Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 20
***
کامیابی اورناکامی کا معیار
مولانا محمد راشد گورکھپوری
یہ دنیا دارالابتلا ہے، یہاں انسان کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی فراخی، کبھی تنگ دستی، کبھی یسر، کبھی عسر، کبھی راحت اور کبھی کلفت سے انسان کو سابقہ پڑتا ہے، کسی کو الله تعالیٰ دے کر آزماتا ہے، تو کسی سے لے کر آزماتا ہے ، ایک شخص اپنے بیٹے کی شادی پر اس کا دو شالہ خریدنے جارہا ہے تو دوسرا اپنے بیٹے کا کفن خریدنے جارہا ہے، ایک کے گھر دلہن کی ڈولی اتر رہی ہے تو دوسرے کے گھر سے بیوی کا جنازہ اٹھ رہا ہے، کسی کو کاروبار میں بہت نفع ہو رہا ہے تو کسی کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، کوئی صحت یاب ہے تو کوئی بیماری سے دو چار ہے ، غرض انسان دونوں طریقوں سے آزمایا جارہا ہے۔
یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی غم اور صدمہ سے خالی نہیں رہے، بلکہ انہیں تو دوسروں سے زیادہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے، پھر درجہ بدرجہ اہل ایمان کو تکلیفیں گوارا کرنی پڑتی ہیں۔ حدیث میں ہے ”اشد الناس بلاءً الانبیاء، ثم الامثل، فالامثل“ کہ ابتلا کی وادیوں میں سب سے زیادہ کٹھن وادی انبیاء علیہم السلام کی ہوتی ہے، پھر ان حضرات کی جو اطاعت وتعلق میں ان سے قریب تر ہوتے ہیں ، پھر ان کی جوان سے قریب ہوتے ہیں۔
بعض مصیبتیں بھی الله کی نعمت ہوتی ہیں
متعدد آیات میں بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ایک جگہ ارشاد ہے:﴿ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین، الذین اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا الله وانا الیہ راجعون، أولئک علیہم صلوات من ربھم ورحمة واولئک ھم المھتدون﴾․
”ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے، کبھی بھوک سے، کبھی خوف سے، کبھی تمہارے مالوں کو کم کرکے اور کبھی تمہارے اعزہ واقربا کو کم کرکے او رکبھی تمہارے پھلوں میں نقصان ہو جائے گا ،( آگے فرمایا جارہا ہے اے محمد صلی الله علیہ وسلم!) ان لوگوں کو خوش خبری سنا دو، جوان مشکل ترین آزمائشوں پر صبر کریں اور کہیں انا لله وانا الیہ راجعون۔ ایسے لوگوں پر الله تعالیٰ کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والوں کے لیے یہ مصیبتیں خدائی ہدیہ اور تحفہ ہیں، کیوں کہ خدا وند قدوس کی جانب سے ان پر رحمت کی بشارت سنائی گئی ہے او رانہیں ہدایت یافتہ ہونے کی سند دی گئی ہے ۔ دوسری جگہ مصیبتوں اور آزمائشوں کو گویا جنت میں داخلہ کی شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔﴿ام حسبتم ان تدخلوا الجنة ولما یأتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم البأساء والضراء وزلزلوا﴾․
”کیا تم نے گمان کیا کہ تم جنت میں جاؤ گے اور ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب جھنجھوڑے گئے۔“
اس لیے خوب سمجھ لو کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی ،بلکہ اس کے لیے آزمائش کی بھٹی سے گذارا جائے گا۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ غزوہٴ خندق میں صحابہ کرام کی آزمائش اسی طرح ہوئی ، قرآن نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے:﴿اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون بالله الظنونا․ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیداً﴾․
”جب کہ دشمن تمہارے پاس اوپر نیچے سے چڑھ آئے او رجب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منھ کو آگئے او رتم الله کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس موقع پر مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وہ جھنجوڑ دیے گئے۔“
