Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

8 - 20
***
شیخ الاسلام
حضرت مولانا سید محمد میاں 
سیاسیات ہندی کا نشاں ہے ذات سے تیری
یہ کشتی اس بحیرہ میں رواں ہے ذات سے تیری
اسیر مالٹا کی جانشینی تجھ کو حاصل ہے
سحاب حریت گوہر فشاں ہے ذات سے تیری
غلاموں کو سکھایا تونے آئین جہاں بانی
کیا ہے فخرالدین رازی کی نکتہ سنجی، بو علی سینا اور فارابی کی منطق، ابن حزم اور ابن رشد کی حکمت، صرف ایک نتیجہ ہے۔ ذکی الطبع افراد کی پرعافیت کتب بینی کا۔
کیا ہے ترک دنیا اور متقشفانہ تصوف، ایک خوش گوار جذبہ ہے دنیاوی جھگڑوں سے فارغ البالی کا۔ بہت آسان ہے سالہا سال اعتکاف کے مکاشفات او رمراقبات کی لطف اندوزی، بہت سہل ہے برسہا برس مطالعہ کتب کرکے تبحر علمی کے ملکات کی فراہمی، بہت سہل ہے کسی خانقاہ کی کنج عزلت، بہت سہل ہے یا کسی دارالعلوم کی مسند تدریس۔
تم پوچھو۔ مشکل کیا ہے؟
میں بتاؤں گا بہت مشکل ہے۔ رجوع إلی الله زہد اورتقویٰ کے ساتھ خدمت خلق اور نوع انسانی کی ہمدردی، یعنی وہ سوز، وہ گداز، وہ تڑپ، وہ بے چینی جو کبھی مسجد میں لے جائے۔ کبھی حلقہ درس میں، کبھی ممبر پر وعظ وتلقین کے لیے کھڑا کرے، کبھی سیاسی پلیٹ فارم پر ترقی ملت اور اعلا ئے کلمة الحق کے لیے۔
پھر کبھی اپنوں کی گالیاں سنوائے او رکبھی پابہ زنجیر جیل خانوں کی سلاخوں میں بند کرائے۔ دن کے وقت خدمت خلق میں مصروف اور پریشان رکھے تو رات کی تاریکی میں محبوب حقیقی کے سامنے راہب شب بیدار بنا کر کھڑا کر دے۔
بلاشبہ بہت مشکل ہے ۔ ہمدردی خلق اور غم خواری مسلم کی وہ خلش، جو رات کی میٹھی نیند حرام کر دے۔ مجلس احباب کو مجلس سوز وگداز بنا دے۔
افق پر صبح صادق کی کرن چمکے تو وہ توبہ واستغفار میں مشغول ہو، آفتاب کی پہلی کرنیں اس کو تسبیح وتحلیل میں مشغول دیکھیں۔ پھر اس کی تبلیغی تعلیمی، مذہبی اور سیاسی مشاغل کو دیکھتے دیکھتے حیرت واستعجاب کے مغرب میں روپوش ہو جائیں۔ عالم پر تاریکی کی سیاہ چادر تانی جائے۔ تھکے ماندے انسان اپنی آرام گاہوں کی طرف دوڑیں، اہل وعیال کی پر لطف چہل وپہل سے دن بھر کی کوفت دور کریں۔ لیکن یہ مبتلائے سوز خلق اب بھی یادور دراز سفر طے کر رہا ہو ۔ یاعالی او رعمیق مضامین کے حل کرنے میں دماغ سوزی کر رہا ہو یا مخلوق خدا کی تلقین میں مشغول ہو ۔ یا اپنے پروردگار کے سامنے سربسجود، گریہ وبکا، عجز ونیاز، مناجات وتلاوت، طویل قیام، طویل رکوع وسجود سے زاہدان خشک کے خلوت خانوں کو شرمارہا ہو۔
بے شک یہی ہے مشکل ترین سنت، یہی ہے انبیاء علیہم السلام کی سچی وراثت یہی ہے مضمون حدیث کے بموجب انبیائے سابقین علیہم السلام سے مشابہت، یہی شخص ہے رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کا محبوب، اسوہٴ صحابہ کا سچا پیرو، یہی ہے مصلح خلق، یہی ہے شیخ وقت، یہی ہے مرشد صادق، یہی ہے قطب عالم۔اسی کی زندگی درس عبرت ہے، قابل اتباع، بلکہ واجب الاتباع ہے۔
شمائل ترمذی میں ارشاد ہے:
”سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی نظر قدسی اثر میں وہ صحابی افضل ہوتے تھے جن کی خیر خواہی مخلوق کے لیے زیادہ عام ہو اور بارگاہ رسالت میں اس کا مرتبہ سب سے بڑھا ہوا ہوتا تھا۔ جس کی جفاکشی اور تحمل وبرداشت، خدمت خلق او رہمدردی نوع انسان کے بارے میں سب سے بہتر ہو۔ “( حدیث حسن بن علی رضی الله عنہما، ص:24 ،شمائل ترمذی) نیز سید الکونین رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
”وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا رہتا ہے او ران کی اذیت پر صبر کرتا ہے اس مسلمان سے بہتر ہے، جونہ کسی سے ملتا ہے، نہ کسی کی اذیت برداشت کرتا ہے۔“
اچھا بتاؤ، دور حاضر میں کون ہے اس مقدس زندگی کا مالک اور اس مبارک سنت کا حامل وماہر، وہی شیخ وقت، قطب عالم، مرشد خلائق جس کا نام نامی اس تمہید کا مبارک عنوان ہے ، یعنی سیدنا ومرشدنا، شیخ العرب والعجم، شیخ الاسلام ،حضرت علامہ مولانا سید حسین احمد صاحب، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مدظلہ العالی ودامت برکاتہ۔
دارالعلوم دیوبند، اپنی قسمت پر جس قدر ناز کرے کم ہے کہ ہر زمانہ میں اس کی صدارت کے لیے قدرت کے ہاتھوں نے مخلوق کا بہترین فرد منتخب فرمایا۔ آج بھی مجدد وقت دارالعلوم دیوبند کا شیخ الحدیث ہے۔
گرمی ہنگامہ تیری آج حسین احمد سے ہے
جس سے ہے پرچم روایات سلف کا سر بلند

Flag Counter