Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

14 - 16
***
اسلام میں قربانی کا مقام
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
قربانی کا تاریخی پس منظر
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی خود مذہب یا انسان کی تاریخ ہے۔ انسان نے مختلف ادوار میں عقیدت وفدائیت، سپردگی وجانثاری، عشق ومحبت، عجزونیاز، ایثار وقربانی اور پرستش وبندگی کے جو جو طریقے اختیار کیے، اللہ تعالیٰ کی شریعت نے انسانی نفسیات اور جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے وہ تمام ہی طریقے اپنی مخصوص اخلاقی اصلاحات کے ساتھ خدا تعالیٰ کے لیے خاص کر دیے۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے حضور جان کی قربانیاں بھی پیش کیں اور یہی قربانی کا اعلیٰ مظہر ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس کو بھی اپنے لیے خاص کر لیا اور اپنے سوا ہر ایک کے لیے اس کو قطعا حرام قرار دے دیا۔
انسانی تاریخ میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے۔ قرآن پاک میں بھی اس قربانی کا ذکر ہے، ارشاد ہے: ”اور ان کو آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ بھی ٹھیک ٹھیک سنا دیجیے، جب ان دونوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ “ (مائدہ: 27) اس قبولیت اور عدم قبولیت کی وجہ دراصل یہ تھی کہ ہابیل نے دل کی آمادگی سے رضائے الٰہی کی خاطر بہترین دنبے کی قربانی پیش کی اور قابیل نے بے دلی سے ناکارہ غلے کا ایک ڈھیر پیش کر دیا۔
قربانی کا حکم تمام آسمانی شریعتوں میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور ہر اُمت کے نظام عبادت میں اسے ایک لازمی جز کی حیثیت حاصل رہی ہے، جیسا کہ اوپر کی آیت میں اس کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ البتہ مختلف زمانوں،قوموں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں ان کے حالات کے پیش نظر قربانی کے قاعدے اور تفصیلات جدا جدا رہی ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہ بات تمام آسمانی شریعتوں میں مشترک رہی ہے کہ ”جانور کی قربانی صرف اللہ کے لیے کی جائے اور اسی کا نام لے کر کی جائے۔ ”پس ان جانوروں پر صرف اللہ کا نام لو۔“ (الحج:36)
قربانی ایک عظیم یاد گار
قرآن حکیم جس انداز سے قربانی کی اہمیت بیان فرماتا ہے، اس سے ایک بنیادی تصور یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی اللہ کے پیارے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار تھی اور پھر یہ یاد گار دنیا کی آخری ”ملت مسلمہ“ کو عطا کر دی گئی۔ دنیا کی ہر قوم اپنے قومی تصور اور تشخص کو مضبوط رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ روایات رکھتی ہے، جن کی پابندی اس قوم میں نہایت احتیاط اور اہتمام سے کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ آج دور جدید کی بہت سی مہذب ترین قومیں اپنی کئی ایسی قومی یادگاروں کو مناتی چلی آرہی ہیں جن کی لغویت اور بے ہودگی خود ان پر اور ساری دنیا پر عیاں ہے، لیکن ان رسموں کی پابندی کی وجہ محض یہ ہے کہ ان کے خیال کے مطابق یہ رسمیں ان کی قومی زندگی کا شیرازہ باندھتی ہیں اور افرادِ قوم میں قومی وجود کا احساس زندہ رکھتی ہیں۔ چناں چہ امت مسلمہ کو بھی شریعت کی طرف سے کچھ یاد گاریں عطا کی گئیں، جو زیادہ تر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ”ملت حنیف“ سے ماخوذ ہیں اور قربانی کو ان سب میں ایک نہایت اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
اس وقت دنیا کے ہر خطے میں مسلمان جو قربانی کرتے ہیں اور ذبح عظیم کا جو منظر پیش ہوتا ہے وہ دراصل وہی ابراہیمی یاد گار اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ہے۔ قرآن میں اس عظیم قربانی کے واقعہ کو پیش کر کے اس کو اسلام، ایمان اور احسان قرار دیا گیا۔
ملت ابراہیمی کی حقیقت قربانی ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسلام کی ترجمانی قبول کر لی تو ساتھ ہی اپنی زندگی کو اسلام کی عملی تفسیر بنا کر پیش کیا اور دنیا پر واضح کیا کہ اسلام کی حقیقت اللہ کے سامنے اس طرح جھک جانا ہے کہ زندگی کی باقی تمام دلچسپیاں ضمنی اور ثانوی ہو کر رہ جائیں اور ایک اللہ کی رضا طلبی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہوجائے۔ حتیٰ کہ اپنے مولا کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوئی قربانی مشکل نظر نہ آئے۔ چناں چہ ملت حنیف کے بانی اور اسلام کے اس علم بردار نے یہ سب کچھ کر دکھایا اور اپنے ربانی مشن کی سربلندی کے لیے ایثار وقربانی کا ہر مرحلہ مسکرا کر اختیار کیا۔ اس سلسلے میں آپ کی زندگی میں اپنے گھر، خاندان اور اعزہ واقارب سے قطع تعلق کا مرحلہ بھی آیا۔ اپنی پوری قوم اور اہل سلطنت کی جانب سے بائیکاٹ کی نوبت آئی تو اسے بھی برداشت کیا اور اپنے مقاصد کو ان چیزوں پر قربان نہ ہونے دیا، پھر ثابت قدمی کے امتحان کا ایک ایسا مقام آیا کہ اعلان توحید اور معبودان باطلہ کی مخالفت کے سبب اپنے آپ کو دہکتی ہوئی آگ کے سپردکر دیا اور اس طرح راہ خدا میں اپنی جان کی قربانی دینا بھی ذرہ بھر گراں نہ گزرا… یہ اور بات ہے کہ قدرت خداوندی نے معجزہ کر دکھایااور آپ کی جان کو محفوظ رکھا۔ مگر ابراہیمی قربانیوں کی آخری منزل ابھی باقی تھی اور پھر زندگی میں وہ وقت بھی آیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی جان کے ٹکڑے یعنی اپنے چہیتے اور عزیز ترین لخت جگر کی قربانی کا اللہ کی جانب سے حکم ہوا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ثابت قدمی بڑی آزمائش تھی‘لیکن اللہ کے خلیل ہیں کہ ہنسی خوشی اس حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اپنی طرف سے کر بھی گزرتے ہیں۔
یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سفر تسلیم ورضا کی آخری منزل تھی اور اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ واقعی وہ اسلام کی حقیقت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں، یعنی اللہ کے سامنے جھک گئے ہیں اور ایسی شان سے اس کے دربار میں گردن رکھ دی کہ اپنی آخری پیاری سے پیاری متاع اپنے مولا کے ایک اشارے پر قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ اب اس قربانی کے تصور کو دنیا میں ہمیشہ باقی رکھنا لازمی تھا، تا کہ ابراہیمی اسلام کی حقیقت لوگوں پرآشکار ہوتی رہے۔ لہٰذا اسے ابدی یاد گار بنا کر اس قوم میں جاری کیا گیا جو امت مسلمہ کے نام سے پکاری جاتی ہے، کیوں کہ یہی قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وارث اور جانشین ہے۔ اس لیے ابراہیمی یادگاروں کا سرمایہٴ عظمیٰ اس قوم کے سپرد ہونا چاہیے تھا اور اس کے سپرد کیا بھی گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کو اسلام میں جاری فرمایا تو ساتھ ہی اس کا پس منظر بھی بیان فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار سنتِ ابراہیمی ہے۔
قربانی کی حقیقت وفضیلت
قربانی دراصل اس عزم ویقین اور سپردگی وفدائیت کا عملی اظہار ہے کہ آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اس کی راہ میں یہ سب قربان ہونا چاہیے۔ یہ دراصل اس حقیقت کی علامت اور پیش کش ہے کہ اس کا اشارہ ہوگا تو ہم اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ اسی عہد وپیماں اور سپردگی وفدائیت کا نام ایمان واسلام اور احسان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اور فداکاری کی روح پوری زندگی میں جاری وساری رکھنے کی تعلیم دیتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی ہے، ”کہہ دیجیے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اس کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں۔“ (انعام:163-162)
خدا پر پختہ ایمان اور اس کی توحید پر یقین کامل کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری تگ ودو اس کی رضا کے لیے مخصوص ہو اور وہ سب کچھ اسی کی راہ میں قربان کر کے اپنے ایمان واسلام اور وفاداری وجاں نثاری کا ثبوت دے۔
جن احادیث مبارکہ میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی فضیلت کا ذکر فرمایا ہے، ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:
#- صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا چیز ہے؟ فرمایا: ”یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔“ انہوں نے کہا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم)! اس میں ہمارے لیے کیا اجروثواب ہے؟ فرمایا: ”ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا اور اون کے بدلے یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم)؟ فرمایا: ”اون کے ہر ہر روئے کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی“۔ 
#- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”انسان نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزیک خون بہانے سے زیادہ محبوب ہو۔“ (ترمذی وابن ماجہ)
#- ایک حدیث میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: ”فاطمہ! اٹھو، اپنی قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ہو، اس لیے کہ اس کے ہر قطرہٴ خون کے بدلے تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔“ حضرت فاطمہ  نے پوچھا کہ یہ خوش خبری صرف ہم گھر والوں ہی کے لیے ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی؟ آپ نے ارشاد فرمایا، ” ہمارے لیے بھی ہے اور سارے مسلمانوں کے لیے بھی۔“ (مسند بزار)
قربانی کا حکم ساری اُمت کے لیے ہے
قربانی ایک اہم عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اگر چہ یہ حج کے اعمال میں سے ایک اہم عمل ہے، لیکن رحیم وکریم خدا نے اس عظیم شرف سے ان لوگوں کو بھی محروم نہیں رکھا جو مکة المکرمہ سے دور ہیں اور حج میں شریک نہیں ہیں۔ قربانی کا حکم صرف ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بیت اللہ کا حج کر رہے ہوں، بلکہ یہ عام حکم ہے اور سارے صاحب حیثیت مسلمانوں کے لیے ہے اور پھر جس آیت میں نماز و قربانی اور زندگی وموت کا خدا کے لیے ہی ہونا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ بھی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ حکم صرف حج کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ نیز سورة کوثر میں ارشاد ربانی ہے: ”پس اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔“
اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمومی حکم ہے اور اس سے مراد مناسک حج کے علاوہ عام قربانی ہے اور یہ حقیقت احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ چناں چہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس سال تک مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے اور برابر ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔“ (مسند احمد وابن ماجہ)
قربانی کے جانور خدا پرستی کی نشانی ہیں
فرمان الہٰی ہے: ”اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیاں بنایا ہے۔“ (الحج: 26) شعائر ”شعیرہ“ کی جمع ہے۔ شعیرہ اس مخصوص علامت کو کہتے ہیں جو کسی روحانی اور معنوی حقیقت کی طرف متوجہ کرے اور اس کی یاد کا سبب اور علامت بنے۔ قربانی کے یہ جانور اس روحانی حقیقت کی محسوس علامت ہیں کہ قربانی کرنے والا دراصل ان جذبات کا اظہار کر رہا ہے کہ ان جانوروں کا خون حقیقت میں میرے خون کا قائم مقام ہے ،مری جان بھی راہ خدا میں اسی طرح قربان ہے جس طرح میں اس جانور کو قربان کر رہا ہوں۔
قربانی اللہ کی نعمت کا عملی شکر ہے
قرآن کا بیان ہے: ”اسی طرح ان جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے مسخر کر دیا، تا کہ تم شکر ادا کرو۔“ (الحج: 36) خدا نے جانوروں کو انسان کے لیے مسخر فرما کر اس پر عظیم احسان کیا ہے۔ انسان جانوروں سے گوناگوں فائدے اٹھاتا ہے، جو محتاج بیان نہیں ہیں۔ قرآن ان کی طرف اشارہ کر کے اور ان کی تسخیر کا ذکر فرما کر خدا پرستی اور احسان مندی کے جذبات کو ابھارنا چاہتا ہے اور یہ طرز فکر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس خدائے بزرگ وبرتر نے یہ عظیم الشان نعمت عطا کی ہے اس کے نام پر ان کی قربانی ہونی چاہیے۔ قربانی خدا کی نعمت کا عملی شکر ہے۔
قربانی، اللہ کی عظمت اور کبریائی کا اظہار ہے
فرمان خداوندی ہے: ”خدا نے اس طرح چوپایوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے، تا کہ تم اس کی بخشی ہوئی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی اور کبریائی کا اظہار کرو۔“ (الحج: 37) یعنی ان جانوروں کا اللہ کے نام پر ذبح کرنا در حقیقت اس چیز کا اعلان ہے کہ جس خدا نے یہ نعمت عطا کی ہے وہی ان کا مالک حقیقی ہے۔ قربانی اس حقیقی مالک کا شکریہ بھی ہے اور اس بات کا عملی اظہار بھی کہ مومن دل سے خدا کی بڑائی، عظمت اور کبریائی پر یقین رکھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری رکھ کر وہ اس حقیقت کا عملی اظہار کرتا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف زبان سے ”بسم اللہ“ اور ”اللہ اکبر“ کہہ کر کرتا ہے۔
قربانی کی حقیقی روح
اسلام سے پہلے لوگ قربانی کر کے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھتے اور اس کا خون خانہ کعبہ کی دیواروں پرلگادیتے تھے۔ قرآن کریم نے بتایا کہ خدا کو تمہارے اس گوشت وخون کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے یہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ قربانی خون اور گوشت کا نام نہیں، بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لیے ہے اور اسی کی راہ میں قربان ہونے کے لیے ہے۔
قربانی کرنے والا صرف جانوروں کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا، بلکہ وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کر ڈالتا ہے۔ اس شعور کے بغیر جو قربانی کی جاتی ہے وہ ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام کی سنت نہیں، بلکہ ایک قومی رسم ہے، جس میں گوشت وپوست کی فراوانی تو ہوتی ہے، لیکن وہ تقویٰ نا پید ہوتا ہے جو قربانی کی روح ہے۔ چناں چہ ارشاد الہٰی ہے: ”اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہر گز نہیں پہنچتا، بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ (الحج: 27)
اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قربانی کی کوئی قیمت نہیں جس کے پیچھے تقویٰ کے جذبات نہ ہوں۔ خدا کے دربار میں وہی عمل مقبول ہے جس کا محرک اس کا تقویٰ ہو، کیونکہ ارشاد خداوندی ہے: ”اللہ صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے۔“ (المائدہ:27)

Flag Counter