Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

16 - 16
***
اہلِ سنت و الجماعت کے متفقہ اصول العقائد
مولانا حذیفہ وستانوی
تمہید
مسلمان کے لئے عقائد کا جاننا لازم ،ضروری اور فرض عین ہے، اس لیے کہ آخرت کی کامیابی کا مداراسی پرہے اور اسلام کی پوری عمارت عقائد ہی کی بنیادوں پر قائم ہوئی ہے اور بنیاد جتنی مضبوط ہوتی ہے عمارت اتنی زیادہ مستحکم اور پائیدار رہتی ہے ، اگر عقیدہ میں پختگی ہو تو اعمال کی بجا آوری آسان ہوجاتی ہے ، مگراس وقت امت میں سب سے بڑی کمی اور نقص یہی ہے کہ امت کا بڑاطبقہ عقائد سے بالکل نا بلدونا آشنا ہے ، بلکہ مغربی کلچر ، تہذیب وتمدن اور گھناؤنی سازشوں کی وجہ سے عقائد کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہے ،اسی وجہ سے اسلامی تقاضوں پرعمل درآمدمیں بہت پیچھے ہے ،آج نوے فیصدسے زائد مسلمان ایسے ہیں جو اسلامی مطالبات سے کوں سو دور ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں اور یہی ہماری نا کامی ، اور ذلت کی اصل وجہ ہے ۔حضرت عمر فرمایاکرتے تھے”اے لوگو! ہمیں اللہ نے اسلام کی برکت سے عزت دی ا،گر ہم اسے چھوڑ کر کسی اور راستے سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو کبھی بھی ہمیں عزت نہیں ملنے والی ۔“ لہٰذا ہمیں عقائد کی فکر اپنے بارے میں اور اپنی اولاد کے بارے میں کرنے کی ضرورت ہے ۔عقائد سے متعلق حکیم الامت، مجددِ ملت حضرت تھانوی کے چند انتہائی کارآمد اورمفید ملفوظات پیش خدمت ہیں۔
عقائد کا اثر 
حضرت تھانوی نے فرمایا: عقائد کا اثر اعمال پر بھی پڑتا ہے، اس لیے عقائد سے یہ اثر بھی مقصود ہے ، مثلاً مسئلہ توحید میں ایک محقق نے اس اثر کو ظاہر کیا ہے #
موٴحد چہ برپائے ریزی زرش
چہ فولاد ہندی نہی بر سرش
امید و ہراسش نباشد زکس
ہمیں است بنیاد توحید و بس
اس کی تائید آیت سے بھی ہوتی ہے ، چناں چہ سورہٴ حدید میں تعلیم مسئلہ قدرکے بعد اس کی ایک غایت اس طرح ارشاد فرمائی ہے﴿لکی لا تأسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتاکم﴾(سورہٴ حدید،آیت23)،کیوں کہ یہاں کوئی نہ کوئی عامل ضرور مقدر ہوگااور وہ جو ماقبل کے مناسب ہواور وہ اَخْبِرْ ہے یعنی ”اخبر عن ہذہ المسألة لکی لا تاسوا الخ“تو اس بنا پر تقدیر کے عقیدہ کا یہ اثر ثابت ہوا کہ اس سے غم ہلکا ہوجاتا ہے، اسی طرح ہر عقیدے کا کسی نہ کسی عمل پر ایک خاص اثر پڑتا ہے جو غورسے معلوم ہوسکتاہے۔اصلاح عقائد کے لیے قرآن کریم نے جابجاآیتیں پیش کی ہیں۔ (سورہٴ انعام ،سورہٴ اعراف اور تمام مکی سورتیں عقائد ہی سے متعلق ہے)
(الکلام الحسن:ج1ص40)
اصلاح عقائد سب سے زیادہ ضروری ہے
تصوف میں جب اصلاح اعمال ضروری ہے تو اصلاح عقائد تو اور بھی اہم ہوگا، مگر آج کل اصلاح احوال تو کرتے ہیں مگر اصلاح عقائد واعمال کی کچھ پروا نہیں۔(الکلام الحسن ص158,157)
عقیدوں کی عملی غایت
عقیدہٴ تقدیرکو اصلاح اعمال میں بڑا دخل ہے، کیوں کہ اس سے حزن وبطررفع ہوجاتاہے اور حزن جڑ ہے تعطل کی اور تکبر وبطر جڑہے تعطل باطن کی۔ یعنی پریشان اور غمگین آدمی ظاہر میں تمام دین ودنیا کے کاموں سے معطل ہوجاتاہے۔اور متکبر آدمی کا دل خدا کے تعلق سے معطل ہوجاتاہے، جب تک تکبر نہ نکلے خدا کے ساتھ دل کا لگاوٴ نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح عقیدہ توحید سے مخلوق کا خوف وطمع رخصت ہوجاتاہے۔اسی طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کے اعتقاد کو آپ کے اتباع میں دخل ہے ۔بس عقائد جس طرح مقصود بالذات ہیں، اسی طرح مقصود بالاعمال بھی ہیں۔(انفاس عیسیٰ 349)
عقائد کی غلطیاں
آج کل عقائد کے باب میں دو قسم کی غلطیاں واقع ہورہی ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو عقائد کو ضروری سمجھتے ہیں، مگرضرورت کو اسی میں منحصر کرتے ہیں یعنی اعمال کی ضرورت نہیں، چنانچہ عام طورپر یہ عقیدہ ہے کہ جو توحید ورسالت کا قائل ہو اور ”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کا معتقد ہو بس وہ جنتی ہے۔اب اسے کسی عمل کی ضرورت نہیں۔
پھربعض نے اور انتخاب کیا ہے کہ ایمان کا بھی اختصار کرلیا، کیوں کہ ایمان کی حقیقت تو یہ ہے۔
التصدیق بما جاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبریں دی ہیں کہ اللہ واحد ہے۔ قیامت آنے والی ہے، وزن حق ہے، حساب کتاب حق ہے، دوذخ جنت حق ہے، تقدیر کا مسئلہ حق ہے،فرشتوں کا وجود حق، پل صراط پر چلنا حق ہے، نماز کی فرضیت حق ہے، زکوٰة اور روزہ و حج سب کی فرضیت حق ہے۔ کیوں کہ اطاعت گو اعمال ہیں، مگر ان کی فرضیت کا اقرار کرناایمان میں داخل ہے، یعنی ایک تو نماز کاپڑھنا ہے اور روزہ رکھنا، زکوٰة دینا، حج کرنا یہ تو عمل ہے اور ایک ان کی فرضیت کا اعتقاد رکھنا یہ ایمان کا جزو ہے۔بدون اس اعتقادفرضیت کے ایمان کا تحقق نہیں ہو سکتا۔
تو ایمان نام تھا ان سب چیزوں کی تصدیق کا، مگر آج کل لوگوں نے اس میں بھی انتخاب کرلیا ہے۔بعضے وزن اعمال کو ضرو ری سمجھتے․․․․․ بعضے پل صراط کی تصدیق کو ایمان میں داخل سمجھتے۔ کوئی تقدیر کے مسئلہ کا انکار کرتا ہے، وعلی ہذا۔ اور پھر بھی وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
تھوڑے دنوں پہلے یہ حالت تھی کہ ان عقائد میں کسی کو اختلاف نہ تھا ،گو فروع میں اختلاف تھا ،کیونکہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو ایسے امور میں جن ہیں اختلاف کی گنجائش ہے۔ یہ تو فروع ظنیہ میں ہوتاہے، جیسا کہ مجتہدین میں اختلاف ہوا ہے یا ان کے بعد ان کے اَتباع میں ہو ا ہے۔ یہ تو سب اعمال کے درجہ میں اختلاف ہوا ہے، عقائد میں کسی کو اختلاف نہ تھا۔ اور اگر عقائد میں بھی کسی نے اختلاف کیا ہے تو وہ عقائد مہمہ مقصودہ میں نہ تھا ،بلکہ عقائد مہمہ کی فروع میں تھا۔مگر کچھ دنوں سے ایک ایسا اختلاف پیدا ہوا ہے، جس کے ذکرکرنے کو بھی جی نہیں چاہتا، یعنی اب ان امور میں بھی اختلاف ہو نے لگا ہے جن میں کچھ دن پہلے شبہ بھی نہ تھا، مگر اس وقت اس نئی تعلیم کی بدولت بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ علم دین نہ ہو نے یا دین سے محبت اور علماء کی صحبت نہ ہو نے کی بدولت عقائد مہمہ میں بھی اختلاف ہو نے لگا۔ (الدین الخالص، ص 7 تا 8، ملحقہ مواعظ دین ودنیا)
اختصارعقائد
بعض لوگوں نے اتّباع عقل سے عقائد میں اتنا اختصار کرلیا ہے کہ وہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کے اعتقاد ہی کو ایمان کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔بقیہ معادیات کی تصدیق کو ایمان کے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔اوربعض نے یہ غضب کیا کہ محمد رسول اللہ کو بھی اڑادیا۔کیوں کہ حدیث میں تو اتناہی آیا ہے کہ ”من قال لا الہ اللہ دخل الجنة“اس میں محمد رسول اللہ کی قیدکہاں ہے؟چناں چہ انہوں نے کہہ دیا کہ جو شخص موٴحدہو، خواہ کسی مذہب کا ہو اور گورسالت محمدیہ کا منکر ہو وہ جنتی اور ناجی ہے، میں اس وقت ان لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا، مگر ان کے استدلال پر مجھے ایک حکایت یادآگئی۔
رامپور میں مجھ سے کسی طالب علم نے کسی ضرورت کے لیے وظیفہ پوچھا ،میں نے کہہ دیا کہ ”لا حول“ کثر ت سے پڑھا کرو۔ کچھ دنوں کے بعد وہ پھرملے اور کہنے لگے کہ میں وظیفہ پڑھتا ہوں، مگر نفع نہیں ہوا۔میں نے ویسے ہی اتفاقاً پوچھ لیا کہ تم نے کیا پڑھا تھا؟ توآپ کہتے ہیں کہ اسی طرح لا حول، لاحول، لاحول۔ میں نے کہا کہ تمہارے اس لاحول پر بھی لاحول۔تو اگراس طالب علم کا یہ سمجھنا صحیح تھا تو ان لوگوں کی دلیل بھی صحیح ہوسکتی ہے، مگر کون نہیں جانتا کہ لا حول ایک پوری دعا کا پتہ ہے یعنی ”لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم“کا ۔جیسے بسم اللہ ایک پوری آیت کا پتہ ہے اورالحمد پوری سورت کا ۔اسی طرح قل ہو اللہ احد۔اوریسٰین پوری پوری سورت کا پتہ ہے۔اورالٰمٓ ایک پورے سیپارہ کا پتہ ہے۔
پس اگر ہم کسی سے یہ کہیں کہ نماز میں الحمد پڑھنا واجب ہے اور یسٰینکا ثواب دس قرآن کے برابر ہے اور اس کا یہ مطلب سمجھے کہ صرف لفظ الحمد نماز میں واجب ہے اور اتناہی کافی ہے اور محض یسٰین کہنے کا ثواب دس قرآن کے برابرہے تو بتلائیے وہ احمق ہے یا نہیں؟اور کیا ہرشخص یہ نہ کہے گا کہ بے وقوف یہ لفظ ، پتہ کے طورپرتھا۔اور اس سے مرادپوری سورت ہے، اسی طرح حدیث میں لا الہ الا اللہ پورے کلمہ کا پتہ ہے اورمطلب حدیث کا یہ ہے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے وہ جنتی ہے۔
محض قلب کی درستی کافی نہیں
بعض لوگوں کاعقیدہ ہے کہ فقط قلب کا درست کرلیناکافیہے، یہ لوگ شریعت کو منہدم بلکہ منعدم کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ تمام شریعت بھری ہوئی ہے اصلاح ظاہر اور باطن سے اور تصوف کی حقیقت بھی یہی ہے کہ تعمیرالظاہر والباطن۔(الصلوة،ص21)
ایمان کے شعبے
جانناچاہیے کہ قرآن مجید کی آیت مبارکہ:﴿ضرب اللہ مثلاً کلمة طیبة اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء﴾․(سورہ ابراہیم :24)
(ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کیسی مثال بیان فرمائی کلمہ طیبہ کی، وہ مشابہ ہے ایک پاکیزہ درخت کے، جس کی جڑ خوب گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں اونچائی میں جارہی ہیں۔)سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں کچھ اصول اور کچھ فروع ہیں اور حدیث مبارکہ میں ستر سے کچھ زائد شعبے ارشاد فرمائے گئے، جن میں افضل کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ اورادنیٰ ، راستہ سے کانٹا ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے، یعنی یہ اوسط درجہ ہے۔(مسلم:62ج1) 
واضح ہو کہ یہ شعبے تیس قلب سے متعلق ہیں اور سات زبان سے اورباقی جوارح کے ساتھ چالیس، مجموعہ حسب تعداد محققین ستترہوا، جن کی تفصیل یہ ہے ۔
شعب ایمان جو قلب سے متعلق ہیں، وہ تیس ہیں
ایمان لانا اللہ تعالیٰ پر۔یہ اعتقاد رکھنا کہ ماسوا اللہ تعالیٰ کے حادث اور مخلوق ہے۔ایمان لانافرشتوں پر۔ایمان لانا اس کی سب کتابوں پر۔ ایمان لانا پیغمبروں پر۔ایمان لانا تقدیرپر۔ایمان لانا قیامت کے دن پر۔جنت کایقین کرنا۔دوزخ کا یقین کرنا۔محبت رکھنااللہ تعالیٰ سے۔محبت کرنا کسی سے اللہ تعالیٰ کے واسطے۔اوربغض کرنا اللہ تعالیٰ کے واسطے۔محبت رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔اخلاص ،توبہ، خوف، رجا، حیاء، شکر، وفاکرنا،عہد پوراکرنا،صبر، تواضع، رحمت وشفقت مخلوق پر، راضی ہونا قضائے الہٰی پر، توکل کرنا، ترک کرناخودپسندی کا،ترک کرنا کینہ کا، ترک کرنا حسد کا، ترک کرنا غصہ کا، ترک کرنا بدخواہی کا، ترک کرنا حُب دنیا کا۔
شعب ایمان جو زبان سے متعلق ہیں اور وہ سات ہیں
کلمہ توحید کا پڑھنا ،قرآن مجید کی تلاوت، علم سیکھنا، علم سکھلانا،دعاکرنا، ذکرکرنا، لغو اور منع کلام سے بچنا۔
ان شعبوں کے بیان میں جوباقی جوارح سے متعلق ہیں اوروہ چالیس شعبے ہیں 
سولہ تو مکلف کی ذات خاص سے متعلق ہیں:۔
طہارت حاصل کرنا، اس میں بدن،جامہ،مکان کی طہارت، وضوکرنا، غسل کرنا، جنابت سے، حیض سے، نفاس سے سب کچھ داخل ہوگیا۔نماز قائم کرنا اس میں فرض ونفل وقضا سب آگیا۔صدقہ،اس میں زکوٰة، صدقہ فطر، طعام جود، طعام اکرام مہمان سب داخل ہے۔روزہ، فرض ونفل، حج وعمرہ، اعتکاف، شب قدر کا تلاش کرنا اس میں آگیا۔اپنے دین کو بچانے کے لیے کہیں بھاگ نکلنا اس میں ہجرت بھی آگئی۔نذرپوری کرنا،قسم کا خیال رکھنا، کفارہ اداکرنا،بدن چھپانا نماز اور غیر نماز میں، قربانی کرنا، جنازہ کی تجہیز وتدفین،قرض اداکرنا، معاملات میں راست بازی کرنا اور غیرمشروع معاملات سے بچنا، سچی گواہی اداکرنا اور اس کو پوشیدہ نہ کرنا۔
چھ اپنے اہل وتوابع سے متعلق ہیں
نکاح سے عفت حاصل کرنا، اہل وعیال کے حقوق اداکرنا، اس میں غلام ، نوکر، خدمت گزارسے نرمی ولطف کرنا بھی آگیا، والدین کی خدمت کرنا اور ان کو ایذانہ دینا، اولاد کی پرورش کرنا، ناتے داروں سے سلوک کرنا، آقاکی اطاعت کرنا۔
اوراٹھارہ عام لوگوں سے متعلق ہیں:۔
حکومت میں عدل کرنا،مسلمانوں کی جماعت کی اطاعت کرناحکام کی اطاعت کرنا، لوگوں میں اصلاح کردینا، اس میں خوارج اور باغیوں کے ساتھ قتال کرنا بھی داخل ہے، کیوں کہ فساد کا دفع کرنا اصلاح کا سبب ہوتاہے، نیک کام میں مدد دینا۔
نیک بات بتلانا، بری بات سے منع کرنا،حدودکاقائم کرنا، جہاد کرنا، اس میں سرحد کی حفاظت بھی آگئی ،امانت اداکرنا،اس میں خمس نکالنا بھی آگیا، قرض دینا کسی حاجت مند کو، پڑوسی کی خاطر داری کرنا، خوش معاملگی، مال کو اس کے موقع میں صرف کرنا، اس میں فضول خرچی سے بچنا بھی آگیا، سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کو جواب دینا، یعنی جب الحمد للہ کہی تو جواب میں یرحمک اللہ کہنا، لوگوں کو ضرر نہ پہنچانا،لہووباطل سے بچنا، ایذادینے والی چیز جیسے کانٹا،ڈھیلہ راہ سے ایک طرف کردینا۔16وہ اور18کا مجموعہ چالیس ہوا۔(فروع الایمان، مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور، کراچی،ص،10،11،69،92،93)
حضرت تھانوی کے ملفوظات سے عقائد سے متعلق ضروری باتوں کو ذکر دیا گیا، جسسے عقائد کی اہمیت کا انداز ہو جانا چاہیے ۔ عوام کے ضروری معتقدات امام غزالی اپنی مایہ ناز تصنیف قواعد العقائد میں تحریر فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اور عوام الناس کے لیے عقائد کے باب میں سات امور کا اعتقاد لازم ہے ۔
التقدیس ، التصدیق، الاعتراف ، السکوت، الامساک ، الکف اور التسلیم ۔
تقدیس کی تعریف
تقدیس کا مطلب اللہ کی ذات کو جسم اوراس جیسے اوصاف سے پاک صاف تصور کرنا، یعنی وہ کسی بھی چیز کا محتاج نہیں۔
تصدیق کی تعریف
ان تمام چیزوں کی بلا چوں وچرا تصدیق کرنا جو امور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور ان تمام امور کو برحق گرداننا۔
اعتراف کی تعریف
یعنی اللہ کی ہر مرادکو انسان نہیں جان سکتا، کیوں کہ وہ عاجز ہے اور اس میں اتنی طاقت نہیں ہے اور اس پر حکمتوں کا جاننا ضروری نہیں ہے۔
سکوت کی تعریف
متشابہات پر خاموشی اختیار کرے اور اس کے معانی کی جستجوبھی نہ کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ متشابہات کے بارے میں سوالات کرنا بدعت ہے،ورنہ بھٹک جانے کا امکان ہے۔
امساک کی تعریف
اللہ کے بارے میں وارد صفات میں کسی بھی طرح تاویل اور تبدیلی سے پرہیز کرے اور قرآن وحدیث میں وارد متشابہات پر اپنے تئیں سمجھ کر اس کی مراد کی تعین کرنے سے باز رہے۔
الکف کی تعریف
اللہ کی ذات کی بارے میں زیادہ عقلی اعتبارسے غوروفکر نہ کرے۔
التسلیم کی تعریف
اسلامی عقائد کے بارے میں تسلیم ورضا کا طریقہ اختیار کرے، اگرکوئی عقیدہ سمجھ میں نہ بھی آئے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کردے کہ یہ عقیدہ تو بالکل درست ہے ،البتہ اللہ اور اس کے رسول اسے خوب اچھی طرح جانتے ہیں، ہاں! مگرمیری سمجھ کا قصور ہے کہ سمجھ نہیں پارہاہوں۔
اما م غزالی فرماتے ہیں کہ عقائد کے بارے میں عوام کے لیے ان امور کا اعتقاد رکھنا لازم ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ یا آپ کے عمل سے ثابت تمام باتوں پر ایمان رکھنا مومن ہونے کے لیے ضروری ہے اورایمان ویقین بھی ایسا کہ اس میں شک وشبہ کا ذرہ برابر دور دور تک کوئی اتاپتہ نہ ہو ،بالکل ہر بات پر مکمل یقین جازم ہو۔
قواعد العقائد کے محقق موسیٰ محمد علی تحریر فرماتے ہیں کہ کلمہ شہادت ”اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمداً رسول اللہ “کے بارے میں حدیث میں آتا ہے جو اسے اداکرے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔(المعجم الکبیر ص:49ج:2)اگرچہ اس کا مطلب صرف زبان پر ادا کرنا نہیں، بلکہ اس کے تقاضوں کو بجا لاناضروری ہے، کلمہ شہادت کے دو جز ہیں، ایک اشہد ان لا الہ الا اللہ اور دوسر ا اشہد ان محمد رسول اللہ، پہلے جزو کے تحت پچاس50/ عقائد آتے ہیں اور دوسرے جزو کے تحت تیرہ13/ عقائد آتے ہیں گویا کلمہٴ شہادت کے یہ دو اجزاء 63 /عقائدکوشامل ہیں۔(قواعد العقائد : ص 36) 
توحید کے اقسام ِثلثہ
اسلام وایمان کی اساس توحید ِخالص ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ توحید ِربوبیت اورتوحیدفی العبادةاورتوحید فی الصفات میں توحید کا عقیدہ رکھنا یہ اصل الاصول ہے ۔
توحید ربوبیت کا مطلب اللہ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ دنیا کی ہر چیز کا مالک حقیقی اور پالنہار صرف اور صرف اللہ ہی ہے، اسی نے ہر چیز کو پیدا کیااور وہی روزی روٹی کا مالک ہے، وہی زندگی اور موت دینے والا، وہی نفع اور نقصان کا ما لک ہے صرف وہی دعاوٴں کو قبول کرنے والا ہے، کائنات میں متصرف ِحقیقی بھی وہی ہے، وہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے، اس کا کوئی ساجھی وشریک نہیں اور وہی تقدیر کا بھی مالک ہے ۔(کتاب الاصول :15 ج:1)
اور صرف توحید کے لیے اتنے پر اکتفا کافی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ توحیدالوہیت پرایمان کا ہونا بھی ضروری ہے اگر توحید الوہیت پر ایمان نہ ہوتو وہ بھی مومن نہیں ہوسکتا، ورنہ اہل مکہ تو توحید ربوبیت کے قائل تھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ﴿ولئن سألتہم من خلقہم لیقولن اللہ﴾ (سورة زخرف :آیت 97) کہ وہ اللہ کو خالق مانتے ہیں وہ اللہ کو بارش برسانے والا جانتے ہیں (سورة عنکبوت آیت: 63) وہ اللہ کو رازق مالک ․․․․ جانتے ہیں (سورة نمل آیت: 62)، مگر اس کے باوجود ان کو مسلمان نہیں کہا گیا ،بلکہ قرآن نے کہا ﴿ومایو من أکثرہم باللہ إلا وہم مشرکون﴾ (سورة یوسف آیت: 106) ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ وہ مشرک ہی ہیں ۔تو صرف توحید ربوبیت بھی مسلمان اور مومن ہونے کے لیے کافی نہیں، بلکہ توحید الوہیت بھی ضروری ہے۔(دلیل:قال اللہ تعالیٰ: ﴿یاایہا الناس اعبدو اربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾․(سورة البقرة آیة:21)
