***
مسلمان ہی مصائب کا شکار کیوں؟
مولانا سعید احمد جلال پوری
بلاشبہ آج کا دور دجالی فتنوں اور نئے نئے نظریات کا دور ہے ، ہم جنس پرستی کو قانونی جواز حاصل ہو چکا ہے، ناچ گانے کی محفلیں عام ہو چکیں، دیکھا جائے تو یہ قرب قیامت کا وقت ہے ، اس وقت مسلمانوں سے الله کی حفاظت ومدد اٹھ چکی ہے ، مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہور ہیں، سچی بات یہ ہے کہ یہ الله کی ناراضگی ، ظاہر داری ، چاپلوسی، انانیت، خود پسندی اور امت کے زوال کا دور ہے ، فتنہ وفساد عروج پر ہیں ، خیر سے محروم لوگوں کی کثرت ہے اور خدا کی لعنت وغضب کا وقت ہے اور یہود ونصاریٰ کی نقالی کامیابی کی معراج شمار ہونے لگی ہے ۔ اس سے انداز لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں اور معاشرے کی الله تعالیٰ کے ہاں کیا قدر وقیمت ہو سکتی ہے؟ چناں چہ ایسے ہی دور کے لوگوں کے بارہ میں حدیث شریف میں ہے کہ:
”نیک لوگ یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے جائیں گے ، جیسے چھٹائی کے بعد ردی جویا کھجوریں باقی رہ جاتی ہیں، ایسے ناکارہ لوگ رہ جائیں گے کہ الله تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔“ ( صحیح بخاری، کتاب الرقائق ، ص:952، ج:2)
اس کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مسلمانوں کے لیے الله تعالیٰ کی مدد کا وعدہ ضرور ہے، لیکن الله کی مدد آنے کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ: ﴿یا ایھا الذین آمنوا ان تنصروا الله ینصرکم ویثبت اقدامکم﴾․ (محمد:7)
ترجمہ…:”اگر تم الله کے دین کی مدد کروگے تو الله تعالیٰ تمہاری مدد کریں گے او رتمہارے قدموں کو ثابت کریں گے۔“
لہٰذا جب سے مسلمانوں نے الله تعالیٰ کے دین کی مدد چھوڑ دی ہے ، الله تعالیٰ نے بھی مسلمانوں سے اپنی رحمت وعنایت اورمد دکا ہاتھ اٹھالیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف کافر مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ رہے ہیں جس طرح دستر خوان پرچنے ہوئے کھانے پر لوگ ٹوٹتے ہیں۔ چناں چہ حدیث شریف میں اس کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
” وہ وقت قریب آتا ہے ، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لیے … مل کر سازشیں کریں گی… اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دستر خوان پر کھانا کھانے والے … لذیذ… کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول الله ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہو گا؟ فرمایا: نہیں ! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہو گے ، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہو گے، یقینا الله تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہا رارعب اور دبدبہ نکال دیں گے اورتمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے۔“
کسی معاشرہ کا یہ حال ہو او رجن مسلمانوں کے اعمال واخلاق کا یہ نقشہ ہو ، وہاں الله کی مدد آئے گی یا الله کا عذاب؟
جہاں تک ارشاد الہٰی: ﴿الا ان نصر الله قریب﴾… بے شک الله کی مدد قریب ہے … کا وعدہ ہے۔
اس سلسلہ میں بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ:
دنیا باخدا مسلمانوں کے لیے قید خانہ او رکفار ومشرکین کے لیے جنت ہے ، چناں چہ حدیث شریف میں ہے:
”عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ” الدنیا سجن المؤمن وجنة الکافر“․
ترجمہ…حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :” دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اورکافر کے لیے جنت ہے ۔“
