Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 17
***
اسرائیلی تھوک سے تحریر کیا گیا فیصلہ
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
اس نے بڑی جرات اور حوصلے سے فیصلے کا ایک ایک لفظ سنا، ایک نظر متعصب جیوری کو دیکھا اور پھر اوپر سر اٹھایا کہ جیسے اپنے خالق ومالک کا شکر ادا کر رہی ہو کہ ” اے میرے پروردگار! سنا تھا اور کتابوں میں پڑھا تھا کہ نمردو نام کا ایک شہنشاہ تھا، وہی متکبر وتندخو جسے اپنے خدا ہونے پر یقین تھا اور جس نے تیرے ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کو بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک ڈالا تھا، تونے تو ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کے لیے اسے سلامتی بنا دیا، مگر نمرود جیسے غلیظ کیڑے کو مٹانے کے لیے صرف ایک نحیف وکمزور مچھر کو اس کے دماغ میں داخل کر دیا اور پھر ایک دن اس نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنا سر توڑ ڈالا، نہ کوئی لشکر اس کے قتل کو روانہ ہوا اور ناہی گھمسان کا رن پڑا… بس نمرود ایک مچھر کے ذریعے انجام کو پہنچا… اور ہاں میرے رب ! تو نے تو اپنی کتاب بلاغت میں مچھر کی مثال بیان کی ہے ، جس پر یہودیوں نے تمسخر اڑایا تھا، تیرے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر تیرے کلام کی ( معاذ الله) تضحیک کی تھی اور تونے فرمایا تھا کہ الله نہیں شرماتا کہ وہ مچھر کی مثال دے… اور اے میرے آقا! ان ظالموں کے لیے مجھ لاچار وبے بس کو تونے اپنا وہی مچھر بنا دیا ہے ، جس سے یہ خوف زدہ اور سہمے ہوئے ہیں ،آج مجھے سزا سنا کر ہنس رہے ہیں ، جشن منارہے ہیں، مگر تیرا یہ لاغر مچھر ان کے اعصابوں پر سوار ہے او رایک دن یہ خود ہی اپنا سر توڑ ڈالیں گے “…
عافیہ کی دعائیں اور الفاظ تشکر شاید اس سے بھی زیادہ ہوں کیوں کہ اس کے جذبات کا ترجمان نہ تو کمرہ عدالت میں تھا اور ناہی اس کے کراچی میں واقع گھر میں موجود ہے ، فیصلہ سنانے کے بعد وہ اس پنجرہ نما قید خانے میں پہنچا دی گئی جہاں ہر بیس منٹ کے بعد ایک اہلکار پنجرے میں یہ جائزہ لینے کے لیے داخل ہوتا ہے کہ اب عافیہ کیا کر رہی ہے ؟ اسی پنجرے میں ایک واش بیسن، پلنگ اور کموڈ موجود ہے اور ہماری باعفت عافیہ اپنی چادر کا پردہ تان کر ضروریات زندگی سے فارغ ہوتی ہے اور پھر اسی چادر سے اپنے آنسوؤں کو پونچھتی ہے… شاید عافیہ کی چادر بھی اسی لیے کھینچی گئی، تاکہ ” شہزادوں کی جنگ کے وکلا“ اورمنکرین ظلم کو یہ یقین ہو جائے کہ آل رسول صلی الله علیہ وسلم کی چادریں بھی کھینچی اور اتاری گئی تھیں، مگر اس فرق کے ساتھ کہ عافیہ کی چادر کھینچنے والے چادر کے تقدس سے ناواقف اور عترت رسول کے سروں کو برہنہ کرنے والے آیات حجاب کے قراء تھے… میرا خیال