Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

51 - 56
پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 
’سِوا‘ اور ’علاوہ‘ کے استعمال کے حوالے سے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں لیکن یہ غلطی عام ہوتی جارہی ہے۔ یعنی جہاں ’سِوا‘ لکھنا چاہیے وہاں ’علاوہ‘ لکھا جارہا ہے جس سے مفہوم بدل جاتا ہے۔ مثلاً آج کل اخبارات میں کلونجی کے حوالے سے ایک اشتہار چھپ رہا ہے۔ اس میں ایک حدیثِ رسولؐ کا ترجمہ بھی دیا جارہا ہے کہ ’’کلونجی موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے‘‘۔ حدیث اور اس کے ترجمے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہاں ’علاوہ‘ کے استعمال سے یہ مفہوم نکل رہا ہے کہ کلونجی موت کا علاج بھی ہے۔ جب کہ یہاں ’سِوا‘ کا محل تھا۔ بات شاید انگریزی میں سمجھانا آسان ہو۔ انگریزی میں ’علاوہ‘ کا مطلب ہے "MORE OVER” یعنی مزید برآں۔ ’سِوا‘ کا مطلب انگریزی میں "EXCEPT” ہے۔ 
’بے ہودہ‘ اور ’بے وقوف‘ کا استعمال اردو میں عام ہے۔ بے ہودہ لوگ حکومت بھی کرجاتے ہیں مگر وہ بے وقوف نہیں ہوتے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم سبھی نے کسی نہ کسی کے لیے استعمال کیے ہوں گے۔ لیکن کبھی یہ سوچا کہ اگر ’بے ہودہ‘ ہے تو ہودہ بھی ہوگا اور اگر ’بے وقوف‘ ہے تو وقوف بھی ہوگا۔ ’بے‘ تو نفی کے لیے لگایا جاتا ہے جیسے بے رحم، بے فکر، بے کراں، بے گماں وغیرہ۔ ’بے‘ فارسی کا حرفِ نفی ہے لیکن اردو میں عربی الفاظ سے پہلے لگا کر بھی نفی کا کام لے لیا جاتا ہے جیسے بے وقوف میں ’وقوف‘ عربی ہے۔ اسی طرح بے اثر، بے احتیاط، بے اختیار وغیرہ۔ اب یہ ہماری اپنی زبان ہے جو ظاہر ہے کہ مختلف زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ چنانچہ ہم حرفِ نفی کے لیے کسی ایک زبان کے محتاج نہیں۔ اس کے لیے لفظ کی مناسبت سے کبھی ’نا‘ کبھی ’لا‘ اور کبھی کچھ اور استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال ’ہودہ‘ خود بامعنی لفظ ہے جس کا مطلب ہے: ’’ٹھیک، سچا، درست، حق‘‘۔ لیکن اردو میں یہ ’ہُودہ‘ صرف نفی کے ساتھ یعنی ’’بے ہُودہ‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کوئی کسی کے سچا اور درست ہونے پر یہ نہیں کہتا کہ ’’آپ بڑے ہودہ ہیں‘‘۔ کہہ کر دیکھیے۔ ہودہ (’ہ‘ پر زبر) کا مطلب ہے ہاتھی کی عماری ہودہ زچہ، بچہ اور قبر کے احاطے کو بھی کہتے ہیں۔ غالباً عربی کے لفظ ہودج کا مورّد ہے۔ ہاتھی یا اونٹ کی کمر پر رکھنے کے لیے محمل، کجاوہ وغیرہ۔ 
