Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

11 - 16
***
شرعی پردہ کیا ہے؟
مفتی عبدالرحمن، کراچی
مشترکہ فیملی سسٹم (اکھٹے رہنے) میں پردے کا طریقہ
مشترکہ فیملی سسٹم جہاں محرم اور نامحرم رشتہ دار (مثلاً دیور ، جیٹھ وغیرہ) ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔ جس کی وجہ سے نامحرم رشتہ دار گھر میں آتے جاتے رہتے ہوں تو ایسے حالات میں خواتین ذرا ہو شیار رہیں ، بے پردگی کے مواقع سے بچیں، لباس میں احتیاط رکھیں ،بالخصوص سر پر دوپٹہ رکھنے کا اہتمام رکھیں ۔
مرد آمدورفت کے وقت ذرا کھنکار کر خواتین کو پردہ کی طرف متوجہ کر دیں، بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے غیر محرم رشتہ دار سمجھانے کے باوجود گھر میں کھنکار(کھانس) کر آنے کی احتیاط نہیں کرتے ، اچانک سامنے آجاتے ہیں ، آمد ورفت کا یہ سلسلہ ہر وقت چلتا رہتا ہے ، ان سے پردہ کر نے میں ہمیں بہت مشکل پیش آتی ہے ، ایسے حالات میں خواتین جتنی احتیاط ہو سکے کریں ، اسے جہاد سمجھیں ، جتنی زیادہ تکلیف ومشقت برداشت کریں گی اتناہی زیادہ اجر وثواب ہو گا۔
غیر محرم مرد کی آمد پر خواتین اپنا رخ دوسری طرف کر لیں
اگر رخ دوسری طرف نہ کر سکیں تو سر سے دوپٹہ سر کا کر چہرہ پر لٹکالیں۔
شدید ضرورت کے بغیر غیر محرم سے بات نہ کریں، بوقت ضرورت بقدر ضرورت بات کریں ۔
کسی غیر محرم کی موجودگی میں خواتین آپس میں یا اپنے محارم کے ساتھ بے حجابانہ بے تکلفی کی باتوں اور ہنسی مذاق سے پرہیز کریں۔
ان احتیاطوں کے باوجود اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم کی نظر پڑ جائے یا غیر محرم پر اچانک ( غیر ارادی) نظر پڑ جائے تو معاف ہے ، کوئی گناہ نہیں، اس سے پریشان نہ ہوں، جو کچھ اپنے اختیار میں ہے اس میں ہر گز غفلت نہ کریں اور جوکچھ اختیار سے باہر ہے اس کے لیے پریشان نہ ہوں ، اس لیے کہ اس پر کوئی گرفت وعذاب نہیں ، ہزاروں باربھی غیر اختیاری طور پر ہو جائے تو بھی معافی ہی معافی ہے ۔ دیکھیے! رب کریم کا کتنا بڑاکرم ہے ،مگر ان کی اس مہربانی او رمعافی کو سن کرنڈر اور بے خوف نہ ہو جائیں ، جس حد تک احتیاط ہو سکتی ہے اس میں ہر گز ہر گز کوتاہی نہ کریں، ورنہ خوب سمجھ لیں کہ جس طرح وہ رب کریم شکر گزار اور فرماں بردار بندوں پر بہت مہربان ہے ، اسی طرح ناقدروں، ناشکروں اور نافرمانوں پر اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔
باہر سے آنے جانے والے رشتہ داروں سے پردہ کا طریقہ 
کچھ نامحرم مرد وہ ہوتے ہیں جوگھر کے اندر تو نہیں رہتے، لیکن گھر میں بے تکلف آتے جاتے رہتے ہیں ،جیسے بیوی یا شوہر کے چچا زاد بھائی ، پھوپی زاد بھائی ، مامو زاد بھائی ، خالہ زاد وغیرہ ، یہ رشتے کے بھائی کہلاتے ہیں، ان سے کوئی خاص پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ، حالاں کہ ان سے پردے کا اہتمام ہونا چاہیے ۔ ان رشتہ داروں سے پردہ کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کے جو بڑے ہیں ، وہ سب ایک مرتبہ بیٹھ کر اس مسئلے کو طے کریں اور سب سے یہ کہہ دیں کہ آج کے بعد ان شاء الله ہمارے گھر میں پردے کا اہتمام ہو گا ، لہٰذا جتنے بھی رشتے کے بھائی ہیں یا دوسرے نامحرم مرد، جو رشتہ دار ہیں او رگھر کے اندر آتے ہیں، آئندہ جب وہ آئیں گے تو انہیں بیٹھک میں اور ڈرائنگ روم میں بٹھا یا جائے گا ، یہ حضرات جو اب تک سیدھے گھر کے اندر چلے جاتے تھے او رخواتین کے کمروں میں بھی داخل ہو جاتے تھے او رخواتین کے قریب بے تکلف جاکر بیٹھ جاتے تھے اور ان سے بے تکلف باتیں شروع کر دیتے تھے ، آئندہ اس صورت حال سے بچیں گے اور پرہیز کریں گے۔جب بھی کوئی نامحرم مرد گھر میں آئے، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ، وہ مرد ہی سے ملے گا ، وہ گھر کی نامحرم خواتین سے نہیں ملے گا ، ہاں! اگر محرم ہو تو بے شک وہ خواتین سے بھی ملے ، کیوں کہ ان سے پردہ ہی نہیں ہے ۔ بہرحال! اس طرح ایک مرتبہ سب کو بٹھلا کر طے کرنا ہو گا ، جب اس طرح ایک مرتبہ طے کر لیا جائے گا تو پھر خواتین کے لیے بھی نامحرم مردوں سے پردہ کرنا آسان ہو جائے گا ۔طے کرنے کے بعد بیوی کے نامحرم رشتہ دار اور شوہر کے نامحرم رشتہ دار، مثلاً شوہر کے چچا ، شوہر کے تایا،شوہر کے خالو، شوہر کے پھوپھا، شوہر کے ماموں، یہ سب چوں کہ بیوی کے لیے نامحرم ہیں، یا بیوی کے خالہ زاد ، تایا زاد ، ماموں زاد وغیرہ آئیں تو تو ان سے صرف گھر کے مرد ملاقات کریں او ران کو مردانہ کمرے میں بٹھا یا جائے، گھر کی خواتین ان سے بات کرنا چاہتی ہیں تو وہ پردے کے پیچھے سے بات کر لیں یا انٹر کام پر بات کر لیں یا فون پر بات کر لیں۔
یہ عمل چندر وز تو عجیب محسوس ہو گا، لیکن اس کے اندر آپ کو بھی بڑی عافیت محسوس ہو گی او رخواتین کو بھی اس کے اند رراحت محسوس ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شرعی پردہ کا اہتمام ہو جائے گا اور بے پردگی کے گناہ سے مرد اورخواتین دونوں بچ جائیں گے ، لہٰذا اس عمل کے لیے خواتین کو اپنا ذہن تیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور مردوں کو ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہو گی ، اس طرح جب آپس میں سب باتیں طے کر لیں گے تو ذرا سی دیر میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، اگر مرد او رخواتین اس کام کے لیے تیار نہ ہوں تو ساری عمر یہ گناہ ہوتا رہے گا #
تو ہی اگر نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں 
چوں کہ گناہ کا احساس نہیں اور اس گناہ سے بچنے کا اہتمام نہیں اور اس سے بچنے کی فکر نہیں ہے ، اس لیے بچنا مشکل معلوم ہوتا ہے، ورنہ بچنے کا آسان طریقہ موجود ہے۔ (ماخوذاز: خواتین کا پردہ، مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب)
پردہ عورت پر فرض ہے نہ کہ مرد پر
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں تو ہمارے کہنے کے باوجود غیر محرم رشتہ دار عورتیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، ہم سے پردہ نہیں کرتیں۔
یہ حضرات پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ پردہ عورت پر فرض ہے ، مرد پر فرض نہیں ، اس لیے اگر عورتیں بے پردہ سامنے آجاتی ہیں تو وہ عورتیں گناہ گار ہیں، مرد پر کوئی گناہ نہیں ، ایسی صورت میں ان ہدایات پر عمل کریں ۔
اپنی نظر نیچی رکھیں۔
بلا ضرورت غیر محرم عورت سے بات نہ کریں۔
