Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

19 - 20
***
اتحاد کی ضرورت اور اختلاف سے بچنے کا راستہ
مفتی محمد رضوان
اس وقت پوری امتِ مسلمہ جس داخلی اور خارجی انتشار کا شکار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ، ان حالات میں ضرورت تھی کہ پوری امت اسلام کے اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کرتی، لیکن بدقسمتی سے شیطان اور کفار نے مسلمانوں کو آج مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے ۔ قرآن وحدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی اصولوں کے مطابق اتحاد واتفاق دین ودنیا کے لحاظ سے بہت اہم اور ضروری چیز ہے اور اس کے مقابلہ میں غیر شرعی اختلاف اور تفرقہ بازی دین و دنیا کے لیے سخت نقصان دہ ہے ، لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس تفرقہ بازی کی بنیادی وجہ قرآن وسنت سے ہٹنا اور دین میں اپنی طرف سے نئی نئی چیزیں داخل کرنا ہے ۔ اگر دین میں نئی باتیں اور بدعتیں شامل کرنے سے گریز کیا جائے تو یقینا یہ اختلاف دور ہوجائے ، مگر جب ہر شخص اور ہر فریق کو اس سلسلہ میں آزاد چھوڑا جائے گا تو ہر ایک اپنی اپنی مرضی کے مطابق دین میں نئی باتیں شامل کرکے مختلف فرقوں کی شکل اختیار کرتا چلا جائے گا۔ دین میں نئی باتیں پیدا کرنے کی ایک اہم وجہ مال وجاہ کی محبت ہے ، کیوں کہ علما دو قسم کے ہیں : آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے والے ( یعنی علمائے حق ) اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والے ( یعنی علمائے سوء)
پس جب کہ ان کے مقصد میں اختلاف ہے تو ان میں بھی اختلاف لازم ہے ، اس کا حل تو یہی ہے کہ علمائے سوء کی تفرقہ بازیوں(نئی نئی باتوں) کی حوصلہ شکنی کی جا ئے اوران کو بدعت چھوڑ کر اہل ِحق کے ساتھ اتفاق پر آمادہ کیا جائے اور یہ اتفاق بظاہر تو اہل حق کے ساتھ ہو گا، لیکن درحقیقت بدعت چھوڑ کر سنت کے ساتھ اتفاق ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ سنت کسی فریق کے گھر کی چیز نہیں، بلکہ ایسی شخصیت کی طرف منسوب ہے جس پر کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ، یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے : ”ترجمہ بے شک لوگوں نے اپنے دین میں (مختلف) راستے نکالے اور (مختلف) گروہ بن گئے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، بس ان کا معاملہ الله کے حوالے ہے ، پھر ( قیامتمیں الله تعالیٰ) ان کوان کے کرتوت جتلا دیں گے۔“ ( سورة انعام آیت:159)
اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے او رمختلف فرقے بن جانے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلا دیا کہ الله کا رسول صلی الله علیہ وسلم ان سے بری ہے اور الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، پھر ان کو یہ سخت و عید اور تنبیہ سنائی کہ ان کا معاملہ بس الله تعالیٰ کے حوالے ہے ، وہی ان کو قیامت کے روز سزا دیں گے ۔ اس جگہ دین میں تفریق ڈالنے اور فرقے بن جانے سے مراد یہ ہے کہ دین کے اصول کی اتباع چھوڑ کر اپنے خیالات اورخواہشات کے مطابق یا شیطانی چالبازیوں میں مبتلا ہو کر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھا یا گھٹا دی جائیں او ر دین میں بدعات شامل کر لی جائیں ۔ طبرانی نے معتبر سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا ہے کہ اس آیت میں جن فرقوں کا ذکر ہے وہ اہل بدعت او راپنی خواہشات وخیالات کے مطابق نئے طریقے ایجاد کرنے والے ہیں ، یہی مضمون حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ اس آیت سے دین میں بدعت پیدا کرنے والوں کی سخت برائی اور الله اور اس کے رسول کی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے ۔ ( معارف القرآن ج2 ص502 بتغیر)
حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:” بلاشبہ جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت اختلافات دیکھے گا ، پس تم پر ( ایسے وقت) میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے ۔ جو ہدایت یافتہ ہیں ، اس کو تم مضبوطی سے پکڑے رکھنا اور اس کو اپنی داڑھوں کے نیچے خوب دبالینا اور تم ( دین میں ) نئی نئی باتوں کے( پیدا کرنے) سے بچنا، کیوں کہ ( دین میں) جو بھی نئی چیز نکالی جائے وہ بدعت ہے۔ او رہر بدعت گمراہی ہے۔“ (مسند احمد، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ، مسند دارمی، مشکوة شریف، موارد الظمآن، مستدرک حاکم)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ:” میر ی“ا مت کو بھی وہی حالات پیش آئیں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے ، جس طرح بد اعمالیوں میں وہ مبتلا ہوئے میری امت کے لوگ بھی مبتلا ہوں گے ، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے ، میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے، جن میں سے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گئے۔صحابہ کرام  نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ فرمایا” وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اورمیرے صحابہ کے طریقہ پر چلے وہ نجات پائے گی۔“ ( ترمذی، ابوداؤد)
اس حدیث سے جنت میں جانے والی جماعت کی یہ پہچان اور معیار معلوم ہوا کہ جو سنت اور صحابہ کے طریقہ پر کار بند ہو ۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر تمام باطل فرقوں کو بآسانی پہچانا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ جو کام حضور صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے قولی وفعلی اصولوں سے ثابت نہیں ( جیسا کہ آج کل کی مروجہ عام بدعات) ان کو انجام دینے والے فرقے نجات پانے والی جماعت میں شامل نہیں، خواہ وہ تعداد ومقدار میں کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ (معارف القرآن ج3 ص:503 بتغیر)
ایک حدیث میں ہے کہ”جو کوئی ہمارے اس کام ( دین) میں وہ بات نکالے جو اس میں نہیں ہے تو وہ بات رد ہے ( یعنی وہ مردود ہے)۔“ (بخاری)
حضرت حکیم الامت رحمہ الله فرماتے ہیں، یہ اہل بدعت ہمیشہ اہل حق کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور یونہی اڑنگ بڑنگ ہانکتے رہتے ہیں۔ ایک سب انسپکٹر میرے ایک وعظ میں شریک تھے ۔ وعظ کے بعد انہوں نے مجھ سے گیارہویں کے متعلق سوال کیا، میں نے کہا کہ بدعت ہے۔ کہنے لگے آپ اس کو بدعت کہتے ہیں اور فلاں مولوی صاحب اس کو اچھا بتلاتے ہیں،تو ہم کیا کریں ؟ میں نے کہا کہ جیسے ہم سے سوال کیا جاتا ہے کبھی ان سے بھی تو یہ سوال کیا ہوتا کہ تم اچھا کہتے ہو اور فلاں اس کو بدعت کہتے ہیں، ہم کیا کریں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل میں ( گیارہویں) کرنے کی خواہش ہے ( اس لیے گیارہویں کرنے والوں پر اعتراض نہیں کرتے) اور دوسروں کو آڑ بناتے ہو۔ پھر کچھ نہیں بولے۔ ( الافاضات الیومیہ ج4 ص40)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ، ایک بار میرا اتفاق کانپور جانے کا ربیع الثانی میں ہوا ۔ میں نے وعظ میں گیارہویں کا بدعت ہونا بیان کیا، بعد وعظ ایک سب انسپکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ ایسے مسائل وعظ میں بیان نہیں کرنے چاہئیں، اس سے مسلمانوں میں تفریق ہوتی ہے ۔ میں نے کہا کہ بانی تفریق ( یعنی تفریق کی بنیاد ڈالنے والے) تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ بدعت ایجاد کی۔ کیوں کہ یہ تو ظاہر ہے کہ اس ( گیارہویں کی رسم) کی اصل کتاب وسنت سے ثابت نہیں۔ یہ فعل بعد ہی کو ایجاد ہوا ہے ۔ تو جنہوں نے اس کوشروع کیا، انہوں نے دراصل تفریق ڈالی ، وہی لوگ ذمہ دار اس تفریق کے ہیں ، نہ کہ منع کرنے والے ۔ نہ آپ اس رسم کو نکالتے، نہ ہم منع کرتے۔ اب آپ لوگ اس کو کرنا چھوڑ دیجیے ، ہم لوگ منع کرنا چھوڑ دیں گے۔ یہ سن کر وہ چپ رہ گئے ، کچھ جواب نہ بن پڑا، بہت پوچھنے کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ آپ ہی جیسے مولوی یہ بھی کہتے ہیں کہ گیارہویں سے یوں برکت ہوتی ہے ، یوں ثواب ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نہایت لطیف جواب ڈالا۔ میں نے کہاکہ میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کبھی یہ سوال آپ نے ان مولویوں سے بھی کیا( جو گیارہویں کوبرکت کا باعث کہتے ہیں) کہ آپ ہی جیسے مولوی وہ لوگ بھی تو ہیں جو اس فعل سے منع کرتے ہیں، پھر آپ( کیسے) جائز کہتے ہیں ؟ کیا سارے جواب ہمارے ہی ذمہ ہیں ، ان کے ذمہ کوئی بھی جواب نہیں (حالاں کہ گیارہویں کے مدعی تو اس رسم کو کرنے والے ہیں، نہ کہ منع کرنے والے ہیں اور دلیل مدعی کے ذمہ لازم ہوا کرتی ہے) بس اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ آپ نے خود ہی پیشتر ( پہلے) سے اس کا کرنا تجویز کیا ہے ، ورنہ اگر تردد ( شک) ہوتا تو جس طرح ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ مولوی ہی لوگ اس کو برکت اور ثواب کا فعل کہتے ہیں ۔ اسی طرح ان سے بھی تو کبھی یہ سوال کیا جاتا کہ صاحب وہ بھی تو آخر مولوی ہی ہیں، جو اس کو بدعت کہتے ہیں او رمنع کرتے ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمیں سے سب پوچھا جاتا ہے ( اور ہم سے ہی ان کے عمل کے غلط ہونے کی دلیل مانگی جاتی ہے، حالاں کہ بدعت کے ناجائز ہونے کی دلیل صرف یہی کافی ہوا کرتی ہے کہ وہ عمل شریعت سے ثابت نہیں او رجو عمل کر رہا ہے اس کے ذمہ اس عمل کے ثبوت کی دلیل لازم ہوتی ہے ) پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے اس اصول پر کہ ”تفریق نہ ڈالنی چاہیے“ خود بہت آسانی کے ساتھ عمل کر سکتے ہیں ، کیوں کہ اس ( گیارہویں کے) فعل کو آپ فرض اور واجب تو سمجھتے ہی نہیں ، محض برکت اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں اور منع کرنے والے اس کو بدعت سمجھ کر روکتے ہیں ، اس صورت میں آپ تو مستحب کو چھوڑ سکتے ہیں(کیوں کہ مستحب کو چھوڑنا گناہ نہیں ) اور (ہم) واجب یعنی منع کرنے کو نہیں چھوڑ سکتے (کیوں کہ بدعت سے رکنا اور بدعت سے منع کرنا واجب ہے) ہاں! جب آپ ( اس بدعت کو) ترک کر دیں گے، پھر ( ہمیں) منع ( کرنے) کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ( حسن العزیز ج ملفوظ نمبر58)
ایک مقام پر فرماتے ہیں، بعض لوگ اس اختلاف کو دیکھ کر علماء کو رائے دیتے ہیں کہ سب مولویوں کو متفق ہو جانا چاہیے، نااتفاقی بری چیز ہے۔ تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا نااتفاقی علی الاطلاق ( یعنی ہر قسم کی نااتفاقی ) جرم ہے؟ یا اس کے لیے کوئی قید بھی ہے؟ اگرنا اتفاقی علی الاطلاق ( بغیر کسی قید اور شرط کے) جرم ہے او را س کی وجہ سے ہر فریق مجرم ہو جاتا ہے تو عدالت کو چاہیے کہ جب اس کے پاس ایک فریق ایک چیز کا دعوی کر رہا ہے اور دوسرا فریق اس کا انکار کر رہا ہے اور دونوں کے بیان ایک دوسرے سے مختلف ہیں) اور (آپ کے نزدیک) نااتفاقی علی الاطلاق( بغیرکسی قید اور شرط کے جرم ہے، تو مدعی اور مدعا علیہ دونوں مجرم ہوئے ۔ اگر عدالت ایسا کرے تو سب سے پہلے آپ ہی ( اس فیصلہ کے ) مخالف ہوں گے اور دنیا بھر میں شوروغل مچادیں گے کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ تحقیق مقدمہ سے پہلے ہی دونوں کو مجرم بنا دیا گیا؟ اب اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ پھر کیا کرنا چاہیے تھا ؟ تو آپ عاقل بن کر یہ رائے دیں گے کہ عدالت کو تحقیق کرنی چاہیے تھی ، کہ مدعی او رمدعا علیہ میں جو باہم مخالفت ونااتفاقی ہے، تو ان میں سے حق پر کون ہے اور ناحق پر کون ہے ؟ جو حق پر ہوتا اس کی حمایت کی جاتی اور جو ناحق پر ہوتا اس کو سزا دی جاتی۔ لیجیے آپ ہی کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ نااتفاقی علی الاطلاق( یعنی ہر حال میں) جرم نہیں اور اگر کسی معاملہ میں دو فریق ہو جائیں تو ہر فریق مجرم نہیں کہا جاسکتا، بلکہ جس کی مخالفت ناحق ہو وہ مجرم ہے اور جو بحق ( حق کی وجہ سے) ہو وہ مجرم نہیں۔ پس علماء کی باہم نااتفاقی اور اختلاف سے آپ کا سب ( علماء) کو مجرم بنانا اور ہر فریق سے یہ کہنا کہ دوسرے سے اتفاق کر لو۔ غلط رائے ہے ، بلکہ اول آپ کو تحقیق کرنی چاہیے کہ حق پر کون ہے ، ناحق پر کون ہے ؟ پھر جو ناحق پر ہو ، اسے مجرم بنائیے اور اس کو اہل حق کے ساتھ اتفاق کرنے پر مجبور کیجیے، ورنہ اہل حق کو دوسروں کے ساتھ اتفاق پر مجبو رکرنے کے تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ حق کو چھوڑ کر، ناحق طریق ( غلط راستہ) اختیار کر لیں اور اس کو کوئی عاقل تسلیم نہیں کرسکتا تو اتنی شکایت آپ کی رہ گئی کہ آپ قبل از تحقیق ( یعنی تحقیق کرنے سے پہلے) ہی سب کو متفق ہو جانے کی رائے دیتے ہیں اور مولویوں کی شکایت ہم کو بھی ہے، مگر صرف ان کی جوناحق پر ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ صاحب دوسرا فریق بھی اتفاق سے مجبور ہے، کیوں کہ ان کی سمجھ میں یوں ہی آیا، وہ اسی کو حق سمجھتے ہیں، جو ان کی سمجھ میں آیا ہے ، تو جناب ائمہ اربعہ (چاروں فقہ کے اماموں ) میں سمجھ ہی کا تو اختلاف ہے ، مگر اس کے ساتھ پھر سب متفق ہیں ۔ کوئی ایک دوسرے پر ملامت وطعن نہیں کرتا ، بلکہ ہر ایک کو حق پر سمجھتا ہے ( لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سنت وبدعت کا اختلاف) اگر ایسا اختلاف ہوتا (جیسا کہ چاروں فقہاء کے درمیان ہے او روہ حق ہے ) تو مسلمانوں کو آج یہ پریشانی نہ ہوتی جو آنکھوں سے نظر آرہی ہے، بلکہ یہ (سنت وبدعت کا) اختلاف تو روٹیوں کا ہے ( یہی وجہ ہے کہ دونوں فریق فقہ حنفی کے مدعی ہیں ، لیکن یہ بدعات فقہ حنفی سے ثابت نہیں بلکہ ان کا بدعت ہونا ثابت ہے) میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اہل حق کے پاس کافی روپیہ ہو اور وہ ان سب فرقوں کی تنخواہیں مقرر کر دیں تو سارا اختلاف ایک دن میں مٹ جائے ۔ یہ سارا اختلاف پیٹ کی وجہ سے ہے کہ کوئی مولود (میلاد النبی) پر زو ردیتا ہے، کوئی ( مروجہ) فاتحہ ودرود پر، کوئی ( مرنے کے بعد تیجے، دسویں پر۔ ایک عالم صاحب سے، جو بدعات کے بڑے حامی ہیں، کسی نے سوال کیا کہ تم مولود (میلاد النبی ) و ( مروجہ) فاتحہ کو سنت کہتے ہو اور ان پر بہت زور دیتے ہو اور جو ان سے منع کرے اس کو بُرا بھلا کہتے ہو ، پھر یہ کیا وجہ ہے کہ تمہاری مستورات (خواتین) بہشتی زیور پڑھتی ہیں؟ ( جو کہ ہمار ی کتاب ہے اور اس میں اس قسم کی بدعات پر رد بھی ہے ) تو انہوں نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ” یہ سارا اختلاف تو اس کی خرابی ہے ورنہ حق وہی ہے جو بہشتی زیورمیں لکھا ہے۔“ میں نے ایک دفعہ لکھنو(شہر) میں دیکھا کہ ہر کھانے پر الگ الگ فاتحہ دی جارہی ہے۔ پھر وہاں بیان کی فرمائش ہوئی تو میں نے اس بیان میں کہا کہ فاتحہ ومولود کے سنت اور بدعت ہونے کا امتحان بہت آسانی سے اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو مولوی صاحب مولود پڑھیں یا فاتحہ دیں ان کو (اس پر) کچھ نہ دیا جائے، ان سے خوب مولود پڑھواؤ اور الگ الگ ہر رکابی (وبرتن) پر فاتحہ دلواؤ، مگر ( اس کا )نذرانہ کچھ نہ دو ، نہ مٹھائی کا دوہرا حصہ دو ۔ پھر دیکھنا وہ خود ہی اس کو فضول اور بدعت کہنے لگیں گے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسی روز شام کو آکر ایک فاتحہ خواں صاحب کہنے لگے کہ ” واقعی یہ تو ایک فضول سا قصہ معلوم ہوتا ہے کہ الگ الگ فاتحہ ہو، ایک ہی کافی ہے“ ۔میں نے جی میں کہا کہ اب تو معلوم ہو ہی جائے گا۔ صاحبو! میں سچ کہتا ہوں کہ ان کی (ان رسموں اور بدعتوں کی ) آمدنی بند کر دو ، تو وہ خود ہی کہنے لگیں گے کہ یہ سب فضول قصہ ہے ۔ یہ ساری باتیں روٹیاں کھانے کی ہیں۔ ( اشرف الجواب ص:242 تا244 واسباب الفتنہ)
ایک اور موقع پر فرماتے ہیں، لوگ آج کل اتفاق اتفاق تو پکارتے ہیں مگر اس کی حدود کی رعایت نہیں کرتے ، بس اتنا یاد کر لیا ہے کہ قرآن میں حکم ہے” افتراق نہ کرو“۔ مگر اس سے پہلا جملہ نہیں دیکھتے” کہ اس میں الله کے راستہ پر قائم رہنے کا پہلے حکم ہے “ اس کے بعد ارشاد ہے کہ ” (الله کی رسی) پر متفق ہو کر اس سے تفرق (علیحدگی) نہ کرو ، تو اب مجرم وہ ہے جو حبل الله ( ا لله کی رسی) سے الگ ہو اور جو حبل الله (الله کی رسی) پر قائم ہے ۔ وہ ہر گز مجرم نہیں ، گو اہل باطل سے اس کو ضرو راختلاف ہو گا۔ پس یادر کھو کہ نہ اختلاف مطلقاً مذموم ( یعنی ہر حال میں برا) ہے، جیسا کہ ابھی ثابت کیا گیااور نہ اتفاق مطلقا ً محمود ( ہرحال میں اچھا) ہے ، بلکہ اتفاق محمود ( اچھا اتفاق) وہ ہے جوحبل الله کے اعتصام( یعنی الله کی رسی کو مضبوط پکڑنے) پر ہو ( جیسا کہ ائمہ اربعہ کا ہے)۔ ( وعظ” اصلاح ذات البین“ خطباتِ حکیم الامت ج11,19 المسمیٰ ”آداب انسانیت“ ص:334 و335)
خلاصہ یہ کہ اختلاف سے بچنے کا راستہ سنت اور صحابہ کے طریقہ پر عمل کرنا اور بدعت سے بچنا ہے۔

Flag Counter