Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

8 - 16
***
یہودی مدارس میں عسکریت کی تعلیم
مولانا سعید احمد جلال پوری
اسلام، مسلمانوں، دین، دینی مدارس، علماء، طلبہ اور دینی تعلیم کو مطعون وبدنام کرنے، ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے، گز گز کی زبان نکال کر ان کو بے نقط سنانے والوں اور دینی مدارس کو بند، ان میں رائج تعلیم ونصابِ تعلیم کو ختم یا تبدیل کرنے کی سفارش کرنے والے یہودونصاریٰ، ان کے ایجنٹوں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو ذرا اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ بی بی سی کے مطابق اسرائیل میں یہودیوں کے باقاعدہ مذہبی مدارس قائم ہیں، جہاں خالص یہودی مذہبی نصاب اور نظامِ تعلیم رائج ہے، وہاں خالص یہودی مذہبی افراد تیار کیے جاتے ہیں اور انہیں اسرائیل جیسی صہیونی اور خالص یہودی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ نہ صر ف یہ بلکہ ان یہودی مذہبی مدارس میں باقاعدہ عسکریت اور سپاہ گری کی تعلیم وتربیت کا مکمل انتظام ہے اور وہاں مکمل فوجی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے دینی مدارس، ان کی خالص دینی، مذہبی، اسلامی تعلیم، نصابِ تعلیم اور پروگرام ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے، تو یہودی مذہبی مدارس، ان کا یہودی مذہبی نصاب اور نظام تعلیم کیونکر قابل برداشت ہے؟ اگر اسرائیل اور ان کے سر پرست یہودی مدارس، ان کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو ختم اور تبدیل کرنے پر زور نہیں دیتے یا ان عسکریت پسند مدارس اور ان کے کٹر بنیاد پرست مذہبی راہ نماؤں، طلبہ اور اساتذہ کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، تو انہیں مسلمانوں کے خالص دینی، مذہبی اور اصلاحی مدارس، ان کے نصابِ تعلیم، ان کے اساتذہ، طلبہ اور مذہبی راہ نماؤں سے کیوں پر خاش ہے؟ اور وہ ان کے خلاف کیونکر بر سر پیکار ہیں؟
اگر یہودی ان مذہبی مدارس، عسکریت پسند مذہبی راہ نماؤں اور ان کے طلبہ کو اپنا مخالف نہیں سمجھتے تو نام نہاد مسلمان ممالک کے اربابِ اقتدار، ان خالص اسلام پسند دینی، مذہبی، اصلاحی اداروں، مدارس، ان کے اساتذہ اور طلبہ کو اپنا مخالف کیوں سمجھتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ یہودی اور اسرائیل حکومت اپنے جھوٹے دین ومذہب کے ساتھ مخلص ہیں، مگر نام نہاد مسلمان اپنے سچے دین ومذہب سے غیر مخلص یا باغی ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ اس مخالفت وعداوت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ یورپ، امریکا اور اسلام دشمن سپر طاقتوں کے دباؤ اور ایجنڈے کی تکمیل میں یہ سب کچھ ہورہا ہو؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہے تو کیا یہ نام نہاد مسلمان حکمران اور بے غیرت حکام ان کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر مسلمانوں کے دینی مدارس اور ان کا نصاب ونظامِ تعلیم ناقابل برداشت ہے تو یہودیوں کے دینی، مذہبی، مدارس، ان کا نصاب و نظامِ تعلیم اور عسکری تعلیم وتربیت گاہیں کیونکر قابل برداشت ہیں؟ اگر مسلمان مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے، ان پر بم برسائے جاسکتے ہیں، ان کے طلبہ کو دہشت گرد، تشدد پسند کہا جاسکتا ہے، تو یہودی مدارس اور ان کے طلبہ کے خلاف یہ ”پُروقار“ القاب کیوں نہیں استعمال کیے جاسکتے؟
الغرض اگر مسلمانوں کے دینی مدارس، جہاں فوجی تربیت، سپاہ گری اور عسکریت وغیرہ کسی قسم کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی، اگر یہ ہضم نہیں ہوسکتے تو جن یہودی مذہبی مدارس میں باقاعدہ عسکریت کی تعلیم وتربیت ہوتی ہے، وہ کیونکر قابل برداشت ہیں؟ اگر مسلم دینی مدارس اور طلبہ کے خلاف بولا اور لکھا جاسکتا ہے؟ ان کو بدنام کیا جاسکتا ہے؟ یا ان کے خلاف پوری دنیا میں دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کیا جاسکتا ہے تو یہودی مذہبی اور عسکریت پسند مدارس کے خلاف کیوں نہیں لکھا اور بولا جاسکتا؟ لیجیے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی اس سلسلہ کی خبر پڑھیے اور فیصلہ کیجییکہ نام نہاد مسلمان حکام اور متعصب وکٹر یہودیوں کے طرز عمل میں کس قدر زمین وآسمان کا فرق ہے؟
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ دنوں مغربی یروشلم کے اسرائیلی مذہبی اسکول پر ایک شخص نے فائرنگ کر کے آٹھ یہودی مذہبی طلبہ کو قتل کر دیا تو اس پر پوری یہودی دنیا چیخ اٹھی، بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خبر ملاحظہ ہو:
”مغربی یروشلم میں ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی اس اسکول کے باہر جمع ہوگئے ہیں، جہاں ایک مسلح شخص کے حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہودیوں کے مذہبی اسکول میر کز ہیراف کے باہر جمع غم زدہ لوگ اس وقت آب دیدہ ہوگئے، جب ایک یہودی ربی نے ہلاک ہونے والوں کی میتوں پر دعائیہ کلمات کہنا شروع کیے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کرسپن ٹورولڈ کا کہنا ہے کہ لوگوں کی طرف سے غم کے اظہار سے اسرائیلی حکومت پر سخت ردِ عمل ظاہر کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے، تا ہم اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کو ختم نہیں کرے گا۔ اس حملے میں ملوث فلسطینی مسلح شخص اسکول کے قریب ڈرائیور تھا۔ پولیس نے اس شخص کی شناخت کر لی ہے اور بتایا کہ اس کا نام علاؤالدین ابو دہیم تھا اور مشرقی یروشلم کا رہائشی تھا۔ مشرقی یروشلم میں یہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد پیش آیا ہے، جس میں ایک سو بیس سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوگئے تھے۔ ہمارے نامہ نگار کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی فورسز اس بات کا بغور جائزہ لے رہی ہیں کہ علاؤالدین ابودہیم کا تعلق کسی مسلح گروپ سے تو نہیں تھا۔ لبنان میں حزب اللہ تنظیم کے قریبی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق فلسطینیوں کے ایک غیر معروف گروپ جلیل فریڈیم بٹالین یا الشہداء عماد مغنیہ وشہداء غزانے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
عماد مغنیہ حزب اللہ تنظیم کے ایک اعلیٰ اہلکار تھے اور وہ دمشق میں بارہ فروری کو ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ مذہبی اسکول میں ہلاک ہونے والے تمام اسرائیلی تیس سال سے کم عمر تھے۔ عینی شاہدوں کے مطابق ابودہیم اس مدرسے کی لائبریری سے اندر داخل ہوئے، جہاں اَسی (80) طالب علم موجود تھے، ابودہیم نے اندر داخل ہوتے ہی کلاشنکوف سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ طالب علموں میں بھگدڑ مچ گئی اور انہوں نے کھڑکیوں سے باہر چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ اس سے قبل کہ ایک سابق فوجی ابودہیم کو ہلاک کرتا، ایک طالب علم نے ابودہیم کو دو گولیاں مار دیں۔ بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور مدیر جرمی بوؤن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام مدرسہ نہیں تھا، بلکہ یہ عرب اردن میں یہودیوں کی آبادکاری کے نظریہ کا منبع ہے۔ اس میں زیر تعلیم زیادہ تر طالب علم مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی حاصل کر رہے تھے۔ جرمی بوؤن کے مطابق اس اسکول کے باہر جمع ہونے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو پہلے ہی یہود اولمرٹ کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مخالف ہیں۔“ (بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، 7/مارچ 2008ء)
