتھڑے یا گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں، قرآن نے اشارہ کیا کہ انسان تو تھوڑا بہت آنے کے بعد اتراتا کیوں ہے، تو بنا کس سے ہے؟ تو ایک خون کے لوتھڑے سے بناہوا انسان ہے،مٹی اور اس مٹی سے اللہ نے خون کو بنایا، اس سے تو بنایا گیا تو تھوڑا بہت آگیا تو تکبر کرنے، گھمنڈ کرنے اور اترانے کی ضرورت نہیں ہے، علم کے آنے کے بعد بھی تو انسان ہے،تو کوئی اللہ نہیں بن گیا ہے،اس لیے قرآن نے کہا: ﴿إقرأ باسم ربک الذی خلق خلق الإنسان من علق ﴾ علق کے بارے میں ہمارے مفسرین نے خاص طور پراحمد علی صابونی جو اس زمانے کے بڑے مفسرین میں ان کا شمار ہوتا ہے،ابھی حیات ہیں اللہ ان کو عافیت اور سلامتی کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائیں،بے شمار انہوں نے کتابیں لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آج کی سائنس نے یہ ثابت کیا ہے،انسان پیدا ہوتا ہے علق سے اور کیا ہے یہ علق؟کہا کہ یہ انسان کی منی کے قطرہ سے پیدا ہوتا ہے،لیکن ایک منی کے قطرہ سے ایک انسان نہیں بنتا ہے،ایک منی کے قطرہ میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے جرثومے ہوتے ہیں،ان جرثوموں میں ایک جرثوما، جب ماں کے رحم میں جاکر پرورش پانا شروع ہوتا ہے،تو اس سے ایک بچہ بنتا ہے،ایک منی کے قطرہ میں ہزاروں جرثومے ہوتے ہیں اور ایک جرثوما جب ماں کے رحم میں جاتا ہے،تو اس سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور دو زندہ رہ جائیں تو، توئمین دو بچے پیدا ہوتے ہیں؛ اگر تین زندہ رہے تو تین بچے پیدا ہوتے ہیں، وہ جرثومے جتنے ماں کے رحم میں جاکر پرورش پاتے ہیں اتنے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کی طرف چودہ سو سال پہلے اشارہ کر دیا ہے:﴿إقرأ بإسم ربک الذی خلق خلق الإنسان من علق﴾ کہ اے انسان! تو اپنے اوپر اترا مت۔ تو تو ایک جرثومے سے بنا ہے، تجھے اپنے اوپر فخر اور تکبر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،چاہے گوشت کا ٹکڑا مانا جائے اور چاہے جرثومانا جائے، بہرحال قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ کیا،قرآن کر یم نے انسان کے ذہن کی صفائی کی، کہ علم کے آنے کے بعد تیرے اندر تکبر اور تیرے اندر فخر آنے چاہیے نہیں ۔
قرآن آگے کہتا ہے:﴿إقرأ بإسم ربک الذی خلق خلق الإنسان من علق إقرأ وربک الأکرم﴾ قرآن کو معلوم تھا کہ اس کو علم آجائے گاتو اس کے بعد اب یہ سمجھے گا مجھ سے بڑا کائنات میں کوئی نہیں۔میں ہی سب سے بڑا ہوں، شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگ جاوے یہ شاید تھوڑے دن کے بعد اب میں کائنات کا مالک بن جاوٴں گا۔اس لیے کہ میں تو عالم بن گیا، میرے پاس تو علم کے سمندر آگئے، تو وہ ایسا سوچنے لگے اس لیے قرآن نے دوبارہ إقرأ کہا: إقرأ ارے! تو کتنا ہی پڑھ لے، تو اللہ کے علم تک نہیں پہنچ سکتا۔إقرأ اوپر کہا :إقرأ، دوبارہ یہاں لانے کی ضرورت نہیں تھی قرآن نے دوبارہ إقرأ کو لاکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ تو پوری زندگی بھی پڑھنے کے اندر کھپادے،تب بھی تو علم کے ایک قطرہ کو حاصل نہیں کر سکتا ”العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک“تو اپنے آپ کو پورا کھپائے گا جب جاکرعلم تجھے اپنا تھوڑا سا حصہ دے گا۔