Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

8 - 17
***
آنچہ من گم کردہ اَم ۔۔ باکمال وہونہار بیٹے کی موت کا غم
مولانا بدر الحسن القاسمی
آہ…… میرا لخت جگر ”محمد“ جس کے لیے اللہ نے عمر کی صرف 23/ بہاریں ہی لکھی تھیں۔ کویت میں پیدا ہوا، خالص عربی ماحول میں نشوونما پائی ، عربی مدارس وجامعات میں تعلیم حاصل کی اور تقریباً 6/5 سالوں کی غریب الوطنی اور شب وروز کی محنت کے بعد اُردن یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد اُردن ہی کی ایک دوسری یونیورسٹی میں ماسٹرز کے مرحلہ تک پہنچا، تمہیدی کورس کے بعد مقالہ کے لیے ایک نئے اور اچھوتے موضوع کا خاکہ پیش کرکے منظوری لی کہ اچانک اس کا وقت موعود آپہنچا اوروہ غم سے نڈھال باپ اور بلکتی سسکتی ماں سے ہی نہیں، بھائیوں، بہنوں اورسیکڑوں ساتھیوں اوراساتذہ کو سوگوار چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہوگیا اور رب کائنات نے اسے اپنی آغوش رحمت میں بلالیا۔ اور مسجد اقصیٰ سے قریب اُردن کی وہی سرزمین، جہاں وہ حصول علم کے لیے گیا تھا اور وہی جگہ جو ارض محشر بھی ہے اور جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسیوں جانباز صحابی مدفون ہیں جنت سے پہلے کی اس کی آرام گاہ بن گئی اور ہمیشہ کے لیے اس سرزمین کا حصہ بن گیا۔ فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون․
عام طور پر ان بچوں کو یتیم کہا جاتا ہے جن کے سر سے ماں باپ کا سایہ بچپن میں اُٹھ گیا ہو، لیکن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ادھیڑ عمر باپ کو یتیم کردیا ہے، جس کواپنے ایک ایسے ہونہار بیٹے کا غم نڈھال کیے ہوئے ہے، جو اس کا صرف نسبی نہیں، علمی سہارا اور فقہی، شرعی وادبی مرجع بھی بن چلا تھا اور جس سے طرح طرح کی توقعات اس نے قائم کرلی تھیں اور جو ایسی صلاحیتوں سے بہرہ ور تھا کہ نہ صرف باپ کے علمی خاکوں میں رنگ بھر سکتا تھا، بلکہ خود جدید فقہی مسائل کے حل کی ایک نئی راہ بھی کھول سکتا تھا۔
جس رب کائنات نے اپنی آغوش رحمت میں اسے لیا ہے اب اسی کی ذات سے یہ اُمید بھی کی جاسکتی ہے کہ اس کے ”یتیم باپ“ کی ناطاقتی پر رحم کرے، اس کے احساس زیاں کو دور کرے اور اسے مزید آزمائشوں میں نہ ڈالے، ایسے جواں مرگ بیٹے کی موت پر صبر ورضا کا دامن تھامے رکھنا بھی رب غفور ورحیم کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
محمد کی فطری صلاحیت‘ زبان وادب پر اس کی قدرت‘ فقہ واُصول سے مناسبت اور پھر مستقبل کے عزائم اور علمی بلند پروازیوں کا خیال آتا ہے تو دل ٹوٹنے لگتا ہے اور سوز اندرون سے ہڈیاں پگھلنے لگتی ہیں اور اس کی اعلیٰ ڈگریوں، علمی سرگرمیوں اور حاصل کردہ تمغوں اور شہادتوں(اسناد) پر نظر پڑتی ہے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگتا ہے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں،نہ پاؤں تلے زمین محسوس ہوتی ہے اور نہ سر کے اوپر آسمان۔
اندرونی حال یہ ہے کہ ”اگر گویم زباں سوزد نہ گویم مغز استخواں سوزد“
مجھ جیسا جسمانی وایمانی ہر لحاظ سے ضعیف وناتواں شخص حضرت عروہ بن الزبیر کا حوصلہ کہاں سے لائے، جنہوں نے ایک ہی دن میں ایک ٹانگ کٹ جانے اور ایک بیٹے کے مرجانے پر رب کائنات کے سامنے دست عاجزی بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
”اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے دو ہاتھ اور دو پاؤں دیے تھے جن میں سے ایک لے لیا اور تین باقی چھوڑے ہیں اور6/ بچے دیے تھے جن میں سے ایک لے لیا ہے اور پانچ باقی چھوڑے ہیں“۔
ہماری دعا تو یہی ہے کہ اے اللہ! ہمیں ایسی آزمائشوں میں نہ ڈال جن کا تحمل ہم نہ کرسکتے ہوں اور ہمیں دنیا میں عافیت اور آخرت میں عفو سے بہرہ ور فرما اورجانے والے بیٹے کو فردوس بریں میں جگہ دے ۔ وہ تیرے دین کی تعلیم ہی کے لیے وقف تھا، اسے اس کے ماں باپ کے لیے ذخیرہ آخرت کی حیثیت سے قبول فرما اور ہمیں ھم وحزن سے نجات عطا فرما۔
بہرحال آقائے کائنات،فخر موجودات، محمد بن عبد اللہا کے حادثہٴ وفات سے بڑھ کر تو کوئی دوسرا حادثہ نہیں ہوسکتا ،جس نے عرش وفرش کو ہلاکر رکھ دیا تھا اور جس نے کتنی زبانیں گنگ کردیں، کسی کی بینائی لے لی تو کوئی تلوار سونت کر یہ کہتے ہوئے خود ربودگی کے عالم میں باہر نکل آیا کہ جس کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرجانے کا ذکر کیا اس کا سر تن سے جدا کردوں گا۔ لیکن موت تو برحق ہے اور جانا تو ہر کسی کا یقینی ہے اور ﴿إنَّکَ مَیِّتٌ وَّإنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾ تو فرمان باری ہے۔ اور ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ﴾(ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے) پھانسی کے اس عام اعلان کے بعد بھی کیا کوئی شخص بچ سکتا ہے؟
لیکن انسان بہر حال انسان ہے، صدیق اکبر کا حوصلہ کہ ”من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان یعبد اللّٰہ فإن اللّٰہ حیٌّ لا یموت“ (جو کوئی محمدصلی الله علیہ وسلم کی پرستش کر رہا تھا اسے یقین کرلینا چاہیے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم تو اب دنیا میں نہیں رہے اور جو کوئی رب کائنات کی پرستش کر رہاتھا اسے یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زند جاوید ہے، اُس پر موت طاری نہیں ہوسکتی) کتنے لوگوں میں ہوتا ہے؟
محمد اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے تو نہ جانے کتنے محمد نام رکھنے والے اس دنیا سے گزر چکے ہیں، سمرقند کے قریب تربة المحمدین کے ایک ہی مقبرہ میں چند صدیوں کے اندر ہی چار سو سے زائد محمدنام رکھنے والے علماء روپوش ہوچکے تھے۔ امام ذھبی نے ایک شخص کا ذکر کیا ہے جس کی 14/ پشت تک سب کا نام محمد بن محمد ہی رہا ہے، اس لیے انہیں محمد نام رکھنے والوں میں ”محمد بدر القاسمی“ بھی ہے، جو طلب علم کی راہ اور غریب الوطنی کی حالت میں ماں باپ اور اہل خاندان سب سے دور رہتے ہوئے اللہ کو پیارا ہوگیا۔
ایسے بیٹے کا چلا جانا یقینا ایک سانحہ ہے اور ایسا سانحہ جس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے، لیکن اللہ کا ہی وہ عطیہ تھا اور اسی نے اپنی حکمت ومصلحت سے اسے ہم سے جدا کردیا ہے۔ ہمارا حال اس حادثہ پر وہی ہونا چاہیے جو حبیب کبریا، احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے معصوم بیٹے حضرت ابراھیم کی وفات پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا اور زبان مبارک پر غم واَلم کے اظہار کے ساتھ تسلیم ورضا کے یہ کلمات جاری تھے۔
إن القلب لیحزن و إن العین لتدمع ولا نقول إلا ما یرضی اللّٰہ سبحانہ وإنا لفراقک یا إبراھیم لمحزونون.
( دل غموں سے نڈھال ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، لیکن زبان سے ہم صرف وہی بات کہہ سکتے ہیں جو اللہ کو پسند ہے، اے ابراہیم تمہاری جدائی پرہم سبھی مغموم ہیں۔)
تقدیرپر ایمان اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا اگر جزو ایمان نہ ہو اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہٴ مبارک نظروں کے سامنے نہ ہو تو اتنے بڑے حادثہ پر نہ جانے انسان کا کیا حال ہو اور اس سے کس کس طرح کی قولی وعملی بے احتیاطیاں سرزد ہونے لگیں؟ محض اللہ کے کرم اور اس کی رحمت سے امید اور اس کی حکمت پر یقین کا سرمایہ ہی ہے جو انسان کے لیے بڑی سے بڑی مصیبت میں سہارے کا کام دے سکتا ہے۔
*…اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
*…جو مصیبت آتی ہے وہ پہلے سے لکھی ہوتی ہے۔
*…موت وقت سے پہلے نہیں آتی اور نہ اس کو اس کے وقت سے ٹالا جاسکتا ہے۔
*…اللہ تعالیٰ جب کسی بات کا فیصلہ کرلے تو اللہ کے علاوہ کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔
*…ساری کائنات مل کر بھی اللہ کا اگر فیصلہ نہ ہو تو ایک ذرہ کا فائدہ پہنچا سکتی ہے، نہ کسی کا ایک بال بیکا کرسکتی ہے۔
*…اللہ تعالیٰ بندوں پرظلم نہیں کرتا۔
*…آخرت کی زندگی دنیا سے بہتر ہے۔
*…جنت کی نعمتیں دائمی اور ابدی ہیں۔
*… ایمان کے یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو تسلیم ورضا کی راہ کھولتے ہیں۔
مصیبت پر صبر بڑا مشکل اور جان گداز مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اُمیتوں کو یہی تلقین فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے عفووعافیت اور دنیا وآخرت میں آرام وراحت مانگا کرو۔
امام ابن عیینہ نے بڑا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قرب ووصول کی ایک راہ تو وہ ہے جس پر حضرت ایوب علیہ السلام گام زن تھے، سخت اذیت وتکلیف اور مسلسل جان گسل بیماریوں کے باوجود سرتاپا صبر واستقامت بنے رہے اور رب کائنات سے اپنے دکھ کا اظہار بھی کیا تو بڑے لطیف انداز پر 
﴿أنِّیْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأنْتَ أرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ﴾ (اے پروردگار! ہمیں تکلیف اور مصیبت لاحق ہے اور آپ اَرحم الراحمین ہیں۔)
یقینا تسلیم ورضا کا یہ بڑا عظیم مقام ہے، لیکن اس طرح کا حوصلہ ہم جیسے کم ہمتوں کو کب ہوسکتا ہے؟
امام ابن عیینہ فرماتے ہیں کہ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب ووصول اور اس کی رضا کے حصول کا ایک راستہ وہ بھی ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار فرمایا تھا کہ:
﴿رَبِّ ھَبْ لِیْ مُلْکاً لَّا یَنْبَغِیْ لِأحَدٍ مِنْ بَعْدِیْ﴾(اے اللہ! ہمیں ایسی سلطنت عطا فرما جو پھر کسی اور کو میرے بعد نہ ملے۔)
لیکن انسانوں کے علاوہ جنوں، پرندوں اور ہواؤں تک پر حکم رانی کے باوجود کبھی ان کے سر میں غرور کا نشہ سوار نہیں ہوا اور وہ رب کائنات کی عظیم نعمتوں پر ہمیشہ سربسجود ہی رہے۔
اُسوہٴ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں غم کے احساس سے منع کیا گیا ہے اور نہ غم کے اظہار سے،کیوں کہ غم پر ہنسنا فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ دل کا غم آنکھوں سے چھلک آئے یہ بھی دین کے منافی نہیں، بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابراہیم کی موت پر آبدیدہ ہوجانا اور آنکھوں سے آنسو کا ٹپکنا ثابت ہے، بلکہ زبانی طور پر یہ کہنا بھی ثابت ہے کہ:
”إن القلب لیحزن، و إن العین لتدمع․“ (دل غمزدہ ہوتا ہے اور آنکھیں بھی اشک بار ہوتی ہیں)
البتہ زبان پر کوئی ایسی بات نہیں آنی چاہیے جو جذبہٴ تسلیم ورضا کے منافی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ فضیل بن عیاض کے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو دفن کے بعد انہوں نے اپنے صبر وضبط اور تسلیم ورضا کا اظہار قبرستان میں قہقہہ لگاکر کیا ۔امام ابن تیمیہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایسے موقع پر قہقہہ لگانا نہ کمال کی دلیل ہے نہ شریعت کی تعلیمات سے ہم آہنگ، فطرت انسانی سے ہم آہنگ بات یہی ہے کہ حضورکے اُس اُسوہ کو اپنایا جائے کہ آنکھیں اشک بار بھی ہوں، دل میں غم والم کی ٹیس بھی محسوس ہو، مرنے والے کی جدائی کے شاق ہونے کا اظہار بھی۔ البتہ زبان پر تسلیم ورضا کے کلمات کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حادثہ جانکاہ کے بعد ہر حادثہ اس سے کمتر ہے۔ کسی نے صحیح کہا ہے:
تذکرت لما فرّق الدہر بیننا
فعزّیت نفسی بالنبی محمد
وقلت لہا إن المنایا سبیلنا
فمن لم یمت فی یومہ مات فی غد
(جب زمانہ نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حادثہ کو یاد کرکے اپنے نفس کو ہم نے تسلی دی اور اس سے کہا کہ موت تو ہم لوگوں کے لیے ناگزیر ہی ہے لہٰذاجس کی موت آج نہیں ہوئی تو کل کے دن ہوجائے گی۔)
دراصل زندگی خود ہی سب سے بڑی بیماری ہے، حضرت مولانا سیدمناظر احسن گیلانی کے بقول ”جس کو یہ لگ گئی اس کو بہر حال مرنا ہی ہے، دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جسے زندگی کا روگ لگا ہواور پھر وہ نہ مرا ہو“۔
﴿کل نفس ذائقة الموت﴾ (ہر جاندارکو موت کا مزا چکھنا ہی ہے) انسان کی برتھ سر ٹیفکیٹ ہی اس کی وفات کا گوشوارہ بھی ہے، جس پر اس کی مقرر شدہ زندگی کا ہر لمحہ درج ہوتا رہتا ہے اور ہر دن زندگی کا ایک ایک صفحہ اُلٹتا رہتا ہے۔ طے شدہ زندگی کے سانس بھی جب گنے ہوئے ہیں توان کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہے، اسی لئے کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ:
إذا کانت الأنفاس بالعدد، ولیس لہا مدد، فما أسرع ما ینفد
(جب زندگی بھر کے سانس گنے چنے ہیں اور ان میں اضافہ کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے توپھر ان کو گزرتے ہوئے دیرہی کتنی لگتی ہے!)
مرحوم کے چلے جانے کے غم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ”نئے فقہی مسائل“ کو سمجھنے اور محنت کرکے ان کا حل تلاش کرنے کی اس میں اچھی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی، جس کا اندازہ اس کے ماسٹرز کے مقالے کے عنوان سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ ”المال المختلط فی الفقہ الإسلامی وتطبیقاتہ المعاصرة“ کا موضوع کوئی پختہ ذہن اور بلند حوصلہ شخص ہی اختیار کرسکتا ہے کیوں کہ اس موضوع پر ماہرانہ انداز سے لکھنے کے لیے بڑی محنت اور غیرمعمولی تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے۔
تدفین کے بعد مرحوم کے رہائشی کمرے میں جب دل پر پتھر باندھ کر میں داخل ہوا تو بکھرے ہوئے اوراق میں درج ذیل موضوعات پر مضامین کے مجموعے بھی ملے جن میں سے بعض گریجویشن کے زمانہ کے لکھے ہوئے ہیں اور بعض بعد کے ،عنوانات یہ ہیں:
*…الترجیح بین المتعارضات
*…التفریق للعیب بین الزوجین
*…الرجوع عن الشھادة بعد الحکم
*…مقدار قیمة دیةالمرأة المسلمة
اور متعدد نسخے ”المال المختلط فی الفقہ الإسلامی“ کے، کچھ فقہی مذکرّات اور یونیورسٹی کے نصاب کی اور دوسری فقہی واَدبی موضوعات پر کتابیں #
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا
ان عنوانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرحوم میں علمی پختگی اور ذہنی صلاحیت کتنی زیادہ تھی؟
”محمد بدرالقاسمی“ کی جدائی پر زیادہ غم کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ محمد نے کویت کے سرکاری اسکولوں میں ابتدائی‘ مڈل اور پھر ہائر سکنڈری کی تعلیم حاصل کی، وہ بچپن سے اپنی کلاس میں ممتازرہا، کئی بار امتیازی نمبرات لانے پر اسے میڈلزملے، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اُردن گیا تو وہاں بھی ”جامعة الزرقاء‘ الجامعة الأردنیة“ پھر ”جامعة العلوم الإسلامیة اُردن“ میں علمی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے نمایاں رہااور طلبہ واساتذہ میں اُسے بڑی محبوبیت حاصل رہی۔
اصل زبان شروع سے اس کی عربی ہی رہی، اُردو کے جملے عام طورپر شکستہ ہوجایا کرتے تھے، بلکہ زائد زبان کی حیثیت سے اُردو سیکھنے کے لیے اُردن میں رہتے ہوئے ایک استاذ سے کلاسیں بھی اس نے لیں۔ اس کو اصل دلچسپی کتابیں پڑھنے سے تھی۔ عرب اُدباء کی کتابیں اس نے کویت میں رہتے ہوئے ہی ہضم کرلی تھیں، عباس محمود العقاد اور طہٰ حسین وغیرہ کی جو کتابیں ملیں پڑھ ڈالیں۔ زندہ لکھنے والوں میں غازی القصیبی، ترکی الحمد وغیرہ جیسے لکھنے والوں کی کتابیں بھی پڑھنے کی عادت تھی، جس سے میں روکنے کی کوشش کرتا تھا۔ بہت ہی کم عمری کی حالت میں عبدالرحمن رأفت الباشا کی مشہور کتاب ”صور من حیاة الصحابة“ اس نے اس طرح پڑھی تھی کہ لفظ بلفظ زبانی سنایا کرتا تھا۔
درسی کتابوں کے علاوہ دیگر کتابوں سے اس کی واقفیت اتنی زیادہ تھی کہ اسکول کے بعض اساتذہ کہتے تھے کہ ”پورے اسکول میں تعلیم یافتہ بچہ ایک یہی ہے۔“
اُردن کی تعلیم، جامعہ اُردنیہ کے علمی ماحول اور یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان سے اس کی براہِ راست واقفیت کے علاوہ رات کے12 بجے تک یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس میں ایک حد تک پختگی آگئی تھی۔فقہی مسائل کو سمجھنے، ان پر بحث ومناقشہ کرنے کا بھی اچھا سلیقہ پیدا ہوگیا تھا۔ تحقیقی مضامین لکھنے کا اندازبھی اس نے خوب سیکھ لیا تھا، جس کا اندازہ اس کے چھوڑے ہوئے فقہی مضامین سے لگایا جاسکتا ہے۔
بتدریج میں اس کے ساتھ معاملہ اپنے ایک علمی ساتھی اور زمیل کی طرح کرنے لگا تھا اورذہن میں بے شمار علمی کاموں کا نقشہ صرف محمد کی ذات اور اس کی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر میں نے بنا لیا تھا۔
خیال یہ تھا کہ میری تعلیم تو دار العلوم دیوبند میں عظیم و قدیم انداز پر ہوئی ہے، جس میں خوبیوں ہی خوبیوں کے باوجود ذہن ودماغ متاخرین کی لکھی ہوئی کتابوں اور ان کے شروح وحواشی کے گردبھی گھومتا رہتا ہے۔ محمد کی تعلیم نئے انداز پر ہوئی ہے اور نئے منہج کے مطابق اورتحقیق وریسرچ کا نیا انداز بھی یونیورسٹی میں اس نے سیکھا ہے، اس لیے میریعلم میں تازگی اور نکھار اس کے ذریعہ ہوگا اور جدید فقہی مسائل پراس کی تحریریں وقیع اور وزنی ہواکریں گی اور مستقبل میں اللہ نے توفیق اور سہولت دی تو فقہ واُصول کی تعلیم کا مستقل نصاب تیار کرنے میں شاید ہم کامیاب ہوجائیں گے،بلکہ دیگر ادبی وشرعی علوم کے لیے بھی قدیم وجدید مناہج کوسامنے رکھ کر ایک متوازن سلسلہ تیار کیا جاسکے گا، لیکن ع اے بساآرزو کہ خاک شدہ
اب محمد تو اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں اور دل میں حسرت اس غنچہ کی ضرور ہے جو بن کھلے مرجھا گیا۔ اللہ تعالیٰ کسی اور کو اس طرح کے کام کی توفیق دے گا۔
محمد کے سفر آخرت کی کہانی بھی عجیب وغریب ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ اس نے مجھے اُردن آنے کی دعوت دی کہ جارڈن یونیورسٹی میں میرا ”حفل تخرّج“ یا ”جلسہ تقسیم اسناد“ ہے،چناں چہ میں گیا، بڑا پُرشکوہ اور دلفریب منظر تھا۔ جھنڈوں اورترانوں کے ساتھ تقریب منائی گئی، فراغت کی سندیں تقسیم کی گئیں، اساتذہ اور طلبہ سبھی مخصوص لباس اور خصوصی شعار کے ساتھ قطار بند ہوکر جلوہ افروز رہے۔ چند دنوں کے اس سفر میں اس نے وہاں کی اہم دینی شخصیتوں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر عمائدین سے ملاقاتیں کرائیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ اس نے کویت میں ہی گزارا اور شوال میں پھر اُردن جاکر قافلہ علم میں شامل ہوگیا۔ ہر دوسرے تیسرے دن ٹیلیفون پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، تمہیدی کورس کی تکمیل کے ساتھ رسالہ لکھنے کا معاملہ بھی طے ہوگیا، خاکہ بھی منظور کرلیا گیا، چند دنوں بعد کویت میں ہی کچھ عرصہ گزارنے کا پروگرام بن گیا تھاکہ اچانک گزشتہ یکشنبہ کی رات میں رئیس جامعہ کا ٹیلیفون آیا کہ محمد نازک حالت میں ہے۔ یہ خبر صاعقہ اثر دل پر برق بن کر گری اور اگلے دن ہی اُردن کے لیے روانہ ہوگیا۔ اُردن پہنچنے کے بعد اس کے ایک محبوب استاذ نے عمان ایرپورٹ پر ہمارا استقبال کیا اور بعجلت گاڑی میں بٹھاکر ”فندق تولیدو“ لے گئے۔ ہمیں بے چینی ہاسپٹل جانے کے لیے ہورہی تھی، لیکن انہوں نے وحشت اثر خبر سنانے سے گریز کرتے ہوئے حکمت سے کام لینے کی کوشش کی، لیکن ہوٹل پہنچتے ہی اُردن کے وزیر اوقاف اور نامور فقیہ اور جدہ فقہ اکیڈمی کے سابق جنرل سیکریڑی ڈاکٹر عبد السلام العبادی اورجامعة العلوم الإسلامیہ کے رئیس ڈاکٹر عبد الناصر ابوالبصل نے تعزیتی کلمات کہنے اور صبر کی تلقین کرنی شروع کردی، اب نہ تو بدن میں جان رہی نہ پاؤں تلے زمین، تھوڑی ہی دیر کے بعد اُردن یونیورسٹی کے ہسپتال کے برف خانہ میں چلتے پھرتے محمد کے بجائے اس کی لاش سامنے تھی۔ کیا لکھوں کہ اس وقت میرا حال کیا تھا اور مرحوم کی بہن عائشہ پر کیا گزری؟ پچھلے سفر میں محمد ہی میرا دلیل راہ تھا اور اس سفر میں کہا یہ جارہا تھا کہ محمد کو زیر زمین دفن کرنے کے لیے تمہیں کونسی جگہ پسند ہے اُردن یا کویت؟ اللہ تعالیٰ نے یہ دن دیکھنا بھی میرے لئے مقدر کر رکھا تھا کہ جواں سال محمد جب علمی کاموں میں باپ کا ہاتھ بٹانے، بلکہ باپ پر سبقت لیجانے کے قابل ہوا تواس کی زندگی کا صفحہ ہی لپیٹ دیا گیا۔
قسمت کی شومی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا
حادثہ اتنا سنگین اور ہول ناک کہ ذہن ودماغ کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے کہ آدمی ایک جواں سال اور باکمال بیٹے کو سپرد خاک کرے یا خود زندہ درگور ہوجائے۔ یہ محض آخرت کی زندگی پر ایمان ویقین کا کرشمہ ہے کہ آدمی تلخ سے تلخ تر گھونٹ پی جاتا ہے اور تسلیم ورضا اور صبر واحتساب کا دامن ہاتھوں سے نہیں چھوڑتا۔
ایک طرف یہ احساس کہ ماں کے لیے نہ اپنے لخت جگر کا چہرہ دیکھنے کا موقع اور نہ کبھی قبر پر آکر یاد تازہ کرلینے کی ہی گنجائش۔
دوسری طرف اُردن کے محبین کا یہ کہنا کہ یہ جگہ بیت المقدس کے اِرد گرد میں آتی ہے، جسے بابرکت کہا گیا ہے، متعدد صحابہ کی قبریں یہاں سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہیں اور یہی اَرض محشر بھی ہے۔
بہر کیف جذبات پر عقل وشریعت کے تقاضے کو غالب کرتے ہوئے میں نے عمان میں ہی تدفین کا فیصلہ کیا، پھر پوری تکریم کے ساتھ اپنے ایک نونہال کی طرح جامعہ کے ذمہ داروں نے خود اپنے ہاتھوں سے تدفین کی اور ہمیشہ کے لیے محمد اُردن کی زمین کا حصہ بن کر رہ گیا۔
واقعات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اُردن گیا تو تھا آخری علمی شہادت (ڈگری) لینے کے لیے، لیکن قدرت نے اس کے لیے دوسری شہادت مقدر کر رکھی تھی۔ غریب الوطنی، دین کے علم کی راہ اور پھر ایک جان لیوا عارضہ میں موت‘ تینوں چیزیں شہیدوں کی صف میں اس کو شامل کرنے کی بشارت دیتی ہیں، البتہ اس بات پر دل خون ہوتا ہے کہ صرف چند ماہ قبل یونیورسٹی سے فراغت کا سر ٹیفکیٹ ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ماحول خوشی ومسرت کا تھا اور آج ہاتھوں میں موت کا سرٹیفکٹ ہے اور سارا ماحول اُداس اور ساری دنیا ماتم کدہ۔
دنیا کی بے ثباتی کا یہ سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ ﴿وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالإکْرَامِ﴾
حقیقت یہی ہے کہ:
آنچہ من گم کردہ اَم گر از سلیماں گم شدے
ہم سلیماں‘ ہم پری ہم اہرمن بگریستے
دنیا بھر سے مخلصین ومحبین نے جس طرح محمد کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے ،مجھے تسلی دینے کی کوشش کی ہے اور مرحوم کے لیے دعائیں اور عمرے کئے ہیں ان سے ڈھارس بندھتی ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کا مقام بلند ہوگا ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز

Flag Counter