Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

4 - 16
***
حکیم الامت  نے فرمایا
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی
دل میں وطن کا اشتیاق رکھتے ہوئے مکہ میں رہنا بڑی گستاخی ہے
حضرت حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی قدس سرہ کا ارشاد ہے دل بمکہ وجسم بہتر ہندوستان بہتر ازآنکہ جسم بہ مکہ ودل بہ ہندوستان( یعنی دل مکہ میں اٹکا ہو اور جسم ہندوستان میں یہ اس سے بہتر ہے کہ جسم مکہ میں ہو اور دل ہندوستان میں) اسی لیے حضرت عمر رضی الله عنہ کی عادت تھی کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں سے کہتے پھرتے تھے کہ اب حج ہو چکا ، اب گھر کا راستہ لو”یا اہل الیمن، یمنکم، ویااہل الشام شامکم، ویااہل العراق، عراقکم“ یعنی یمن والے یمن جاؤ ، شا م والے شام کو واپس جاؤ اور عراق کے رہنے والے عراق واپس جاؤ۔ حضرت عمر بڑے حکیم تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ حج کے بعد قدرتی طورپر وطن کا اشتیاق دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تو اب ایسی حالت میں مکہ کے اندر قیام کرنا باطن کے لیے مضر ہے ۔ اس دربار میں اپنے گھر کو یاد کرتے ہوئے نہ رہنا چاہیے۔ یہ بڑی گستاخی ہے۔ ( کمالات اشرفیہ ص،45، تفاصیل الاعمال ص12 ،محاسن الاسلام ص60 ،معارف امدادیہ ص:66)
قلب کی اول کھٹک پر عمل کرنا چاہیے
حدیث شریف میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الا ان التقوی واشار الی صدرہ یادر رکھو، تقویٰ اس جگہ ہے اور اپنے قلب کی طرف اشارہ فرمایا یعنی تقوی ( الله تعالیٰ سے ڈرنا) افعال قلوب میں سے ہے۔ (التقویٰ 18) بقول شاعر #
کسی سے میں یہ کیوں پوچھوں تصوف کس کو کہتے ہیں 
خود اپنے دل کو دیکھا اور کہا کہ اس کو کہتے ہیں 
حدیث شریف میں ہے استفت قلبک ولو افتاک المفتون (اپنے دل سے فتوی لو، اگرچہ مفتی بھی فتویٰ دے دیں) یعنی باطنی مفتی کے خلاف ظاہری مفتی کا قول نہ لیا جائے بلکہ فتوے کے ساتھ اپنے دل کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ ہاں! جہاں قلب شہادت دے دے وہاں بخوشی اجازت ہے۔( ارضاء الحق ج:2، ص:42) جب دل کو لگتی ہے اس وقت جواز کے سارے فتوے رکھے رہ جاتے ہیں اور اس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کھٹک کی بات کو دور نہ کیا جائے ۔ مولانا محمد منیر صاحب  نانوتہ میں ایک بزرگ تھے، ایک دفعہ ان کے ہاتھ سے مدرسہ دیوبند کی ایک امانت ضائع ہو گئی، سفر میں کسی نے چرالی اور رقم زیادہ تھی، انہوں نے فوراً مدرسہ میں اطلاع کر دی کہ وہ امانت میرے پاس سے چوری ہو گئی لیکن میں ضمان ادا کروں گا۔ مدرسہ والوں نے چاہا کہ مولوی صاحب سے ضمان نہ لیں، کیوں کہ ان کی دیانت پر پورا اعتماد تھا کہ انہوں نے قصداً حفاظت میں کوتاہی نہیں کی او رایسی حالت میں شرعاً ان پر ضمان نہیں، چناں چہ ان سے کہا گیا تو انہوں نے اس کو منظور نہ کیا اور کہا مجھے بغیر ضمان ادا کیے چین نہ آئے گا۔ مدرسہ والوں نے مولانا گنگوہی سے عرض کیا کہ حضرت!مولوی منیر صاحب نہیں مانتے۔ مدرسہ کا ضمان ادا کرنا چاہتے ہیں ، اگر آپ فتوی لکھ دیں تو شاید مان جائیں۔ کیوں کہ مولانا گنگوہی کو ساری جماعت بڑا مانتی تھی اور مولانا کے فتوے پر ہر شخص کوپورا اعتماد تھا۔حضرت  نے فتوی لکھ دیا کہ جب امین نے حفاظت میں کوتاہی نہ کی تو اس پر شرعاً ضمان نہیں۔ مدرسہ والوں نے یہ فتویٰ مولوی منیر صاحب  کو لاکر دکھایا۔ حالاں کہ مولوی منیر صاحب  مولانا گنگوہی کا بڑا ادب کرتے تھے، مگر اس وقت یہ فتوی دیکھ کر ان کو بڑا جوش آیا اور ہم عمری کے سبب ناز کے لہجے میں کہا بس میاں رشید احمد نے سارا فقہ میرے ہی واسطے پڑھا تھا اور اپنے کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں، اگر ان کے ہاتھ سے مدرسہ کی امانت ضائع ہو جاتی تو کیا وہ خود بھی اس فتوے پر عمل کرتے یا بغیر ادا کیے چین نہ ملتا؟ لے جاؤ، میں کسی کا فتوی دیکھنا نہیں چاہتا، حضرت!انہوں نے نہیں مانا اور زمین بیچ کر یا نامعلوم کس طرح مدرسہ کی رقم ادا کی، جب چین پڑا۔ (ارضاء الحق ج:2 ص:40 معارف گنگوہی) یہ کھٹک بھی ایک فرشتہ غیبی ہے، جو حق تعالیٰ کی طرف سے آپ کومتنبہ کر تا ہے، جب باربارتم اس کو دباؤ گے تو وہ خاموش ہو جائے گا اور بعض لوگ ممکن ہے یوں کہیں کہ جب ہم نے قواعد شرع کے بموجب ایک کام کیا ہے تو پھر کھٹک پر توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان سے میں کہتا ہوں کہ شریعت کا ایک یہ بھی قاعدہ ہے ”الاثم ماحاک فی صدرک“ کہ گناہ وہ ہے جس سے تمہارے دل میں کھٹک پیدا ہو۔ پھر تم نے اس قاعدہ پر عمل کیوں نہ کیا اور جب کسی عمل کے متعلق دل میں کھٹک پیدا ہوئی تھی ، اس کو کیوں نہ چھوڑ دیا۔ ( ارضا ء الحق :2 ص30)
قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ اول وہلہ ( مرتبہ) میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ میں ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیاگیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہوتی ہے۔ ( انفاس عیسیٰ ج1، ص:284) اس لیے قلب کی اول ہی کھٹک پر عمل کرنا چاہیے۔
معصیت سے قلبی اور روحانی صحت برباد
جس طرح طب اکبر پر عمل نہ کرنے سے صحت جسمانی میں خرابی آتی ہے اسی طرح احکام الٰہی پر عمل نہ کرنے سے قلبی اور روحانی صحت برباد ہو جاتی ہے (فان الجنة ہی الماوی) قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ ناجائز فعل سے اول وہلہ میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیداہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہو جاتی ہے اور بار بار کے دبانے سے بالکل نکل جاتی ہے، جو قلب کے سیاہ ( بے حس اور مردہ) ہو جانے کی دلیل ہے کہ اب قلب کو گناہ سے الفت ہو گئی ہے، اس لیے کھٹک نہیں، مگر یہ شخص سمجھتا ہے کہ مجھ پر حق واضح ہو گیا اور شرح صدر ہو گیا، اس لیے کھٹک موقوف ہو گئی، یاد رکھو یہ حالت سخت خطرناک ہے۔ (ارضاء الحق ج2 ص28)
قلب کا زنا
حدیث میں ہے ”القلب یزنی وزناہ ان یشتھی“ یعنی قلب بھی زنا کرتا ہے اور اس کا زنا خواہش کرنا ہے۔ ( رفع الموانع ص:51) چناں چہ فقہا نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرتے ہوئے اجنبیہ کا تصور کرے تو اسے زنا کا گناہ ہو گا۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اشرف الاحکام، جلد چہارم)
