Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

14 - 17
***
منافقانہ کردار
مولانا محمد منظور نعمانی 
سورہٴ فتح میں سفر حدیبیہ کے ذیل میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: جو بدو لوگ پیچھے ڈال دیے گئے تھے وہ عنقریب ( جب آپ مدینہ پہنچیں گے معذرت کے طور پر) آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اہل وعیال نے ہمیں (گھر سے نکلنے کی ) فرصت نہیں دی تو آپ ہمارے لیے ( الله تعالیٰ سے) مغفرت اور معافی کی دعا کیجیے۔ یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہیں گے جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ آپ اُن سے کہیے کہ وہ کون ہے جوتمہارے لیے الله سے کچھ اختیار رکھتا ہو، اگر وہ تم کو کوئی نقصان یا نفع پہنچانا چاہے؟ یقین رکھو الله تمہارے عملوں ( اور کرتوتوں) سے پوری طرح باخبر ہے۔ بلکہ ( اصل واقعہ یہ ہے کہ ) تم نے یہ سمجھا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ( اُن کے ساتھ جانے والے) مؤمنین اب کبھی اپنے گھر والوں کے پاس واپس نہ لوٹ سکیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں کو بہت خوش نما معلوم ہوئی اور تم نے بُرے بُرے گمان قائم کر لیے اور بالآخر تم ہو گئے تباہ وبرباد… او رجو ایمان نہ لاویں الله اور اس کے رسول پر تو ( ہم نے ایسے ) کافروں کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی الله ہی کے لیے ہے، وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا اور عذاب دے اور الله بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔
عنقریب ( جب تم غنیمتیں لینے کے لیے چلو گے تو ) ” مخلفین“ (پیچھے ڈالے ہوئے بدو لوگ) کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دی جائے ، آپ لوگوں کے ساتھ ہم بھی چلیں ، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ الله کے فرمان کو بدل ڈالیں، آپ ( صاف ) کہہ دیں کہ تم لوگ ہر گز ( اس موقع پر) ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے ۔ ایسے ہی فرمادیا ہے الله تعالیٰ نے پہلے ہی ، تو وہ کہیں گے آپ لوگ ہم سے حسد رکھتے ہو ۔ بلکہ ( حقیقت یہ ہے کہ) یہی لوگ بہت کم سمجھتے ہیں ( اس لیے ایسی احمقانہ باتیں کرتے ہیں)۔ آپ اہل ”بدو“ میں کے ان مخلفین سے ( یہ بھی کہہ دیں ) کہ عنقریب ہی تم لوگوں کو ایک سخت جنگ آزما قوم (سے جہاد وقتال) کے لیے دعوت دی جائے گی، اُن سے یا تو تم قتال کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں، پس اگر تم نے ( اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ) اطاعت وفرماں برداری کا رویہ اختیار کیا تو الله تعالیٰ تم کو ( اس فرماں برداری اور جہاد وقربانی کا) بہتر اجر عطا فرمائے گا اور اگر تم نے روگردانی اور نافرمانی کی، جیسے کہ پہلے کی تھی تو وہی الله تم کو سخت ترین عذاب دے گا۔
تفسیر وتشریح
سورہٴ فتح6ھ میں صلح حدیبیہ والے سفر سے واپسی میں نازل ہوئی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چاہا تھا کہ اس سفر میں ( جو عمرے کے لیے تھا) مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد آپ کے ساتھ ہو،تا کہ کفار مکہ مرعوب ہو جائیں اور مزاحمت کا ارادہ نہ کریں ۔ اس وجہ سے آپ نے عام مسلمانوں کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی ۔ قریباً ڈیڑھ ہزار اہل ایمان نے آپ کے ساتھ یہ سفر کیا مدینہ منورہ کے قرب وجوار میں کچھ اعراب یعنی بدوی لوگ تھے ، ان کا حال یہ تھا کہ بظاہر یہ اسلام قبول کرکے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے، لیکن ان کے دلوں کو حقیقی ایمان نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک طرح کے منافق تھے ، لیکن مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کوبھی عمرے کے لیے ساتھ چلنے کی دعوت دی گئی تھی ، لیکن حقیقی ایمان نصیب نہ ہونے کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ یہ سفر بہت خطرناک ہے ۔ اہل مکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو عمرے کے لیے مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، مزاحمت ضرور کریں گے اور لامحالہ جنگ کی نوبت آئے گی اور اہل مکہ کو اس جنگ میں یہ سہولت حاصل ہو گی کہ وہ اپنے شہر اور اپنے گھروں میں ہوں گے، اُن کی ضرورت کی ساری چیزیں ان کے پاس ہوں گی اور مسلمان اپنے مرکز مدینہ سے ڈھائی سو میل دور ہوں گے، اس لیے جنگ میں ان کی پوزیشن بہت کمزور ہو گی ، نتیجہ یہ ہو گا کہ مکہ والے ان سب کا صفایا کرد یں گے اور ان کو گھروں کو واپس لوٹنا بھی نصیب نہ ہو گا ۔ الغرض مدینہ کے قرب وجوار کے یہ اعرابی یہی سب سوچ کر عمرے کے اس سفر میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے۔ لیکن اس سفر کا انجام حدیبیہ کے معاہدہ صلح پر ہوا۔ جس کو الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ”فتح مبین“ فرمایا اور بعد کے واقعات سے سب کو معلوم ہو گیا کہ واقعی وہ صلح مسلمانوں کے حق میں ”فتح مبین“ تھی۔ تواس سفر سے واپسی ہی میں یہ سورہٴ فتح نازل ہوئی، جس میں اُن مضامین کے بعد جو اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئے ہیں ان آیتوں میں ( جن کا سلسلہ ﴿سیقول لک المخلفون من الاعراب﴾ سے شروع ہوا ہے ) ان منافق اعراب کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پیشگی ہی بتلایا گیاہے کہ جب آپ مدینہ پہنچیں گے تو یہ آپ کے پاس آئیں گے اور اس طرح کے جھوٹے حیلے بہانے کریں گے ، آپ ان کے بارے میں یہ رویہ اختیار کریں۔ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ﴿سیقول لک المخلفون من الاعراب…بل کان الله بما تعملون خبیرا﴾․
اس آیت میں ان اعراب کو ” مخلفون“ کہا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پیچھے ڈالے ہوئے۔ بظاہر واقعہ تو یہ تھا کہ یہ لوگ حدیبیہ والے اس سفر میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے، بلکہ خود ہی سوچ سمجھ کے خطرہ محسوس کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس لیے ’ ’متخلفین“ ( پیچھے رہ جانے والے) تھے، لیکن الله تعالیٰ نے ان کے لیے ” مخلفون“ کا لفظ استعمال فرماکر ارشاد فرمایا کہ ان کے نفاق اور بد باطنی کی وجہ سے الله نے ان کو اس مبارک سفر کی توفیق نہیں د ی اور یہ پیچھے دھکیل دیے گئے اور اس سفر کی عظیم برکات سے محروم رکھے گئے۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول! جب آپ مدینہ پہنچیں گے تو یہ اعراب” مخلفین“ سفر میں ساتھ نہ جانے کی معذرت کرتے ہوئے آپ سے کہیں گے﴿شغلتنا اموالنا وأھلونا فاستغفر لنا﴾ یعنی ہمارے مال مویشی اور ہمارے اہل وعیال سے متعلق کچھ ضروری کا م تھے، ہم اُن میں پھنسے رہے اور سفر میں آپ کے ساتھ جانے کی فرصت نہیں پاسکے۔ آپ ہمارے اس قصور کی معافی اور مغفرت کے لیے الله تعالیٰ سے دعا فرمائیے۔ الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مطلع فرمایا کہ وہ اس عذر معذرت میں جھوٹے ہیں، ان کے دلوں میں وہ بات نہیں ہے جو وہ کہہ رہے ہیں ﴿یقولون بالسنتھم مالیس فی قلوبھم﴾․
آگے ارشاد فرمایا:﴿قل فمن یملک لکم من الله شیئا ان اراد بکم ضراو ارادبکم نفعا﴾ یعنی آپ ان سے کہیں کہ بتلاؤ اگر الله تم کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا کوئی نفع پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اُس میں کسی ردوبدل کا کچھ اختیاررکھتا ہو ؟ یعنی کسی کی مجال نہیں ہے کہ ارادہ الہٰیہ کے خلاف کچھ کر سکے ۔ جو نقصان یا نفع الله تعالیٰ تم کو پہنچانا چاہے گا وہ پہنچ کے رہے گا۔ اگر یہ ایمان ویقین ہو تو الله ورسول کے حکم کی تعمیل کے سلسلہ میں آدمی کسی خطرے کی بھی پروانہ کرے۔ آگے ارشاد فرمایا :﴿بل کان الله بما تعملون خبیراً﴾ مطلب یہ ہے کہ جھوٹے بہانے نہ بناؤ۔ تم نے جوکچھ کیا اورجس خیال سے کیا الله تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ تم کیسے امید کر سکتے ہو کہ وہ الله تم کو اس منافقانہ عذر معذرت میں سچا سمجھ کر معاف کر دے گا اور بخش دے گا۔
آگے ارشاد فرمایا گیا ہے :﴿بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون… وکنتم قوما بورا﴾ اس آیت میں ان منافق اعراب کے باطن کو بالکل کھو ل دیا گیا ہے، فرمایا گیا ہے کہ اے منافقو! اصل حقیقت یہ ہے کہ تم نے یہ سمجھا تھا اور خیال قائم کر لیا تھا کہ الله کے رسول اور اس حدیبیہ والے سفر میں ان کے ساتھ جانے والے مؤمنین مخلصین زندہ سلامت واپس نہیں لوٹ سکیں گے۔ کفار مکہ ان سب کا صفایا کردیں گے۔ اور تمہارے قلبی مرض نفاق کی وجہ سے یہ بات تمہارے دلوں کو بہت خوش نما لگی تھی اور یہ تم نے بہت بُرا خیال قائم کیا تھا اور تم اپنے اس منافقانہ کردار کی وجہ سے دینی وایمانی نقطہٴ نظر اور آخرت کے انجام کے لحاظ سے بالکل ہی تباہ وبربادہ ہو گئے۔
آگے ارشاد ہوا ہے ﴿ومن لم یؤمن بالله ورسولہ فإنا أعتدنا للکفرین سعیرا﴾․
اس موقع پر اس آیت کا مقصد ومدّعا بظاہر ان اعراب منافقین کو، جن کا ذکر ہو رہا ہے، یہ جتلانا ہے کہ اگرچہ تم لوگ بظاہر اسلام قبول کرکے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو، لیکن الله تمہارے اس حال سے واقف ہے کہ تم ابھی دل سے ایمان نہیں لائے ہو، تمہارے دل کافر ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے الله نے دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے ۔ اگر تم اسی حال میں رہے تو دوزخ کی وہ آگ تمہارا ٹھکانا ہو گا۔
آگے ارشاد ہے : ﴿ولله ملک السموات والارض یغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء وکان الله غفوراً رحیماً﴾ مطلب یہ ہے کہ زمین وآسمان میں الله ہی کی بادشاہی اور فرماں روائی ہے، وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کے بارے میں چاہے عذاب کا فیصلہ فرمائے، اس کے فیصلے میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا… آخر میں فرمایا گیا ہے ﴿وکان الله غفورا رحیما﴾ یعنی وہ الله، جو زمین وآسمان کا بادشاہ فرماں روا ہے اور جس کے اختیار میں بندوں کی مغفرت یا عذاب کا فیصلہ ہے، اس کی خاص اور غالب صفت یہ ہے کہ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ، اس لیے کسی بڑے سے بڑے مجرم، کافر یا منافق کو بھی یہ خیال کر کے اس کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے کہ میرا جرم او رگناہ ناقابل معافی ہے، میری بخشش تو ہو ہی نہیں سکتی… آیت کے اس آخری جز میں بظاہر اُن اعراب منافقین کو اشارہ دیا گیا ہے کہ اگر اب بھی تم دل سے ایمان لے آؤ اور اب تک جو منافقانہ رویہ رہا تھا اُس سے سچے دل سے توبہ کر لو ، اپنے اندر صدق واخلاصپیدا کر لو تو الله تعالیٰ غفور ورحیم ہے، وہ تم کو بخش دے گا اور رحم وکرم کا معاملہ فرمائے گا۔
باز آ باز آ از انچہ ہستی باز آ
گر کافر وگبر وبت پرستی باز آ
کیں درگہ مادرگہ نومیدی نیست
گر ہزار بار توبہ شکستی باز آ
اسی کے آگے کی آیتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ حدیبیہ کے اس سفر سے واپسی ہی میں الله تعالیٰ کی طرف سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ آپ اور آپ کے وہ اصحاب جو اس سفر میں آپ کے ساتھ تھے عنقریب ہی الله تعالیٰ اُن کے ہاتھوں خیبر فتح کرادے گا او راس مہم میں آپ کے ساتھ صرف اصحاب حدیبیہ ہی ہوں گے… اور اس کی فتح میں مال غنیمت بھی بڑی مقدار میں حاصل ہو گا۔ ( یہ گویا حدیبیہ کے سفر میں آپ کے ساتھ جانے والے مخلصین کی مخلصانہ قربانی اور سرفروشی کا نقد انعام ہو گا) ساتھ ہی آپ کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ جب آپ حکم الہٰی کے مطابق اپنے ان مخلص رفقاء کے ساتھ خیبر فتح کرنے کے لیے چلیں گے تو مدینہ کے قرب وجوار کے یہ اعراب منافقین، جن کا اوپر ذکر ہوا اور جن کے لیے الله تعالیٰ نے ” مخلفین “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ یہ بھی آپ کے ساتھ چلنا چاہیں گے ۔ آپ ان کو ہر گز ساتھ چلنے کی اجازت نہ دیں، ان سے صاف کہہ دیا جائے کہ الله کا حکم نہیں ہے کہ تم اس مہم میں ہمارے ساتھ چلو۔ اس صورت حال کو ذہن میں رکھ کر اب آگے کی آیتیں پڑھیے۔
آگے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ﴿سیقول المخلفون إذا انطلقتم… بل کانوا لا یفقھون إلاقلیلاً﴾ مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے رسول ! جب تم اور تمہارے رفقاء الله تعالیٰ کے ارشاد اور حکم کے مطابق خیبر فتح کرنے اور وہاں کی غنیمتوں پر قبضہ کرنے کے لیے چلیں گے تو یہ اعراب مخلفین کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دی جائے کہ آپ لوگوں کے ساتھ چلیں ۔ یہ منافقین الله تعالیٰ کے اس فرمان کو بدل دینا چاہتے ہیں کہ ان کو سفر میں ہر گز ساتھ نہیں لیا جائے گا ﴿کذلکم قال الله من قبل ﴾ یعنی الله تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی یہ فرمان آگیا ہے ۔ تو یہ جواب سن کر یہ جاہل اعراب کہیں گے ﴿بل تحسدوننا﴾ کہ آپ لوگوں حسد اور ہماری بدخواہی کرتے ہیں، اس لیے ہم کو ساتھ چلنے کی اجازت نہیں دیتے ( غالباً ان کا مطلب یہ ہو گا کہ الله کے حکم کی بات صرف بہانہ ہے ، ہم کو ساتھ نہ لے چلنے کی اصل وجہ حسد اور بدخواہی ہے ) الله تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿بل کانوا لایفقھون إلا قلیلاً﴾ یعنی واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بہت کم فہم ہیں ، یہ اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں کہ الله تعالیٰ خیبر کی غنیمتوں کی شکل میں اپنے اُن وفادار بندوں کو نقد انعام سے نوازنا چاہتا ہے جو حدیبیہ کے انتہائی خطرے والے سفر میں ساتھ جاکر اپنی کامل وفاداری اور راہِ خدا میں جانوں کی بھی قربانی پر آمادگی کا ثبوت دے چکے ہیں۔
آیت کا ایک اہم فائدہ
اس آیت سے ضمنی طور پر ایک بہت اہم او راصولی بات معلوم ہوئی۔ اعراب منافقین کو فتحخیبر کے سفر میں ساتھ چلنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے ۔ ﴿لن تتبعونا﴾ ( یعنی تم لوگوں کو ہر گز ساتھ چلنے کی اجازت نہ دی جائے گی ) اس کے آگے فرمایا گیا﴿ کذلکم قال الله من قبل﴾ ( یعنی الله تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی ایسا فرمان آگیا ہے ) حالاں کہ کہ قرآن پاک میں کہیں بھی اس فرمان کا ذکر نہیں ہے ۔ ہاں حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ کی طرف سے ہدایت تھی کہ جب آپ خیبر فتح کرنے کے لیے چلیں تو آپ کے ساتھ وہی وفادار مخلصین ہوں جو حدیبیہ کے سفر میں آپ کے ساتھ تھے دوسرے لوگ نہ ہوں۔ قرآن مجید کے ان الفاظ﴿کذلکم قال الله من قبل﴾ میں الله تعالیٰ کی اسی ہدایت اور اسی فرمان کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ آیت اس بات کا نہایت واضح اورر وشن ثبوت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ ایسی ہدایتیں اور ایسے احکام بھی ملتے تھے جو قرآن پاک میں نہیں ہیں، صرف حدیثوں میں مذکور ہیں ۔ آج کل کے بہت سے گمراہ لوگ اس سے انکار کرتے ہیں ۔ بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت اس کی واضح اور روشن دلیل ہے ، جو شخص قرآن کو مانتا ہے اُس کو یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ قرآن کے علاوہ بھی حضور پر وحی ہوتی تھی اور احکام آتے تھے۔
آگے کی آیت میں ان ” مخلفین“ سے، جن کو غزوہ خیبر میں ساتھ چلنے کی اجازت نہیں دی گئی، ایک آخری بات فرمائی گئی ہے۔
ارشاد ہے:﴿قل للمخلفین من الاعراب… یعذبکم عذاباً الیما﴾ مطلب یہ ہے کہ اے رسول! آپ ان ” مخلفین“ سے ( جن کو غزوہ خیبر میں ساتھ چلنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے) کہہ دیں کہ عنقریب وقت آئے گا کہ اہل ایمان الله کے حکم سے ایک بڑی طاقت ور اور جنگ آزما قوم سے جہاد کے لیے اٹھیں گے۔ اس قوم کے لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رہے گی کہ وہ اسلام لے آئیں ( سر تسلیم خم کر دیں ) اس فیصلہ کن جنگ میں شرکت کی تم لوگوں کو بھی دعوت دی جائے گی، اُس وقت تمہارے ایمان واخلاص کا امتحان ہو جائے گا، اگر تم نے اس وقت الله ورسول کی وفاداری، فرماں داری کا رویہ اختیار کیا اور مومنین مخلصین کی طرح تم بھی سربکف اُس طاقت ور اور جنگ آزما قوم سے جنگ کے لیے ہمارے ساتھ نکلے تو الله تم کو اپنی شان کریمی کے مطابق اجر عطا فرمائے گا ( اور تمہارے پچھلے قصور معاف ہو جائیں گے) اور اگر اُس وقت بھی تم نے حیلوں بہانوں کا وہی پہلا والا منافقانہ رویہ اختیار کیا تو الله تعالیٰ تم کو سخت ترین عذاب دے گا۔
مفسرین کی آراء اس بارے میں مختلف ہیں کہ اس آیت میں ایک طاقت ور اور سخت جنگ آزما قوم سے عنقریب ہونے والی جس جنگ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد کون سی جنگ ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ جنگیں ہیں جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد عہد صدیقی وفاروقی روم وفارس کی منظم وطاقتور حکومتوں کے خلاف لڑی گئیں جن کو فوجی لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں بے حساب برتری حاصل تھی۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ کی مہم ہے اور ” طاقت ور اور جنگ آزما قوم“ سے مراد مکہ کے کفار قریش ہیں، میرے نزدیک یہی دوسری بات زیادہ قرین قیاس ہے ۔ فتح مکہ والا غزوہ، حدیبیہ اور غزوہ خیبر کے صرف دو سال بعد ہوا ہے اور اس کے لیے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے اہل ایمان کو عام دعوت دی گئی تھی اور اس سفر میں قریباً دس ہزار مسلمان آپ کے ساتھ تھے اور اس موقع پر کفار مکہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ۔ ایک جنگ یا اسلام یعنی سر تسلیم خم کر دینا ﴿تقاتلونھم او یسلمون﴾ کا یہی مطلب تھا۔ والله اعلم (ان مشرکین کے لیے دوسرے کفار ومشرکین کی طرح اس بات کی اجازت نہ تھی کہ چاہیں تو اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرکے اپنے دین پر رہ جائیں۔)

Flag Counter