Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

6 - 56
میں نے جانا ہے ۔۔۔ 
سردی خوب پڑ رہی ہے، تھرتھری چھوٹ رہی ہے، برسوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ کوئٹہ اور شمالی علاقوں کا حال جانے کیا ہو، ایسے میں گرما گرم کافی کا تصور ہی خوش آئند ہے۔ ایک مہمان سے پوچھا: چائے چلے گی یا کافی؟ جواب ملا: چائے کافی ہے۔ کافی پینے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن بولنے اور لکھنے میں اس کا استعمال عموماً غلط ہوتا ہے۔ مثلاً آج کافی سردی پڑ رہی ہے، مضمون میں کافی غلطیاں ہیں یا وہ کافی شورہ پشت ہے۔ یہاں ’کافی‘ کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ ’کافی‘ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: کام نکل جانے کے قابل۔ اسی سے کفایت ہے، یعنی حسب ضرورت فائدہ حاصل ہونا۔ اردو میں بچت اور کمی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔’’ کافی ہونا ‘‘کا مطلب ہے: ضرورت کے مطابق ہونا۔ مکتفی ہونا۔ یعنی اس کے بعد مزید کی ضرورت نہ پڑے۔ رب کریم کے بارے میں کہا گیا ہے ’’وکفا باللّٰہِ وکیلا‘‘ یعنی اللہ ہی ہمارے لیے بطور وکیل کافی ہے، اس کے بعد کسی اور کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کافی سردی ہورہی ہے یا غلطیاں کافی ہیں وغیرہ، تو یہ بالکل بے معنی بات ہوگی۔ البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’چائے کافی ہے‘‘۔ لیکن اس کافی کا غلط استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ پینے والی کافی مہنگی بہت ہے۔
اسی طرح خونی اور خونیں میں فرق ملحوظ نہیں رکھا جا رہا۔ ایک مضمون میں پڑھا ’’فلاں سے خونی رشتہ ہے‘‘۔ خونی فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے قاتل، خونریز، ظالم، سفاک۔ جب کہ خونیں کا مطلب ہے ’’خون سے نسبت رکھنے والا‘‘۔ یہ ضرور ہے کہ بعض رشتے خونی ہوگئے ہیں اور ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اپنوں ہی نے خون کردیا۔ بیٹے نے باپ کا قتل کردیا۔ لیکن رشتوں کے لیے خونی کی جگہ خونیں استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً فلاں شخص سے میرا خونیں تعلق ہے۔ یعنی دونوں میں ایک ہی خون دوڑ رہا ہے خواہ وہ سفید ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔ غالباً ریڈ بلڈ سیلز کی کمی سے خون سفید ہوجاتا ہوگا۔ کنایتہً عاشق کو بھی خونیں جگر کہتے ہیں، کیوں کہتے ہیں یہ بتانا مشکل ہے۔
ہمارے سامنے اگر کوئی ایسی تحریر آتی تھی جس میں ’’پزیر‘‘ لکھا ہو تو ہم اسے ’’ز‘‘ کے بجائے ’’ذ‘‘ سے کردیتے تھے یعنی پذیر۔ ایک ادبی رسالے میں پزیر دیکھا تو لغت سے رجوع کیا۔ معلوم ہوا کہ ہم غلطی پر تھے اور یہ پزیر ہی ہے۔ یہ لاحقہ فاعلی ہے۔ فارسی مصدر پزیرفتن سے صیغہ امر، قبول کرنے والا، پکڑنے والا کے معانی دیتا ہے جیسے ترقی پزیر۔ اسی سے پزیرائی ہے یعنی قبولیت۔ کچھ لوگوں نے پوچھا ہے کہ یہ سابقہ اور لاحقہ کیا ہوتا ہے؟ بھئی ’’لاحق ہوجانا‘‘ تو سنا ہوگا، بولا بھی ہوگا ’’مرض لاحق ہوگیا‘‘، ’’عارضہ لاحق ہوگیا‘‘ یا ملحقہ وغیرہ، یعنی جو پیچھے پڑجائے۔ لاحقہ وہ ہے جو کسی لفظ کے بعد میں آئے اور سابقہ وہ جو پہلے آئے۔ اس سے سابقہ تو پڑا ہوگا۔ یہ دراصل سبق سے ہے۔ اردو میں عام طور پر سبق پڑھا جاتا ہے یا سبق لیا جاتا ہے۔ لیکن عربی میں سبق گھڑدوڑ کی شرط یا کسی لفظ کے پہلے حصہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے ’’سبقت لے جانا‘‘ ہے۔ ہمارے خیال میں سبق پڑھنا ان ہی معنوں میں آیا ہے کہ پہلے جو پڑھایا گیا تھا اسے دوہراؤ۔ مزید تفصیل پھر کبھی سہی۔ اِس وقت تو ہاتھ ٹھٹھر رہے ہیں۔
لاہور سے ایک اسکول کے استاد نے فون پر کہا ہے کہ ’’املا‘‘ مونث ہی ہے اور آپ نے اسے مذکر قرار دیا ہے۔ ہم نے تو اسے مذکر اور مونث دونوں ہی تسلیم کرلیا تھا۔ اس حوالے سے طالب الہاشمی کی کتاب ’’اصلاح تلفظ و املا‘‘ شائع کردہ القمر انٹرپرائزز، اردو بازار لاہور میں ایک دلچسپ تحریر نظر سے گزری۔ ملاحظہ کیجیے:
’’لفظ املا کی تذکیر و تانیث مختلف فیہ ہے۔ فصحائے اردو میں سے بعض نے اسے مذکر استعمال کیا ہے اور بعض نے مونث۔ مشہور شاعر حضرت تسلیم نے اس شعر میں املا کو مذکر باندھا ہے:
عالمِ وحشت میں جب لکھا کوئی خط فراق
ربط بگڑا میری انشا کا غلط املا ہوا
اس کے برعکس جناب رشک نے اس شعر میں املا کو مونث باندھا ہے:
نامہ جاناں ہے یا لکھا مری تقدیر کا
خط کی انشا اور ہے لکھنے کی املا اور ہے
بعض ماہر لسانیات کے نزدیک املا کی تذکیر کو ترجیح حاصل ہے مگر پنجاب کے بیشتر اہلِ قلم اسے مونث ہی بولتے اور لکھتے ہیں۔‘‘
مونث سے دلچسپی فطری ہے اور ہم نہ ماہر لسانیات ہیں نہ ہی فصحائے اردو میں شمار کے لائق۔
اسی کتاب سے ایک اور حوالہ، اور یہ غلطی بہت عام ہے۔ (غلطی بھی غل طی ہو گئی ہے جب کہ غ اور ل دونوں پر زبر ہے) طالب الہاشمی لکھتے ہیں: ’’میں نے کراچی جانا ہے۔ اس نے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ یہ غلط ہے۔ اردو میں ’نے‘ کے ساتھ فعل مصدری (کرنا، آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا، کہنا وغیرہ) کا استعمال درست نہیں۔ ایسے جملوں میں ’نے‘ کی جگہ ’کو‘ استعمال کرنا چاہیے۔ ہاں فاعل کی صورت تبدیلی کردی جائے تو ’’نے‘‘ اور ’’کو‘‘ دونوں کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مذکورہ جملوں کی صحیح صورت یہ ہو گی ’’مجھ کو کراچی جانا ہے‘‘ یا ’’مجھے کراچی جانا ہے‘‘۔’’ اس کو آپ سے کچھ کہنا ہے‘‘ یا ’’اسے آپ سے کچھ کہنا ہے‘‘۔ میں نے آنا، میں نے جانا عموماً پنجاب میں مستعمل تھا، اب ہر جگہ ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter