Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 17
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
عَنْفَقَہ(ڈاڑھی بچہ کا حکم)
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ریش بچہ، ڈاڑھی میں داخل ہے کہ نہیں، اگر جواب اثبات میں ہے تو اس پر دلیل کیا ہے؟
اور ریش بچہ اور اس کے اطراف کے بالوں کا کاٹنا یا اکھاڑنا کیسا ہے یا ان دونوں کا حکم الگ الگ ہے ؟ جب کہ فتاوی میں جواب میں اضطراب پایا جاتا ہے ”فتاوی محمودیہ“ میں ڈاڑھی بچہ کے کاٹنے کو بدعت لکھا ہے جب کہ بعض حضرات نے ڈاڑھی بچہ کے اطراف کے بالوں کو بدعت لکھا ہے اور ڈاڑھی بچہ جس کو”عنفقة“ کہا جاتا ہے کے بارے میں کوئی تصریح نہیں کی ہے۔
اور امدادالفتاوی میں لکھا ہے مفتیٰ بہ ہونے کی تحقیق کے لیے مراجعت کتب کی ضرورت ہے۔
اور شامیہ وعالمگیریہ میں اطراف ریش بچہ کے کاٹنے کو بدعت لکھا ہے۔
مذکورہ تفصیل کو سامنے رکھ کر مسئلہ پر تحقیق کریں تاکہ کوئی گوشہ مخفی نہ رہے۔
جواب…چوں کہ احادیث شریفہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ڈاڑھی مبارک کے ساتھ عنفقہ یعنی ریش بچہ ( وہ بال جو ٹھوڑی کے اوپر اور نچلے ہونٹ کے نیچے چھوٹی سی ڈاڑھی کی شکل میں اگتے ہیں ) کا رکھنا ثابت ہے، اس لیے حضرات فقہاء کرام رحمہم الله تعالیٰ نے ریش بچہ اور اس کے اطراف کے بالوں کے کاٹنے کو ممنوع او ربدعت قرار دیا ہے ، نیز جن فتاوی میں صرف اطراف عنفقہ سے متعلق بدعت اور ممانعت کا حکم مذکور ہے ،تووہ حکم عین عنفقہ کو بطریق اولیٰ شامل ہے، کیوں کہ جب اطراف کا یہ حکم ہے تو اصل اور عین کا تو بطریق اولیٰ یہ حکم ہو گا، تاہم عین عنفقہ سے متعلق بھی ”فیض الباری شرح صحیح البخاری“ میں بدعت کا قول مذکور ہے۔
مروّجہ جہیز کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں؟
کیا شادی میں جہیز دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کیا شریعت میں اس کی کوئی حد مقرر ہے یا نہیں؟
کیا جہیز میں مساوات ضروری ہے؟ مثلاً: ایک بیٹی کو100000 کا جہیز دیا اور دوسری بیٹی کو 90000 ہزار کا جہیز دیا، توکیا دوسری بیٹی مساوات کا مطالبہ شرعاً کر سکتی ہے یا نہیں؟
کیا کسی عورت کو جہیز دے کر میراث سے محروم رکھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
جواب… جہیز در حقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے اور فی نفسہ مباح، بلکہ امرِ مستحسن ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی اپنی لخت جگر حضرت فاطمة الزھراء رضی الله تعالیٰ عنہا کو جہیز دیا تھا، لیکن آج کل جس طرح پُرتکلف طور پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اس طرح نہیں، بلکہ کل جہیز یہ تھا: ایک چادر، ایک تکیہ، چمڑے کا گدّا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ، دو چکیاں اور پانی کے لیے دو مشکیزے، یہ ہے دونوں جہانوں کے سردار کی لاڈلی بیٹی کا جہیز کہ صرف وہ اشیاء دیں جو روز مرہ استعمال میں آتی ہیں۔
لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں اس امرِ مستحسن ( جہیز ) کا چہرہ جس طرح مسخ کر دیا گیا ہے کہ یہ محض ایک ہندوانہ رسم بن کر رہ گئی ہے ، کسی بھی طرح درست نہیں، اس لیے کہ اس رسم کو انجام دینے میں کئی خرافات اور مفاسد کو اس طرح شامل کردیا گیا ہے کہ یہ بجائے رحمت کے زحمت بن گئی ہے۔
منجملہ ان مفاسد میں سے یہ ہے کہ:
جہیز دینے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔
جہیز میں ملنے والے سامان ( کپڑے، برتن وغیرہ) کی بلاوجہ تشہیر کی جاتی ہے جو کہ ریاکاری اور تفاخر پر مبنی ہے۔
بسا اوقات لڑکے والے بڑی ڈھٹائی سے صرف دیکھتے ہی نہیں پوچھتے بھی ہیں کہ جہیز میں کیا او رکتنا ملے گا؟ اگر فلانی چیز نہ دی گئی تو رشتہ نہ لیں گے، اگرچہ لڑکی کے والدین کی استطاعت سے باہر ہو ، جس کی وجہ سے بعض اوقات جہیز دینے کے لیے قرض لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سود کی لعنت تک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، خلاصہ یہ کہ اس میں ”التزام مالایلزم“ کی خطرناک صورت پائی جاتی ہے۔
آج کل یہ فضاء بنی ہوئی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو جہیز میں سو جوڑے دیتا ہے ، تو دوسرا اپنی بیٹی کو ایک سو ایک جوڑے دینے کی کوشش کرتا ہے ، جس کی وجہ سے غریبوں کے لیے اپنی بیٹیوں کی شادی کرانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔
مذکورہ بالا مفاسد کی بنا پر ”مروجہ جہیز“ دینے کا طریقہ بالکل غلط ہے اور شریعت مطہرہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ، اس سے بچنا ضروری ہے ۔
البتہ جہیز میں اگر مندرجہ ذیل چیزوں کی رعایت رکھی جائے تو کوئی حرج نہیں:
جہیز اپنی بساط او رگنجائش کے مطابق دیا جائے۔
جہیز کے سامان میں ضرورت کو ملحوظ نظر رکھا جائے۔
جہیز میں آلات معاصی دینے سے اجتناب کیا جائے۔
نام ونمود کے لیے جہیز کی نمائش نہ کی جائے۔
جہیز دینے میں مساوات ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے ، اگر کسی وجہ سے دو بیٹیوں کے جہیز میں مساوات نہ ہو سکے تو دوسری بیٹی کو مطالبہ کرنے کا حق نہیں۔
جہیز میں جو چیز دی جاتی ہے وہ اس لڑکی کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے او رمیراث والدین کے انتقال کے بعد تقسیم ہوتی ہے ، والدین کے انتقال سے پہلے اگر بیٹی اپنے حق سے دستبردار ہو جائے، پھر بھی محروم نہیں ہوگی۔

سلام کرنا کب او رکہاں سنت ہے؟
سوال… مسئلہ: کیا سلام ہر وقت اور ہر جگہ سنت ہے؟ مثلاً:کوئی تلاوت کرتا ہو، یا کوئی مسجد میں داخل ہوتے وقت نمازیوں کو سلام کرتا ہے، یاکوئی نماز کے دوران مسجد کے اندر یا باہر اقامت سنتے وقت سلام کرتا ہے، یاکوئی کھانے والے کو سلام کرتا ہے، یا کوئی مجلس میں داخل ہوتا ہے، یا پھر کمرے میں داخل ہوتا ہے، لیکن کیا دیکھتا ہے کہ بعض افراد سوئے ہوئے ہیں، اگر سلام بلند آواز سے کریں تو تکلیف ہو گی، یا پھر تعلیم وتعلم کے موقع پر (مطالعہ وتکرار) اور اس طرح جب کسی کو بھی دیکھا تو سلام کرلیتا ہے کیا اس طریقہ (سلام) کے لیے کسی خاص آدمی کو سلام کرنا ہو تا ہے اور دوسری بات یہ کہ سلام کے وقت اگر کسی کی سوچ نہ ہو، سلام کا جواب نہ دے تو گہنگار ہو گا کہ نہیں اور خط وکتابت کے وقت جو سلام لکھا جاتا ہے تو کیا اس سے بھی سنت ادا ہو جاتی ہے؟ اور اسی طرح بعض اوقات عورتیں سلام کرتی ہیں تو کیا ان کا سلام لوٹانا صحیح ہے؟ اور اس کے علاوہ بعض اوقات دونوں جانب سے سلام ہوتا ہے تو اس وقت کیا حکم ہوتا ہے؟ او رجب گھر میں داخل ہو تو پھر کیا حکم ہے؟ کیا گھر کی مستورات کو سلام کرنا صحیح ہے؟ اور کیا کافر کو سلام کیا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ حدیث میں اس طرح سلام آیا ہے کہ پہچانتے ہو یا نہیں اس کو سلام کیا جائے، تو بعض اوقات شیعہ کو سلام کر دیں تو پھر کیا حکم ہے؟ اور سلام کے پورے الفاظ کتنے ہیں؟ اور سلام کس وقت کرنے کا حکم ہوا ہے؟
