Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

9 - 16
***
تکبیرِ اُولیٰ
مولانا محمد ساجد حسن مظاہری
﴿وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضھا السمٰوات والارض اعدت للمتقین، الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین﴾․ (آل عمران:134/133)
ترجمہ:” اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑ کر چلو ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ، جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے ، جو لوگ آسانی اور سختی کے موقع پر بھی راہ خدا میں خرچ کرتے رہتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں۔ الله تعالیٰ بھی ان نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔“
تشریح وتوضیح
آیت شریفہ میں دنیا جہان کی کامیابی کے حصول کے لیے جنت حاصل کرنے کا حکم فرمایا اور مغفرت کے حصول کی جانب توجہ دلائی … مغفرت کے معنی ہیں بچنا، بچانا، چھپانا۔
دنیا کے غلط معاشرہ کے شر سے بچنا بھی مغفرت ہے او راخروی ناکامی ونامرادی سے بچنا بھی مغفرت ہے ، اعمال صالحہ کے بغیر نہ یہ حاصل ہوتی ہے او رنہ وہ ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ جلدی جلدی ، دوڑ دوڑ کر ایسے اعمال کرو، جن کا نتیجہ اس دنیا کی زندگی میں خطرات سے بچاؤ ہو اور اخروی زندگی میں کامیابی اور مغفرت کا سبب بنے۔ ”وسارعوا الی مایوجب مغفرة من ربکم“․ ( فتح القدیر:490/1)
یہاں اسبابِ مغفرت کے بارے میں مفسرین نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں ، کسی نے اسلام،کسی نے اخلاص ، کسی نے ہجرت ، کسی نے جہاد ، کسی نے توبہ، کسی نے فرائض نماز۔
نتیجہ تمام اقوال کا ایک ہی ہے کہ ایسے عقائد ، اعمال صالحہ ، اخلاق فاضلہ اختیار کیے جائیں جن سے گناہوں کی مغفرت ، دوزخ سے رہائی اور سایہٴ رحمت میں پہنچنے کا استحقاق ہو جائے۔
لیکن حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ اور سعید بن جبیر نے اس کی تفسیر نماز کی تکبیر اولی سے کی ہے کہ مغفرت کے قوی اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے ، اب مطلب یہ ہوا کہ تکبیراولیٰ کا اہتمام کرو۔ ( تفسیر کبیر:364/3)
تکبیراولیٰ کا مصداق
جو پہلی رکعت میں شامل ہو گیا اس کو تکبیر اولیٰ کا ثواب مل جاتا ہے۔”اما فضیلة تکیبر الافتتاح فتکلموا فی وقت ادراکھا، والصحیح ان من ادرک الرکعة الأولی فقد ادرک فضیلة تکبیرة الافتتاح، کذا فی الحصر فی باب أبو یوسف“․ (فتاوی ہندیہ:76/1 طبع بیروت)
سورة فاتحہ کے اختتام پر جو آمین کہی جاتی ہے اس میں شرکت سے بھی تکبیر اولیٰ کا ثواب مل جاتا ہے ۔
امام کی قرأت شروع ہونے سے پہلے پہلے نماز میں شریک ہو جائے تو تکبیر اولیٰ میں شمار ہو گا۔
تکبیر اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ امام جب پہلی مرتبہ الله اکبر کہہ کر نماز شروع کرے تو مقتدی بھی اس وقت نماز میں شریک ہو جائے۔
البتہ حضرات علمائے کرام کے تعامل سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے اوراسی کے لیے وہ بھاگ دوڑ بھی کرتے تھے۔
تکبیر اولیٰ کی فضیلت
قبیلہ طی کے ایک شخص نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالله بن مسعود مسجد کی طرف نکلے تو تیزی سے چلنے لگے ( دوڑنے لگے) ان سے کہا گیا کہ آپ خود یہ کام کر رہے ہیں حالاں کہ آپ تو اس سے خود منع فرماتے ہیں ؟ فرمایا کہ : میں نے نماز کی حد یعنی تکبیر اولیٰ کے لیے جلدی کی ہے۔
”ان ابن مسعود خرج الی المسجد فجعل یھرول فقیل لہ: اتفعل ھذا وانت تنھیٰ عنہ؟ قال: انما بادرت حد الصلوة: التکبیرة الاولیٰ“․ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر:925/294/9)
جہنم سے برأت
ابوکاہل نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ : جو شخص چالیس دن اور چالیس رات جماعت کے ساتھ تکبیر اولیٰ کو پاتے ہوئے نماز پڑھے تو الله پر حق ہے کہ اس کے لیے جہنم سے برأت لکھ دے۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر:928/962/18)
حضرت عمر بن الخطاب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ: جو شخص مسجد میں جماعت کے ساتھ چالیس رات نماز پڑھے اور اس سے نماز عشاء کی پہلی رکعت نہ چھوٹے تو الله تعالیٰ اس کے لیے اس کی وجہ سے جہنم سے آزادی لکھ دیتے ہیں۔ (رواہ ابن ماجہ:58)
نفاق سے بھی برأت
حضرت انس حضور صلی الله علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ : ” جس شخص نے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کی ، الله تعالیٰ اس کے لیے دو قسم کی برأت لکھ دیتے ہیں جہنم سے برأت (آزادی) نفاق سے برأت۔ (ترمذی عن انس فی الصلاة، فضل التکبیرة الاولیٰ:33/1)
کسی بھی چیز کے دو جز اور حصے ہوا کرتے ہیں ۔ ظاہر،باطن۔
ایک چھلکا، ایک اندر کا مغز او رجوہر، اندر کا مغز ہی اصل،قیمتی اور خلاصہ ہوا کرتا ہے اور نماز کا خلاصہ اور قیمتی جوہر تکبیر اولیٰ ہے۔
تکبیر اولیٰ خلاصہ نماز ہے
حضرت عبدالله بن عوفی سے روایت ہے کہ ہر چیز کا ایک خلاصہ ہوا کرتا ہے او رایمان کا خلاصہ نماز ہے اور نماز کا خلاصہ تکبیر اولیٰ ہے۔ (عن ابی ہریرة عنہ فی الکامل لابن عدی:174/3)
تکبیر اولیٰ کا ثواب ہزار اونٹ کی قربانی سے بھی زیادہ ہے
نماز کی نماز اور قربانی کی قربانی ، کیوں کہ ایک روایت میں وارد ہے کہ امام کے ساتھ تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنا ایک ہزار اونٹ راہ خدا میں صدقہ کرنے سے زیادہ افضل ہے ۔ ”التکبیرة الاولی یدرکھا الرجل مع الامام خیر لہ من الف بدنة“․ ( کنز العمال:169/9، رقم19649)
کسی چیز کی فضیلت بیان کرکے اس کی رغبت پیدا کرنا اور عمل پر آمادہ کرنا ہوتا ہے ، مگر تاکید کے لیے صراحتاً اس کا حکم دیا جاتا ہے، ذیل کی حدیث شریف میں تکبیر اولیٰ کی محافظت او رپابندی کا صراحتاً حکم دیا جارہا ہے۔
تکبیر اولیٰ کی پابندی کا حکم
ابن ابی شیبہ نے مصنف میں حضرت ابوالدرداء کی حدیث سے مرفرعاً نقل کیا ہے کہ بلاشبہ ہر چیز کی ایک ابتدا ہے اور نماز کی ابتدا تکبیر اولیٰ ہے لہٰذا تم لوگ تکبیر اولیٰ کی پابندی کرو۔ (تلخیص الحبیر:522/2)
کثیر ثواب اور تکبیر اولیٰ کی اہمیت اور فضیلت کے پیش نظر اکابر واسلاف کے یہاں ا مراض واعذار، حوادث ومصائب کے باوجود برسہا برس تک اس کا خوب اہتمام رہا ہے۔
واقعہ
قاضی محمد ابن سماعہ، جو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہ الله علیہ کے شاگرد تھے، فرماتے ہیں کہ چالیس سال تک میری تکبیر اولیٰ کبھی فوت نہیں ہوئی۔ یعنی برابر جماعت میں شریک ہوتا رہا ، صرف ایک دن جب میری والدہ ماجدہ فوت ہو گئیں تو جماعت نہ مل سکی ، خیال آیا کہ حدیث میں ہے کہ جماعت کی نماز تنہا نماز پڑھنے سے 27 درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں نے ایک نماز کو 27 دفعہ پڑھاتاکہ خسارہ پورا ہو جائے ، اس کے بعد نیند آگئی اور سو گیا۔ اسی حالت میں ایک کہنے والے نے کہا کہ اے محمد! تم نے ستائیس دفعہ نماز پڑھ لی ، مگر فرشتوں کی آمین کا کیا ہو گا ۔ یعنی سورہ فاتحہ کے اختتام پر امام آمین کہتا ہے تو اس پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، مگر منفرد اور تنہا آدمی کی آمین پر فرشتوں کی آمین نہیں ہوتی اس کی طرف اشارہ ہے۔
تکبیر اولیٰ فوت ہونے پر افسوس
تذکرہ الرشید میں لکھا ہے کہ دیوبند کے جلسہ دستار بندی میں جب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب  تشریف لائے تو غالباً عصر کی نماز میں ایسا اتفاق پیش آیا کہ مولانا محمد یعقوب صاحب نماز پڑھانے کے لیے مصلیٰ پر جاکر کھڑے ہو گئے ، مخلوق کے اژدہام اور مصافحہ کی کثرت کے باعث، باجود عجلت کے، جس وقت آپ جماعت میں شریک ہوئے تو قرأت شروع ہوچکی تھی، سلام پھیرنے کے بعد دیکھاگیا تو آپ اُداس تھے اور چہرہ پر اضمحلال برس رہا تھا اور آپ رنج کے ساتھ یہ الفاظ فرماتے تھے ، کہ افسوس! بائیس برس کے بعد آج تکبیر اولیٰ فوت ہو گئی۔
تکبیر اولیٰ کے اہتمام کی تاکید
حضرتسید احمد بریلوی صاحب نے شادی کی، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نماز میں کچھ دیر سے آئے، مولانا عبدالحئی صاحب نے سکوت کیا کہ شاید نئی شادی کی وجہ سے اتفاقیہ کچھ دیر ہو گئی ہو گی، اگلے دن پھر ویسا ہی ہوا، کہ سید صاحب کو اتنی دیر ہوئی کہ تکبیر اولیٰ ہو چکی تھی ، مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی نے سلام پھیرنے کے بعد کہا کہ: عبادت الہٰی ہو گی یا شادی کی عشرت؟ سید صاحب چپ رہے اور اپنی غلطی کا اقرار کیا اور پھر وقت سے پہلے نماز کے لیے معمول کے مطابق تشریف لانے لگے۔ ( ارواح ثلاثہ:144)
تکبیر اولیٰ میں شرکت خوش قسمتی کی بات ہے، مگر جن ازلی سعید،روحوں پر نماز او رمناجات کا غلبہ ہوتا ہے وہ نماز، تو نماز اذان سے بھی پہلے مسجد میں حاضری کا اہتمام کرتے ہیں ، متقدمین میں سے نہیں متاخرین میں سے، بہت دور کے نہیں بالکل قریب کے ، ان بزرگ کا معمول بھی ہمارے لیے شاہراہ عمل ہے۔
آثار ونشاں سب قائم ہیں
نواسہٴ حضرت شیخ قدس سرہ واستاذ مدرسہ مظاہر علوم مولانا محمد جعفر صاحب کی روایت کے مطابق قطب عالم حضرت شیخ مولانا زکریا صاحب نورالله مرقدہ کا معمول مبارک نماز کے لیے مسجد میں اذان سے پہلے حاضری کا تھا، بالخصوص مدینہ منورہ کے زمانہ قیام میں ، اخیر عمر میں حضرت چوں کہ معذور ہو گئے تھے، از خود تیاری نہیں کرسکتے تھے، اس لیے خادم تیاری کراتا تھا ،ایک دن تیاری کرانے میں خادم کو اتنی تاخیر ہو گئی کہ مسجد نبوی میں اذان شروع ہو گئی ، طبیعت مبارک پر بہت اثر ہوا، روتے ہوئے فرمایا: جامیرے یار! اتنی دیر کر دی کہ وقت ہی ختم ہو گیا۔
خواص اور علماء توفنا فی الله ہوتے ہیں، مگر قدیم زمانہ کے امرا وزرا اور بادشاہ بھی حضرات علمائے کرام اور اولیائے عظام سے مخالطت، ان کی صحبت، ان کی خدمت ، ان سے عقیدت کی بدولت اسی رنگ میں رنگے نظرآتے ہیں، ذیل کا واقعہ بھی چشم بینا کے لیے نمونہٴ عبرت ہے۔ فھل من مدکر․
شمس الدین التمش کا واقعہ
