Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 17
***
وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے حالیہ اجلاس کے فیصلے
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کا ایک غیر معمولی اجلاس 17 اور 18 جنوری2010ء بروز اتوار اور پیر جامعہ فاروقیہ کراچی فیزII میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان نے کی۔ یہ اجلاس صدرِ وفاق دامت برکاتہم العالیہ کی علالت کے باعث کراچی میں طلب کیا گیا۔ یادرہے کہ صدر وفاق گزشتہ دنوں عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے، بعد ازاں آپ کا کامیاب آپریشن ہوا اور الحمدلله اگرچہ روبصحت ہیں، مگر چوں کہ ڈاکٹروں نے دو تین ماہ تک حضرت کے اسفار پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس لیے کراچی میں اجلاس طلب کیا گیا، تاکہ حضرت کی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ صدر وفاق نے علالت کے باوجود اجلا س کی اکثر نشستوں کی صدارت فرمائی، جب کہ بعض نشستوں میں ان کی عدم موجودگی میں وفاق المدار س کے نائب صدر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، رئیس جامعة العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن اجلاس کی صدارت فرماتے رہے۔
17 جنوری کے اجلاس کے ایجنڈے میں وفاق المدارس کے انتظامی اور دینی مدارس کے داخلی معاملات شامل تھے ۔ دینی مدارس کا نصاب ونظام او رامتحانی سسٹم اس اجلاس میں زیربحث رہا اور اس حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے ،جب کہ 18 جنوری کے اجلاس میں موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں دینی مدارس کے تحفظ وبقا، مدارس کی آزادی وخود مختاری کے دفاع، مدارس کے مستقبل اور آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے غوروخوض کیا گیا۔ اجلاس کے دوسرے روز وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے اراکین کے علاوہ ملک بھر کی معروف او رنمایاں دینی قیادت نے بھی شرکت کی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق اور دیگر نامی گرامی حضرات اجلاس میں شریک ہوئے ۔ اس اجلاس کی تاریخ اور مقام کا تعین مولانا فضل الرحمن سے مشاورت کے بعد کیا گیا تھا، لیکن شدید دھند کے باعث مولانا کو کراچی کے لیے فلائٹ نہ مل سکی اور وہ اجلاس میں شریک نہ ہوپائے۔ پہلے دن اجلاس صبح10 بجے سے رات8 بجے تک او رکھانے کے وقفے کے ساتھ جاری رہا، جب کہ دوسرے دن صبح سے دو بجے تک خصوصی اجلاس ہوا، جب کہ دو بجے کراچی بھر کے علمائے کرام او رمدارس کے منتظمین ومہتممین کے لیے خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس نشست میں کراچی کے مخصوص حالات کے پیش نظر وہاں کے اہل مدار س کی حوصلہ افزائی او رہ نمائی کے حوالے سے اکابر علمائے کرام کے بیانات ہوئے اور بعد ازاں شام پانچ بجے جامعہ بنوریہ العالمیہ میں مفتی محمد نعیم کی میزبانی میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں دو روزہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کیا گیا۔
قارئین نے اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے اجمالی اور جزوی خبریں تو ذرائع ابلاغ میں یقینا ملاحظہ فرمائی ہوں گی، لیکن اس اجلاس کے تفصیلی فیصلوں سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ اس لیے اجلاس میں ہونے والے اہم فیصلے پیش خدمت ہیں۔
# اجلاس کے دوران دینی مدارس کی کردار کشی کی مہم، اہل مدارس کو ہراساں اور پریشان کرنے او رمدارس کے خلاف مذموم میڈیا ٹرائل پر گہری تشویش اور فکر مندی کا اظہار کیا گیا اور اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مدارس کے کردار وخدمات کو اجاگر کرنے کے لیے مدارس کے بارے میں شعور وآگہی مہم شروع کی جائے گی اور عوامی رابطوں کو مزید منظم کیا جائے گا اور مدارس پر لگائے جانے والے الزامات کی حقیقت کوبے نقاب کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں فوری طور پر وفاق المدارس کے زیراہتمام جنوبی پنجاب اور صوبہ سرحد میں تحفظ مدارس اور خدماتِ مدارس کنونشنز منعقد کیے جائیں گے۔جنوبی پنجاب کے دینی مدارس چوں کہ کچھ عرصے سے استعماری قوتوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور اس وقت سب سے زیادہ پروپیگنڈے کی زد میں اسی علاقے کے مدارس ہیں، اس لیے سب سے پہلے جنوبی پنجاب میں کنونشن منعقد کیا جائے گا، جس کی تاریخ اور مقام کا اعلان عنقریب کیا جائے گا۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں چوں کہ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے او راس آپریشن کے دوران بہت سی مساجد اورمدارس بھی متاثر ہوئے ہیں، ویسے بھی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس کے ساتھ جوڑنے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی جاری ہے، اس لیے دوسرا کنونشن صوبہ سرحد میں ہو گا۔ جس کے مقام اور تاریخ کا تعین مولانا انوارالحق، نائب صدر وفاق المدارس کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی کرے گی۔ اور دو کنونشنز کے علاوہ ملک گیر رابطہ مہم منظم کی جائے گی ۔ اس مہم کے دوران مرکزی ، صوبائی ، ضلعی اور مقامی سطح پر مختلف کانفرنسیں، سیمینارز اور کنونشنز منعقد کیے جائیں گے۔ وفاق المدارس کے ملک بھر میں موجودہ مسئولین او رمدارس کے منتظمین کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ پور ی سرگرمی اور مستعدی سے اس مہم کو کامیاب بنائیں۔ اس مہم کے دوران سیاست دان، اراکین پارلیمنٹ وسینٹ، ڈاکٹروں، وکلاء، انتظامیہ اور بالخصوص ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے خصوصی طور پر روابط استوار کیے جائیں گے او رانہیں دینی مدارس کے نصاب ونظام او رکردار وخدمات سے آگاہ کیا جائے گا۔
ملک بھر کے علما وخطبا او راہل مدارس کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ جمعہ اور دیگر تقریبات وخطبات میں مدارس کی خدمات اور تعارف کے موضوع کو خصوصیت کے ساتھ شامل کریں اور اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات اور دیگر سرگرمیوں میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو خصوصی طور پر مدعو کریں۔ اسی طرح ہر جمعرات کو اپنے ادارے کے اساتذہ وطلبا پر مشتمل جماعتیں قرب وجوار کی مساجد میں بھیجیں، تاکہ وہ وہاں جاکر لوگوں کو رجوع الی الله کی تلقین ، دین پر عمل کرنے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے کردار وخدمات سے بھی آگاہ کرسکیں۔
# اجلاس کے دوران آئے روز دینی مدارس پر چھاپوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا او راس بات پر شدید غم وغصہ کا اظہار کیا گیا کہ بغیر کسی ثبوت واطلاع کے انتظامیہ کے اہل کار اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دینی مدارس کو مشق ستم بنا لیتے ہیں، دینی مدارس کے اساتذہ وطلبا کو ہراساں کیا جاتا ہے ، بے گناہ اہل مدارس کو گرفتار اور اغوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اس صورت حال کے تدارک کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی میں مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر اور بندہ شامل ہیں ۔ یہ کمیٹی صدرِ پاکستان، وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہان سے ملاقات کرکے ان کو اہل مدارس کی تشویش واضطراب سے بھی آگاہ کرے گی اور اس صورت حال کے ازالے کے لیے تبادلہ خیال بھی کرے گی ۔ اسی طرح مقامی سطح پر چھاپوں اور گرفتاریوں کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں مولانا قاضی عبدالرشید (راولپنڈی) مولاناپیر سیف الله خالد (لاہور) مولانا عبدالرؤف ربانی ( رحیم یار خان) مولانا مفتی کفایت الله (سرحد) ڈاکٹر سیف الرحمن (سندھ) مولانا قاری مہرالله ( کوئٹہ) شامل ہوں گے ۔ کسی بھی مدرسہ کے خلاف کارروائی کی صورت میں فوراً ضلعی مسئول اورمقامی رکن مجلس عاملہ کے نوٹس میں پوری صورت حال لائی جائے گی اوروہ مشترکہ طور پر مقامی انتظامیہ سے رابطہ اور بات چیت کریں گے اور ضرورت محسوس ہونے پر مرکزی کمیٹی کی مدد حاصل کی جائے گی۔
# اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اس وقت ملک جس سنگین اورپریشان کن صورت حال سے دو چار ہے او راس کی وجہ سے سب سے زیادہ منفی اثرات دینی مدارس پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حالات کے اس گرداب سے ملک اور قوم کو نکالنے کے لیے ملک بھر کے 12500 مدارس کے 20 لاکھ سے زائد وطلبا وطالبات کو ہدایت کی گئی کہ وہ رجوع الی الله، توبہ واستغفار اور دعاؤں کا اہتمام کریں ، اکابر کے مجرب اوراد ووظائف کا معمول بنائیں ، ختم بخاری شریف ، سورة یسٰین اور آیت کریمہ کا ورد روز مرہ کے معمولات میں شامل کریں ۔
# اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مدارس کی آزادی وخود مختاری کو ہر قیمت پر بر قراررکھا جائے گا او رکوئی بھی ایسی تجویز، جس سے مدارس کی آزادی پر حرف آتا ہو اس پر عمل درآمد سے معذرت کر لی جائے گی او رکوئی بھی ایسا منصوبہ یا سازش، جس سے مدارس کا کردار کم یا ختم ہونے کا خدشہ ہو،ا سے قطعاً قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ اس کے لیے اسناد کے معادلے یا مدارس کو متوقع کسی بھی مفاد کی قربانی دینی پڑے یا اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
# اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تمام مدارس ذرائع ابلاغ سے اپنے رابطوں مضبوط اور مربوط بنائیں اور ہر ادارہ ایسے افراد تیار کرنے پر خصوصی توجہ دے جو اردو اور انگریزی ، ذرائع ابلاغ پر نظر رکھیں، دین اسلام اور مدارس ومساجد کے خلاف چھپنے والے مضامین او ربیانات کا جواب دیں اور دین اسلام او رمدارس کی خوبیاں زبان وقلم کے ذریعے اجاگر کریں۔
#1430ھ کے سالانہ امتحانات کے موقع پر درجہ سابعہ کا امتحان آزمائشی طور پر وفاق المدارس کے زیراہتمام لیا گیا تھا۔ اس تجربے اور نتائج کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 1430ھ سے ہر سال وفاق المدارس کے زیراہتمام درجہ سابعہ کا امتحان لیا جائے گااو ردرجہ سابعہ کا امتحان پاس کیے بغیر کسی طالب علم کو اگلے درجے میں ترقی نہیں دی جائے گی، تاہم 1430ھ کے امتحان میں شریک جو طلبا درجہ سابعہ میں کامیابی حاصل نہیں کر پائے اور انہیں اگلے درجے میں ترقی دے دی گئی، انہیں رعایت دے دی جائے گی۔
# بنات کے نصاب پر غور کیا گیا اوریہ طے پایا کہ مدارس کا نصاب حسب سابق چار سال بھی ہوگا اور مزید دو سال کا اضافہ کرکے چھے سالہ نصاب کر دیا گیا، تاہم یہ اضافی دو سالہ نصاب مدارس کا صوابدیدی اختیار ہو گا، ایسی طالبات جو چھے سالہ کورس نہ پڑھ سکیں گی ان سے چار سالہ کورس کا ہی امتحان لیا جائے گا اور اس کا نفاذ شوال 1431ھ سے ہو گا۔
# مدارس سے روز بروز کوائف طلبی کے نام پراہل مدارس کو تنگ کرنے کا معاملہ بھی اجلاس میں زیر غور آیا اور اس بارے میں یہ طے پایا کہ اس مسئلے کو بھی صدر اور وزیراعظم کے سامنے اٹھایا جائے گا، تاہم اہل مدارس کو یہ ہدایت جاری کی گئی کہ ایسے کوائف جن کی وہ خود تشہیر کرتے ہیں وہ تو کسی کے مطالبہ پر بھی دے دیے جائیں۔ البتہ دیگر تفصیلی کوائف کے سلسلے میں چوں کہ دیگر مکاتب فکر کے مدارس کی نمائندہ تنظیموں کے مابین یہ بات طے شدہ ہے کہ تفصیلی کوائف کے لیے براہ راست مدارس کو پریشان نہیں کیا جائے گا، بلکہ متعلقہ وفاق کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اس لیے تمام مدارس رجسٹریشن ، وفاق سے الحاق کی سند اور دیگر قانونی اورضروری دستاویزات ہر وقت اپنے پاس موجود رکھیں ، اپنے ادارے کے بورڈ پروفاق المدارس سے الحاق کو نمایاں کرکے لکھیں اور تفصیلی کوائف کا مطالبہ کرنے والوں کو وفاق المدارس سے رجوع کرنے کا کہیں۔
# اجلاس کے دوران ملک کی عمومی صورت حال پر بھی غوروخوض ہوا اور ملک میں آئے ورز بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت او رجارحیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا او رکہا گیا کہ اس وقت پاکستان کو بچانا ہمارے فرائض میں شامل ہے، کیوں کہ پاکستان ہے تو دین او رتعلیم وتعلم کے تمام سلسلے ہیں، اس لیے وطن عزیز کے استحکام اور سا لمیت کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور ملک بھر میں استحکام پاکستان سیمینار بھی منعقد کیے جائیں گے ۔ اس وقت ملک کی خود مختاری کے تحفظ کی نہیں، بلکہ آزادی کی بحالی کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس اجلاس کے دوران یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ وفاق المدارس کے دستور اور پالیسی کے مطابق صرف مدارس سے متعلقہ امور وفاق کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو موجودہ حالات کا شرعی او رمعروضی حالات کی روشنی میں تجزیہ کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرے گی اور کسی اور دینی پلیٹ فارم پر عنقریب ایک بڑا اور نمائندہ اجتماع بلاکر موجودہ صورت حال سے نجات اور لائحہ عمل کے حوالے سے مشترکہ موقف سامنے لایاجائے گا۔
# اس اجلاس کے دوران سوئزرلینڈ میں میناروں پر پابندی ، برطانیہ میں سب سے بڑی مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ اور بالخصوص بعض ممالک میں ایک مرتبہ پھر توہین آمیز، دل آزار اور شر انگیز خاکوں کی اشاعت کی پر زور مذمت کی گئی ، اسے بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے منافی قرار دیاگیا اور اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اس وقت عالمی سطح پر ایک ایسے قانون کی موجودگی از حد ضرور ی ہے، جس میں تمام انبیائے کرام اور آسمانی کتابوں کی توہین کو قابل تعزیر جرم قرار دیاجائے اور اظہار رائے کی آزادی اور توہین کے مابین فرق واضح کیا جائے، نیز اس بات کی ضمانت دی جائے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے تہذیب وکلچر کے خاتمے اور مقدس شعائر کی بے حرمتی سے مکمل اجتناب کیا جائے گا، اس سلسلے میں پاکستان کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کرے اور اوآئی سی سے رابطہ کرکے عالمی سطح پر اس قانون کی منظوری کے لیے جدوجہد کرے۔

Flag Counter