توحید الوہیت کہتے ہیں عبادت صرف اور صرف اللہ ہی کی کرنا، کسی کو بھی عبادت میں شریک نہ ٹھہرانا، اسی سے خوف کھانا، اسی سے امید لگانا،اسی پر توکل کرنا، اور صرف اسی سے دعا مانگنا ،نہ کسی نبی کو، نہ کسی ولی کو، نہ کسی فرشتے اور نہ کسی اور چیز کو عبادت میں اللہ کا شریک ٹھہرانا، ورنہ یہود ونصاریٰ قیامت پر حساب اورجزا و سزاپریقین رکھتے ہیں ،وہ بھی مومن ہو جائیں گے۔ حالاں کہ قرآن شریف شرک فی العبادة ہی کی وجہ سے انہیں کافر قرار دیتاہے۔(الأعلام المنثورة لاعتقاد الطائفہ الناجیة، مولف حافظ بن حکیم أحمد ص:46)
اسی لیے اِیاَّ کَ نَعْبُدُ وَاِیاَّکَ نَسْتَعِیْنَ میں برابر اسی توحید کے اعادہ کا حکم ہے…اورتقریباً بیس فرض وواجب رکعتوں میں چالیس مرتبہ اور سنت موٴکدہ میں چوبیس مرتبہ اس کو پڑھا یا جارہا ہے، وہ اسی توحید الوہیت کی یاد دہانی کے لیے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ توحید فی الصفات بھی ایمان کا جز ولا ینفک ہے، اس کے بغیر بھی انسان مومن نہیں ہو سکتا ۔
توحید فی الصفات کہتے ہیں اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ ہر چیز کو خوب اچھی طرح جاننے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے، نہ نیند۔ اسی کی مشیت وارادے سے سب کچھ ہوتا ہے، وہی سب چیزوں کو خوب اچھی طرح دیکھتا ہے اور سنتا بھی ہے، وہ عرش پر اپنی شایان شان مستوی ہے۔ تمام اسما حسنیٰ وصفات علیا کا وہ مالک ہے۔ اور کفار جزیرة العرب کوکافر قرار دیے جانے کی یہی وجہ ہے کہ وہ توحید ربوبیت کے تو قائل تھے مگر توحید فی الصفات کے منکر تھے ،جو کہتے تھے”لا نعرف الرحمن إلا رحمان الیمامة“ حالاں کہ قرآن نے فوراً آیت نازل کی ﴿وہم یکفرون بالرحمن ﴾ (سورة الرعد آیت: 3) وہ رحمن کا انکار کرتے ہیں ۔گویا توحید فی الصفات کا انکار بھی کفر ہے ۔”ہو الایمان بما وصف اللہ بہ تعالیٰ نفسہ فی کتابہ ووصف بہ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاسماء الحسنیٰ والصفات العلیٰ۔دلیل:﴿یعلم ما بین ایدیہم وما خلفہم ولا یحیطون بہ علماً﴾․ وقال تعالیٰ:﴿ولیس کمثلہ شيء وہو السمیع البصیر﴾
توحید کی اس پوری تفصیل کے بعد ذراہم اپنے مسلمان معاشرے پر ایک نگاہ ڈالیں، تو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ مغرب کی اندھی تقلید کرنے والے نظریہٴ ارتقاء ،نظریہٴ فرائیڈ و جنسیت وغیرہ کو تسلیم کر کے ،گویا توحید ربوبیت کے منکر ہو رہے ہیں۔ 
ایک طبقہ غلو کی وجہ سے توحید الوہیت اور ایک طبقہ توحید فی الصفات کا منکر ہو رہا ہے۔ اور حیرت تو اس پر ہے کہ انہیں اس کا احساس بھی نہیں۔ اسی لیے میں نے اصول العقائد پر قلم اٹھا یا ہے۔ محض توفیق ایزدی ونصرت الہٰی کے بھروسہ پر میں اللہ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ مجھ کو صحیح معنی میں اصول العقائد پر لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کی چھوٹی ،بڑی، لفظی، معنوی غلطی سے محفوظ رکھے اور اپنی پناہ میں لے لے۔آمین!
Flag Counter