Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

5 - 56
امالہ کیا ہے ۔۔۔ 
پچھلے کالم میں ہم نے ’’امالہ‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ ہمیں اب تک یہ اندازہ نہیں ہے کہ اسے کہاں استعمال کرنا چاہیے اور کہاں نہیں۔ امالہ کے حوالے سے سابق صدر شعبہ اردو جامعہ پنجاب، اورینٹل کالج حضرت رفیع الدین ہاشمی ’’صحتِ املا کے اصول‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جن واحد مذکر لفظوں کے آخر میں ’’ہ‘‘ یا ’’الف‘‘ ہو اور ان کی جمع یاے تحتانی (بڑی یے) لگانے سے بن سکتی ہو اور ان کے فوراً بعد حرف عاملہ (مغیرہ) یعنی تک۔ سے۔ کو۔ کی۔ ہیں۔ پر، وغیرہ میں سے کوئی حرف آئے تو اردو املا میں اس ’ہ‘ یا ’الف‘ کو یاے تحتانی سے بدل دیا جائے گا۔ (استاد نے ے پر ہمزہ نہیں لگائی یعنی ’ئے‘ نہیں لکھا) مثلاً
*آپ کے بارہ میں *اس افسانہ کا nتمہارے بھروسا پر *اس چوراہا تک چلے جاؤ۔ انہیں یوں لکھنا صحیح ہوگا: *آپ کے بارے میں *اس افسانے کا *تمہارے بھروسے پر *اس چوراہے تک چلے جاؤ۔ بعض استثنائی صورتیں بھی ہیں۔ مثلاً ’’میں انبالے کا رہنے والا ہوں‘‘ یا ’’وہ تین دن پہلے مدینے پہنچ گیا‘‘۔ خیال رہے کہ بعض الفاظ امالہ قبول نہیں کرتے۔ جیسے امریکہ (یا امریکا)، دادا، نانا، چچا، ابا، ایشیا، والدہ وغیرہ۔ اسی طرح زیادہ تر اسمائے معرفہ بھی جوں کے توں رہیں گے، جیسے کانگڑہ، افریقہ، ایتھوپیا، برما، ہمالیہ، رقیہ، جمیلہ وغیرہ۔
اب امالہ کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے۔ ویسے پنجاب میں دادے، مامے، چاچے، نانے بلکہ ابے تک زبان زد عام ہیں۔ پنجابی+ اردو کے ایک معروف مزاحیہ شاعر نے تیرے ابے استعمال کیا ہے۔ یہ بھی عوامی زبان ہے کہ ’’وہ تیرے چاچے، مامے لگتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ استعمال مزاح میں یا عام بول چال تک محدود ہے۔
امالہ کے حوالے سے ایک اور ہاشمی کی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں۔ طالب الہاشمی اپنی تحقیق ’’اصلاح تلفظ و املا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’امالہ کے لغوی معنی ہیں ’’مائل کرنا‘‘۔ علم صرف کی اصطلاح میں (چند مستثنیات کو چھوڑ کر) الف یا ہائے ہوز پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد اگر کوئی حرف ربط یا حرف جار (سے، کو، کی، کے، کا، پر، نے وغیرہ) آجائے تو الف یا ہائے ہوز کو یائے مجہول سے بدلنے کو امالہ کہا جاتا ہے، جیسے لڑکا سے لڑکے، گھوڑا سے گھوڑے، روزہ سے روزے، محلہ سے محلے، قبیلہ سے قبیلے، دعویٰ سے دعوے، تقویٰ سے تقوے، اچھا سے اچھے، برا سے برے، سلسلہ سے سلسلے، اپنا سے اپنے، حادثہ سے حادثے، محاصرہ سے محاصرے، معاشرہ سے معاشرے وغیرہ۔‘‘
ہم اپنی کم علمی کے سبب کسی کی تحریر میں ’’ذریعے‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر ذریعہ کرتے رہے ہیں۔ ہمارا گمان تھا کہ لکھا تو ذریعہ، کمرہ، جذبہ وغیرہ ہی جائے گا لیکن پڑھا جائے گا ذریعے، کمرے، جذبے وغیرہ۔ اس سے ایک صورت پنجاب اور اردو بولنے والے بنگالیوں میں یہ دیکھنے میں آئی کہ وہ ایسے ہی بولنے لگے جیسے لکھا ہوا ہو۔ مثلاً ’’میں کمرہ میں گیا‘‘ تو اس کو کمرہ ہی بولا گیا، کمرے میں نہیں۔ اردو بولنے اور سمجھنے والے بنگالی بھائی تو مذکر، مونث میں بھی الجھتے ہیں۔ لڑکی گئی یا لڑکی گیا۔ ہمارے ایک بنگالی دوست نے بتایا کہ بنگالی زبان میں یہ تفریق نہیں ہے۔ دونوں سے یکساں سلوک ہوتا ہے۔
طالب الہاشمی مزید لکھتے ہیں کہ ’’تمام اردو مصادر (کرنا، لانا، رونا، آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ) کا امالہ ہوسکتا ہے۔ عربی اور فارسی اسمائے صفات (مثلاً ادنیٰ، اعلیٰ، دانا، بینا، نابینا، صغیرہ، کبیرہ وغیرہ) کا امالہ نہیں ہوسکتا۔ سنسکرت کے کسی اسم (مثلاً دیوتا، راجا، بابا وغیرہ) کا امالہ نہیں ہوسکتا۔ اسمائے ذات (ناؤن) میں سے کسی اسم کی جو جمع اردو قاعدے سے بنائی گئی ہو وہی اس کا امالہ ہوگی، لیکن اس کی جمع اگر عربی یا کسی اور زبان سے بنائی گئی ہو تو اس کا امالہ نہیں ہوگا۔ مثلاً قبیلہ کی جمع اردو قاعدے کے مطابق قبیلے ہے جو مجرور ہوکر قبیلوں بن جاتی ہے۔ مگر اس کی عربی جمع قبائل ہے جسے قبیلہ کا امالہ نہیں کہا جا سکتا۔ (ہم تو اسی میں الجھ گئے کہ یہ ’’مجرور‘‘ کیا ہوتا ہے، غالباً جَر سے ہے)
