Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

15 - 16
***
باطل کی فکری یلغار، تاریخ کے آئینے میں
محترم عبدالله خالد قاسمی
قرون اولیٰ میں جب اہل باطل کو ”عسکری“ میدان میں ہر موقعہ پر ”ہزیمت“ سے دو چار ہونا پڑا، تو انہوں نے ” نفاق کے لبادے“ میں اسلام کے خلاف ایک ” فکری محاذ “ برپا کر دیا، جس نے اولاً تو دور نبوی ہی میں اختلاف وانتشار کی کوشش کی اور پھر جب کچھ نہ بن پڑا تو خاص طور پر اہلِ کتاب نے، عام طور پر اہل باطل نے اعتراضات اور اشکالات کی گرم بازاری کا آغاز کیا۔
دورِ نبوی کے بعد دورِ صدیقی میں اسلام دشمنوں کی باطل کارروائیوں کے نتیجے میں ارتداد کی مسموم ہوا چلی، اسلام کے خلاف مختلف پروپیگنڈے کیے گئے، کسی نے زکوٰة کی فرضیت کا انکار کیا، تو کسی نے دعویٰ نبوت کرکے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی ، مگر حضرت ابوبکر صدیق  کی ہمت واستقلال اور جرأت وشجاعت، نیز حکمت عملی نے صرف ایک سال کے عرصہ میں اس پر قابو پالیا اور دین کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھا۔
حضرت عمر بن خطاب کے دور میں، جب ان کی شرارتوں کو بھانپ کر، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق، انہیں جزیرہ العرب سے باہر کر دیا گیا ، تو ایک عرصہ تک ظاہری طور پر باطل کی یلغار کا فتنہ تھم گیا، کیوں کہ حضرت عمر  بڑے ہی دور بیں اور جرأت مند تھے،پوری جرأت اور حکمت عملی اور دور بینی کے ساتھ جاندار اور شاندار فیصلہ کرتے تھے، جس کی وجہ سے تمام فتنہ پر ورمایوس ہو چکے تھے ، اسی لیے باقاعدہ مجوسی فیروز اور ہر مزان اور دیگر یہودی ونصرانی طاقتوں نے حضرت عمر بن الخطاب کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا اور انہیں اس میں کامیابی بھی مل گئی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ ہی حضرت عمر رضی الله عنہ کے بعد خلافت کے حق دار تھے، آپ نے دورِ خلافت میں کوئی بھی خلاف شرع اور نفسانیت پر مبنی کام نہیں کیا، مگر ” فتنہ پروروں“ نے آپ کی نرم دلی اور عفو ودرگزر سے غلط فائدہ اٹھایا اور آپ پر بے بنیاد اقرباء پروری کا الزام عائد کیا۔
مردود عبدالله ابن سبا نے پہلے بصرہ میں ، پھر مصر میں چند لوگوں کو حضرت عثمان اور آپ کے عمال کے خلاف بھڑکایا اور انہیں مدینہ کی طرف روانہ کیا ، حضرت عثمان اگر صحابہ کو جنگ کی اجازت دے دیتے تو ان تمام بلوائیوں کی تکہ بوٹی ہو سکتی تھی ، مگر آپ کے نزدیک حرمتِ خونِ مسلم یہ انتہائی مقدس تھا، آپ نے کسی کوبھی قتال کی اجازت نہ دی ، البتہ آپ حق پر تھے ، لہٰذا کسی بھی صورت میں خلافت سے دست برداری کے لیے آمادہ نہ ہوئے، جس کے نتیجہ میں ان محروم القسمت بلوائیوں نے ایک دن موقعہ پاکر ، آپ کو شہید کر دیا ، رضی الله عنہ وارضاہ، انالله وانا الیہ راجعون․
مگر حضرت عثمان ذوالنورین نے یہ تو ثابت کر دیا کہ ” اہل حق“ کو ثابت قدمی کا مظاہر کرنا چاہیے، حتی المقدور مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنی چاہیے ، اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
حضرت علی  کا دور داخلی خلفشار کا شکار ہوا، اس میں بھی عبدالله ابن سبا کے پروردہ لوگوں نے اہم رول ادا کیا اور خلفشار سے نکلنے کی ہزاروں کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہونے دی اور پھر مسلمانوں کے باہمی انتشار سے فائدہ اٹھا کر ایک طرف ایک جماعت کو صحابہ کی تکفیر پر آمادہ کیا، جو ”خوارج“ سے یاد کیے گئے اور دوسری جانب ایک جماعت کو ان کے علم کی کمی کی وجہ سے حضرت علی کی ”خلافت بالوصل ” اور ”وصی“ اور آگے چل کر ”الہ“ پر آمادہ کیا ، جوروافض شیعہ کہے گئے اور اس طرح انتشار کا سلسلہ شروع ہو گیا ، جو آج بھی جاری وساری ہے۔
خلفائے راشدین کے دور کے بعد تو وہ کھلے بندوں آزاد ہو گئے ، یہاں تک کہ قرنِ ثانی کے اوائل اور قرن اول کے اختتام پر چند لوگوں نے نبوت کے دعوے بھی کر دیے اور فتنہ دعوی نبوت آج تک جاری ہے۔
عباسی دور خلافت میں باطل کی فکر ی یلغار نے مستقل ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی ، کیوں کہ دورِ بنوامیہ سے علوم یونان اور فلسفہ ہند وغیرہ کے جو عربی تراجم شروع ہوئے تھے، اس میں تیزی آئی اور لوگ”شریعیات“ یعنی علوم نقلیہ شرعیہ کی بنسبت ” علوم عقلیہ“ کی طرف زیادہ متوجہ ہونے لگے ، ”مامون الرشید“ نے تو اس میں ضرورت سے زیادہ ہی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور باقاعدہ”یونان“ کے بادشاہ سے کتابیں منگواکر اس کے عربی میں تراجم کروائے، ترجمہ کرنے والوں کو معاوضات دیے، یہاں تک کہ ما مون خود ہی ” عقلیات“ سے متاثر ہو کر ” اعتزال“ کی طرف مائل ہو گیا اور معتزلہ کو گویا سرکاری تعاون حاصل ہو گیا ، طاقت کے زور پر بعض خلفائے عباسیہ نے اعتزال کو فروغ دینا چاہا ، مگر حضرت امام احمد بن حنبل جیسے علما نے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا ، جس کی وجہ سے عوام الناس اس نظریہ سے زیادہ متاثر نہ ہوسکے۔
جب اندلس میں موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد کے ہاتھوں اسلام پہنچا اور اہل یورپ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو علوم کے ساتھ والہانہ تعلق ہے، جس کے نتیجہ میں وہ ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں ، ان کی آنکھیں چندھیا گئیں، کیوں کہ ان کا حال یہ تھا کہ وہ کلیساؤں ،پادریوں اور کاہنوں اور اپنے بادشاہوں کی جانب سے ہونے والے جبر وتشدد کے زیر نگیں زندگیاں گزار رہے تھے ، اسی وجہ سے مؤرخین یورپ نے خود اسے ” تاریخ یورپ کا سیاہ باب“ سے تعبیر کیا ، مسلمانوں کے دیکھا دیکھی انہیں بھی ترقی کی سوجھی ، لہٰذا مسلمانوں کی درس گاہوں میں فن وہنر سیکھنے کی اجازت طلب کی ، تو مسلمانوں نے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا او رانہیں اجازت دے دی، انہوں نے علم حاصل کیا ، مگر بغرض ہدایت نہیں ،بل کہ ” بغرض مادیت“ لہٰذا ایمان جیسی عظیم دولت سے تو وہ محروم رہے ،البتہ مادی ترقی کی راہیں ان پر کھل گئیں۔
اہلِ مغرب نے اب جب کچھ سیکھ لیا تو دنیا پر قیادت وسیادت کے خواب دیکھنے لگے اور پھر اسلام کے خلاف ایک زبردست ” صلیبی“ محاذ کھڑا کیا ، گیارہویں صدی کے نصف سے لے کر تیرھویں صدی تک تقریباً دو سو سال میں ” مشرقِ اسلامی“ پر ہلاکت خیز آٹھ حملے کیے، پہلا حملہ1095ء میں ”پوپ اور پان“ نے ”قدس“ کو حاصل کرنے کے لیے ” مقدس صلیبی جنگ“ کا نام دے کر، اس کو مذہبی رنگ دے کر لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا اور پندرہ ہزار کا لشکر لے کر برطس نکلا، مگر سلاجقہ نے ان کا مقابلہ کیا اور وہ لوگ ”قدس“ پہنچنے سے پہلے ہی شکست کھا کر بھاگے۔
1096ء سے 1099ء تک تیاری کرکے ” غور فری“ اور ”پولدین“ کی قیادت میں1099ء میں فلسطین پر ایک زبردست حملہ کیا اور وہ لوگ بیت المقدس پر قابض ہو گئے ، جہاں انہوں نے ہزاروں اور لاکھوں مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا ،خود ان کے مؤرخ”لویوی ریمونڈواجیل“ نے اس کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ ” ہماری قوم یعنی صلیبیوں نے عرب کے ساتھ بڑا ظلم کیا اور ان کا قتل عام کیا، صرف ” مسجد عمر“ میں دس ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور اس حملہ میں تقربیاً ستر ہزار بے گناہ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیاگیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ مسلمان انتشار کا شکار تھے اور چھوٹی چھوٹی مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گئے تھے ، کہیں فاطمیوں کی حکمرانی تھی تو کہیں عباسیوں کی وغیرہ غیرہ، البتہ عماد الدین زنگی نے صلیبیوں کا خوب جم کر مقابلہ کیا اور ان کو شام کی جانب آگے بڑھنے سے روک دیا ۔1128ء میں زنگی نے حلب کو صلیبیوں سے بچایا اور 114ء میں شہر ”ھا“ پر قبضہ کر لیا ، مگر 1146ء میں عمادالدین زنگی کی وفات ہو گئی اور صاحبزادہ نورالدین زنگی اس کا جانشین ہوا۔
نورالدین زنگی میں شجاعت اس کے والد سے بھی زیادہ تھی، اس نے صلیبیوں کے ناک میں دم کر دیا اور ”انطاکیہ“اور ”طرابلس“ کے ساتھ کمانڈر”شیرکوہ“ کی قیادت میں دمشق کو بھی فتح کر لیا ، جس پر چند سال قبل صلیبیوں نے قبضہ کر لیا تھا، اس کے بعد ” اسد الدین شیرکوہ“ کی قیادت میں ایک لشکر مصر کی جانب فاطمیوں کے خلاف ارسال کیا، جس میں فاتح فلسطین صلاح الدین ایوبی بھی تھے ، جو پہلی مرتبہ کسی جنگ میں حصہ لے رہے تھے ۔1169ء میں مصر پر زنگی کا قبضہ ہو گیا اور ” اسد الدین شیرکوہ“ کو وزیر بنا دیا گیا ، مگر دو ماہ کے بعد ہی اسد الدین کا انتقال ہو گیا ، انا لله وانا الیہ راجعون․
اسد الدین نے صلاح الدین کو اپنا جانشین ٹھہرایا اور صلاح الدین ایوبی نے ” بیت المقدس “ کی آزادی کی تیاریاں شروع کر دیں ، یہاں تک کہ 1187ء میں صلیبیوں اور مسلمانوں کے درمیان” معرکہٴ حطین“ پیش آیا۔
صلاح الدین ایوبی اور اسلامی لشکر نے بیمثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور صلیبیوں کو شکست سے دو چار کر دیا اور اس طرح ” بیت المقدس“ کے قریب پہنچ گئے اور آہستہ آہستہ ” فلسطین“ کی اردگرد کی بستیوں پر قبضہ شروع کر دیا اور ”شہر عکا“ اور”ناصرہ، قیساریہ، حیف صیدا، بیروت “ پر قبضہ ہو گیا، یہاں تک کہ مجبور ہو کر جب وہ گھیرے میں آگئے اور نااُمید ہو گئے تو مسلمانوں کے ساتھ صلح پر آمادہ ہو گئے اور الحمدلله عرصہٴ دراز کے بعد پھر دوبارہ تکبیر کی صداؤں اور اذان کی نداؤں سے فضا گونجنے لگی، مگر مسلمانوں نے ان ظالموں کی طرح ظلم نہیں کیا ، ماضی میں بھی مسلمان امن پسند رہا ہے اور یہلوگ ”دہشت گرد “ رہے ہیں او رحال میں بھی یہی صورتِ حال ہے ، یہ واقعہ اس پر شاہد عدل ہے۔
1189ء میں صلیبیوں نے جمع ہو کر پھر بیت المقدس کو قبضہ میں لینے کی کوشش کی ، مگر چار سال کی محنت کے بعد 1192ء میں صلح پر مجبور ہو گئے اور 1193ء میں صلاح الدین وفات پاگئے ۔ انالله وانا الیہ راجعون۔
1202ء میں صلیبیوں نے چوتھا حملہ کیا ، مگر یہ حملہ مصر پر قبضہ کرنے کے لیے تھا، لیکن ایطالین تاجروں نے جن کا حاکم مصر ” ملک عادل“ کے ساتھ معاہدہ تھا ، انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
1217ء میں مصر پر قبضہ کرنے کے لیے پانچواں حملہ کیا،مگر ملک عادل کے انتقال کے بعد اس کے جانشین ملک کامل نے انہیں نامراد واپس یورپ کی طرف جانے پر مجبور کیا۔
1228ء میں پھر چھٹا حملہ کیا ، ملک کامل نے اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر صلح کر لی ،1230ء میں صلیبیوں کو تسلط دے دیا ، البتہ 1244ء میں پندرہ سال بعد دوبارتیاری کرکے حملہ کیا اور اپنا علاقہ حاصل کر لیا۔
1248ء میں پھر ساتواں حملہ صلیبیوں کی جانب سے ہوا۔ 1249ء میں صلبی لشکر ” مصر“ تک پہنچ گیااور ”دمیاط“ پر قبضہ کر لیا ،البتہ ”قاہرہ“ میں نجم الدین ایوب نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، مگر اسی دوران نجم الدین اچانک انتقال کر گئے ، مگر ان کی ذہین بیوی ”شجرة الدرر“ نے ان کی وفات کی خبر کو راز میں رکھا، تاکہ لشکر ہمت نہ ہارے اور ”توران شاہ“ کو ان کا جانشین بنا دیا اور الحمدلله اس کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح بھی ہوئی اور لویس (Luvces) التاسع گرفتار کر لیا گیا۔
اس کے بعد عالم اسلام دوہری مصیبت میں گرفتارہو گیا، کیوں کہ ایک طرف تاتاریوں نے 656ھ/1285ء میں بغداد کا محاصرہ کر لیا اور دولت عباسیہ کا سقوط ہو گیا ، مگر جب وہ آگے بڑھے تو ” ممالیک“ نے ان کو ملک شام پر ہی رکنے پر مجبور کر دیا اور اسلام کے مشہور بہادر”ظاہر بیبرس“ کی قیادت میں1260ء میں تاتاریوں کو ” معرکہٴ عین جالوت“ میں شکست سے دو چار کیا ، دوسری جانب صلیبیوں نے بھی انطاکیہ کی جانب سے حملہ کیا ، مگر ”ظاہر بیبرس“ نے انہیں ہزیمت پر مجبور کیا، ظاہر بیبرس کے انتقال کے بعد سلطان قلادون نے بھی صلیبیوں سا بہت سے علاقہ چھین لیا۔1291ء میں سلطان کے انتقال کے بعد ان کے ہونہار صاحبزادے جانشین ہوئے اور انہوں نے بیروت وغیرہ، جو کچھ علاقہ صلیبیوں کے پاس رہ گیا تھا، اسے بھی واپس لے لیا۔
ان جنگوں کے بعد اب صلیبی ہمت ہار گئے اور انہوں نے دوبارہ یورپ کی جانب رخ کرنے ہی میں عافیت سمجھی، لہٰذا وہ یورپ لوٹ گئے، البتہ قلیل مقدار میں مسلمانوں کے درمیان سکونت اختیار کرنے پر راضی ہو گئے اوراسلام کے سایہٴ عدل ومصالحت ہی میں انہوں نے اپنے آپ کومحفوظ پایا، تمام صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا اصل راز مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد ، ان کا جہاد، ان کا جذبہ ایمان اور ان کے نیک وصلاح سلاطین اوران کی اسلام کے ساتھ بے پناہ محبت اور اس پر عمل درآمد تھا، انہیں جنگوں کے طفیل صلاح الدین ایوبی ، ظاہر بیبرس ، نورالدین زنگی ، عماد الدین زنگی ، اسد الدین شیرکوہ ، ملک عادل ، ملک کامل، نجم الدین ایوب، توران شاہ، سلطان قلادون، خلیل بن قلادون ، محمد بن قلادون، سلطان برسابی جیسے مشہور کامیاب جنرل ظاہر ہوئے ، جنہوں نے اسلام کی عظمت کے لیے سب کچھ قربان کر دیا اور فتح وکامرانی کی عظیم مثالیں قائم کر دیں ، آج ہمارے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان بے مثال مجاہدین کے نام تک نہیں جانتے۔
دو سو سال تک ان پے درپے شکستوں کے بعد ”لویس“ جو فرانس کا بادشاہ تھا اور آخری صلیبی جنگ میں صلیبیوں کی قیادت کر رہا تھا، ” المنصورہ“ میں صلیبیوں کی شکست کے بعد گرفتار ہو گیا ، مگر مسلمانوں نے فدیہ لے کر اسے چھوڑ دیا ، جب وہ فرانس پہنچا تو اس نے برملا یہ کہا کہ ”تلوار اور ہتھیار کی طاقت سے مسلمانوں کو کبھی زیر نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ ان کا عقیدہ ایمان انتہائی مضبوط ہے جو انہیں ہمیشہ جہاد پر آمادہ کرتاہے اور دین کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لیے وہ تیار ہو جاتے ہیں ، چاہے کتنی قیمتی چیزہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ، یہاں تک کہ جان کی بھی پروا نہیں کرتے۔
لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ اب ہم اپنے اس طریقہ کو بدلیں اور کوئی ایسا طریقہ اپنانے کی کوشش کریں جس سے ان کے عقیدہ راسخہ پر زد آئے ، ان کا ایمان کمزور اور متذبذب ہو جائے ۔“ پھر اس نے چند تجاویز پیش کیں، جویہ ہیں:
سب سے پہلے ہمیں اسلامی فکر اور عقیدہ پر ضرب کاری لگانے کی ضرورت ہے ، جس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اسلام کا مطالعہ کرنا ہو گا۔
اسلام کے مطالعہ کی غرض صرف یہ ہو کہ اس میں تحقیق اور ریسرچ کے نام پر اعتراضات کیے جائیں اور مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے سلسلے میں شوک وشبہات میں مبتلا کر دیا جائے۔
اس طرح صلیبی جنگ نے پانسا پلٹا اور نئی کروٹ لی اور ”عسکری میدان“ سے ”فکری میدان“ کی طرف جنگ کا رخ کر دیا گیا ، اس کے لیے انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا او رپھر قرآن، احادیث مبارکہ اور دیگر اسلامی علوم کو اپنی زبانوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا اور پھر ” استشراق“ کے نام پر مستقل ایک تحریک وجود میں آئی ، جس نے مشرقی لسانیات، مذاہب وعلوم پر تحقیق کے لبادے میں اسلام پر زور دار حملے کا آغاز کر دیا۔

Flag Counter