اعمال باطنہ کا محاسبہ
حدیث میں ہے کہ الله تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں پوشیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا اور دلوں کے پوشیدہ راز کھولے جائیں گے اور یہ کہ میرے کاتب اعمال فرشتے نے تو تمہارے صرف وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے او رمیں ان چیزوں کو جانتا ہوں جن پر فرشتوں کو اطلاع نہیں ا ورنہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہ اعمال میں لکھی ہیں اور وہ سب تمہیں بتلاتا ہوں اور ان محاسبہ کا کرتا ہوں، پھر جس کو چاہوں گا بخش دوں گا اور جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا پھر مؤمنین کو معاف کر دیا جائے گا او رکفار کو عذاب دیا جائے گا۔ ( قرطبی) ارشاد باری تعالی ہے :﴿ وان تبدوا ما فی أنفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ الله﴾․ (سورہ البقرہ آیت:284)
جو باتیں تمہارے نفسوں میں ہیں اگر تم ( زبان وغیرہ سے ) ظاہر کرو گے یا کہ ( دل میں ) پوشیدہ رکھو گے الله تعالیٰ تم سے حساب لیں گے۔ آیت مذکورہ میں جس محاسبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ارادے اور نیتیں ہیں جو انسان اپنے قصد اور اختیار سے اپنے دل میں جماتا ہے اور اس کے عمل میں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے، پھر اتفاق سے کچھ موانع پیش آجانے کی بنا پر ان پر عمل نہیں کرسکتا۔ قیامت کے دن ان کا محاسبہ ہو گا، پھر حق تعالیٰ جس کو چاہیں اپنے فضل وکرم سے بخش دیں اور جس کو چاہیں عذاب دیں۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ انسان پر جو اعمال الله تعالیٰ کی طرف سے فرض کیے گئے ہیں یا حرام کیے گئے ہیں وہ کچھ تو اعضائے ظاہری و جوارح سے متعلق ہیں نماز، روزہ، زکوٰة، حج اورتمام معاملات اسی قسم میں داخل ہیں او رکچھ اعمال واحکام وہ بھی ہیں جوان کے قلب او رباطن سے تعلق رکھتے ہیں، ایمان واعتقاد کے تمام مسائل تو اسی میں داخل ہیں او رکفروشرک جو سب سے زیادہ حرام وناجائز ہیں ان کا تعلق بھی انسان کے قلب سے ہے ،اخلاق صالحہ، تواضع، صبر ، قناعت ، سخاوت وغیرہ اسی طرح اخلاق رذیلہ، کبر، حسد، بغض، حب دنیا، حرص وغیرہ یہ سب چیزیں ایک درجہ حرام قطعی ہیں، ان سب کا تعلق بھی انسان کے اعضا و جوارح سے نہیں بلکہ دل اور باطن سے ہے۔ اس آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ کا حساب قیامت میں لیا جائے گا اسی طرح اعمال باطنہ کا بھی حساب ہو گا اورخطا پر بھی مؤاخذہ ہو گا، باقی وساوس اور غیر اختیاری خیالات جوانسان کے دل میں بغیر قصد اور ارادہ کے آجاتے ہیں، بلکہ ان کے خلاف ارادہ کرنے پر بھی رہتے ہیں، ایسے غیر اختیاری خیالات اور وساوس کو اس امت کے لیے حق تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے، چناں چہ حدیث میں ”ان الله تجاوز عن امتی عما حدثت انفسھا، مالم یتکلموا او یعلموا بہ“․ (قرطبی) یعنی الله تعالیٰ نے میری امت کو معاف کر دیا ہے وہ جوان کے دل میں خیال آیا جب اس کو زبان سے نہ کہا یا عمل نہ کیا ہو۔ (تفسیر معارف القرآن، ج1، ص:291,290)
اصل رونادل کا ہے
میرے پاس بعض ذاکرین کے خطوط آتے ہیں کہ ہم کو رونا نہیں آتا، اس کا افسوس ہے ۔ میں لکھ دیتا ہوں کہ تمہارا دل تو روتا ہے او رکیا چاہتے ہو؟ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تم کونہ رونے پر افسوس ہے۔ ( فناء النفوس) ایک صاحب نے لکھا مجھے وعظ سن کر نہ رونا آتا ہے نہ ذکر وغیرہ میں خوف خدا ہوتا ہے، یہ سنگ دلی تو نہیں ۔اس پر جواباً تحریر فرمایا”رونادل کا مقصود ہے آنکھ کا نہیں، وہ حاصل ہے، دلیل اس کی یہ تاسف ہے۔ “( انفاس عیسیٰ ج1 ص:106)
ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ اگر رونا ہی ولایت ہے تو رونا کیا مشکل ہے؟ لاؤ ایک لاٹھی، مارنا شروع کروں ایک طرف سے، سب رونے لگیں گے، خوب کہا ہے #
عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال
صد سال مے تواں بہ تمنا گریستن
حدیث میں ہے ”ابکوا، فان لم تبکوا فتباکوا“ یعنی رؤ واور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت بناؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رونا مقصود نہیں کیوں کہ ہر حال میں امر غیر اختیاری ہے اور ایسا غیر اختیاری مقصود نہیں ہوتا، بس جس کو رونا نہ آتا ہو وہ رونے کی صورت ہی بنالے یہ کافی ہے ۔ (فناء النفوس)
ایک صاحب نے لکھا کہ قلب میں قوت انفعالیہ کا نام ونشان نہیں صحبت مجلس سے بھی حالت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا، اس لیے سخت خطرہ ہے کہ کہیں ﴿قلوبنا غلف﴾ یا ارشاد ”ولا یجاوز حناجرھم“(الحدیث)کا مصداق تو نہیں ہو گیا۔ فرمایا کہ جو لوگ اس کے مصداق ہوتے ہیں ان کو اس کے مصداق ہونے کا احتمال تک نہیں، بلکہ التفات تک نہیں ہوتا، یہی دلیل ہے اس کے مصداق نہ ہونے کا۔ ( کمالات اشرفیہ ص:84)
دل الله تعالیٰ شانہ نے اپنی یاد کے لیے بنایا ہے 
دل گزر گاہ جلیل اکبر ست
اس کے معنی تو یہ ہیں کہ دل تجلی گاہ حق تعالیٰ ہے لہٰذا اس کو غیر کی آلودگی سے بچاؤ، اپنے گھر میں دوسرے کے آنے کو کون پسند کرتا ہے ؟ ( الظاہر، ص:50)
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست
مگر جب دل میں غیر الله کی یادبس جائے تو اس کی یہ حالت ہوتی ہے #
دل جو دیکھا تو صنم خانہ سے بدتر نکلا
لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں خدا رہتا ہے
ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ دلوں کو بھی(کبھی) زنگ لگ جاتا ہے ، عرض کیا گیا کہ یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم! اور وہ کون سی چیز ہے جس سے دلوں کی صفائی ہو جائے؟ آپ نے ارشاد فرمایا یا موت کا زیادہ دھیان رکھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ شیطان آدمی کے قلب پر چمٹا ہوا بیٹھا رہتا ہے، جب وہ الله کا ذکر کرتا ہے تو وہ ہٹ جاتا ہے اور جب وہ ( یاد سے) غافل ہوتا ہے وسوسہ ڈالنے لگتا ہے ۔ (بخاری شریف)
ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، ذکر الله کے سوا بہت کلام مت کیا کرو، کیوں کہ الله کے سوا بہت کلام کرنا قلب میں سختی پیدا کرتا ہے اور سب سے زیادہ الله سے دور وہ قلب ہے جس میں سختی ہو ۔ (ترمذی)