ہے کہ قوم کی اس بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا درست ہی ہوا… غیر اس وقت تک کسی کی بہن پر نظر ڈالنے سے ڈرتے ہیں جب تک کہ انہیں معلوم ہو کہ اس کے بھائی بڑی غیرت والے ہیں لیکن یہاں تو بیچنے والے ہیں ” بھائی“ تھے، اسی کے گوشت کے ڈالر کھائے اوراب تک جگالی کر رہے ہیں … عافیہ کے ساتھ ٹھیک ہی ہوا وہ ہم بے حسوں کی بہن کہلانے کے قابل نہ تھی ، اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، ہم امداد پر پلنے والے وہ بھک منگے ہیں جو شاہراہ دستور کے اختتام پر کنونشن سینٹر سے پہلے ڈالر کی خوشبو سونگھ کر سمت بدل لیتے ہیں ، ہمارے لیے مصر کے کسی بازار کی یا بولی لگانے والوں کی ضرورت نہیں ،بکتے بکتے ہم خود ہی بک جاتے ہیں ، ہمیں راہوں میں آراستہ وپیراستہ کھڑے ہو کر آقاؤں کو لبھانا آتا ہے ، ہم نے یہ سوال کبھی نہیں پوچھا کہ قیمت کیا دو گے ؟ بس ہمیشہ یہی کہا کہ مال موجود ہے ، کیا کہتے ہو کب لو گے؟… آج عافیہ تو مجرم قرار دے دی گئی ہے اورشاید کم از کم 60 برس قید کی سزا بھی سن لے، مگر جو 60 برس جی چکے ہیں او راب قبر کی قید سے بچنے کے لیے امریکا اور لندن کے ڈریکولائی تابوتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیا انہیں خبر ہے کہ انہیں کس زندان میں ڈالا جائے گا؟ وہ یہ کیوں بھول گئے کہ ان سے سوال ہی نہیں ہو گا، جب پیداکرنے والا اس امر پر قادر ہے کہ وہ زندہ دفن کی جانے والی لڑکی سے پوچھے گا کہ وہ کس جرم میں زندہ دفنا دی گئی تھی تو پھر عافیہ کیوں نہ بتائے گی کہ اسے کن داموں بیچا گیا؟… بس یہاں کے چند دن اور ہیں، عافیہ کے لیے بھی اور اس کے سوداگروں کے لیے بھی ، یقینا عیاشوں کے اچھی طرح کٹ جائیں گے اور بے شک عافیہ کے بھی بیت جائیں گے، مگر فیصلے کا میدان سجنا تو اب بھی باقی ہے ، جس دن ہر نفس جان لے گا کہ وہ اپنے ساتھ کیا لے کر آیا ہے …
بڑی ٹھنڈک پہنچائی ہے ہم نے عافیہ کی ماں کے کلیجے کو ، ہر اُگتے سورج کے ساتھ اسے یہ دلاسے دیے کہ ” امی جان! آج رات کھانا تیار رکھیے گا، میں عافیہ کو اپنے ساتھ لے کر آؤں گا“ اور ممتا کی ماری عصمت صدیقی، حسین حقانی کا کئی راتوں تک بس انتظار ہی کرتی رہی کہ کب وہ چوکھٹ سے ہی اپنے بیٹے کی یہ جذباتی آواز سنے گی کہ ” امی جان! آپ کے فرزند نے اپنا وعدہ پوراکر دکھایا، باہر آئیے اور دیکھیے! میں عافیہ کو لے آیا“… بلاشبہ مجبوریاں ہوں گی،مدت پوری کرنا بھی کیاکم مجبوری ہے، مگر یہ مدت گزارتے گزارتے نسیان کا ہر مریض یہ کیوں فراموش کر دیتا ہے کہ دوسری مدت بھی آہستہ آہستہ پوری ہو رہی ہے، سوائے ان کے جنہیں جواب دہی کا یقین ہی نہیں … اور اس دن وہ بھی اعمال نامے دیکھ کر یقینا عافیہ کی طرح چلاّئیں گے، لیکن صرف چلائیں گے ، اس کی طرح بے قصور نہیں ہو ں گے…
میں سوچتا ہوں کہ وہ کیا سوچتی ہو گی ؟ پنجرے میں بیٹھی چھت کو گھورتی اپنے رب سے کیا کیا کہتی ہو گی؟ اس کے تو آنسو بھی بولتے ہوں گے ، زخموں کی سرگوشیاں بھی ہم نو ابن کر درد سے کلام کرتی ہوں گی ، بیتا ہوا ہر لمحہ تاریخ بن کر پنجرے میں ٹھہر جاتا ہو گا، پلکوں سے رخسار تک پہنچتے پہنچتے آنسو کا ہر قطرہ نہ جانے کتنے مناظر کی گواہی دیتا ہو اور پھر جب وہ آنسو پونچھتی ہو گی تو جذب کرتے ہوئے اس کے ہاتھ معصوم قطروں سے یہ ضرور کہتے ہوں گے کہ گھبرانا مت، تم قید تنہائی میں بہے تھے، یہ شہادت ہم بھی دیں گے … خدا کا شکر کہ میرا خدا بے نیاز ہے … اب میں آج کا متجدد تو ہوں نہیں کہ ”اگر“ کالاحقہ لگا کر اپنی سوچ کو اس کی ذات پر نور کی تشریح پر ترجیح دوں اور یہ کہوں کہ ” اگر یہ ہوتا تو وہ ہوتا“… ہم غلاموں کے نزدیک تو اس کے لیے ”اگر“ کا تصور بھی شرک ہے، لہٰذا ایک مرتبہ پھر شکر ادا کروں گا کہ میرا مالک ، میرا آقا ، میراپر وردگار بے نیاز ہے۔
عاقل خود ہی سمجھ لیں کہ یہ اس کی بے نیازی ہی ہے جس نے ہم گناہ گاروں کو اب تک سنبھالے رکھاہے، ورنہ تو ناقة الله ( حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی) کی کونچیں کاٹنے والے صرف ایک شخص کی نافرمانی پر قوم ثمود کو نشان عبرت بنا دیا گیا اور یہاں حبیب الله کے نواسے کی گردن کاٹنے پر بھی ہم اب تلک اس کے غضب سے اسی کے کرم کے سبب محفوظ ہیں … مجرم عافیہ نہیں ٹھہرائی گئی ہے، بلکہ یہودی جیوری کے خبث باطن نے خیبر اور تبوک سے دھتکارے جانے کا بدلہ لیا ہے، کاشانہ رسالت میں ہماری ماں سیدہ صفیہ رضی الله تعالی عنہا کا بسنا ان کو جلائے دے رہا ہے ، مرحب کا زمین چاٹنا ان کے سینوں پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے ، سیدنا موسی علیہ السلام کی یہ آزرو کہ خاتم النبیین کے پاپوش کے تسمے کھولنے کا شرف ان ہی کو حاصل ہو ان کی مکروہ انا کے دامن کو چھیدے ڈال رہی ہے اور یہ یونہی جل جل کر مر جائیں گے… میری پیاری بہن عافیہ! ہم اس قابل تو نہیں کہ تمہیں اپنی بہن کہنے کا حق استعمال کریں، لیکن تم سے اتنا ضرور کہیں گے کہ دنیا کی حسین ترین تصاویر ہمیشہ اندھیرے کمرے میں Negatves دھوکر تخلیق کی جاتی ہیں ، سو اگر آج تم اپنی زندگی میں اندھیرا محسوس کر رہی ہو تو سمجھ لو کہ الله رب العزت تمہارے لیے ایک بہترین حیات تخلیق کر رہا ہے، جو تمہارے بے حس بھائیوں کی طرح فانی نہیں ، لافانی ہو گی، لیکن ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوگا… تم صحیح کہتی ہو کہ یہ فیصلہ انصاف کے قلم سے نہیں، بلکہ اسرائیلی تھوک سے تحریر کیا گیا ہے تو پھر فیصلہ سنانے والے بھی جان لیں کہ پھونکوں سے چراغ بجھتے ہیں، آتش فشاں نہیں…!!! (بشکریہ روز نامہ جنگ، کراچی)

Flag Counter