Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 20
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
شادی کس عمر میں کی جائے
سوال… کیا فرماتے ہیں اس بارے میں علماء کرام کہ:
کوئی ولی لڑکیوں کی شادی نہ کر رہا ہو جب کہ لڑکیوں میں سے ایک کی عمر 26 سال اور دوسرے کی عمر 28 سال ہو اور کئی برسوں سے اُن کے لیے مختلف جگہوں سے رشتے آرہے ہوں۔ایسی صورت میں جب کہ رشتے موجود ہوں تو لڑکی کی شادی کے لیے شریعت میں کون سی عمر تجویز کی گئی ہے؟نوٹ ( لڑکیوں کے ولی سے مراد اُن کی والدہ اور اُن کے دوماموں اور ایک نانی ان کی سرپرست ہوں)
او راگر لڑکی عالمہ ہے اور اتنی عمر گزرنے کے بعد وہ خود اپنی مرضی سے کسی گھرانہ میں شادی کی خواہش ظاہر کرے اور گھر والے اس سے کافی ناراضگی کا اظہار کریں تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب… نکاح کا پسندیدہ زمانہ بلوغ اور درستی عقل کے بعد کا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے او رگھر چلانے کا بوجھ اُٹھا سکے اور اس کے جوڑ کا رشتہ مل جائے تو پھر اس کا نکاح کر دینا چاہیے، بلا وجہ مناسب رشتے ہونے کے باوجود تاخیر کرنا جائز نہیں، وگرنہ تاخیر کی صورت میں اگر اولاد سے کوئی گناہ سر زد ہو گا تو وہ گناہ اس کے سرپرست پر بھی لکھا جاتا ہے ، خواہ نگاہ کا گناہ ہو ، یا کان کا گناہ ، یا زبان کا گناہ، اتنا ہی گناہ سرپرست کو ہو گا۔
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، نماز جب اس کا وقت آجائے ، جنازہ جب وہ تیار ہو جائے اور بے نکاحی لڑکی کا نکاح جب کہ جوڑ مل جائے۔“
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاة والسلام نے ارشاد فرمایا:” جس کی اولاد لڑکا یا لڑکی ہو ، اس کو چاہیے اچھا نام رکھے، اس کی تعلیم وتربیت کرے ، جب وہ بالغ ہو جائے تو نکاح کر دے ، بالغ ہونے کے بعد اگر نکاح نہیں کیا اور وہ کسی بھی گناہ میں مبتلا ہو گئے تو اس کاگناہ باپ ( یا جو بھی ان کا سرپرست ہو ان) پر ہوگا۔“
ایک اور حدیث میں ارشاد گرامی ہے کہ تورات میں لکھا ہے : ”جس کی لڑکی بارہ سال کی ہو گئی اور اس نے نکاح نہیں کیا ، پھر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو گئی تو اس کا گناہ اس کے باپ ( یا سرپرست) پر ہو گا۔“
ان روایات کے ذیل میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں : ” ان روایات سے اس حکم ( نکاح) کا مؤکد ہونا معلوم ہوا اور مؤکد ( ضروری) کا ترک کرنا موجب مواخذہ (عذاب کا باعث) ہوتا ہے۔ (اسلامی شادی، ص:40، المیزان)
لڑکا اگر لڑکی کا ہم پلہ ہے، تو سرپرستوں کو بجائے ناراضگی کے، سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے میں فکر کرنی چاہیے، اولاد کی طرف سے تقاضے کے باوجود شادی میں تاخیر کرنے سے آخرت کا وبال تو ہے ہی، مبادا کہیں دنیا میں ہی اس کے مفاسد دیکھنے نہ پڑجائیں۔ مزید تفصیل کے لیے حضرت تھانوی رحمہ الله کی کتاب ”اسلامی شادی“ کا مطالعہ فرمالیں۔
میت کا چہرہ دیکھنا
سوال… بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ آدمی جب مرجاتا ہے تو لوگ مردے کا چہرہ لوگوں کو دکھاتے ہیں غسل وتکفین سے پہلے بھی یہ عمل ہوتا ہے اور بعد میں بھی ۔ عوام الناس کا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
جواب…میت کا چہرہ دیکھنا فی نفسہ جائز ہے۔ لیکن اس کی تجہیز وتکفین اور تدفین سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ ان امو رمیں تاخیرنہ کی جائے ۔ اس لیے میت کا چہرہ دکھانے کی غرض سے تجہیز وتکفین میں تاخیرکرنے ، جنازہ تیار ہو جانے یا نماز جنازہ کے بعد چہرہ دکھانے سے اجتناب ہی بہتر ہے ، البتہ تجہیز وتکفین اور تدفین کے انتظامات کے دوران میت کا چہرہ دیکھنے اور دکھانے کی گنجائش ہے ۔