حضرت عبدالله بن عمر پیغمبر صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شے کی ایک قلعی ہے او ردلوں کی قلعی الله کا ذکر ہے۔ ( بیہقی) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دلوں کی صفائی اور تزکیہ کے لیے ذکر الله کی کثرت کرنا چاہیے بقول حضرت مجذوب #
میرے دلِ سیاہ کو انوار ذکر نے
خورشید پر ضیا کا مماثل بنا دیا
جمعیت قلب کون سی مطلوب ہے؟
سید الطائفہ حضرت حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی کے ہر معاملہ سے یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ حضرت  یہ چاہتے ہیں کہ جو غیر ضروری بات جمعیت قلب کے خلاف ہو اس کو ترک کر دو اور ایسی چیزوں سے اکثر منع فرماتے تھے ۔ (الافاضات الیومیہ ج3 ص:56)
جمعیت قلب جیسا کہ زیادہ کھانے سے فوت ہوتی ہے ، کم کھانے سے بھی فوت ہوتی ہے۔ زیادہ کھانے سے خطرات کا ہجوم ہوتا ہے، کیوں کہ معدہ کی تبخیر دماغ کی طرف صعود کرتی ہے تو دماغ پریشان ہو جاتا ہے اور کم کھانے سے ہر وقت روٹیوں کی طرف دھیان رہتا ہے ۔ (فناء النفوس)
حضرت ابوذ رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دنیا کی بے رغبتی (جس کا حکم ہے ) نہ حلال کو حرام کرنے سے ہے اور نہ مال کے ضائع کرنے سے۔ ( ترمذی وابن ماجہ)
ف:۔ اس میں صاف برائی ہے مال کے برباد کرنے کی، کیوں کہ اس سے جمعیت جاتی رہتی ہے ۔ (حیٰوة المسلمین، روح دہم)
جمعیت قلب وہ مطلوب ہے جس میں اپنی طرف سے اسباب مشوشہ( پریشان کرنے والے اسباب) کو اختیار نہ کیاجائے، پھر اگر جمعیت حاصل نہ ہو تو یہ معذور ہے ، میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں کہ جو تشویش قلب اختیار سے باہر ہو، وہی مضر ہے اور اگر بلاقصد واختیار تشویش ہو وہ کچھ مضر نہیں، مثلاً ایک شخص صاحب عیال ہے ، اس وجہ سے دنیا میں مشغول ہے اور اس کو کسی وقت یکسوئی نہیں ہوتی ، نماز وذکر میں بلاقصد واختیار وساوس مشوشہ آتے ہوں تو کچھ مضر نہیں اور یہ قاعدہ کچھ حدیث النفس کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ حدیث اللسان یعنی کلام لسانی میں بھی یہی قاعدہ ہے کہ بلا ضرورت ایک کلمہ بھی نکالنا قلب کا ستیاناس کر دیتا ہے، مگر قلب پر چوں کہ طبیعت محیط ہے، اس لیے محسوس نہیں ہوتا، بخلاف اس کے اگر بضرورت تکثیر ہو تو کچھ بھی مضر نہیں، مثلاً ایک شخص پہرہ دینے پر نوکر ہے، وہ رات بھر جاگوجاگو کرتا ہے، اس سے نور قلب میں کچھ بھی کمی نہ آئے گی، اسی طرح تحریر میں جب تک ضرورت کا مضمون لکھا جائے گا، ضرر نہ ہو گا او راگر بے ضرورت ایک جملہ بھی لکھا گیا تو قلب کا ناس ہو جائے گا کیوں کہ تحریر بھی ایک نوع کا کلام ہی ہے، بہرحال کلام کی تین قسمیں ہیں ، 1۔ کلام نفسی2۔ کلام لفظی۔ کلام تحریری کلام میں تحریر کا مطالعہ بھی داخل ہے، اس لیے ہر کتاب کا مطالعہ بھی جائر نہیں، غرض یہ کہ ہر ایک میں ضرورت کا درجہ مضر نہیں اور بلا ضرورت ایک جملہ کا تلفظ یا کسی بات کا سوچنا یا لکھنا مضر ہے، چناں چہ بعض کلام کو خوش نما بنانے میں سجع وغیرہ کا تکلف کرتے ہیں چوں کہ یہ بلا ضرورت ہے اس لیے گویا اس میں تنبیہ ہے ، ہم کوعدم تکلف میں پرکھ کر دیکھو! جب ہم باوجود قدرت کہ سجع کی رعایت نہیں کرتے، حالاں کہ ہم کو تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ تم کو بھی سجع کی رعایت نہ کرنا چاہیے، کیوں کہ تم کو تکلف کرنا پڑے گا اوربے ضرورت چیز کے لیے تم کو تکلف کرنا ہے۔ (انفاس عیسیٰ ج1 ، ص:249,248)
حصول فراغ قلب کا طریقہ
حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ کا اپنا معمول مبارک یہ تھا کہ راستہ چلتے کوئی بات یاد آجاتی تو فوراً کاغذ کے ٹکڑے پر تحریر فرما لیتے، رات کو پنسل کاغذ سرہانہ کے نیچے رکھ کر سوتے اور کسی تصنیف یا کسی موضوع کے بارے میں کئی نیا مضمون ذہن میں آتا تو فوراً لکھ لیتے اور فرماتے تھے کہ قلب کوہمیشہ فارغ رکھتا ہوں، تاکہ کسی وقت الله تعالیٰ کا ذکرکرنے کو جی چاہے تو وہ کسی الجھن میں اٹکا نہ رہے۔ غرض جب تک ماسوا الله سے پاک نہ ہو گا تب تک نہ سچی توحید حاصل ہو گی اور نہ جمال مبارک حق کا آئینہ دل میں مشاہدہ ہو گا، الله تعالیٰ نے بندہ کو ایک ہی قلب مخصوص اپنے واسطے عطا کیا کہ کوئی دوسرا دل نہیں کہ اس میں دوسرے تعلقات ومشاغل کی جگہ ہو۔ (تربیت السالک ج2 ص270) اسی لیے دل کو ذکر الہی کے لیے فارغ رکھنے کی ضرورت ہے۔
قلب کو ہر وقت ماسوا الله سے فارغ رکھنا چاہیے ( یعنی دل کسی اور چیز میں لگاہوا نہ رہے)، یہ نہایت نافع ہے۔ اس کے تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو بات او رجو کام ضروری نہ ہو اس کو دیکھو نہ سنو، خواہ وہ چیزیں ماضی کے متعلق ہوں یا مستقبل کے۔ (انفاس عیسیٰ ج1 ص:261)
اصلاح قلب کا آسان نسخہ
کسی شیخ کامل کی صحبت اختیار کرے۔ اس سے اصلاحی تعلق قائم کرکے اس کے ارشادات پر عمل کرے۔ ان شاء الله اس کی صحبت سے جلد قلب کی حالت میں تغیر محسوس ہو گا اور دل کی دنیا بدلنا شروع ہو گی ۔ 
فی الحال یہ دشوار ہو تو حضرت حکیم الامت تھانوی کے مواعظ حسنہ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرے۔ بہت نفع محسوس ہو گا۔
مناجات مقبول سے چند دعائیں نقل کرتا ہوں، اپنی دعاؤں میں ان کو پڑھا کرے۔ ” اللھم مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتک“․ ( مسلم ،نسائی)
”اے الله، دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔“
”اللھم اجعل فی قلبی نورا․“( بخاری ومسلم) ”اے الله! میرے دل میں نو رکر دے۔“
”اللھم ان تجعل القرآن العظیم ربیع قلبی، ونور بصری، وجلاء حزنی، وذھاب ھمی․“ (ابن حبان، حاکم، طبرانی)” یا الله! قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار او رمیری آنکھ کا نو راو رمیر ے غم کی کشائش اورمیرے فکر کا دافعفرما دے “
”اللھم انا نسالک قلوباً اواھة مخبتة فی سبیلک“ ”اے الله! ہم تجھ سے مانگتے ہیں ایسے دل جو متاثر ہوں اور عاجزی کرنے والے ہوں او ررجوع کرنے والے ہوں تیری راہ میں ۔“
” اللھم ارزقنی عینین بذورف الدمع من خشیتک قبل ان تکون الدموع دما والاضراس جمرا۔“ ”یا الله! مجھے آنکھیں برسنے والی نصیب فرما جو سیراب کریں دل کو بہتے ہوئے آنسوؤں سے تیرے خوف سے، قبل اس وقت کے کہ آنسو خون اور ڈاڑھیں انگارے ہو جائیں۔“

Flag Counter