Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

14 - 16
***
ہماری نمازیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟
مفتی عطاء الرحمن
الله تبارک وتعالیٰ نے سورہٴ بقرہ کے شروع میں اہلِ تقوی کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں:﴿ الذین یقیمون الصلوٰة﴾ ” وہ لوگ نمازوں کو قائم کرتے ہیں“۔
”اقامت صلوٰة“ کے معنی صرف نماز پڑھنے کے نہیں ، بلکہ اسے اس کے تمام فرائض وواجبات اور سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرنے کا نام ”اقامت“ ہے ۔ ( روح المعانی:156/1)
دوسری جگہ الله رب العزت نے جن اہل ایمان کے لیے ابدی کامیابی کا اعلان فرمایا ہے، ان کی ایک اہم صفت یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کے اندر خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔
چناں چہ ارشاد پاک ہے : ﴿ قد أفلح المؤمنون الذین ھم فی صلاتھم خٰشعون﴾․
”تحقیق اہل ایمان کامیاب ہو گئے ،جو کہ اپنی نمازوں کے اندر خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔“
خشوع کا لفظی معنی ہے سکون ، مراد یہ ہے کہ دل میں بھی سکون ہو (یعنی غیر الله کے خیال سے اپنے دل کو پاک رکھے اور اس کی طرف اپنے ارادہ اور قصد سے توجہ نہ دے) اور بدن کے ظاہری اعضا بھی پر سکون ہوں کہ بے فائدہ اور فضول حرکتیں نہ کرے۔ ( بیان القرآن:533/2)
علماء فرماتے ہیں کہ سنن ومستحبات کی رعایت اور مکروہات وممنوعات سے اجتناب بھی خشوع میں داخل ہے۔ (کشاف)
نماز کے اندر خشوع فرض ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔ خاتمة المحققین علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ” ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نماز کے اندر خشوع فرض تو نہیں کہ اس کے بغیر نماز ہی نہ ہو ۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ نماز کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ اس کے بغیر نماز کو قبولیت کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔ ( روح المعانی:181/18)
آج ہماری نمازوں کا کیا حال ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں ۔ ہماری غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نما زمیں بہت سی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں کہ بعض دفعہ تو ان غلطیوں سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ اور بعض مرتبہ فاسد تو نہیں ہوتی، تاہم قبولیت کے درجے سے نکل کر ناقص ہونے کی وجہ سے منھ پر مار دی جاتی ہے۔
حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے۔ وضو بھی اچھی طرح کرے ۔ خشوع وخضوع سے بھی پڑھے۔ کھڑا بھی پورے وقار سے ہو ۔ پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح اطمینان سے کرے تو وہ نماز نہایت روشن چمک دار بن کر جاتی ہے او رنمازی کو دعا دیتی ہے کہ الله تعالیٰ شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی اور جو شخص (نماز کو بُری طرح پڑھے) وقت کو بھی ٹال دے ۔ وضو بھی اچھی طرح نہ کرے۔ خشوع میں بھی کمی ہو رکوع سجدہ بھی اطمینان سے اچھی طرح ادا نہ کرے تو وہ نماز بُری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ الله تعالیٰ تجھے بھی ایساہی برباد کرے جیسا تونے مجھے ضائع کیا۔ اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منھ پر مار دی جاتی ہے ۔“ (طبرانی)
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اچھے طریقے سے وضو کرکے، نماز کو بہتر طور پر، اس کے سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے ادا فرماتے ہیں کہ الله کی اہم ترین عبادت اس کے لیے دعا کرتی ہے او رحق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ میں اس کی سفارشی بنتی ہے !!
لیکن ایسے با نصیب لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ عام طور پر ہماری نماز خشوع سے یکسر خالی ایک رسمی کارروائی بن چکی ہے ۔ بچپن سے نماز کو رٹ لیتے ہیں، پھر اس کے فرائض وواجبات اور سنن ومستحبات کا بھی علم ہو جاتا ہے ۔ لیکن عملی طور پر ان کی ادائیگی کی زحمت نہیں کرتے اور یوں ہی تہی دامن رہ کر اپنی نمازوں کو دریا بُرد کرتے رہتے ہیں۔
جب آدمی اپنا وقت خرچ کرے، کاروبار چھوڑے ، مشقت برداشت کرے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اسے زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی بنائے، نہ کہ اسے ثواب کے بجائے وبال کا سامنا کرنا پڑے۔
ہمارا فرض بنتا ہے کہ جیسے ہم نے نماز کے الفاظ زبانی یاد کیے اور سیکھے ہیں تو اسی طرح نماز کے صحیح اور مسنون طریقے کو بھی کسی مستند عالم اور معتبر مفتی سے عملی طور پر سیکھیں۔ بلکہ دینی اداروں میں وضو ونماز کے مسائل سے متعلق باقاعدہ عملی مشق کا اہتمام ہونا چاہیے، تاکہ نماز جیسی اہم عبادت صحیح طور پر ادا ہو۔
ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم تو بزعمِ خویش اپنی نمازوں کو درست سمجھتے ہیں اور اسی میں عمر کا ایک طویل حصہ گزار لیتے ہیں ۔ لیکن در حقیقت وہ نمازیں بے جان او رروح سے خالی ہوتی ہیں اور ثواب کے بجائے عقاب کا سبب بنتی ہیں ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ الله نے اپنے مکاتیب میں نماز کے اہتمام پر بہت زور دیا ہے او رمعمولی معمولی آداب کی رعایت کو بھی ضروری قراردیا ہے کہ وہ بھی حکمت اور فائدہ سے خالی نہیں ۔ مثلاً سجدہ میں انگلیاں ملانا اور رکوع میں علیٰحدہ رکھنا وغیرہ۔
ہمارا دین دار طبقہ ہو یا گنوار، سمجھ دار، ہو یا جہل دار بہت سی ایسی کوتاہیوں میں مبتلا ہے جو نماز کی رونق وزینت کو گٹھا دیتی ہیں ۔ پھر طرفہ یہ ہے کہ اسے ان لغزشوں کا احساس بھی نہیں کہ ان سے بچنے کی کوشش کرے۔
وضو اور غسل میں کوتاہیاں
ہماری کوتاہیوں کی فہرست تو کافی طویل ہے، لیکن یہاں یاد دہانی کے طور پر چند ایسی غلطیوں کی نشان دہی کر دی جاتی ہے، جن کی طرف عام طور پر نمازی کا ذہن نہیں جاتا اور یوں کبھی تو وہ اپنی نمازوں پر ملنے والے اجر کو ضائع کر دیتا ہے او رکبھی ثواب میں حد درجہ کمی لے آتا ہے ۔ پھر چوں کہ نماز کی قبولیت کے لیے مسنون وضو کرنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالااحادیث سے معلوم ہوا ، اس لیے پہلے وضو سے متعلق چند لاپرواہیوں کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
وضو کرتے وقت شروع میں بسم الله نہیں پڑھی جاتی، حالاں کہ بسم الله پڑھنا سنت یا مستحب ہے۔
دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک تین مرتبہ دھونا مسنون ہے ، لیکن پانی کی ٹونٹی سے وضو کرتے ہوئے اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتے ہوئے استیعاب ( یعنی پورے عضو پر پانی بہانا) بھی سنت ہے ۔ لیکن ہم یہ کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو پورے عضو پر پانی بہا دیتے ہیں اور پھر دوبارہ چلو میں پانی لے کر تین بار ہاتھوں پر اچھالنا کافی سمجھتے ہیں ۔ دوسری اور تیسری مرتبہ استیعاب کا خیال نہیں ہوتا ۔
چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض جب کہ پورے سر کا مسح کرنا سنت ہے ، لیکن اس سنت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور فرض پر ہی عمل کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔
عوام گردن کے مسح کے ساتھ گلے کو بھی شریک کر لیتے ہیں ، حالاں کہ گلے کا مسح کرنا بدعت اور ناجائز ہے ۔
گردن پر مسح کے بعد کئی لوگ انگلیوں کے خلال کے ساتھ ساتھ کہنیوں کا مسح بھی کرتے ہیں ، جب کہ یہ ایک غیر ثابت فعل اور غلط حرکت ہے۔
پاؤں کو دھوتے ہوئے بھی تین مرتبہ دھونے کا لحاظ نہیں کرتے، حالاں کہ تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اگر تین مرتبہ دھوئیں بھی تو استیعاب (پورے عضو پر پانی بہانے) کی طرف دھیان نہیں جاتا۔
ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرنا بھی سنت مؤکدہ ہے، لیکن عام طو رپراس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح غسل کرتے وقت اس کے مسنون طریقے کا خیال نہیں رکھا جاتا ، بلکہ کیف مااتفق غسل کر لیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ تو فرض کے چھوٹ جانے پر غسل بھی نہیں ہوتا اور آدمی ناپاک ہی رہتا ہے ۔ مثلاً غسل سے پہلے وضو عموماً نہیں کیا جاتا، ناف ، بغل وغیرہ کا کچھ حصہ بعض مرتبہ جلدی میں غسل کرنے کی وجہ سے خشک رہ جاتا ہے ۔
نماز میں کوتاہیاں
یہ وضو وغسل سے متعلق بات ہوئی، اسی طرح نماز پڑھنے کے دوران بھی ہم بہت سی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، مثلاً:
*… ”نیت“ دل کے ارادہ کا نام ہے ، زبان سے الفاظ کہنا ضروری نہیں ، البتہ اگر کوئی وساوس کی کثرت او رخیالات کے غلبہ کا شکار ہونے کی وجہ سے زبان سے نیت کرتا ہے تو یہ بہتر ہے ، لیکن صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ میں ظہر یا عصر کے فرض پڑھتا ہوں ، یا سنت یا وتر پڑھتا ہوں اور اگر امام کے پیچھے ہو تو یہ اضافہ کر دے کہ امام کے ساتھ ظہر یا عصر کے فرض پڑھتا ہوں ۔
اتنی لمبی چوڑی نیت کرنا کہ امام قرأ ت شروع کر دے اور یہ صاحب نیت کا اظہار ہی کرتے رہیں مناسب نہیں ۔ مختصر الفاظ کافی ہیں۔
پھر بعض مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ عربی میں نیت کے الفاظ یاد کیے ہوتے ہیں، انہیں دھرانا شروع کر دیتے ہیں، جب کہ ان کے معنی کا کچھ علم نہیں ہوتا یہ بھی درست با ت نہیں۔
*… بعض غیر محتاط ائمہ حضرات ” الله اکبر“ کو بہت کھینچ کر پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض مقتدی امام سے پہلے تکبیر تحریمہ ختم کر دیتے ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں ،کیوں کہ امام سے پہلے تکبیر تحریمہ کہنے سے نماز نہیں ہوتی۔
*… بعض دوستوں نے بچپن میں جورٹا ہوتا ہے اسے ہی پڑھتے رہتے ہیں، مثلا ثناء، تعوذ او رتسمیہ پڑھتے ہوئے لفظ ثناء ، تعوذ اور تسمیہ بھی کہہ دیتے ہیں ،حالاں کہ وہ تو آنے والی عبارتوں کے نام ہیں، انہیں پڑھنا درست نہیں ۔
*… سورہٴ فاتحہ کے شروع میں ہر رکعت میں امام اور منفرد کے لیے ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا سنت ہے او ربعض حضرات نے واجب بھی کہا ہے لیکن اس سے غفلت برتی جاتی ہے ، البتہ مقتدی نہیں پڑھے گا۔
*…مقتدی کا امام کے پیچھے قرأ ت کرنا مکروہ تحریمی ہے ، خواہ امام آہستہ آواز میں قرأت کر رہا ہوں یا بلند آواز سے ( یعنی سری نماز ہو یا جہری) بعض حضرات سری نمازوں میں امام کے پیچھے تلاوت کرتے رہتے ہیں ،یہ درست نہیں۔
*… سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورت شروع کرنے سے پہلے بھی ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا مستحب ہے، لیکن اس کی رعایت بہت کم لوگ کرتے ہیں ۔
*… اکثر حضرات بہت جھک کر رکوع کرتے ہیں او رہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ دیتے ہیں، انگلیوں سے پکڑتے نہیں ، جب کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں کھول کر گھٹنوں کو پکڑ لیا جائے ، کمر بالکل سیدھی ہو اور پنڈلیوں میں خم نہ ہو۔
*… سجدہ کی طرف جاتے ہوئے کمر بالکل سیدھی رکھنی چاہیے، گھٹنے زمین پر رکھنے سے پہلے کمر میں خم نہ آنے پائے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھے ۔ عام طور پرجھک کر سجدہ میں جاتے ہیں، جس سے تکرار رکوع کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
*… یہ بات بھی علم میں ہونی چاہیے کہ قرأت کے سوا نماز کے تمام وظائف، تسبیحات، تشہد ودرود شریف وغیرہ انشاءً پڑھے جاتے ہیں کہ بندہ ان الفاظ کے ذریعہ سے مخاطب ہوتا ہے ۔ البتہ قرأت حکایةً ہوتی ہے کہ بندہ اس کی تلاوت کرتا ہے او راپنے رب کا کلام دہرارہا ہوتا ہے ، اس سے وہ کسی سے مخاطب نہیں ہوتا۔ تاہم سورہٴ فاتحہ میں انشاء بھی ملحوظ ہوتا ہے۔
نوٹ: تشہد میں ” السلام علیک أیھا النبی“ میں بھی انشاءً آ پ صلی الله علیہ وسلم سے خطاب ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطاب کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نمازی کے پاس موجود ہوتے ہیں ، بلکہ یہ خطاب خط کے خطاب کی طرح ہے کہ ہم خط میں ” السلام علیکم“ لکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مُرسل الیہ وہاں موجود ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہوتا ہے کہ جب خط اس تک پہنچے گا تو خطاب ہو جائے گا۔ تو اسی طرح جب یہ سلام فرشتوں کے ذریعے آپ علیہ السلام تک پہنچے گا تو خطاب ہو جائے گا۔
*…سجدہ میں دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ رکھنا سنت مؤکدہ ہے ،اس کے خلاف مکروہ ہے ، اس سے غفلت کی انتہا ہے ، بچپن سے چوں کہ اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔ اس لیے بعد میں عادت نہ ہونے کی وجہ سے انگلیوں کا قبلہ رُخ کرنا انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے۔
*… سجدہ میں ساری انگلیاں بمعہ انگوٹھا بند اور قبلہ رخ ہونا مسنون ہے، اس کی طرف بھی عموماً توجہ نہیں ہوتی ۔ اگر انگلیاں بند بھی ہوں تو انگوٹھے جدا رہتے ہیں۔
*… تشہد کی حالت میں بھی دائیں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا مسنون ہے، بلکہ بائیں پاؤں کی انگلیاں بھی بقدر استطاعت قبلہ رُخ رکھنا چاہئیں۔
*… تشہد میں اشارہ کرتے وقت بعض دوست تو حلقہ نہیں بناتے اور بعض حلقہ تو بناتے ہیں، مگر اشارہ کے بعد انگلی کو گرا دیتے ہیں ، جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ انگلی او رانگوٹھے کے سروں کو ملا کر حلقہ بنایا جائے، پھر اشارہ کیا جائے اور اس کی بعد انگشتِ شہادت کو بالکل گرانا نہیں چاہیے ۔ بلکہ قدرے جھکا دینا چاہیے۔
*… سلام پھیرتے ہوئے کئی حضرات سامنے نظر رکھتے ہیں، جب کہ مستحب یہ ہے کہ نظر کندھوں پر ہو۔
*… امام سلام پھیر دے اور مقتدی نے تشہد نہ پڑھا ہو تو مقتدی پر تشہد پورا کرنا اور درود چھوڑ کر امام کی اتباع کرنا واجب ہے ، تشہد کو چھوڑنا مکروہ تحریمی ہے ۔ درود نہ پڑھے۔
اسی طرح تشہد پڑھ لیا ہو تو درود میں مشغول ہوکر سلام میں تاخیر کرنا یا رکوع وسجدہ کی تسبیحات پوری کرنے کے لیے امام سے پیچھے رہنا مکروہ تحریمی ہے، اکثراس کا خیال نہیں رکھاجاتا اور امام رکوع وسجدہ سے اٹھ جاتا ہے، لیکن لوگ تسبیح کی مقدار پوری کرنے کے لیے سجدہ ورکوع میں رہتے ہیں۔
*…امام مقتدی کے تشہد پڑھنے سے قبل کھڑا ہو جائے تو مقتدی تشہد پورا کرکے اٹھے، تشہد ناقص چھوڑ کرامام کی اتباع میں کھڑا ہونا درست نہیں۔
*… چار رکعت سنت غیر مؤکدہ یا نفل میں دور کعت پر درود شریف اور دعا پڑھنا اور تیسری رکعت کے شروع میں ثناء پڑھنا افضل ہے ۔ سنت مؤکدہ میں دو رکعت پر درود شریف نہ پڑھے۔ اگر سہواً پڑھ لیا تو سجدہٴ سہو واجب ہو گا۔ اس کی طرف بھی بیشتر ذہن نہیں جاتا۔
*…مسبوق امام کے قعدہ اخیرہ میں درود شریف اور دعا نہ پڑھے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ تشہد ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، تاکہ امام کے سلام کے ساتھ تشہد سے فراغت ہو او راگر تشہد جلدی ختم کر لے تو اس کے بعد خاموش رہے یا کلمہٴ شہادت یا تشہد کا تکرار کرتا رہے ۔ جب کہ ہمارا یہ حال ہے کہ تشہد کے ساتھ ساتھ درود اور دعا پڑھ کر ہی دم لیتے ہیں ۔
*… مسبوق کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد اتنی تاخیر سے اٹھے کہ امام کے ذمے سجدہٴ سہو نہ ہونا معلوم ہو جائے ۔ جب کہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ امام نے ایک سلام پھیرا نہیں ہوتا کہ سب کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
*… سجدہ میں جاتے ہوئے اکثر کپڑا سمیٹ لیتے ہیں، جب کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔
*… مسبوق امام کے ساتھ سجدہٴ سہو کرتے وقت سلام نہ پھیرے، بلکہ بغیر سلام کے سجدہ کرے۔ اگر مسبوق نے جَہلاً ( یعنی مسئلہ کی جہالت کی وجہ سے ) سلام پھیر دیا، حالاں کہ اسے اپنا مسبوق ہونا یاد تھا کہ میرے ذمہ کچھ رکعتیں باقی ہیں تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔
البتہ اگر سہواً ( یعنی بھول کر) سلام پھیرا کہ اُسے اپنا مسبوق ہو نا یاد نہ تھا ،وہ یہ سمجھا کہ میرے ذمہ کوئی رکعت نہیں تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
