Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 17
***
اداسی
محترم منیر احمد کاکڑ
دنیا میں الله تعالیٰ نے خوشی کے ساتھ غم بھی پیدا کیے ہیں۔ اچھی خبر سے انسان خوش ہوتا ہے تو غم کی خبر سن کر انسان پر اداسی اور افسوس کی کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی یہ غم کی شدت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس کے اثرات بہت لمبے عرصے تک انسان پر چھائے رہتے ہیں ۔ جب انسان خوش ہوتا ہے تو وہ اپنی خوشی کی وجہ دوسروں کو بتا کر یہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کی خوشی میں شریک ہوں اور دوسرے لوگ بھی اس کی خوشی میں شریک ہو کر خود بھی خوش ہوتے ہیں ، لیکن جب انسان پر غم ٹوٹتا ہے تو اس کی خواہش تو ہوتی ہے کہ لوگ اس کے غم میں شریک ہوں، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ غم زدہ انسان کے غم میں شریک ہونے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا اور عام طور پر غم زدہ انسان اکیلا ہی رہ جاتا ہے ۔ اس غم اور اکیلے پن کی وجہ سے انسان پر اداسی چھا جاتی ہے اور اس اداسی کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرکے دور بھاگتے ہیں۔
اس بیماری کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں ۔ اس میں بچپن میں ماں باپ کی محبت سے محرومی بھی ہو سکتی ہے ۔ اگر آپ نے کسی پر بھروسہ کیا اور وہ آپ کو دھوکا دے دے تو اس بات کا اثر دل پر ہوتا ہے ۔ انسان میں بہت قابلیت ہو، اس کے ذہن میں ایسے ایسے پلان اور پروگرام ہوں جن پر عمل کرکے زبردست شہرت، عزت اور دولت حاصل ہو سکتی ہو، لیکن حالات کی مجبوری، خاندان کی کفالت یا دوسری وجوہات کی وجہ سے اس پروگرام پر عمل نہ کرسکنے کی وجہ سے اداسی پیدا ہوتی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر دکھائی گئی چمک دمک سے محروم لوگوں میں اداسی او رمحرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ ہم عمر اور بچپن کے ساتھی اچھے اچھے عہدوں پر پہنچ جائیں یا بہت دولت مند بن جائیں تو ان سے مقابلہ اور موازنہ کرنے سے اداسی پیدا ہوتی ہے ۔ گھر میں بہت عرصہ تک بیماری کے رہنے یا معاشرتی ناہم واری او رناانصافی دیکھ دیکھ کر اداسی طاری ہوتی ہے ۔ ایسے انسان میں خوشی اور ولولہ ختم ہو جاتا ہے ۔ اس میں شدید احساس محرومی پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس میں خود داری اور خود اعتمادی نہیں رہتی ۔ وہ دنیا میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ نہیں کر سکتا ۔ وہ زندگی کی جو خوشیاں اور جو کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا ہے وہ نہیں کر پاتا اور یوں وہ دنیا میں ناکام زندگی گزارنے لگتا ہے۔
ڈپریشن کا دوسرا نام اداسی بھی ہے ۔ اداسی کی حالت میں انسان اپنے آپ کو بہت اکیلا اور ہر ایک سے جدا سمجھتا ہے ۔ اگر ایسی کیفیت میں شادی بیاہ میں شرکت کرنی پڑے تو ایسا انسان بہت سے مہمانوں کی موجودگی کے باوجود سمجھتا ہے کہ وہ اکیلا ہے اور دوسرے انسان اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ اکیلے میں بعض اوقات رونے کو جی چاہتا ہے ۔ کھانے، پینے، پہننے ،اوڑھنے غرض دنیا کے ہر کام میں مزہ نہیں آتا۔ اس نفسیاتی بیماری کی وجہ سے کئی بار جسمانی بیماریاں بھی ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً مسلسل سردرد، آدھے سر کا درد ، بے خوابی، جوڑوں کا درد ، جسم کے مختلف حصوں، مثلاً آنکھوں میں کان میں درد شروع ہو جاتا ہے، حتی کہ کئی خطرناک بیماریوں، مثلاً بلڈپریشر، عارضہ قلب یا کینسر تک ہو سکتا ہے۔ اس انسان کو اس کے دوست احباب پوچھتے ہیں کہ آخر اس اداسی کی وجہ کیا ہے؟ لیکن اس کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیوں اداس ہے وہ بس یہی کہتا ہے کہ موڈآف ہے۔
اداسی کی بیماری ذہن پر الگ الگ طریقے سے اثر کرتی ہے۔ کبھی کبھی انسان رات اور دن مسلسل اداس رہتا ہے، کبھی کبھی اداسی کا یہ دورہ دن میں ایک بار، کبھی ہفتے میں ایک بار او رکبھی کبھی تو سال میں ایک بار کچھ عرصے کے لیے پڑتا ہے۔ چوں کہ اس کا تعلق دماغ اور نفسیاتی کیفیت سے ہے، اس لیے کوئی بھی علاج کرنے سے پہلے اچھی طرح بات کو سمجھ لینا چاہیے۔
اداسی کے بارے میں مختلف نفسیات دانوں نے مختلف علاج بتائے ہیں ۔ جاپانی نفسیات دان کہتے ہیں کہ اگر آپ پر اداسی طاری رہتی ہو تو آپ پھولوں کا تصور کریں۔ آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے ارد گرد پھول ہی پھول ہیں، خاص طور پر گلاب کے پھولوں کا تصور اداسی کو دور کرنے میں بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ اگر ذہن میں یہ محسوس کیا جائے کہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں ہر طرف ہر یالی ہر یالی ہے تو ذہن سے وقتی اداسی کا اتاثر دور ہوجاتا ہے۔خدا پر پختہ یقین اور یکسوئی سے نماز کی ادائیگی سے اداسی دور ہو سکتی ہے۔ ہر نماز کے بعد 31 بار” الله الحی القیوم “پڑھنے سے او را س کے بعد الله سے دعا کرنے سے ان شاء الله اداسی دور ہو جائے گی۔

Flag Counter