ایسے مواقع میں پردہ کی اہمیت بیان کریں، اس میں ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آپ نے اپنا فرض تبلیغ ادا کر دیا ، دوسرا فائدہ یہ کہ شاید ان عورتوں کو آپ کی تبلیغ سے ہدایت ہو جائے تو آیندہ کے لیے ان گھروں میں آپ کی آمدورفت میں سہولت ہو جائے گی، آپ کے سامنے غیر محرم عورتیں نہیں آئیں گی، خدانخواستہ ان کو ہدایت نہ بھی ہوئی تو کم از کم اتنا فائدہ تو ہو گا کہ آپ کے سامنے آنے سے شرمائیں گی ، انسان کا طبعی خاصہ ہے کہ وہ غیر کے سامنے ایسی حالت میں آنے سے شرماتا ہے جو اس غیر کو ناپسند ہو ، بہت سی عورتیں عوام بلکہ فساق وفجار تک سے پردہ نہیں کرتیں، مگر علما وصلحا سے پردہ کرتی ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ علما وصلحا بے پردگی کو برا سمجھتے ہیں، اس لیے یہ عورتیں ان کے سامنے بے پردہ آنے سے شرماتی ہیں ، آپ اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کر دیں کہ آپ بے پردگی کو برا سمجھتے ہیں تو اس کا اثر یہ ہو گا کہ غیر محرم عورتیں آپ کے سامنے آنا چھوڑ دیں گی ، یہ نسخہ بہت مجرب ہے، میں نے کئی لوگوں کو بتایا، انہوں نے اس پر عمل کیا تو ان کو غیر محرم عورتوں سے نجات مل گئی۔ ( شرعی پردہ از: مفتی رشید احمد صاحب رحمہ الله)
گھرمیں شرعی پردہ کروانے کے طریقے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم گھر میں پردہ کروانا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں بہت کوشش اور تبلیغ کرتے ہیں، مگر کوئی اثر نہیں ہوتا ، بیوی پردہ نہیں کرتی ، اس حالت میں ہم سخت گناہ گار ہورہے ہیں۔ کیا کریں ؟ ایسی حالت میں شرعی احکام یہ ہیں۔
اپنے اعمال درست کرنے کی فکرکریں ، اپنا ظاہر وباطن شریعت کے مطابق بنانے کی کوشش کریں ، جب انسان خود نیک ہوتا ہے تو دوسروں پر اس کی بات اثر کرتی ہے ، بلکہ لوگ اس کے عمل ہی سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔
اپنی خواہشات نفسانیہ اور دنیوی کاموں میں بیوی سے ناراض نہ ہوں اور سختی نہ کریں ، ورنہ وہ سمجھے گی کہ دینی کاموں میں آپ کی ناراضگی بھی آپ کی افتاد طبع( عادت) ہی ہے، دین کو تو صرف غصہ نکالنے کا بہانہ بنا رکھا ہے۔
بیوی کے لیے ہدایت کی دعا کیا کریں ۔
نرمی اور محبت سے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں۔
روزانہ بلاناغہ تھوڑی سی دیر کے لیے کوئی ایسی کتاب پڑھ کر سنایا کریں جس سے دل میں الله تعالیٰ کی محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو ، جیسے ”حکایات صحابہ(فضائل اعمال)“ وغیرہ زبانی بتانے کے بجائے کتاب پڑھ کر سنایا کریں ، اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے ، اس کی کئی وجوہ ہیں:
قدرتی طور پر انسان کیطبیعت ایسی واقع ہو ئی ہے کہ اس پر اپنے ساتھیوں کی بات کا اثر بہت کم ہوتا ہے ، بالخصوص میاں بیوی کا آپس کا ایسا تعلق ہے کہ ایک دوسرے کی نصیحت کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں ، اغیار بالخصوص اکابر اور ان سے بھی بڑھ کر گزشتہ زمانہ کے بزرگوں کی باتوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
کتاب میں اس کے مصنف کی للہیت اور اخلاص کا اثر ہوتا ہے اور یہ اثر پڑھنے والے میں بھی منتقل ہوتا ہے۔
کتاب پڑھنے میں کسی بات کی نسبت پڑھنے والے کی طرف نہیں ہوتی، بلکہ ہر بات کی نسبت کتاب کے مصنف کی طرف ہوتی ہے ، اس لیے اس میں اپنے نفس کی آمیزش سے حفاظت نسبتاً آسان ہے۔