ایک دوسری آیت میں جنت کے عوض اہل ایمان کے جان ومال کی خریداری کا تذکرہ فرماکر یہ پیغام دے دیاگیا کہ جان ومال پر سخت حالات آئیں تو شان ایمان کے خلاف نہ سمجھنا چاہیے، کیوں کہ خریدار کو خرید کردہ چیز میں ہر طرح کے تصرف کا اختیار ہوتا ہے۔
﴿ان الله اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنة﴾
بلاشبہ الله تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں او رمالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔
معلوم ہوا کہ الله کی جانب سے انبیا ، اولیا، صالحین اور کاملین کے اوپر طاری ہونے والے سخت حالات کا منشا الله کی ناراضگی نہیں ہوتا، بلکہ یہ حالات اس اصول کے پیش نظر ہوتے ہیں کہ میدان محبت میں قدم رکھنے والوں کا امتحان لیا جاتا ہے او رانہیں عشق ومحبت کا ثبوت دینا پڑتا ہے کیوں کہ راہ عشق ووفا میں جب تک سخت حالات او رمصائب پیش نہ آئیں اس وقت تک عشق کی صداقت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے، نیز جب تک منافی عشق ومحبت دواعی موجود نہ ہوں اس وقت تک عشق کی گھاٹی کو عبور کرنا کمال نہیں سمجھا جاتا۔ فرشتے اگر بد نگاہی نہ کریں، کسی قسم کی نافرمانی نہ کریں ، یا وہ روزہ رکھیں تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں ہے، کیوں کہ ان کے لیے بد نگاہی میں لذت نہیں ہے، ان میں نافرمانی کا مادہ نہیں ہے اور بھوک وپیاس کی ان کو حاجت نہیں ہے۔ اسی طرح بھیڑیا بڑھاپے میں اگر کسی پر حملہ نہ کرے تو اس سے اس کی شرافت کا فتوی نہیں دیا جائے گا، کیوں کہ جب پیٹ میں آنت او رمنھ میں دانت نہیں ہیں تو حملہ کیا کرے گا؟ ہاں چڑھتی جوانی میں ( جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوانی ، دیوانی ، مستانی، شہوانی اور شیطانی ہوتی ہے) جب کہ بد نظری کا داعیہ موجود ہو، نظر بچالی جائے تو یہ کمال متصور ہو گا #
در جوانی توبہ کردن شیوہٴ پیغمبری
یہی معاملہ الله کا صلحا کے ساتھ ہوتا ہے کہ انہیں قدم قدم پر تکالیف ومصائب کی بھٹیوں میں تپایا جاتا ہے، تاکہ عہد ووفا کی سچائی اور عشق ومحبت کی صداقت کااندازہ کیا جائے اور یہ بھی درحقیقت رحمت کا عنوان ہے، یہی وجہ ہے کہ اتقیا اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کسی کا شکوہ نہیں کرتے، بلکہ #
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
ان کی زبان حال ہوتی ہے اور ان کی خواہش وہ ہوتی ہے جو کسی شاعر نے بیان کی ہے #
نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
کہ محبت کی مارکسی دشمن کو نصیب نہ ہو ، دوستوں کا سر سلامت ہے، انہیں پر خنجر آزمائی کی جائے کہ محبت کی ضرب میں بھی لطف ملتا ہے ، جیسے کہ مدتوں کا بچھڑا ہوا کوئی محبوب ہو اور اس سے شوقِ ملاقات بڑھتا جارہا ہو ، اچانک وہ محبوب آئے اور عاشق کی نظروں سے بچتے ہوئے اسے پیچھے سے پکڑ کر زور سے دبانے لگے، جس کی تکلیف سے وہ دبانے والے کو ڈانٹے اور اس کی گرفت سے خلاصی پانے کے لیے دوری اختیار کرے، مگر جب اسے معلوم ہو کہ یہ تو اپنا محبوب ہے تو بجائے ڈانٹ پلانے اور دور ہونے کے اس سے چمٹنے لگے اور کہے ، لو! جی بھر کر دبالو۔
مصائب سے گناہوں کی صفائی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ان تکالیف کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
” ایک آدمی کے جسم میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے آپریشن کرنا تجویز کیا تھا۔ مریض کو معلوم ہے کہ آپریشن میں چیر پھاڑ اور شدید تکلیف ہو گی، لیکن اس کے باوجود وہ ڈاکٹر سے صرف یہ درخواست نہیں کرتا ہے کہ میرا آپریشن جلد کر دو، بلکہ دوسروں سے سفارش بھی کراتا ہے اورڈاکٹر کو بھاری فیس بھی دیتا ہے، گویا اس مقصد کے لیے وہ پیسے دے رہا ہے کہ اس کے اوپر نشتر چلایا جائے، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ نشتر چلانے کی معمولی وعارضی تکلیف کے بعد صحت کی جو عظیم نعمت ملنے والی ہے اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔“ ( تصرفاً)
بالکل اسی طرح جب الله تعالیٰ کسی بندے کو تکلیف دیتے ہیں تو درحقیقت یہ اس کا آپریشن ہوتا ہے، تاکہ آخرت میں جب بندہ الله کے دربار میں پہنچے تو گناہوں سے پاک وصاف ہو کر پہنچے۔ چناں چہ حدیث پاک کے اندر فرمایا گیا ہے :”لایزال البلاء بالمؤمن، حتی یخرج نقیا من ذنوبہ، والمنافق مثلہ کمثل الحمار، لا یدری فیم ربطہ اہلہ، ولا فیم ارسلوہ“․
یعنی مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے، جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا؟
آیات واحادیث کا اہم سبق
یہی وجہ ہے کہ ان شدائد کے ہوتے ہوئے بھی الله کے مخلص اور وفادار بندے اپنے احوال پر مطمئن، شاداں وفرحاں نظر آتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں ان مصائب میں الله کی بہت سی حکمتیں مضمر ہوتی ہیں، مثلاً کبھی اصلاح حال کا ارادہ ہوتا ہے، کبھی رفع درجات کا قصد ہوتا ہے او رکبھی صبر واستقامت کا امتحان ۔ اسی لیے ان کا نظریہ، یہ ہوتا ہے کہ نیک وصالح مسلمان اپنی تنگ دستی وبیماری کو نہ خدائی پھٹکار تصور کرے اور نہ ہی اسے خدا کی ناراضگی کا ثمرہ ونتیجہ قرار دے، نیز ان مصائب کو وہ اس نقطہ نظر سے بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا دارالعمل ہے، دارالجزا نہیں، اعمال کا بدلہ تو میدان محشر میں ملے گا، یہاں تو ”نیکی کراور دریا میں ڈال“ اور اللھم لا عیش إلا عیش الآخرة (زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے) کو پیش نظر رکھنا ہے ، اس لیے کسی شخص کی لاچاری کو نہ ہی اس کے عملِ بد کارد عمل قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی شخص کی عیش وعشرت والی زندگی کو اس کے عملِ صالح کا لازمی نتیجہ کہاجاسکتا ہے۔
مصیبت ورحمت کا معیار نیکی ہے
یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اگر نیک وصالح بندے پر آنے والی سختیاں باعث رحمت ہوتی ہیں تو فاسق وفاجر اور خدا کے باغی کو پیش آنے والی سختیاں خدائی عذاب ہوتی ہیں، نافرمانی کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی، لیکن کبھی کبھی الله تعالیٰ دنیا میں بھی عذاب کامزہ چکھا دیتے ہیں:
﴿ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون﴾․
”آخرت میں جو بڑا عذاب آنے والا ہے ہم اس سے قبل دنیا میں بھی تھوڑا سا عذاب کا مزا چکھا دیتے ہیں، تاکہ یہ لوگ اپنے بداعمالیوں سے باز آجائیں۔“
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں کو پیش آنے والی تکالیف یکساں ہوتی ہیں تو پھر ان میں فرق کیسے کیا جائے؟ محققین نے لکھا ہے کہ اگر انسان تکلیف کے اند رالله کی طرف رجوع کرنے کے بجائے تقدیر کا شکوہ کرنے لگے ، کہ کیا الله کو بیماری کے لیے میں ہی ایک ملا تھا؟ یا الله کے احکام کو ترک کر دے ، تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ پریشانی خدا کے قہر اور سزا کی ایک صورت ہے۔ اوراگر تکلیف کے آنے پر خدا سے گریہ وزاری، نالہ وفریاد اور اس کی اطاعت میں لگار ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ تکلیف خدا کی رحمت وعنایت ہے اور ترقی درجات کی ایک صورت ہے اور اس کا معقول ہونا بھی واضح ہے ، کیوں کہ چور کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا ہے او رمریض کا بھی، لیکن چور اپنے ہاتھ کے کٹنے کو جرم کی سزا تصور کرتا ہے، جب کہ مریض ہاتھ کٹوا کر معالج کا شکر گزار اوراحسان مند ہوتا ہے۔

Flag Counter