اسی طرح ’’بے وقوف‘‘ ہے، یعنی ’وقوف‘ ایک الگ لفظ ہے اور عربی کا ہے، جس میں فارسی کے حرفِ نفی کا پیوند لگا کر ہم نے اردو میں شامل کرلیا۔ وقوف کا مادہ وقف ہے اور عربی میں اس کی بہت سی شاخیں ہیں مثلاً واقف، موقف وغیرہ۔ عرب ممالک میں بس اسٹینڈ یا ٹیکسی اسٹینڈ کے لیے بھی ’’موقف‘‘ آتا ہے جیسے ’’موقف سیارہ‘‘۔ یہ تو پتا ہی ہوگا کہ سیارہ گھومنے والی چیز کو کہتے ہیں خواہ آسمان پر ہو یا زمین پر۔ زمین، زہرہ، مشتری، زحل وغیرہ اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے ہیں اس لیے سیارے کہلاتے ہیں، اور جو نہ گھومیں وہ ’’ثابت‘‘۔ اب چونکہ ٹیکسی بھی گھومتی، گھماتی ہے اس لیے ثابت ہوا کہ وہ بھی سیارہ ہے۔ ہم لوگ تو ’وقوف‘ کے حوالے سے ’وقوفِ عرفات‘ ہی سے واقف ہیں۔ یا پھر ’بے‘ لگا کر بے وقوف بناتے ہیں۔ ’وقوف‘ کا مطلب ہے: آگہی، جاننا، علم، فہم، سمجھ، واقفیت، شعور، تمیز، سلیقہ، تجربہ، مہارت وغیرہ۔ انگریزی میں اسے "COGNIZANCE” کہتے ہیں۔ اردو کا محاورہ ہے ’’وقوف پکڑنا‘‘ گو کہ اس کا استعمال شاذ و نادر ہی ہے۔ تاہم مطلب ہے: عقل سیکھنا، تمیز سیکھنا، شعور پیدا کرنا۔ عربی اور فارسی ملا کر ’’وقوف دار‘‘ بنا لیا گیا جو اب نہ زبان میں نظر آتا ہے اور نہ تحریر میں۔ ہودہ کی طرح آگہی، سمجھ بوجھ وغیرہ کے لیے بھی اردو میں صرف وقوف استعمال نہیں ہوتا، یہ بھی ہمشیہ ’بے‘ کے ساتھ آکر نئے معانی دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ خود کو ہمیشہ ’بے‘ کے بغیر ہی سمجھتا ہے اور غلط فہمی اُس وقت دور ہوتی ہے جب وہ خود اقتدار سے دور ہوجاتے ہیں۔ اور یہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’’دور‘‘ کا ایک مطلب ہوشیار، چالاک بھی ہے۔ رشید حسن خان نے اس حوالے سے یہ شعر دیا ہے: 
شریعت کے عالم میں مجبور ہیں 
نہیں، اپنے نزدیک ہم دور ہیں 
’دور ہیں‘ کا مطلب ہے اپنے کو بہت بڑا سمجھتے ہیں، بہت بلند ہیں۔ 
ایک اور غلطی اخبارات و رسائل میں بہت عام ہے اور وہ ہے ’’پھولوں کا گلدستہ‘‘۔ یہ گلدستہ ماہنامہ ’البلاغ‘ میں بھی نظر آیا۔ جنوری 2015ء کے شمارے میں کتابوں پر تبصرے کے ذیل میں ایک کتاب ’’باقتہ الازہار‘‘ پر تبصرے میں کتاب کے عنوان کا ترجمہ ’’پھولوں کا گلدستہ ‘‘ دیا گیا ہے۔ یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ اساتذہ و طلبہ ’’پھولوں کے اس گلدستے کی قدردانی کریں گے‘‘ (صفحہ 216)۔ اس طرح ہمیں ’باقہ‘ کا مطلب تو معلوم ہوگیا لیکن یہ پھولوں کا گلدستہ کیا ہے؟ کیا کسی اور چیز کا بھی گلدستہ ہوتا ہے مثلاً ’’کلہاڑی کا گل دستہ‘‘۔ بھئی گلدستے میں تو پہلے ہی پھول سجے ہوئے ہیں پھر ’پھولوں کا‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے! لیکن بات یہ ہے کہ اس کے بغیر مزا نہیں آتا۔ اب اگر پھولوں کا دستہ لکھیں یا کہیں تو گلدستے کا حسن ماند پڑ جائے گا۔ لیکن کیا صرف گلدستہ کہنے سے کام نہیں چلے گا؟ 