یعنی عموماً کافر کی نسبت، مومن کو دنیا میں آفات ومصائب کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کے دنیاوی کرو فر اور راحت وآرام اور مومن کی تکلیف وپریشانی کو دیکھ کر مسلمانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مومن کی دنیا کی تکلیف او رمصائب وآلام کا، اس کی جنت کے ساتھ اور کافر کے ظاہری کی و فر، خوش عیشی او رراحت وآرام کا اس کی جہنم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو سمجھ آجائے گا کہ جس طرح کافر کی دنیاوی راحت وآسائش کی ، اس کی جہنم کی سزا کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں، اسی طرح مسلمان کی دنیا کی عارضی تکالیف ومشکلات اس کی جنت اور آخرت کی راحت وآرام کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔
دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے اور ظاہر ہے جو شخص عملی میدان میں جتنا محنت ومشقت او رجہد ومجاہدہ برداشت کرے گا، بعد میں اسی تناسب سے اسے راحت وآرام میسر آئے گا اور جو شخص میدانِ عمل میں جتنا کوتاہی کرے گا، بعد میں اسی تناسب سے اُسے ذلت ورسوائی اور فضیحت وشرمندگی کا سامنا کرنا ہو گا ، ٹھیک اسی طرح مقربین بارگاہ خدا وندی کو بھی آخرت کی کھیتی یعنی دنیا میں جہد مسلسل او رمحنت ومشقت کا سامنا ہے ، مگر عاقبت وانجام کے اعتبار سے جلدیا بدیر راحت وآرام ان کا مقدر ہو گا، دوسری طرف کافر اگرچہ یہاں ہر طرح کی راحت وآرام سے سر فراز ہیں ، مگر مرنے کے ساتھ ہی عذاب جہنم کی شکل میں ان کی راحت وآرام اور ظلم وعدوان کا ثمرہ ان کے سامنے آجائے گا۔
کسی مسلمان کی تخلیق کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں کا حصول نہیں ، بلکہ مسلمان کو جنت اور جنت کی لازوال وابدی نعمتوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے او رجنت کا حصول کچھ آسان نہیں، بلکہ جنت کے سامنے یا اردگرد مشکلات ومصائب کی باڑھ لگائی گئی ہے او ردوزخ کے ارد گرد خواہشات کی باڑھ کی گئی ہے ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:عن انس رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال:”حفت الجنة بالمکارہ، وحفت النار بالشھوات“․ (ترمذی ص:80 ج2)
ترجمہ:…حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے گردناگواریوں او رمشقتوں کی باڑھ کی گئی ہے اور دوزخ کے گرد خواہشات کی باڑھ کی گئی ہے۔“
اس لیے کسی نیک صالح مسلمان کا دنیا میں مشکلات ومصائب اور مکروہات سے دو چار ہونا دراصل حصولِ جنت میں کامیابی کی نشانی ہے اور کفارومشرکین اورمعاندین کے لیے دنیاوی راحت وآرام یا خواہشات نفسانیہ کا مہیا ہونا ان کے عذاب ناروسقر سے دوچار ہونے کی علامت ہے۔
بعض اوقات الله تعالیٰ اپنے بندوں کو آخرت کے عذاب سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں انہیں مصائب وتکالیف میں مبتلا فرماتے ہیں ، تاکہ اس کی کمی کوتاہیوں کا معاملہ یہیں نمٹ جائے اور آخرت میں ان کو کسی عذاب سے دو چار نہ ہونا پڑے، چناں چہ حدیث شریف میں ہے:
” حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب الله تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں ، تو دنیا میں ہی اس کو فوری سزا دے دیتے ہیں او رجب الله تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کی سزا موخر کر دیتے ہیں ، یہاں تک کے قیامت کے دن اس کو پوری سزا دیں گے۔“ (ترمذی)
نیز آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:” بندے کو جتنی بڑی ابتلا پیش آئے، اتنی بڑی جزا اس کو ملتی ہے اور بے شک الله تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اسے … مصائب وآلام سے … آزماتے ہیں ، پس جو شخص … ہر حالت میں الله تعالیٰ سے … راضی رہا، اس کے لیے الله تعالیٰ کی رضا مندی ہے او رجو شخص ناراض ہوا اس کے لیے ناراضی ہے۔“