تو قرآن نے کہا: ﴿إقرأ بإسم ربک الذی خلق0 خلق الإنسان من علق0 إقرأ وربک الأکرم﴾، اور پھر قرآن نے کہا آگے پڑھ لیکن علم کے آجانے کے بعد فخر میں مت آجانا،﴿وربک الأکرم﴾یہ بات دماغ میں بٹھا لینا کہ تیرے پرور دگار سے بزرگ اور پاکیزہ ہستی کائنات میں کوئی نہیں ہو سکتی، تو اللہ کی بزرگی تک نہیں پہنچنے والا ہے، تو کتنا ہی پڑھ لیوے تو اللہ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا،سب کچھ پڑھ لینے کے بعد بحر حال تو انسان ہے اور انسان ہی رہنے والا ہے،اس لیے قرآن نے کہا: ﴿إقرأ بإسم ربک الذی خلق0 خلق الإنسان من علق0 إقرأ و ربک الأکرم الذی علم بالقلم﴾ کہ تونے یہ علم حاصل کیا تو تیرا کونسا کمال ہے؟ اس ذات نے علم دیا جس نے قلم کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعہ اپنی وحی اور اپنی کتاب کو نازل کیا ، اس لیے کہ سب سے پہلا بشر،سب سے پہلے انسان، سیدنا آدم علیہم الصلوٰة السلام کو اللہ تبارک وتعالی نے علم سکھایا،پھر اس کے بعد دنیا میں علم چلا ، تو اللہ نے کہا کہ تجھے کتنا بھی علم آجاوے،لیکن تیرے علم کا تمام کا تمام فیض کہاں سے آرہا ہے؟اللہ کے پاس سے آرہا ہے، لہٰذاتجھے ذرا برابر بھی اپنے علم پر غرور کرنے کی ضرورت نہیں،تجھے کتنا بھی علم آجاوے، لیکن فضیلت تجھے حاصل ہونے والی نہیں ، فضیلت کا اصل مستحق اللہ کی ذات ہو سکتی ہے، تمام کے تمام کمالات کا اصل منبع اور مرجع اگر کوئی ہے،تو وہ اللہ کی ذات ہو سکتی ہے۔
تو قرآن نے بیان کیا: ﴿إقرأ وربک الأکرم0 الذی علم بالقلم ،علم الإنسان مالم یعلم﴾ انسان کو وہ سکھایا جس کو انسان نہیں جانتا تھا،انسان کو کہا کہ تو جاہل تھا،تو کچھ نہیں جانتا تھا ، سب کچھ سکھانے و الا کون ہے؟ اللہ ہی نے تجھے سکھایا۔قرآن کریم کی آیت کریمہ ہمیں اس طرف رہنمائی کر رہی ہے،کہ ہمارا پڑھنا صرف پڑھنا نہیں ہونا چاہیے،بلکہ ہمارا پڑھنا ایسا پڑھنا ہونا چاہیے کہ اس سے ہم انسان بن جائیں،میں نے قرآن کریم کی جو سب سے پہلے آیت کریمہ پیش کی اصل میں آج اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا کر آیا ہوں،کہ ہمارے مدارس میں طلبا بہت سارے آتے ہیں، بڑی کھیپ طلباء کی آتی ہے،وہ طلبا ہمارے مدارس سے فارغ ہوتے ہیں،قرآن کو حفظ کرتے ہیں،مگر اس کے باوجود کام کے افراد نہیں ملتے،اس کے باوجودبا صلاحیت افراد نہیں ملتے،تومیں نے سوچا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ اتنا سارا خرچ کیا جارہا ہے،اتنی زیادہ لوگ محنتیں کر رہے ہیں،مگر اس کے باجود امت کو جیسے افراد ملنے چاہئیں، ویسے افراد نہیں مل رہے ہیں؟تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہما رے طلبا علم سے جو محروم ہو رہے ہیں، تو ان کے سامنے علم سے محرومی کے اسباب کو بیان کیا جاوے،کہ وہ کون سے اسباب ہیں؟وہ مدرسے میں آٹھ سال، دس سال، بارہ سال، پندرہ سال مدرسے میں رہتے ہیں مگر اس کے باوجود کام میں لگ جاتے ہیں، مدرسے سے جانے کے بعد وہ پڑھانے کے قابل نہیں ہوتے ہیں، تو میں نے یہی سوچا کہ آپ حضرات کے سامنے چند ایسے اسباب کو بیان کیا جاوے، جن اسباب میں آپ کی اکثریت مبتلا ہے اور اسی ابتلا کی وجہ سے علم سے محرومی ہو رہی ہے، کہ کچھ علم آ بھی جاتا ہے تو عمل کی توفیق نہیں ہوتی، کیوں عمل کی توفیق نہیں ہو رہی ہے اور اللہ کی طرف ہمارے لیے دین کی خدمت کے راستے نہیں کھل رہے ہیں؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھ لینا چاہیے کہ با آدب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