انٹرنیٹ سے کسی کا آرٹیکل لے کر اسے اپنے نام سے شائع کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کوئی اسٹوڈنٹ جس کا کام مختلف مضامین لکھنا اور کسی چیز پر ریسرچ کرنا ہے جس کے لیے وہ اکثر وبیشتر نیٹ پر مختلف ویب سائٹس کے ذریعے مواد جمع کرتا ہے اور اس کی مدد سے اپنا آرٹیکل لکھ کر شائع کرتا ہے یا شائع نہیں کرتا مگر اپنے نام سے موسوم کرتا ہے۔
تو کسی مضمون اور آرٹیکل کو جونیٹ پر شائع ہو چکا ہو، اس کو اگر بعینہ نقل کرکے اپنے نام سے پیش کرے، تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور اسی طرح اگر اسی آرٹیکل میں الفاظ میں تبدیلی مثلا80 فی صد لفظی تبدیلی کرکے اس آرٹیکل کو اپنے الفاظ میں لکھ کر پیش کرے، تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب… واضح رہے کہ کسی دسرے کی محنت کو اپنی طرف منسوب کرنا او رخود کو اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا مستحق ظاہر کرنا دھوکہ اور خیانت ہے، لہٰذا کسی دوسرے کے لکھے ہوئے مضمون کو بعینہ اپنے نام سے شائع کیا جائے تو یہ ناجائز ہے او راگر کئی مختلف مضامین سے مواد جمع کرکے حذف واضافہ اور ترتیب کے بعد اپنے نام سے شائع کیا جائے تو جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی مضمون کے اکثر الفاظ کو تبدیل کرکے اپنے نام سے شائع کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ اصل مأخذ کا حوالہ بھی دے دیا جائے۔
یہ حکم جب ہے کہ اس لیے گئے مضمون میں کوئی نئی یا نادر تحقیق نہ ہو، اگر اس میں کوئی ایسی تحقیق ہو تو پھر اس کو بغیر حوالہ دیے اپنے نام سے شائع کرنا جائز نہیں بلکہ اصل مأخذ یا مصنف کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ ہاں اگر وہ تحقیق شائع اور عام ہو چکی ہو تو پھر اس کو اپنے مضمون میں اصل مأخذ کا حوالہ دیے بغیر بھی ذکر کیا جاسکتا ہے۔
جزوی ڈیوٹی دے کر پوری تنخواہ لینے کا حکم
سوال… میرا بھائی محکمہ صحت میں ملازم ہے جس کا عہدہ ڈسپنسری انچارج کا ہے۔ جب سرکاری دوائی ڈسپنسری میں آجاتی ہے تو وہ ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتا ہے او ر جیسے ہی دوائی ختم ہو جاتی ہے تو ہفتے میں دو تین دن ڈیوٹی پر جاتا ہے او رگھر پر جو مریض آجائے ڈیوٹی اوقات کے علاوہ بھی (دن میں اور رات میں) مریضوں کے ساتھ چلا جاتا ہے بغیر فیس اور بغیر پیسوں کے۔
اس جزوی ڈیوٹی میں اس کی تنخواہ حلال ہے یا حرام ہے ؟
اس صورت میں میرا اس کی تنخواہ سے کھانا پینا یا خرچ کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟
اگر حرام اور ناجائز ہے تو میں کیا کروں؟
جواب… صورت مسئولہ میں چوں کہ آپ کے بھائی حکومت سے پورے مہینے کی تنخواہ لیتے ہیں، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ وہ پورا مہینہ باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو ا کریں، اگرچہ درمیان میں دوا ختم ہوجائے۔ اس لیے کہ دواکے ختم ہو جانے کے بعد بھی ڈسپنسری میں انچارج کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے تو ہفتہ میں دو تین دن حاضری دیتے ہیں، وگرنہ اس حاضری کی بھی ضرورت نہ تھی ، گورنمنٹ خود ہی چھٹی دے دیتی ، گورنمنٹ کا چھٹی نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پورا مہینہ حاضری دینا ضروری ہے۔
صورت مذکورہ میں مہینے کے جتنے دن آپ کے بھائی غیر حاضر رہیں گے اتنے دن کی تنخواہ لینا ان کے لیے جائز نہیں ہوگا۔
آپ کے لیے اپنے بھائی کے مال میں سے کھانے، پینے اور خرچ کرنے کی گنجائش ہے ۔ لیکن پھر بھی افضل یہ ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی جائز کاروبار کرکے اپنا پیٹ پالیں اور ممکن ہو تو اپنا ذاتی ذریعہٴ معاش اختیار کریں اور اس مشکوک آمدنی سے بچیں۔
نوٹ… آپ کے بھائی کے غیر حاضر رہنے سے بچنے کی یہ صورت ہو سکتی ہے، کہ جن دنوں میں ڈسپنسری سے دوائی ختم ہو جاتی ہو ، ان دنوں کی گورنمنٹ سے چھٹی لے لیا کریں، چھٹی لینے کی صورت میں حاصل ہونے والی کمائی کا استعمال کرنا جائز اور حلال ہو گا۔

Flag Counter