امالہ کی وضاحت بڑی تفصیل سے کی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ ’’واحد اسمائے ذات میں سے جتنے مونث ہیں (مثلاً خادمہ، اہلیہ، بیوہ، گڑیا، خالہ وغیرہ) ان کا امالہ نہیں ہوسکتا (یعنی اہلیہ کو بھی مائل نہیں کرسکتے، دوسروں کی تو چھوڑیے)۔ بیاہ، تباہ، شاہ، کوہ، راؤ، ماہ وغیرہ کا امالہ کرنے پر بھی پابندی ہے۔ عربی اسماء، جو الف مدودہ پر ختم ہوتے ہیں، ان کا امالہ نہیں ہوسکتا۔ الف مدودہ کی پہچان یہ ہے کہ اس کے بعد چھوٹا سا ہمزہ آتا ہے۔ مثلاً عصاء، صحراء، مبداء وغیرہ‘‘ (ہم لوگ تو عربی کے ایسے تمام الفاظ کے آخر میں ہمزہ ڈال دیتے ہیں جیسے دعا۔) طالب الہاشمی نے ’’سالوں‘‘ کا امالہ کرنے کی اجازت دی ہے، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ امالہ کا مطلب مائل کرنا بتایا گیا ہے تو ضروری ہے کہ اہلیہ کا امالہ ہو یا نہ ہو، سالوں کو مائل کرنا، بلکہ مائل رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ طالب الہاشمی کے مطابق کسی قوم یا ذات کے نام یا حرف (مرزا، راجہ، خواجہ، چاولہ، شرما وغیرہ) کا امالہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہم نے تو مرزے، راجے، چٹھے، خواجے وغیرہ سنا ہے۔ ظاہر ہے کہ غلط ہی سنا ہوگا۔ یہ راجے وہ نہیں جو راج کرتے ہیں۔ یہ راجا ظفرالحق یا راجا پرویزاشرف والے راجے ہیں اور راجہ کے بجائے راجا لکھنا صحیح ہوگا کیونکہ اردو قاعدے میں بچوں کو’ر‘ سے راجا پڑھایا جاتا ہے، راجہ نہیں۔ ایک معروف مصور انعام راجا بھی اپنا نام اسی طرح لکھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اب واضح ہوگیا کہ امالہ کیا چیز ہے۔
غَلَطْ اتنا غلْط ہوگیا ہے کہ صحیح ہونے میں نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے جب ہمارے بولتے ہوئے ذرائع ابلاغ اسے غَلْط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
عربی میں کہا جاتا ہے ’’الغلْطُ غَلَطْ۔ یعنی غَلط کہنا غَلَط ہے۔ صحیح تلفظ میں غ اور ل دونوں پر زبر ہے یعنی غَ۔لَط۔ بروزن فلک، حلق۔ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نہ صرف غلْط کہتے ہیں بلکہ واضح کو بھی مزید واضح کرنے کے لیے ’’واضحہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن ان سے صحیح تلفظ کی توقع بھی نہیں، بس وہ اپنا کام صحیح، صحیح کرتے اور داخلی حکمت عملی واضح کرتے رہیں۔ حکمت عملی کا استعمال بھی خاصا غلط ہورہا ہے۔ مثلاً بری حکمت عملی، احمقانہ حکمت عملی یا تباہ کن حکمت عملی‘‘۔ اب اگر اس میں حکمت شامل ہے تو یہ بری یا احمقانہ کیسے ہوسکتی ہے! حکمت کا تو مطلب ہی دانائی، عقل، ہر چیز کی حقیقت دریافت کرنے کا علم، تدبیر، ڈھنگ وغیرہ ہے۔ عربی کا لفظ ہے، اس کو فارسی ترکیب سے ’’حکمت عملی‘‘ بنا لیا گیا ہے، یعنی وہ علم جو تجربہ اور عقل سے حاصل ہو۔ تہذیب، اخلاق، گھر کا انتظام یا شہری نظام۔ ’حکمت کرنا‘ کا مطلب ہے دانائی کرنا۔ کسی حکیم کی حکمت تو ناکام ہوسکتی ہے لیکن حکمت عملی میں تو دانائی، علم، عقل وغیرہ سب شامل ہیں۔ مگر اصطلاحاً جو ’’حکمت عملی‘‘ اختیار کی جاتی ہے اس میں نہ حکمت ہوتی ہے نہ ’’عملی‘‘۔ ۔ ۔ بدنیتی اور بدعملی کا زور ہوتا ہے۔ چلتے چلتے فارسی کی ایک مثل سن یا پڑھ لیجیے ’’حکمتِ چین، حجتِ بنگالہ‘‘۔ لغت میں اس کا مطلب یہ دیا گیا ہے کہ عقلمندی چین سے اور لڑائی جھگڑا بنگال سے منسوب ہے۔ بنگال کا تو تجربہ بھی ہے اور چین سے ہم نے عقل مندی سیکھی نہیں۔ وہ بھی ہم سے زیادہ بھارت کے ’’امالہ‘‘ کا قائل نظر آتا ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter