Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

9 - 20
***
قول وفعل میں تضاد کی ممانعت
مولانا حافظ فضل الرحیم
اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیمات کے ذریعہ زندگی کے جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک ادب قول وفعل میں مطابقت ہے۔
احکام اسلام میں اس ادب کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کی خلاف ورزی کو منافقت قرار دیا گیا اور نفاق کی نشانیوں میں شمار کیا گیا۔
”حضرت عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں باتوں میں سے کوئی ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور وہ چار باتیں یہ ہیں جب امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے ، بات کرے تو جھوٹ بولے ، عہد کرے تو اسے توڑ دے، جھگڑے تو بد زبانی کرے۔“
منافقت، منافق یا نفاق عربی زبان کے الفاظ ہیں اور یہ اصل میں نفق سے بنے ہیں، عربی میں نفق دو منھ والی سرنگ کو کہتے ہیں ، اس لیے منافقت دو غلے پن کو کہتے ہیں ۔ اندر کچھ اور ہو اور ظاہر میں کچھ اور ظاہر وباطن ایک جیسے نہ ہوں تو اسے منافقت کہتے ہیں او رجس انسان کے اندر یہ انداز پایا جائے اسے دوُر خایا دو چہروں والا کہا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق منافقت دو طرح کی ہوتی ہے، ایک اعتقادی اور دوسری عملی ، اعتقادی منافقت تویہ ہے کہ کوئی انسان دل سے اسلام کی سچائی او راس کے حق ہونے کو نہ مانتا ہو، صرف زبان سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ سورة البقرہ کے دوسرے رکوع میں کیا گیا۔ ان کے قول وفعل میں تضاد تھا، جب ایمان اولوں سے ملتے تو کہتے ہم ایمان لائے اور جب کفار کے پاس جاتے تو کہتے ہم تو ان کا مذاق اڑا رہے تھے، ورنہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ ایسے منافق حقیقت میں کافر ہی ہوتے ہیں بلکہ ان کا جرم کافر سے بڑھ جاتا ہے۔
دوسرے قسم کے عملی منافق ہیں، جو دل سے اسلام کی سچائی او راس کے حق ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اپنی انسانی کمزوریوں کی وجہ سے احکام اسلام پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں ،ایسے منافق کی اصلاح تربیت کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔
اب یہ کام بہت قابل توجہ ہے کہ نفاق او رمنافقت کو کیسے پہچانا جائے ۔ جیسے کسی بیماری کی کچھ علامات ، نشانیاں ہوتی ہیں ان نشانیوں کو دیکھ کر معالج بیماری کی تشخیص کرتا ہے اور پھر اس کا علاج شروع کر دیتا ہے۔
اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منافق کی چار نشانیاں بتائی ہیں اور فرمایا کہ اگر کسی شخص کے اندران میں سے کوئی ایک نشانی بھی پائی جائے تو اس کے اندر نفاق کی ایک علامت پائی گئی ۔ پہلی علامت یہ بیان فرمائی ”اذا حدث کذب“ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ دوسری نشانی یہ بتائی ”اذا وعد أخلف“ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں ”اذا عاھد غدر“ جب معاہدہ کرے تو غداری کرے۔ تیسری نشانی نفاق کی یہ بتائی ”اذا اوتمن خان“ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے اور چوتھی نشانی یہ بتائی ”اذا خاصم فجر“جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی ارشاد فرمائی گئی ان نشانیوں میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کی بنیاد قول وفعل میں تضاد ہے۔
دیکھیے ایک شخص ایک بات کرتا ہے خبر کے طور پر ، حالاں کہ ایسا نہیں ہوا تو اس شخص کا قول جھوٹ ہو گا اور یہ نفاق کی نشانی ہے ۔ پھر کوئی شخص وعدہ کرے یا باہمی معاہدہ کرے او رکہے میں یہ کروں گا یا میں اس بات کی پابندی کروں گا۔ پھر وہ بات پوری نہ کرے یا معاہدہ سے پھر جائے، یہ بھی قول وفعل کا تضادہوا۔ یاکسی شخص کے پاس امانت رکھی جائے گویا کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں گا، پھر وہ امانت میں خیانت کرنے لگے تواب اس کی بات او راس کے عمل میں تضاد آگیا اور یہ بھی نفاق کی نشانی ہو گئی، چناں چہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ صف کی دوسری اور تیسری آیت میں ارشاد فرمایا:﴿یٰایھا الذین اٰمنوا لم تقولون مالا تفعلون، کبر مقتا عند الله ان تقولوا مالا تفعلون﴾․
یعنی اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جوکرتے نہیں؟ الله کے نزدیک یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ ایسی بات کہو جو نہ کرو۔
اس آیت سے ایک او رپہلو بہت واضح طور پر سامنے آرہا ہے کہ اس میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی کہ جو کام تم نے کرنا نہیں اس کا دعویٰ کیوں کرتے ہو ؟ لہٰذا ایسے کام کا دعویٰ کرنے کی ممانعت معلوم ہوئی جس کو کرنے کا عزم اور ارادہ ہی انسان کے دل کے اندر نہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دعوی جھوٹا ہوگا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، دل میں کام کرنے کا عزم بھی ہوتا ہے، لیکن وہ کام کسی وجہ سے نہیں ہوتا تو پھر بھی انسان پر قول وفعل میں تضاد کا الزام آجاتا ہے ۔ اس لیے الله رب العزت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر دل میں کسی کام کرنے کا ارادہ اور پختہ عزم ہو، پھر بھی اپنے نفس او راپنی ذات اور اپنی قوت پر اعتماد کرتے ہوئے انسان براہ راست یہ نہ کہے کہ میں یہ کام کروں گا، بلکہ یوں کہے ان شاء الله میں یہ کام کروں گا، یعنی اگر الله نے چاہا۔
قول وفعل میں تضاد کا ایک پہلو تو دعویٰ کا تھا۔ لیکن دوسرا پہلو دعوت کا ہے، یعنی کوئی شخص دعوت وتبلیغ کا کام کرتا ہے، وعظ ونصیحت کرتا ہے، لوگوں کو بھلائی کا کام کرنے کی دعوت دیتا ہے، لیکن خود نہیں کرتا۔ یہ بھی قول وفعل کے تضاد کی ایک شکل ہے ،لیکن یہ نفاق کی نشانیوں میں شمار نہیں، بلکہ عملی کمزوریوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ جس کا ذکر الله تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا: ﴿اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم﴾ تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خوداپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟! دعوت وتبلیغ کے کام میں واقعی یہ بڑی کمزوری شمار ہوتی ہے۔ اس کا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ دعوت وتبلیغ کا صحیح طریقے سے اثر نہیں ہوتا۔
لیکن قول وفعل کا وہ تضاد جو نفاق کی نشانیوں میں شمار کیا گیا اس کے نقصان دینی اور دنیوی اعتبار سے بہت شدید ہیں۔ پہلا نقصان تو یہ کہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے بری حالت دو چہرے والوں یعنی منافقین کی ہو گی، معاشرتی نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان قول وفعل میں تضاد رکھنے والے کو یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے، اس کی وقعت ختم ہو جاتی ہے اور اسے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا لوگ ایسے شخص پر اعتماد نہیں کرتے۔ اعتماد کی دیوار بڑی محنت اور بہت زیادہ وقت میں تعمیر ہوتی ہے، لیکن اس دیوار کو گرانے کے لیے قول وفعل کے تضاد کے صرف ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے معاشرتی زندگی میں انسان کو اپنے قول وفعل میں مطابقت کی بہت فکر کرنی چاہیے ۔ تاکہ دنیا وآخرت میں سرخ رو ہو سکے او رمعاشرے کے افراد کا باہمی اعتماد حاصل رہے۔
الله رب العزت ہمیں اپنے قول وفعل میں مطابقت پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین․

Flag Counter