حضرت تھانوی  نے ادب کی جو تعریف کی ہے،میں نہیں سمجھتا ہوں کے کسی نے اتنی اچھی تعریف کی ہوگی،حضر ت تھانوی  نے ادب کی تعریف کی ہے، کہ ادب کو ہمارے لوگ سمجھ ہی نہیں سکے، کہ ادب کیا ہے، ادب ادب ادب کرتے رہتے ہیں، لیکن ادب کوسمجھے نہیں۔ادب کہا جاتا ہے کسی کو تکلیف نہ پہنچا نا ، کہ آپ کی ذات سے کسی بھی انسان کو، کسی بھی جاندار کو تکلیف نہ پہنچے، یہ ادب ہے،اب تک ہم لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ادب مستحب ہے،ادب مستحب نہیں بلکہ ادب فرض عین ہے،کیسے ادب فرض عین ہے؟اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،کہ لوگوں تم اپنے آپ کے شر سے لوگوں کو بچاوٴ۔ مسلم شریف کی روایت ہے،تکفوا الناس بشرکم کہ تم اپنے شرسے لوگوں کو بچاوٴاور دوسری روایت میں ہے کہ :”المسلم من سلم المسلم من لسانہ و یدہ“ یعنی مسلمان تو وہی ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس سے کیا معلوم ہوا، کہ ایذائے مسلم حرام ہے،مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے؛ مسلمان کو تکلیف نہ پہنچانا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر فرض ہے اور حق اسی کو کہا جاتا ہے جو فرض ہوتا ہے۔تو معلو م یہ ہوا کہ ہم نے جو ادب کے بارے میں اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا رکھی ہے، کہ ادب تو مستحب ہے،پڑھنا آجانا چاہیے اس کے بعد دیکھیں گے جو ہوگا وہ ہوگا، ہر طالب علم کے لیے ہر انسان کے لیے،ہر مسلمان کے لیے ایک کو دوسرے سے تکلیف نہ پہنچے اس کا خیال کرنا انتہائی ضروری ہے،جب تک کہ یہ بات ہمارے اندر نہیں آتی ہے،ہم بہرحال علم کے کمال تک نہیں پہنچ سکتے،آپ تاریخ کو اٹھائیں کہ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک اور اس زمانہ سے لے کر آج تک آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے، واقعتا کہنے والے نے صحیح کہا با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب،کہ بہر حال جو ادب کرے گا، اسی کا نصیبہ چمکنے والا ہے اور جس کی زندگی میں ادب نہیں ہے اس کا نہ دنیا میں کوئی وقار ہے اورنہ اس کی عزت اور نہ آخرت میں اس کو کوئی وقار حاصل کرنے والا ہے، جس کی زندگی میں بے ادبی ہوگی، قرآن کی یہ تعبیراس پر حد درجہ فٹ ہو جاتی ہے، ﴿خسرالدنیا والآخرة﴾ کہ بے ادبی انسان کو دنیا اور آخرت کے خسارہ سے دو چار کر دیتی ہے۔
میں آپ کو اپنے اکابر ین کے چند واقعات کا تذکرہ کر کے اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں،ادب نے لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچایااور ادب نہ کرنے کی وجہ سے لوگ کہاں سے کہاں آکر گرگئے؟
آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کا مطالعہ کیجیے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اصحاب میں سب سے ممتاز۔ کیوں ابوبکرصدیق  کو اتنا اونچا مقام ملا؟کیوں ابوبکر صدیق  کو اتنی زیادہ عزت ملی؟ کیوں ابوبکر صدیق  کو انبیا کے بعد سب سے افضل ترین انسان قرار دیا گیا؟ اس لیے کہ ابوبکر صدیق  کے بعد انبیا میں اتنا با ادب کوئی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ آپ کہیں گے کہ کیسے آپ نے دعویٰ کیا کہ ابوبکرصدیق میں اتنا ادب تھا؟ کیا آپ نے حضرت ابوبکرصدیق  کے اس واقعہ کو نہیں پڑھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرصدیق  جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے، تو ابوبکر اور آپ غارِ حرا میں مقیم ہوگئے، غارِحرا میں قیام کاموقعہ جب ہو اتو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ تھوڑا ٹھہر جائیے، آپ نے اندر جاکر صفائی کی اور اس کے بعد تمام سوراخوں کو بند کر دیا، مگر ایک سوراخ بچ گیا،آپ نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ اندر تشریف لائیے اور کہا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) چوں کہ ہم لوگ بہت اوپر چڑھ کر آئے اور آپ تھک گئے ہوں گے،لہٰذ1 ایک کام کیجیے، آپ میرے زانوں پر سر رکھ کر سو جائیے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ٹھیک ہے،حضرت ابوبکر صدیق نے جو ایک سوراخ رہ گیا تھا اس سوراخ پر اپنی انگلی رکھ دی اور کہا کہ کوئی ایسی چیز جو مجھے کاٹ لیوے تو چل جائے گا، لیکن اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہونی نہیں چاہیے۔ اور ہوا بھی ایسا۔ اتفاق سے وہاں اندر ایک سانپ تھا اورحضرت ابوبکر صدیق نے جیسے وہاں پر پاوٴں رکھا تواس سانپ نے آپ کو کاٹ لیا، اب آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ میرے اور آپ جیسے آدمی کو اگر سانپ کاٹ لیوے تو ہم کتنا اچھلیں گے، اتنا کودیں گے شاید غارِثور سے کود کر نیچے آجائیں گے،سیدھی سی بات ہے، کیوں کہ ہم لوگوں میں برداشت کا مادہ نہیں ہے، لیکن ابوبکرصدیق نے کیسا برداشت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ بھی نہیں چلنے دیا، حالاں کہ اتنی تکلیف‘ اتنی تکلیف ہوئی کہ ابوبکر صدیقکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، مگر ابوبکر صدیق نے اپنے اس پاوٴں کو حرکت نہیں دی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نہ کھل جاوے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار نہ ہو جاوے اور حضور کو تکلیف نہ پہنچ جاوے، یعنی بے ادبی نہ ہو جاوے، اس لیے کہ ادب کی تعریف کیا پڑھی آپ نے،تکلیف نہ پہنچانا ، گویا کہ ابوبکرصدیق نے سراپا ادب ہو کر یہ کیا، اتفاق ایسا ہوا کہ بہت شدت سے تکلیف تھی تو ایک آدھ آنسو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گرگیا اور حضور کی آنکھ کھل گئی اور حضور نے ان کو اپنا لعاب دہن لگا دیا اور وہ اچھا ہو گیا، تو ابوبکرصدیق کے ادب کا کیا کہنا! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو ادب ملا ان کی زندگی میں ادب تھا،صرف ابوبکر صدیق  کی زندگی کا ایک واقعہ نہیں،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کے بے شمار واقعات ہم پڑھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ کا کیسا ادب کیا،حضور کا ایسا ادب کیا، حضور کے ساتھ ایسی محبت کی حضرات صحابہ نے کہ حضرات صحابہ کی محبت اور حضرات صحابہ کے ادب کی مثال آپ کو تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملنے والی۔