برسبیل تذکرہ، گلدستہ کے اور بھی معانی ہیں مثلاً طاق یا محراب، جہاں اذان ہو، غزلوں کا رسالہ یا مجموعہ۔ ویسے یہ معانی لغت تک ہی رہ گئے ہیں۔ طاق، محراب یا جہاں اذان ہو ان معنوں میں عموماً نہیں آتا، البتہ غزلوں یا نظموں کے حوالے سے ضرورآتا ہے جیسے گلدستہ نعت۔ ہم سمجھتے تھے کہ ’’گلخن‘‘ بھی کوئی گل بداماں چیز ہوگی مگر یہ تو بڑی گرما گرم شے ہے۔ مطلب ہے: بھٹی، تنور، چولہا، کوڑا کرکٹ وغیرہ۔ اچھا اگر گیس نہ ملنے کی وجہ سے چولہا ٹھنڈا ہو تو کیا ’ٹھنڈا گلخن‘ کہیں گے؟ یا کراچی میں یہ جو ہر طرف کوڑا کرکٹ پھیلا ہوا ہے اسے حکمرانوں کا گلخن کہا جائے گا؟ 
کوڑا کرکٹ کے لیے بڑے بڑے کوڑے دان بھی رکھے گئے ہیں اور ’’سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا‘‘ کے مصداق کوڑا باہر بکھرا اور پھیلا ہوا نظر آتا ہے، مگر حکمران نہ تو اخبارات میں تصاویر دیکھتے ہیں اور نہ شاید ایسے علاقوں سے گزرتے ہوں۔ گزرنا بھی ہو تو عارضی طور پر کوڑا صاف کردیا جاتا ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر گلخن کا ایک مطلب کوڑا، کرکٹ بھی ہے تو کیوں ناں کوڑے دان کو ’’گلخن دان‘‘کہا جائے۔ ویسے کوڑے کی بُو کو نظرانداز کرنے کے لیے ایسے کوڑے دانوں کو صرف ’’گلخن‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے پیارے لفظ پر تو اب تک شعراء کرام کو کچھ نہ کچھ کہہ ڈالنا چاہیے تھا۔ ’’گلخن افروز‘‘ بھٹی جلانے اور چولہا جھونکنے والے کو کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کی کیا توقیر کی گئی ہے اور یہ وہ بھٹی نہیں ہے جو بالنگ میں بری طرح پٹا ہے۔ 
لغت میں گل دان کے مطب میں لکھا ہے: ’’پھولوں کا گلدستہ رکھنے کا برتن‘‘۔ علمی اردو لغت کے مرتب کو بھی پھولوں کا گلدستہ ہی کہے بنی، ورنہ تو صرف گلدستہ رکھنے کا برتن بھی کہا جا سکتا تھا۔ بابائے اردو نے دستہ گل بھی ترجمہ کیا ہے۔ اور ’’گلخن تابی‘‘ کہتے ہیں بھاڑ جھونکنے کو۔ رشید حسن خان نے کلاسکی (کلاسیکی) ادب کی فرہنگ میں اس کی ایک مثال دی ہے: ’’مدتوں پاے پسار رہے، ایک مدت گلخن تابی کی۔ سنا تھا کہ بارہ برس دلی میں رہے، بھاڑ جھونکا‘‘۔ اب بھاڑ جھونکنے کے لیے گلخن تابی لکھنا چاہیے، مگر سمجھے گا کون؟ بھاڑ بھٹی کے علاوہ حرام کی کمائی کو بھی کہتے ہیں۔ اردو کی ایک مثل ہے: ’’بھاڑ میں پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان‘‘۔ ’’پھٹ پڑے وہ سونا‘‘ بھی کہتے ہیں جو زیادہ قابلِ فہم ہے، مگر خواتین اسے تسلیم نہیں کریں گی خواہ کان ٹوٹیں۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter