Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 20
***
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
محترم محمد الیاس ندوی بھٹکلی
مدارس اسلامیہ کے لیے لمحہ فکریہ او راس کی سب سے بڑی ضرورت
ذیل کا مضمون خالصةً ہندوستان کے تناظر میں لکھا گیا ہے، لیکن اس مضمون کا سیاق وسباق پاکستانی مدارس سے بھی کسی قدر مطابقت رکھتا ہے۔ صرف خیر خواہی کے جذبے سے شائع کیا جارہا ہے۔ ( مدیر)
گزشتہ دو تین ماہ کے دوران ملک کے متعدد صوبوں میں جانے اور مختلف دعوتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، ان اسفار میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جس سے ایک مدرسہ کے طالب علم اور خادم ہونے کی حیثیت سے دل بیٹھ گیا۔
ایک سیمینار میں شرکت کے دوران قریب کے ایک بڑے مدرسہ میں جانا ہوا ، وقت کم تھا ،مدرسہ کے تفصیلی معاینہ کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے ہم نے معذرت کر دی ، لیکن بعض بڑے اساتذہ کا اصرار تھا کہ ہم کم از کم ان کے ایک اہم شعبہ کو ضرور دیکھیں، یہ کہہ کر وہ ہمیں کمپیوٹر کے شعبہ میں لے گئے ، وہ اس شعبہ کا اس طرح تعارف کرارہے تھے جیسے وہ اس مدرسہ کا سب سے بڑا اور اہم شعبہ ہو ، وہ فخریہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ ہمارے اس کورس کو حکومت بھی تسلیم کرتی ہے او راس پر سرکاری ملازمت بھی ملتی ہے ، ان الله کے بندوں کو ہمیں نہ شعبہ حفظ یا دارالحدیث یا داراالافتا لے جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، نہ کسی دعوتی شعبہ کی زیارت کرانے کی ، نہ کتب خانہ دکھانے کی ، جب کہ دکھانے والے بھی مدرسہ کے اساتذہ تھے اور دیکھنے والے بھی۔
ایک مدرسہ کے ناظم نے اسی سفر میں بتایا کہ ہمارے مدرسہ میں طلباء کے لیے کراٹے کھیل کا نظم ہے او راس میں مہارت حاصل کرکے فارغ ہونے والے ہمارے ایک طالب علم کو جز وقتی ملازمت مل گئی ہے اور ان کی تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے، وہ اس کو اس طرح فخریہ انداز سے سنا رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ عالمی سطح پر ان کے طالب علم کو قرآن مجید یا حدیث شریف کی کسی تحقیقی خدمت پر بڑا دینی وعلمی اعزار مل گیا ہے۔
مدارس کے کچھ فارغین سے ایک بڑے شہر میں ایک سیمینار کے دوران ملاقات ہوئی جو ایک یونیورسٹی میں بی، اے میں زیر تعلیم تھے، ہم نے ان سے پوچھا کہ اپنے مدارس سے فراغت کے بعد بھی یہاں آپ لوگوں نے داخلے کی ضرورت کیوں محسو س کی ؟ اور وہ بھی عربی کے لیے ، کہنے لگے ہمارے مدارس کی سند کا اس وقت سرکاری نوکریوں اور پرائیویٹ کمپنیوں میں کوئی اعتبار ہی نہیں، یہاں سے جب ہم فارغ ہوں گے تو ہماری ملازمتوں کا آغاز ہی دس بارہ ہزار روپے سے کم میں نہیں ہو گا، بات اس حد تک ہوتی تو مجھے حیرت نہیں ہوتی لیکن اس دوران میں نے ان میں سے اکثر طلباء کو جس ناگفتہ بہ شکل وصورت اور ظاہری حالت میں د یکھا اس سے سر شرم سے جھک گیا، اکثر فارغین کے چہرے صفا تھے، داڑھی کا نام ونشان تک نہیں تھا، ان شرٹ اور ٹی شرٹ کے ساتھ ٹخنوں سے نیچے ان کے پینٹ تھے، ٹوپی کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں تھا، پندرہ سال تک مسلسل مدرسہ میں قیام کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی ایک ماہ میں ان کی تربیت وتعلیم پر پانی پھر گیا تھا، مزید وہ فخریہ کہہ رہے تھے کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ورنہ دو تہائی سے زیادہ فارغین ہر سال اس یونیورسٹی کے اس شعبہ میں داخلہ سے محروم ہوتے ہیں۔
ان تینوں واقعات کے مرکزی کردار پر نظر دوڑائیے، پہلے میں اساتذہ مدارس دوسرے میں ذمہ داران مدارس اور تیسرے میں طلبا مدارس، ان سب کی حالتوں اور گفتگو کا تجزیہ کیجیے تو صرف دو لفظوں میں اس کو یوں ادا کیا جاسکتا ہے”مرعوبیت“ اور خود اپنی تعلیم پر عدم اعتماد، دوسرے الفاظ میں خود اعتمادی کا فقدان ۔
آج ہمارے مدارس کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کا ہر جگہ چرچہ ہے کہ یہ دینی مدارس کے خلاف عالمی منصوبہ بندی ہے ، حکومت کے مدرسہ بورڈ کے خلاف ہم چوکنا ہیں کہ اس سے مدارس کا وجود خطرے میں ہے ، مدارس میں عصری علوم کی شمولیت کی تحریک پر ہم چیں بجبیں ہو جاتے ہیں کہ یہ ہمارے مدارس کی روح کے خلاف ہے ، ہمارے یہ خدشات اور ہمارے یہ اندیشے برحق ہیں، لیکن اگر دوسری طرف نگاہِ بصیرت سے ان کی ان منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے توان سب کے پس پردہ ان سازشوں کا مشترک محرک یہی ہے کہ ان سب ہمارے بدخواہوں کو نظر آہار ہے کہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کے پیچھے ان ہی مدارس کا اہم رول ہے ، اسی لیے ان کو اسلام کے حوالہ سے ہمارے ان مدارس سے خوف ہے اور وہ اس کو کسی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان اسلام دشمن طاقتوں کو ڈر اور خوف ہمارے مدارس کی پر شکوہ عمارتوں اور اس کے عظیم الشان کتب خانوں اور اس میں ہونے والے سیمیناروں اور وہاں بڑھتی ہوئی طلبا کی تعداد او رعوامی رحجان سے نہیں بلکہ ان کو خوف وخطرہ او ردشمنی وعداوت اس اسلامی روح اور دینی اسپرٹ سے ہے جو ان مدارس کی امیتازی شان اور اس کا طرہ امتیاز ہے۔
ماضی میں بار ہا ایسا ہوا کہ اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ناکام کوششیں کیں ، لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کو کسی بھی حال میں ختم نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ منصوبہ بنایا گیا کہ ان کو بظاہر مسلمان رکھتے ہوئے ان کے اندر سے اسلام کی روح کو ختم کر دیا جائے، اس طرح کہ غیر شعوری طور پر وہ اسلام سے نکل جائیں اور فکری وتہذیبی ارتداد میں مبتلا ایک بڑی مسلم نسل کو تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ، جو بظاہر مسلمان ہے لیکن عملاً اسلام سے نکل چکی ہے، اب وہ یہی تجربہ مدارس اسلامیہ کے سلسلہ میں کرنا چاہتے ہیں ، جب انہیں احساس ہو گیا ہے کہ ان دینی مدارس کا وجود کسی بھی حال میں ختم نہیں ہو سکتا تو یہ منصوبہ بنایا گیا ہے کہ پچھلے کامیاب تجربہ کی روشنی میں ان مدارس کو اسی حال میں رہنے دیا جائے البتہ اس کی روح کو ختم کر دیا جائے، جس کی نتیجہ میں وہاں سے فارغ ہونے والے علماء کے اندر احساس کمتری پیدا کی جاء یاو ردینی تعلیم کے سلسلہ میں خود اعتمادی کی دولت سے ان کو غیر محسوس طریقہ سے محروم کر دیا جائے، بظاہر ان مذکورہ واقعات کی روشنی میں ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمارے ان مدارس کے سلسلے میں اپنے منصوبوں میں بتدریج ہی سہی کامیاب ہو رہی ہیں، جس کا احساس ہمیں گزشتہ چند سالوں سے مجموعی طور پر ہمارے مدارس سے فارغ ہونے والے اکثر طلبا کے رویوں، گفتگو او ران کے طرز زندگی سے ہو رہا ہے ورنہ کیا وجہ ہے ہمارے ذمہ داران مدارس کو اپنے مدارس کی سند کو سرکاری سندوں کے مساوی قرارا دینے ، اپنے یہاں اوپن یونیورسٹیوں اور اردو ، عربی سرکاری کونسلوں کے سینٹر اور فراغین کے لیے انگریزی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کوچنگ کلاسس کھولنے کی فکر تو ہے ، لیکن ہمارے ان فارغین میں خود ان کی دینی تعلیم پر ان کے اعتماد کو بحال کرنے ، اخلاقی اعتبار سے ان کو علماء ربانیین کی سی زندگی گزارنے کی ترغیب دلانے اور دعوتی اعتبار سے ان کو تیار کرنے کے لیے کسی شعبہ کے قیام کے متعلق کوئی خبر سننے میں نہیں آرہی ہے ؟ ہمیں تدریس کے لیے اچھے محدثین اور مفسرین کے فقدان کا شکوہ تو ہے لیکن فراغت کے بعد اس سلسلہ میں ان کی خصوصی تربیت کے لیے کسی مدرسہ کی طرف سے اس سلسلہ میں کسی نئی پیش رفت کی اطلاع نہیں مل رہی ہے؟ جب ہمارے علماء وفارغین کو خود اپنی دینی تعلیم پر اعتماد نہیں ہو گا تو اگلی زندگی میں ان سے کسی بڑے کارنامے کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے ؟ کچھ مدارس سے انگلیوں پر گنے جاسکنے والے علمی ودعوتی اعتبار سے ممتاز کچھ اچھے فضلا کی مثال دے کر ہمارے اس تجزیہ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، اس لیے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ میں سے ایک دو اچھے طلبہ نکلتے ہیں تو اس کو اس مدرسہ کی خصوصیت نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ استثنائی صورت ہے ، اگر یہ مدرسہ کی تعلیم وتربیت کا اثر ہوتا تو آدھے سے زیادہ طلباء کا اس طرح ممتاز ہو کر نکلنا ضروری تھا، یہ وہ طلبہ تھے جو کسی بھی مدرسہ میں ہوتے تو اسی امتیازی شان سے فارغ ہوتے، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ اتفاقی طور پر دو چار اچھے نکلنے والے اپنے فضلاء کے کارناموں سے ہماری رپورٹیں بھری رہتی ہیں، اس طرح کی تشہیر سے مدارس کی افادیت کے سلسلہ میں ہم اپنے مخالفین کا منھ تو بند کر سکتے ہیں، لیکن الله کے دربار میں اپنی جواب دہی سے بچ نہیں سکتے۔
یہ تجزیہ ہندوستان کے عمومی مدارس کے متعلق ہے ، بعض مدارس کا اس میں یقینا اسثتناء کیا جاسکتا ہے بالخصوص قدیم او ربڑے مدارس کا، لیکن مجموعی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے ، اس پورے پس منظر میں ہمارے مدارس کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ دینی تعلیم کے سلسلہ میں ہم اپنے طلبا وفارغین میں خود اعتمادی کو بحال کرنے پر اولین فرصت میں توجہ دیں، ان میں اس وقت احساس کمتری کو ختم کرنے کے لیے ان کی اس طرح تربیت کریں کہ ان کے قدم دنیاوی زندگی میں ڈگمگانہ سکیں او رباد صر صر کی مخالف ہوائیں ان کے قبلہ کی سمت میں رخنہ، ڈال سکیں، ان کی اخلاقی ودینی تربیت اور تزکیہ نفس کے لیے فراغت کے بعد ایک سالہ اور دو سالہ ایسے کورس ترتیب دیے جائیں جس طرح افتاء ، ادب اور عصری علوم کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں ، اگر اس پر فی الفور توجہ نہ دی گئی تو خطرہ ہے کہ چند ہی سالوں میں ہمارے مدارس تو اپنی جگہ باقی رہیں گے لیکن وہ اسلامی روح اور دینی جذبہ سے خالی ہو جائیں گے، نام تو مدارس کا ہو گا، تعلیم بھی عربی کی ہو گی اور اس کو چلانے والے بھی علماء ہوں گے ، لیکن وہ نتیجتاً وعملاً دنیاوی میدان میں اپنے فارغین کو روز گار فراہم کرنے کے مراکز ہوں گے۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

Flag Counter