ان آٹھ یہودی مذہبی طلبہ کی ہلاکت پر ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں کوئی بھونچال آگیا ہو! ورنہ دنیا میں روزانہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں معصوم وبے گناہ قتل ہورہے ہیں اور ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، ان میں سے دینی، مذہبی، سیاسی اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ جوان، بوڑھے، مردوں عورتوں کے ساتھ ساتھ معصوم اور شیر خوار بچے بھی ہوتے ہیں، مگر ان بے قصوروں کے قتل عام پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، صرف یہی نہیں، بلکہ آئے دن بم دھماکے، 52 بی کی بمباری، راکٹ لانچر اور فاسفورس بم تک گرائے جاتے ہیں، اور آنِ واحد میں ہنستے بستے گھر، بستیاں اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں،مگر اس پر نہ کوئی ہنگامی صورت حال ہوتی ہے نہ ایمر جنسی لگتی ہے، نہ سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کو اس کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک معمول کی کارروائی کہلاتی ہے، لیکن دوسری طرف اگر ایک یہودی اسکول کے آٹھ عسکریت پسند طالب علم ہلاک ہوتے ہیں تو سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ اس پر مذمت کرتی ہے اور ہنگامی اجلاس بلا لیتی ہے، لیجیے اس سلسلہ کی خبر ملاحظہ ہو:
”مقبوضہ بیت المقدس… مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے مذہبی اسکول پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک حملہ آور سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے ہیں، دوسری جانب اس واقعے پر شدید عالمی ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فائرنگ کے واقعے پر اظہار مذمت کرتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے مذہبی اسکول میں فائرنگ کر کے آٹھ افراد کو ہلاک اور پینتیس کو زخمی کر دیا گیا تھا، فائرنگ کے واقعے کے بعد اسرائیل میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق مشرقی بیت المقدس سے ہے۔“
یہودی مذہبی اسکول پر حملہ آور مسلمان ڈرائیور ابودہیم، اس عسکری تربیت گاہ اور یہودی مذہبی اسکول کے اسلحہ بردار طالب علم کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگیا، مگر اس کے باوجود تا حال یہودی بغض وعنادکی آگ کے شرارے فرونہیں ہوئے، انہوں نے اس کا انتقام لینے کے لیے کیا منصوبہ بنایا؟ اور یہودی مذہبی راہ نماؤں کے اس پر کیا جذبات ہیں؟ ملاحظہ ہوں:
”مقبوضہ بیت المقدس (اے پی پی) دنیا بھر میں مسلم دینی مدارس کو دہشت گردی کی آما ج گاہ قرار دینے کا پروپیگنڈا کرنے والے صہیونی ملک اسرائیل کے چینل ون ٹی وی نے انکشاف کیا ہے کہ یہودیت کی تعلیم حاصل کرنے والے 3 نوجوانوں نے اپنی درس گاہ پر حملے کا مسلمانوں سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ ٹی وی چینل کے مطابق تینوں یہودی نوجوان مسجد اقصیٰ سے وابستہ کسی نامور مسلمان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی مذہبی درس گاہ پر حملے کے بعد 3 یہودی طلباء نے اپنے منصوبے کے حوالے سے دوربیوں (یہودی مذہبی عالم) سے ملاقات کی، ایک ربی نے حملے کا منصوبہ بنانے والے یہودی طلباء کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، جبکہ تل ابیب کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر ایک ربی نے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کا ہدف مسجد اقصیٰ سے منسلک ایک مسلم عالم دین کو جسمانی ضرر پہنچانا ہے۔ اس ضمن میں اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، جب کہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ یہودی درس گاہ پر حملے کے ردِ عمل میں کسی بھی واقعے کے لیے تیار ہیں۔“ (روزنامہ امت کراچی،12مارچ2008ء)
مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی ودہشت گردی کا ڈھنڈ ور اپیٹنے اور بھونڈاراگ الاپنے والے شورہ پشت یہودیوں نے اپنے چند طلبہ کی ہلاکت کا بدلہ لینیکے لیے کس انتہا پسندی، دہشت گردی کا منصوبہ بنایا ہے؟ اور اس سلسلہ میں وہ کہاں تک آگے جانے والے ہیں؟ ان کے مذہبی پیشوا مسلمانوں، ان کی مقدس عبادت گاہوں اور مذہبی راہ نماؤں کو کیا مزہ چکھانا چاہتے ہیں؟ ملاحظہ ہو:
”بیت المقدس (ثناء نیوز) اسرائیل کے انتہاپسند مذہبی راہ نماؤں نے حال ہی میں مذہبی اسکول پر حملہ کا بدلہ لینے کے لیے مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔ مڈل ایسٹ اسٹیڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق تین اعلیٰ سطحی مذہبی پیشواؤں نے مشترکہ طور پر جاری ایک فتوے میں کہا ہے کہ یہودی شریعت کی رو سے یہودی شہریوں کے قتل کے بدلے مخالف مذہب کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ شریعت کی رو سے مسجد اقصیٰ کو یہودی شہریوں کے بدلے مسمار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ فلسطینی مسلمان بھی یہودی آباد کاروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مشورے میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی شریعت نہ صرف مذہبی مقامات پر حملوں کی اجازت دیتی ہے، بلکہ ایک عام یہودی کے بدلے دوسرے مذہب کے اعلیٰ سطحی راہ نما کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔“ (روزنامہ جنگ کراچی، 14/ مارچ 2008ء)
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی اپنے دین ومذہب، مذہبی درس گاہوں، اپنے مذہبی طلبہ اور اپنے مذہبی لوگوں کے بارے میں کس قدر حساس ہیں؟جو یہودی آئے دن مسلمانوں کی مقدس شخصیات، ان کے معصوم شہریوں، جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو تہہ تیغ کرتے ہیں اور مسلمان آبادیوں پر بمباری کرکے ان کے شہروں کو کھنڈرات بنارہے ہیں، اگر ان کے چند طلبہ کسی ردعمل میں مارے جاتے ہیں، ان کا قاتل ان کی تیغ جفا سے بچ کر بھی نہیں جاسکا، مگر بایں ہمہ وہ اس قدر بپھر چکے ہیں کہ انہوں نے یک آواز ہو کر فتویٰ صادر کر دیا کہ ان آٹھ عسکریت پسند مذہبی طلبہ کے بدلہ اور انتقام میں مسلمان مذہبی راہ نماؤں، ان کی مقدس عبادت گاہوں، حتی کہ مسجد اقصیٰ کو بھی نشانہ بنانا جائز ہے۔
اس موقع پر ہم دنیا بھر کے انصاف پسند افراد، جماعتوں، مسلمانوں، دینی مذہبی راہ نماؤں، اخبارات ومیڈیا کے ذمہ داروں اور ارباب قلم سے عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر مسلمانوں، مسلمان مدارس، دینی، مذہبی اداروں کے خلاف یہودیوں، ان کے ایجنٹوں، ان کے وفاداروں اور ان کے نمک خواروں اور ان کے زر خرید غلاموں کی زبان وقلم حرکت میں آسکتے ہیں تو حق وانصاف کے علم برداروں کی زبان وقلم ان یہودی مدارس کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آسکتے؟ صرف اس لیے کہ یہودی مدارس کو یورپ وامریکا اور سپر طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے اور مسلمان دینی مدارس اس سے محروم ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو آپ بھی اس حقیقت کو اجا گر کریں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو حق کا ساتھ دینے کے لیے بروئے کار لائیں، یہ آپ کا دینی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی فرض بنتا ہے، اگر آپ نے اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کی تو نہ صرف یہ کہ آپ اپنا وزن ان ظالموں کے پلڑے میں ڈالنے والے ہوں گے، بلکہ تاریخ میں آپ کا نام بھی ان ظالموں کی فہرست میں لکھا جائے گا۔

Flag Counter