Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

17 - 17
***
سرور کائنات ﷺ کی تاریخ وصال کے سلسلہ میں اہم خط وکتابت
محمد سرور شوکت مُتخصِص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی
محترم المقام مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم العالیہ
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
گزارش ہے کہ بندہ ایک عرصہ سے ”الفاروق“ کا قاری ہے ، ماشاء الله یہ ماہنامہ خوب سے خوب تر ہے، اللّھم زد فزد․
اس دفعہ کے ” ربیع الاول“ کے شمارے میں جناب ” محمد سرور صاحب کا مضمون بعنوان“ ولادت باسعادت اور وصالِ پُر ملال کی تاریخیں“ نظر سے گزرا، الحمدلله خوب فائدہ ہوا، لیکن ایک الجھن ذہن میں پیدا ہو گئی کہ اس مضمون میں وفات کی راجح تاریخ 12 ربیع الاول قرار دی گئی ، حالاں کہ بندہ کی ناقص معلومات کے مطابق بہت سے اکابر سے اس کا مرجوح ہونا منقول ہے۔
ملاحظہ ہو:” سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم“ میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ الله نے 9 ربیع الاول کو راجح قرار دیا ہے۔
اس کے حاشیے میں ” سید سلیمان ندوی رحمہ الله “ نے یکم ربیع الاول کو راجح قرار دیا ہے ۔
”سیرت خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم“ میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله نے 2 ربیع الاول کو راحج قراردیا ہے۔
وعظ” جشن ربیع الاول محبت کے آئینہ میں“ مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ الله نے فرمایاہے کہ 12 ربیع الاول کو نہ ولادت ممکن ہے اور نہ ہی وفات،”سیرت مصطفی“ میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ الله نے راحج اور مختار قول8 ربیع الاول لکھا ہے “ اور ”مجموعة الفتاوی:165/3، سعید “ میں علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ الله نے لمبی بحث کرنے کے بعد فرمایا کہ 12 کو وفات ہونا ممکن ہی نہیں، الغرض! اکابرین میں سے اکثر اسی طرف ہیں کہ 12 کو وفات کا قول راجح نہیں، اس لیے تشویش ہوئی، اس لیے گزارش ہے کہ ” ربیع الثانی“ کے شمارے میں بندہ اور بہت سے قارئین کی ذہنی تشویش کو دور کرنے کے لیے اس مضمون کی تصویب یا تردید شائع فرماکر مشکور فرمائیں۔
فقط والسلام
یوسف خیریہ، کراچی
وصال پر ملال کی تاریخ کے بارے میں ضروری وضاحت
ماہنامہ الفاروق کے گزشتہ ماہ ربیع الاول کے شمارہ میں راقم الحروف کا مضمون ”ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخیں“ کے عنوان سے چھپا، یہ میرا پہلا مضمون تھا جو ملک کے ایک مؤقر رسالے میں اشاعت پذیر ہوا، جس کے لیے میں استاد محترم حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ، رئیس ادارہ الفاروق کراچی کا ممنون ہوں۔
دونوں عظیم واقعات کے تاریخوں کی تعیین کے بارے میں اختلاف چلا آرہا ہے، بعض حضرات نے صرف اختلاف ذکر کرنے پر اکتفاء کیا او رکوئی ترجیح نہیں دی ، جب کہ بعض نے اپنے ذوق سے کسی ایک تاریخ کو مختلف قرائن کی بنا پر راجح قرار دیا، راقم الحروف نے بھی اس حوالے سے ذکر کیے جانے والے مختلف اقوال کونقل کیااور اکابرین کی تائید سے بعض کے بارے میں ترجیح کی بات بھی نقل کی ۔ اگرچہ سب اکابر کا اس حوالے سے کوئی ایک موقف نہیں ، راقم الحروف نے بھی جو کچھ لکھا تھا وہ اکابر ہی کی تائید سے اور ان کی آراء نقل کی تھیں۔