کتاب پڑھ کر سنانے میں وقت کم خرچ ہوتا ہے ، زبانی بتانے میں بات لمبی ہو جاتی ہے ، جس سے سننے والے کی طبیعت اکتا جاتی ہے۔
اگر سختی کا تحمل ہو تو بقدر ضرورت سختی سے کام لیں، مگر خوب سوچ کر ، پہلے خوب سمجھ لیں کہ اگر سختی کرنے سے بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی یا گھر ہی میں رہ کر وبال جان بن گئی تو کیا آپ ان حالات کا تحمل کر سکیں گے ؟ اگر خدانخواستہ پریشان ہو کر آپ نے بیوی کی خوشامد کی تو کیا عزت رہی ؟ اپنی عزت برباد کرنے کے علاوہ دوسرا نقصان یہ کہ آیندہ کے لیے بیوی ہر معاملہ میں سر پر چڑھ کر ناچے گی ، اس لیے بلا سوچے سمجھے کوئی سخت اقدام ہر گزنہ کریں۔
اگر نرمی گرمی کسی تدبیر سے بھی بیوی ہدایت پر نہیں آتی تو شوہر پر کو ئی گناہ نہیں ، بشرطے کہ جو ہدایات بتا چکا ہوں ان میں سے کسی میں غفلت نہ کرے ، اپنا اختیار پورے طور پر استعمال کرے۔ ہر ممکن کوشش کے باجود بیوی پردہ نہ کرے تو شوہر پر کوئی گناہ نہیں۔
بے پردہ بیوی کو طلاق دینا بھی ضروری نہیں، جب عیسائی اور یہودی جیسی کافر عورت سے نکاح جائز ہے تو بے پردہ مسلمان عورت سے بطریق اولیٰ جائز ہے، البتہ یہ یاد رہے کہ یہودی اور عیسائی عورت سے نکاح ہو جاتا ہے، مگر اس زمانہ میں ان سے نکاح کرنا جائز نہیں، سخت گناہ ہے ، اس لیے کہ اولاً تو ایسی عورتیں شوہر ہی کو مرتد بنا دیتی ہیں اور اگر شوہر بچ بھی جائے تو اولاد کو تو یقیناً اپنے دین پر لے جاتی ہیں ، اسی طرح یہ بھی خیال رہے کہ بے پردہ بیوی کو گھر میں رکھنے کی اجازت، جو میں نے بتائی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے بعد اس کی بے دینی کا علم ہوا، یا علم تو شادی سے پہلے بھی تھا مگر اس وقت خود اپنے اندر ہی آخرت کی فکر نہ تھی ، بعد میں الله تعالی ٰنے ہدایت دی تو پردہ کی فکر پیدا ہوئی، مقصد یہ ہے کہ ابتدا ءً بے پردہ عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ، البتہ شادی کے بعد ایسا ابتلاء پیش آیا تو بمجبوری اس پر صبر کرنا جائز ہے۔ ( شرعی پردہ از: مفتی رشید احمد صاحب رحمہ الله)
علاج کرنے میں پردے کا اہتمام
صرف عام حالات میں ہی پردے کا اہتمام لازم نہیں بلکہ شرعاً ہر حالت میں عورت کے لیے پردے کا اہتمام لازم ہے ۔ حتی کہ علاج معالجے کی ضرورت پڑے تو اس میں بھی بقدر استطاعت ( جتنا ہو سکے) پردہ فرض ہے۔
ہمارے زمانے کے لوگوں کا عجیب حال ہے ۔ جن خاندانوں اور گھروں میں پردے کا اہتمام ہے، علاج کے سلسلے میں ان کے ہاں بھی پردے کا خیال چھوڑ دیا جاتا ہے، حالاں کہ اصول یہ ہے کہ عورت کے علاج کے لیے محرم تلاش کیا جائے یاکسی مسلمان خاتون ( لیڈی ڈاکٹر) سے علاج کرایا جائے اورعلاج کے لیے محرم ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر دست یاب نہ ہو تو پھر کسی غیر مسلم خاتون ڈاکٹر سے عورت اپنا علاج کرائے او رمحرم ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر یا غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر بھی نہ ہو تو پھر کہیں جاکر غیر محرم ڈاکٹر سے بھی علاج کرایا جاسکتا ہے۔
لیکن اس میں شریعت کے ایک اہم اصول ” الضرورة تقدر بقدر الضرورة“ کا خیال رکھنا لازم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً جتنے بدن کا دیکھنا ضروری ہے معالج ڈاکٹر بس اسی قدر دیکھ سکتا ہے، مثلاً علاج کے لیے نبض دیکھنے اور حال کہنے سے کام چل سکتا ہے تو اس سے زیادہ دیکھنے یا ہاتھ لگانے کی اجازت نہ ہو گی۔ اسی طرح بازویا پنڈلی میں زخم ہے تو جتنی جگہ مجبوری کی وجہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے بس اس قدر معالج ( علاج کرنے والا) دیکھ سکتا ہے، اگر علاج کی مجبوری کے لیے آنکھ یا دانت دیکھنا ہے تو اس صورت میں پورا چہرہ کھولنا جائز نہیں۔ جس قدر دیکھنے سے کام چل سکتا ہے بس اس قدر دیکھا جاسکتا ہے، اگر پیٹ یا پیٹھ میں زخم ہو تو حکیم یا ڈاکٹر زخم کی جگہ دیکھ سکتا ہے ۔ اس سے زیادہ دکھانا گناہ ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ پُرانا کپڑا پہن کر زخم کے اوپر کا کپڑا کاٹ دیا جائے ،کہیں پیٹ یا پیٹھ کے بقیہ حصہ پر اس کی نظر نہ پڑے اور چوں کہ عورت کو ناف سے لے کر گھٹنوں کے ختم تک کسی عورت کے سامنے بھی کھولنا جائز نہیں ۔ اس لیے لیڈی ڈاکٹر کو مثلا ران یا سرین (کولہے) کا پھوڑا یا زخم دکھانا مقصود ہو تو اس صورت میں بھی کپڑا کاٹ کر صرف زخم کی جگہ دکھائی جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت حکیم یا ڈاکٹر کو جو جگہ دکھائی جائے تو حاضرین میں جو عزیز واقارب موجودہوں اُن کواس جگہ کے دیکھنے کی اجازت نہیں ، ہاں !اگر موجودہ لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا ہو جس کے لیے شرعاً اس جگہ کا دیکھنا جائز ہو تو وہ دیکھ سکتا ہے، مثلاً اگر پنڈلی میں زخم ہوا اور وہ ڈاکٹر یا جراح کو دکھانا ہے اور عورت کا باپ اور حقیقی بھائی بھی وہاں موجود ہے انہوں نے اگر دیکھ لیا تو گناہ نہ ہو گا، کیوں کہ پنڈلی کا کھولنا محرم کے سامنے درست ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ عورت کے علاج کے سلسلے میں جو تفصیل بتائی گئی ہے مرد کے علاج کی صورت میں بھی اس کا خیال ضروری ہے، کیوں کہ ناف سے لے کر گھٹنے تک مرد کا مرد سے بھی پردہ ہے۔ اگر ران یا سرین( کولہے) کا زخم ڈاکٹر کو دکھانا ہے ۔ یا کولہے میں کسی مجبوری سے انجکشن لگوانا ہے تو صرف ڈاکٹر بقدر ضرورت جگہ دیکھ سکتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے لیے دیکھنا ناجائز وحرام ہے۔
ولادت کے موقع پر بے احتیاطی
بچہ پیدا ہونے کے وقت دائی اور نرس کو صرف بقدر ضرورت پیدائش کی جگہ کا دیکھنا جائز ہے، اس سے زیادہ دیکھنا منع ہے اور آس پاس جو عورتیں موجود ہوں اگر ماں ، بہنیں ہی ہوں ان کو بھی دیکھنا منع ہے کیوں کہ ان کا دیکھنا بغیر ضرورت کے ہے ، لہٰذا ان کو نظر ڈالنے کی اجازت نہیں یہ جو رواج ہے کہ عورت کو ننگا کرکے ڈال دیتے ہیں اور سب عورتیں دیکھتی رہتی ہیں۔ یہ حرام ہے کافر عورت کے سامنے مسلمان عورت صرف منھ اور پہنچوں تک دونوں ہاتھ اور ٹخنوں سے نیچے دونوں پیر کھول سکتی ہے۔ ( یعنی اگر ظاہر ہوں تو کوئی حرج نہیں )۔ ان کے علاوہ ایک بال کا کھولنا بھی درست نہیں ، غیر مسلم ( کافر) عورتیں مثلاً دائی ، لیڈی ڈکٹر، بھنگن، دھوبن وغیرہ جو بھی ہوں ان سب کے متعلق یہی حکم ہے، لہٰذا بچے کی پیدائش کے موقع پر کافر دائی یا نرس وغیرہ کو نہ بلایا جائے کیوں کہ ان کے سامنے ستر کھولنا حرام ہو گا۔ لیکن اگر کہیں کوئی مسلمان دائی یا نرس وغیرہ نہ ہو تو پھر بوجہ مجبوری بچے کی پیدائش کے موقع پر غیر مسلم دائی یا نرس وغیرہ کو بلاسکتے ہیں۔
سفر حج میں پردے کا اہتمام
شریعت میں پردے کا اس قدر اہتمام ہے کہ خود حالت احرام میں بھی اس کا خیال اور لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ( سفر حج میں) ہمارے قریب سے حاجی لوگ گزرتے تھے اور ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں۔ (چوں کہ احرام میں عورت کو منھ پر کپڑا لگانا منع ہے، اس لیے ہمارے چہرے کھلے ہوئے تھے۔ اور چوں کہ پردہ کرنا حج میں بھی لازم ہے) اس لیے جب حاجی لوگ ہمارے برابر سے گزرتے تو ہم بڑی سی چادر کو سر سے گرا کر چہرے کے سامنے لٹکا لیتیں او رجب حاجی لوگ آگے بڑھ جاتے تو ہم لوگ چہرہ کھول لیتی تھیں۔ ( ابوداؤد شریف)
بہت سے لوگ لاعلمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ احرام کی حالت میں پردہ ضروری نہیں ہے، کیوں کہ احرام کی حالت میں کپڑے وغیرہ کا چہرے پر لگنا جائز نہیں، مگر یہ خیال ان کی لاعلمی اورجہالت کی وجہ سے ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں اس وقت ایسا طریقہ احتیار کرنا چاہیے کہ چہرے پر کپڑابھی نہ لگے اور پردہ بھی ہو جائے ۔ مثلاً یہ کہ چہرہ چھپانے کے لیے ہاتھ والا پنکھایا چھجہ دار ٹوپی سر پر رکھ کر اوپر سے نقاب ڈال لی آجائے، جیسا کہ بہت سی عورتیں کرتی ہیں ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ عورت کو چاہیے کہ حالت احرام میں اپنی چادر اپنے سر پر سے چہرے پر لٹکالیا کرے۔ ( فتح الباری، کتاب الحج)
ہیجڑوں سے پردہ کرنا
حدیث میں ہیجڑوں سے پردہ کرنے کا حکم ہے۔ کیوں کہ بغرض استلذاذ( خواہش نفسانی سے)د یکھنا یا باتیں سننا، ہاتھ سے مس کرنا ( چھونا) آنکھ ،کان او رہاتھ کا زنا ہے اور یہ صفت ہیجڑے میں موجود ہے، نیز بہت سے ہیجڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مردانہ قوت موجود ہوتی ہے ۔ (احسن الفتاوی ج8 ص35)
مُردہ عورت( غیر محرم) یا مُردہ مرد ( غیر محرم) کو دیکھنا
غیر مردوں ( غیر محرم) کو مُردہ عورت کا منھ دکھانا جائز نہیں او رگناہ منھ دکھانے والوں کو ہو گا او رمُردہ عورت بھی اس پر اپنی زندگی میں راضی تھی تو وہ بھی گنہکار ہو گی ، ورنہ نہیں ، عورتوں کو وصیت کر دینی چاہیے کہ ان کے مرنے کے بعد نامحرموں کو ان کا منھ نہ دکھایا جائے۔ (بحوالہ: آپ کے مسائل او ران کا حل ج3 ص109)
بیوی کے مرنے کے بعد شوہر اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، لیکن چوں کہ بیوی کے انتقال سے نکاح ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا اسے ہاتھ لگانا اور غسل دینا جائز نہیں اور شوہر کے مرنے پر نکاح کے آثار عدت تک باقی رہتے ہیں، اس لیے شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کو ہاتھ لگاسکتی ہے اور غسل بھی دے سکتی ہے ۔ ( آپ کے مسائل او ران کا حل، ج3 ص102)
اسی طرح غیر محرم عورتوں کو مُردہ نامحرم مرد کا منھ دیکھنا اور دکھانا جائز نہیں ہے۔
خواتین کا سیر وتفریح کے لیے جانا
عورتوں کو اپنے محرم کے ساتھ اور مکمل شرعی پردے کے ساتھ بوقت ضرورت سیر وتفریح کے لیے جانا کی گنجائش ہے اور اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہاں خلاف شرع کسی کام کا ارتکاب نہ ہونے پائے۔ لیکن نہ جانا بہرحال اولیٰ ہے (ماخوذاز: عورت کے لباس اور پردہ کے شرعی احکام، از مفتی محمد کمال الدین راشدی)
منگنی سے پہلے ایک نظر دیکھنے کی اجازت
جس سے نکاح کرنا ہو شریعت نے اسے ایک نظر دیکھ لینے کی اجازت دی ہے، تاکہ پسند وناپسند کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ منگنی کے بعد جب تک نکاح نہیں ہو جاتا دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ( غیر محرم) ہیں اور پردہ ضروری ہے۔ ( آپ کے مسائل اور ان کاحل ج8، ص:63)
مخلوط تعلیم کا زہر
آج کل لڑکیوں کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔ ان کو اونچی ڈگریاں دلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ، اول تو اس میں اس حکم کی خلاف ورزی ہے کہ عورت اپنے گھر میں رہے او راگر باہر کسی مجبوری سے نکلنا ہی ہو تو بعض پابندیوں کے ساتھ نکل سکتی ہے۔ مگر وہ تو پردے کے اہتمام کے بغیر نکلتی ہیں او رخوب بن ٹھن کر خوش بو لگا کر جاتی ہیں ۔ پھر رہی سہی کسر مخلوط تعلیم ( Co-Education) نے پوری کر دی۔ ایک ہی کلاس میں لڑکے اور لڑکیاں اور بالغ مرد اور عورتیں بے پردہ ہو کر بیٹھتے ہیں اور عجیب بات تو یہ ہے کہ اسلامیات کی ڈگری لینے والے عین تعلیم کے وقت اسلامی احکام کوپامال کرتے ہیں اور جو لوگ ان باتوں پر نکیرکرتے ہیں او ربتاتے ہیں کہ یہ غیر شرعی طریقہ ہے۔ وہ کیسی ہی آیات واحادیث پیش کریں ان کی بات کو دقیانوسی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ عورت کو عصر حاضر ( موجودہ زمانہ) کے اسکول ، کالجوں، یونیورسٹیوں میں تعلیم دلانے کے کئی مفاسد ہیں ، خواہ لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ اختلاط ( میل جول) نہ بھی ہو :
1۔عورت کا بلا ضرورت شرعیہ گھر سے نکلنا اور اجنبیوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا سبب بننا۔
2۔بر ے ماحول میں جانا۔
3 ۔مختلف مزاج رکھنے والی عورتوں سے مسلسل اختلاط ( میل جول) کی وجہ سے کئی خرابیوں کا جنم لینا۔ ( پیداہونا)۔
4 ۔کالج یونیورسٹی کی غیر شرعی تقریبات میں شرکت۔
5 ۔بغیر پردے کے مردوں سے پڑھنے کا گناہ۔
6 ۔بے دین عورتوں سے تعلیم حاصل کرنے میں ایمان و اعمال اور اخلاق کی تباہی۔
7۔ فاسقہ عورت کے سامنے بغیر پردے کے جانا، حالاں کہ باپردہ عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ فاسقہ ( بے پردہ) عورت سے بھی پردہ کرے۔
قال العلامة ابن عابدین رحمہ الله تعالی: ولا ینبغی للمرأة الصالحة ان تنظر الیھا المرأة الفاجرة؛ لانھا تصفھا عند الرجال، فلا تضع جلبابھا و لاخمارھا، کما فی السراج الخ (ردالمحتار ص:238، ج5)
8۔ کافر اور بے دین لوگوں کی نقالی کا شوق۔
9۔ اس تعلیم کی وجہ سے حب مال ( مال کی محبت ) اور حب جاہ (عزت ومنصب کی محبت) کا بڑھ جانا اور اس کی وجہ سے دنیا وآخرت کا تباہ ہونا۔
10۔ شوہر کی خدمت ، اولاد کی تربیت او رگھر کی دیکھ بھال ، صفائی وغیرہ جیسی فطری اور بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت۔ 
11۔ دفتروں میں ملازمتیں اختیار کرنا جو دین ودنیا کی تباہی کا ذریعہ ہے۔
12۔ مردوں پر ذرائع معاش ( روزی کے اسباب) تنگ کرنا۔
13۔ شوہر پر حاکم بن کر رہنا۔
مخلوط طریقہ تعلیم میں مفاسد مذکورہ کے علاوہ لڑکوں کے ساتھ میل جول اور بے تکلفی کی وجہ سے لڑکوں، لڑکیوں کی آپس میں دوستی، عشق بازی ، بد کاری اور اغوا جیسے گھناؤنے مفاسد بھی پائے جاتے ہیں اس لیے موجودہ دور کے تعلیمی اداروں میں عورتوں کو تعلیم دلانا جائز نہیں۔
مردوں کو زنانہ مشابہت اور عورتوں کو مردانہ مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے اور لعنت کا سبب ہے
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ایک عورت نے ہاتھ میں ایک پرچہ دینے کے لیے پردہ کے پیچھے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہاتھ بڑھایا ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ نامعلوم مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ اس نے کہا یہ عورت کا ہاتھ ہے۔ فرمایا: اگر عورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کو مہندی کے ذریعے بدل دیتی ( یعنی مہندی رنگ لیتی) ۔ ( مشکوة شریف ص:383)
تشریح: اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی عورتیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پردہ کرتی تھیں، اس لیے تو ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے پرچہ دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اگر بے پردہ سامنے آتی تو پردے کی کیا ضرورت تھی؟
جاہل پیروں کی گمراہی
اس حدیث سے ان جاہل پیروں کی گمراہی بھی معلوم ہوتی ہے جو اپنی مریدنیوں میں بے محابا اند رگھروں میں گھس جاتے ہیں اور پردے کا اہتمام نہیں کرتے ، جاہل عورتیں کہتی ہیں کہ ان سے کیا پردہ؟ پیرمیاں ہیں، نیک آدمی ہیں، بھلا الله کے پاک رسول، فخر عالم صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر نیک او رپاک باز کون ہو گا؟ جب صحابی عورتوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے بھی پردہ کیا تو کسی دوسرے کو دم مارنے کی کیا مجال ہے جو نیکی کے جھوٹے دعوے کرکے بے محابا عورتوں میں چلے جاتے ہیں ، ایسے لوگ پیر مرشد نہیں، بلکہ گمراہ ہیں، جو شیطان کی راہ دکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے مُرید ہونا حرام ہے، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی۔
دوسری بات حدیث بالا سے یہ معلوم ہوئی کہ عورت کو عورتوں والی وضع میں رہنا چاہیے، عورت کے ہاتھ میں مہندی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ عورت کا ہاتھ ہے۔ تو یہ کہ عورت ہاتھ کی ہتھیلیوں پر مہندی لگاتی رہے، ورنہ ناخنوں میں تو ضرور ہی مہندی رہنی چاہیے۔ مرد کو اپنی وضع مردانہ میں اور عورت کو اپنی وضع زنانہ میں رہنا چاہیے۔
حضرت ابن ملیکہ (تابعی) رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے کسی نے عرض کیا کہ ایک عورت ( مردانہ) جوتا پہنتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایسی عورت پر لعنت کی ہے جو مردوں کے طورو طریق اختیار کرے۔ (مشکوة شریف ص383 از ابوداؤد)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے ایسے مرد پر لعنت کی ہے جو عورت کا لباس پہنے اور ایسی عورت پر لعنت کی جو مرد کا لباس پہنے۔ (جاری)

Flag Counter