جہل اور سہو کا فرق خوب ذہن نشین کر لینا چاہیے، اکثر جہل کی وجہ سے سلام پھیر کر نماز کو فاسد کر دیتے ہیں او رانہیں علم بھی نہیں ہوتا۔
*… مسبوق نے امام کی نماز ختم ہونے پر بھول کر سلام پھیر دیاتو اگر امام کے لفظ سلام کی میم کے ساتھ مسبوق نے بھی سلام کی میم کہہ لی تو اس پر سجدہٴ سہو نہیں۔ اس سے تاخیر ہو گئی تو سجدہٴ سہو واجب ہے ۔ عموماً مقتدی کا سلام امام کے سلام کے بعد ہوتا ہے، اس لیے سجدہٴ سہو لازم ہے ، یہاں بھی ہماری جہالت آڑے آتی ہے اور سجدہٴ سہو لازم ہونے کے باوجود سجدہ نہیں کرتے اور یوں اپنی نمازیں غارت کرتے رہتے ہیں۔
*… مسبوق سے اگر بقیہ رکعتیں ادا کرتے ہوئے کوئی غلطی ہو جائے جس سے سجدہٴ سہو کرنا پڑتا ہے تو اس پر سجدہ سہو کرنا لازم ہے ، اس مسئلہ سے ناواقفی بھی نماز کو ناقص کر دیتی ہے۔
*… ہماری عادت بن چکی ہے کہ نماز میں کھجلائے بغیر مزہ نہیں آتا، جب کہ بلا ضرورت ایک بار بھی کھجلانا مکروہ تحریمی ہے او راگر ایسی ضرورت پیش آجائے کہ کھجلائے بغیر یکسوئی نہ ہوتو ایک دوبار کھجلانا بغیر کراہت کے جائز ہے ۔ اور بیالیس حروف مقروہٴ کے بقدر وقت میں تین بار بضرورت کھجلانا بھی نماز کوفاسد کر دیتا ہے، جب کہ ہرمرتبہ کھجلانے کے لیے ہاتھ اٹھایا جائے۔
*… عورتیں گھروں میں رہنے کی وجہ سے مسائل نماز سے نابلد ہوتی ہیں ۔ مردوں پر لازم ہے کہ وہ عورتوں کو نماز کا صحیح مسنون طریقہ سکھا کر انہیں اس کی تعلیم دیں اور ان سے اس کی علمی مشق کروائیں۔
یہ تو وہ چند اہم کوتاہیاں تھیں جو ہمارے روزمرہ کے معمول میں داخل ہو چکی ہیں او ران کی درستگی کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی۔
بیشک نماز ایک بڑی دولت ہے ، قربِ خدا وندی کا ذریعہ ہے ، مومن کا نور ہے او رجنت کی کنجی ہے ، بے حیائی کے کاموں او ربری باتوں سے روکتی ہے، لیکن اس وقت جب کہ اسے اس کی تمام شرائط وآداب کا لحاظ کرتے ہوئے بجالایا جائے، ورنہ تو حدیث میں آتا ہے کہ آدمی ساٹھ برس تک نماز پڑھتا ہے ،مگر ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی کہ کبھی رکوع اچھی طرح کرتا ہے تو سجدہ پورا نہیں کرتا، سجدہ کرتا ہے تو رکوع پورا نہیں کرتا۔
امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ نگاہ جمائے رکھنا اوررکوع کی حالت میں ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع پیدا کرتا ہے اور اس سے نماز میں دلجمعی نصیب ہوتی ہے۔
جب ایسے معمولی معمولی آداب بھی اس قدر فائدے اپنے اندر رکھتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ بڑے آداب اور سنتوں کی رعایت ہمیں کس قدر فائدہ بخشے گی۔
صوفیہ کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ نماز حقیقت میں الله جل شانہ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہم کلام ہونا ہے، جو غفلت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا۔ تو غفلت کے ساتھ پڑھی ہوئی نمازوں کی طرف الله پاک کیسے توجہ فرمائیں گے؟!
حق تعالیٰ شانہ سے دعا ہے کہ ہمیں نمازوں کو صحیح طور پر سیکھ کر پڑھنے کی توفیق عطافرمائے او رانہیں اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین

Flag Counter