اس مضمون کو ماہنامہ الفاروق، اردو کے دیرینہ قارئین نے غور وخوض سے پڑھا، کچھ لوگوں نے زبانی کلامی اور بعض نے تحریری طور پر راقم الحروف کی ذکر کردہ ترجیحات سے اختلاف فرمایا اور یوں انہو ں نے مضمون نگار کا حوصلہ بڑھایا، جس سے آئندہ کے لیے بھی نگارشات پیش کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، الله تعالیٰ قبولیت وعافیت کے ساتھ توفیق مرحمت فرمائے۔
جناب یوسف خیریہ صاحب نے اپنی تحریر میں لکھا:
”سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم میں علامہ شبلی نعمانی  نے 9 ربیع الاول کو راجح قرار دیا ہے“
موصوف اصل کتاب کی عبارت او رمضمون کو غور سے نہیں پڑھ سکے۔ اس وجہ سے انہوں نے علامہ شبلی نعمانی صاحب کی طرف یہ بات غلط منسوب کر دی ،جب کہ علامہ موصوف نے ولادت کے بارے میں یہ تاریخ لکھی ہے، چناں چہ راقم الحروف نے اپنے مضمون میں بھی اس کا حوالہ دیا ہے، علامہ موصوف نے وفات کے بارے میں کوئی تاریخ ذکر نہیں کی ہے ، البتہ تجہیز وتکفین میں 2 ربیع الاول کی تاریخ ذکر کی ہے ، حاشیہ پر علامہ سید سلیمان ندوی  نے یکم ربیع الاول کا ذکر کیا ہے ، یہ سید صاحب کی رائے ہے ، موصوف نے اپنے دوسرے رسالے ”رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم، ص:137، طباعت: دارالاشاعت ،کراچی میں بھی یکم ربیع الاول تاریخ وفات ذکر کی ہے۔
جناب یوسف خیریہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے:
”سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب نے راجح او رمختار قول8 ربیع الاول لکھا ہے“۔
یہ بھی خلاف واقعہ ہے، موصوف دوبارہ مراجعت کرکے حضرت کاندھلوی کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں، حضرت نے ولادت کے بارے میں یہ تاریخ ذکر کی ہے ، اس کو بھی راقم الحروف اپنے مضمون میں لکھ چکا ہے ، شاید موصوف کو توجہ نہ ہوئی۔
شروع میں موصوف نے لکھا ہے :
”بندہ کی ناقص معلومات کے مطابق بہت سے اکابر سے اس کا مرجوح ہونا منقول ہے۔“
آخر میں لکھا:
”الغرض اکابرین میں سے اکثر اسی طرف ہیں کہ 12 ربیع الاول کو وفات کا قول راجح نہیں۔“
یہ بات بھی صحیح نہیں، بہت سے اکابر نے 12 کو تاریخ وفات کے طور پر اختیار کیا ہے ، بعض نے رد بھی کیا ہے تاہم رد کرنے والوں کا جو بنیادی اشکال ہے اس کا ذکر میں اپنے مضمون میں علامہ سہیلی اور علامہ ابن کثیر کے حوالے سے باحوالہ کر چکا ہوں ۔ ذیل میں 12 ربیع الاول کے یوم وصال ہونے کے بارے میں اکابرین کی تصریحات نقل کی جاتی ہیں:
شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے 12 کے قول کو اختیار فرمایا ہے چناں چہ وہ لکھتے ہیں” یہ جاں گداز اور روح فرسا واقعہ جس نے دنیا کو نبوت ورسالت کے فیوض وبرکات اور وحی ربانی کے انوار وتجلیات سے محروم کر دیا بروز دو شنبہ دوپہر کے وقت12 ربیع الاول کو پیش آیا“۔ (سیرت مصطفی،291/2ط: الطاف سنز)
مذکورہ حوالے کو احقر نے مضمون میں بھی ذکر کیا ہے لیکن صاحب نقد نے اس کی طرف التفات نہیں فرمایا۔
اسی قول کو حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری  کے خلیفہ ارشد مولاناعاشق الہیٰ میرٹھی نے اختیار فرمایا ہے چناں چہ وہ اپنی تصنیف ”ماہتاب عرب صلی الله علیہ وسلم“ میں تحریر فرماتے ہیں:
12 ربیع الاول کو صبح کے وقت اجل کو لبیک کہا اور اپنے بھیجنے والے خدا کے حضور میں خرم وشاداں روانہ ہوئے۔ (ماہتاب عرب صلی الله علیہ وسلم ص:121، ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ)
اسی 12 ربیع الاول کے قول کو شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی  نے اختیار فرمایا ہے او راپنی مایہ ناز کتاب ” نفحة العرب“ میں جو درس نظامی کی کتب نصاب میں شامل ہے “ تحریر فرمایا ہے ”فتوفی نصف نہارہ وقیل ضحاہ إثني عشر من الربیع الاول سنة احدی عشر من ہجرتہ․ (نفحة العرب ص:199، ط: میر محمد کتب خانہ ،کراچی)
اسی قول کو مشہور سیرت نگار قاضی سلیمان منصور پوری  نے اختیارفرمایا ہے چناں چہ وہ اپنی تصنیف ” رحمة للعالمین“ میں تحریر فرماتے ہیں:
”12 ربیع الاول11ھ یوم دو شنبہ وقت چاشت تھا کہ جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کی اس وقت عمر مبارک 63 سال قمری پر 4 دن تھی۔“ (رحمة للعالمین،338/1، ط: مکتبہ اسلامیہ)
حضرت مولانا مفتی اعظم محمود حسن گنگوہی نے علامہ محب الدین بن عبدالله طبری ،مکی، شافعی المتوفی696ھ کے ایک رسالے کا ترجمہ بنام ”سیرت خیر البشر“ تصنیف فرمایا ہے ، اس میں بھی 12 ربیع الاول کے قول کو تحریرفرمایا ہے چناں چہ وہ رقم فرماتے ہیں :
”12 ربیع الاول کو پیر کے دن چاشت کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی ، بعض روایات سے تاریخ وفات 2 ربیع الاول معلوم ہوتی ہے۔“ ( سیرت خیر البشر ، ص:96، ط: مکتبہ نور، کاندھلہ، ضلع مظفر نگر، یوپی، ہند)
ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر کی ایک بڑی تعداد نے 12 کے قول کو اختیار کیا ہے، لہٰذا صاحب نقد کا یہ کہنا کہ اکثر نے اسے مرجوح قرار دیا ہے صحیح نہیں۔
حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب  اور علامہ عبدالحئی لکھنوی کی عبارتوں کے حوالے سے دو باتیں قابل ذکر ہیں۔
علامہ عبدالحئی لکھنوی نے 12 کے قول کو جس بنیاد پر مرجوح قرار دیا ہے وہ علامہ سہیلی کا ذکر کردہ اشکال ہے ، جسے ” البدایہ والنھایہ“ میں علامہ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے او ر راقم الحروف نے اپنے مضمون میں بھی اس کو ذکر کیا ہے ، لیکن اس اشکال کا ازالہ علامہ ابن کثیر نے دوسرے قرائن کے ذریعے کر دیا ہے ۔
اکابر کی عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ کسی تاریخ کو متعین نہیں کرسکتے؛ چناں چہ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جس طرح پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ نصوص واقوال کی وجہ سے متعین ہے، اس طرح مہینہ کی کوئی تاریخ متعین نہیں او ریہ بات راقم الحروف نے مضمون کے بالکل شروع میں لکھ دی ہے۔ حتمی طور پر تعیین سے احتراز کیے بغیر مختلف قرائن اور شواہد کی بنیاد پر اپنے ذوق سے کسی ایک تاریخ کوراحج قرار دینا الگ مسئلہ ہے جو محل اشکال نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کو اکابر کے اختیار کردہ مسلک سے انحراف کہا جاسکتا ہے ، جو مذموم ہے ، راقم الحروف نے اپنے مضمون میں دوسری آراء کو بھی معتبر اقوال کے ضمن میں بیان کیا تھا، اس حوالے سے نہ اپنی کوئی الگ رائے ہے نہ ہی اس کا حق دار۔
امید ہے کہ اس وضاحت سے اشکالات دور ہو گئے ہوں گے۔

Flag Counter