برائے کرم مدلل جواب سے بندہ کو ممنون فرمائیں تاکہ بندہ کو اس سنت کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کا موقع مل جائے۔
جواب… حضرات فقہاء کرام او رمحدثین نے بہت سارے ایسے مقامات جن میں سلام کرنا چاہیے اور وہ مواقع جن میں سلام مکروہ ہے، بیان فرمائے ہیں ، چناں چہ علامہ شامی  نے فتاوی شامیہ میں تفصیل سے اس پر کلام کیا ہے ، جب کہ علامہ نووی نے بھی کتاب الاذکار میں بہت سارے مواقع گنوائے ہیں ، وہ مقامات جن میں سلام کرنا مکروہ ہے، ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے : 
جو شخص سلام کا جواب دینے سے عاجز ہو اسے سلام کرنا۔
#عجز حقیقی ہو تب بھی مثلاً :کھانے پینے میں مصروف شخص، سونے والا اوربیہوش۔
# عجز اگر حکمی ہو تب، بھی مثلاً: حاجت شرعیہ کی ادائیگی میں مصروف ہو، جیسے نماز، ذکر، تلاوت، اذان ، اقامت ، خطابت اور علوم دینیہ کی تعلیم وتعلم میں مصروف شخص، یا وہ حاجات طبعیہ کے ادا کرنے کی وجہ سے عاجز ہو ، جیسے: پیشاب پاخانہ میں مشغول، یا بیوی کے ساتھ مصروف شخص۔
سلام کرنے سے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو ، جیسے: نامحرم جوان عورت یا خوب صورت امرد کو سلام کرنا۔
جس عورت یا مرد کا ستر نظر آرہا ہو اسے سلام کرنا۔
کافر کو سلام کرنا، البتہ حاجت کے وقت ”السلام علی من اتبع الھدی“ کہہ سکتے ہیں۔
علانیہ گناہ کرنے والے کو سلام کرنا(البتہ اگر فاسق مُعلِن سے تعارف او رجان پہچان ہے یا اسے دین کی طرف مکمل راغب کرنے یا دیگر کسی دینی یا دنیوی حاجت کی خاطر سلام کیا جائے ، تو جائز ہے۔
کسی معصیت میں مشغول شخص مثلاً: تاش وشطرنج وغیرہ میں مشغول افراد کو سلام کرنے سے امام ابویوسف او رامام محمد رحمہما الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ  کے ہاں ان کو اس نیت سے سلام کر لیا جائے کہ ان کی توجہ اس معصیت سے ہٹ جائے، تو اچھا ہے۔
واضح رہے کہ جن مواقع پر سلام کرنا مکروہ ہے ، راحج قول کے مطابق ان مواقع میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں۔
باقی اگر دو افراد ایک ساتھ ایک دوسرے کو سلام کریں ، تو دونوں پر جواب دینا ضروری ہو گا اور پہلے کے سلام کے بعد الفاظِ سلام ادا کیے جائیں تو دوسرے کی طرف سے اس سلام سے جواب ادا ہو جائے گا۔
خط میں سلام کا جواب ، زبانی یا بذریعہ خط دینا واجب ہے ، بہتر یہ ہے کہ زبان سے سلام کا جواب دے دیا جائے، کیوں کہ ممکن ہے کہ جواب کا موقعہ نہ ملے او رواجب رہ جائے او راگر جوابی خط لکھنے کا ارادہ نہ ہو یا خط قابل جواب نہ ہو ، تو زبان سے فوراً جواب دینا واجب ہے ، چاہے خط لکھنے والا مرد ہو یا عورت اور عورت چاہے جوان ہو یا بوڑھی۔
لیکن واضح رہے کہ خطوط میں ”سلام مسنون“ جیسے الفاظ تحیہ کی جگہ استعمال کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس کا جواب دینا ضروری ہے ۔
باقی سلام کے الفاظ ”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ“ ہیں او رجواب بھی یہیں تک ہے ”وبرکاتہ“ پر اضافہ درست نہیں اور یہی طریقہ افضل ہے، اگرچہ ” الف لام“ کے بغیر ” سلام علیکم (بالتنوین) بھی ثابت ہے۔

Flag Counter