حضرت قطب الدین بختیار کاکی  کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا،جنازہ تیار ہوا ، نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے ایک بڑے میدان میں جنازہ لایا گیا، بے شمار مخلوق جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی، حد نگاہ تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا نسانوں کا ایک سمندر نظر آتا تھا،جب نماز جنازہ پڑھانے کا وقت آیا، ایک آدمی آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ : میں وصی ہوں، مجھے حضرت نے وصیت کی تھی، اس مجمع تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں، مجمع خاموش ہو گیا، کہنے لگا کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے یہ وصیت کی ہے کہ میرا جنازوہ شخص پڑھائے، جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔
پہلی خوبی یہ کہ زندگی میں اس کی کبھی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوئی ہو۔
دوسری یہ کہ اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
تیسری یہ کہ اس نے غیر محرم پر کبھی بھی نظر نہ ڈالی ہو۔
چوتھی یہ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔
جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے… جب یہ بات کہی گئی تو پورے مجمع پر سناٹا چھا گیا ، کون ہے جو قدم آگے بڑھائے؟ اسی درمیان میں ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا، حضرت قطب الدین بختیارکاکی  کے جنازہ کے قریب آیا،جنازہ سے چادر ہٹائی اور کہا: آپ تو فوت ہوگئے، مجھے رسوا کر دیا او رمجمع کے سامنے الله کو حاضر وناظر جان کر قسم کھائی کہ : الحمدلله! میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ شخص وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھا۔ (تاریخ ہند:ص34)
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
پیغام
آدمی کے نزدیک جس چیز کی قدر وقیمت ہوتی ہے وہ اسی میں مشغول، منہمک او راسی کے تانے بانے بننے میں لگا رہتا ہے ، تمام بھاگ دوڑ اسی کے لیے ہوتی ہے ، کدوکاوش کے بعد اگر وہ چیز حاصل ہوتی ہے تو اس کے ملنے سے مسرت وخوشی ہوتی ہے اور اس کے فوت ہونے ، نہ ملنے سے رنج وغم ہوتا ہے، ہمارے نزدیک چوں کہ دنیا اور اس کا سازوسامان بہت کچھ ہے ، اس لیے ہماری خوشی وغمی کا محور بھی وہی ہے، اس کے ملنے سے خوشی اور ا س کے نہ ملنے سے غم ہوتا ہے او رہمارے اکابر واسلاف کے نزدیک چوں کہ دین اور دینیات، آخرت او راخروی اعمال سب کچھ تھے اس لیے ان کی خوشی اور غمی کا معیار ومحور بھی یہی تھا… اعمال صالحہ، اخلاق فاضلہ اختیار کرکے ان کو خوشی ہوتی اورادو وظائف، اشغال واعمال ترک ہونے سے ان کو رنج ہوتا۔ ہماری توجماعت فوت ہو جائے یا نماز ہی جاتی رہے تو ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا اور ہمارے بڑوں کا حال یہ تھا کہ اگر ایک وقت کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی تو تین دن تک اس کا رنج رہتا او راگر جماعت فوت ہو جاتی تو سات دن تک غمزدہ رہتے۔
”روی أن السلف کانوا یعزون انفسھم ثلاثة ایام اذا فاتتھم التکبیرة الاولی ویعزون سبعا اذا فاتتھم الجماعة․“ ( احیاء العلوم:135/1 ،باب فضیلة الجماعة)
ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا

Flag Counter