ایک صحابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میں کسی کام سے چلا گیا ، شام ہوگئی تو وہاں کے لوگوں نے مجھے روک لیا، تم کو یہاں سے جانا نہیں،لیکن میں بے چین تھا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بارہ گھنٹے کے لیے نہیں چھوڑا،فرماتے ہیں کہ رات بھر مجھے نیند نہیںآ ئی،ابھی رات پوری نہیں ہوئی تھی، رات کا آخری حصہ چل رہا تھا، میں نے اپنے ساتھی کوسویا ہو ا پایا تو میں وہاں سے چپکے سے چلا آیا، اور بھاگتا ہو ا میں مدینہ آیا، جب میں مدینہ آیا، مدینہ منورہ میں فجر کی اذان ہو رہی تھی، میں سیدھا مسجد نبوی میں بھاگتا ہوا گیا، وضو کیا، سنت پڑھی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں نے اپنے آقا کو دیکھ لیا؛ پھر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز کے بعد دیکھا‘تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ بڑے تھکے ماندے نظر آرہے ہو؟ کچھ پریشان لگ ر ہے ہو؟ کہا کہ کوئی ایسی پریشانی تو ہے نہیں، پریشانی تھی، لیکن وہ دور ہو گئی‘کہا کہ کیا ہو ا؟کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طریقہ سے وہاں گیا‘میں نے آپ کو اور آپ کے چہرے کو کبھی بارہ گھنٹہ سے زیادہ نہیں چھوڑا‘ لہٰذا اس بنا پر مجھے یہ پسند نہیں آیا کہ پوری رات آپ کو نہ دیکھ سکوں،میں وہاں سے بھاگ کر آگیااور آپ کا چہرہ دیکھنے کے بعد اب میری پوری کی پوری تھکان اتر چکی۔ معلوم ہواکہ استاذ کے ساتھ ادب‘ استاذ کے ساتھ محبت، یہ انسان کو کتنے اونچے مقام تک پہنچا تی ہے،کہ صحابہ نے اتنا ادب اور محبت کی کہ جب جاکر قرآن کریم نے کہا رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعدہمارے اسلاف کی زندگی کو پڑھیے، کہ ان کے زندگی میں کتنا ادب تھا،ان کے یہاں ادب کا کتنا اہتمام تھا۔
امام مجدد الف ثانی  کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کو زور سے پیشاب آیا، آپ پیشاب کے لیے گئے،لیکن بیت الخلاء سے باہر واپس آئے اور آپ نے اپنا ہاتھ دھویا، اس کو رومال سے صاف کیا اور اس کے بعد پھراندر گئے،کسی نے پوچھا کہ امام صاحب کیا ہوا؟ تو کہا کہ اصل میں جب میں اند ر گیا، تو میں نے دیکھا کہ ناخن پر روشنائی ہے، میں نے سوچاکہ روشنائی علم کا آلہ ہے اور اس کا ادب ہمارے اوپر ضروری ہے،میں نے گوارا نہیں کیا کہ استنجاء کے اندر علم میں استعمال ہو نے والی چیز استعمال کروں، کیوں کہ میں اس کو اگر استنجا میں لیے جاوٴں تو ہو سکتا ہے کہ اس پر غلاظت لگ جائے اور اس کی بے ادبی ہو جائے،میں نے باہر آکر اس کو صاف کیااور پھراستنجاکے لیے گیا۔ اس کو کہا جاتا ہے ادب، اتنا ادب تھا ، جب اللہ نے ان کو مجدد الف ثانی بنایا، یعنی دوسرے دو ہزارے کا سب سے بڑا مجدد،مجدد الف ثانی یہ گیارہویں صدی میں تھے،امت نے ان کو متفقہ طور پر گیارہوی صدی کا مجدد کہا ، کب جب کہ اتنا زبر دست ان کی زندگی میں ادب تھا،ادب کے ثمرات صرف دنیامیں نہیں ملتے، بلکہ ادب کے ثمرات آخرت میں بھی ملتے ہیں۔ (جاری)

Flag Counter