Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

37 - 56
تلفظ کی بحث … 
          ایک محفل میں اچانک ایک صاحب نے سبزۂ نورستہ کا مطلب پوچھ لیا ۔وہ کسی کی قبر پر علامہ اقبال کا یہ شعر لکھوانا چاہتے تھے جو    انہوں نے اپنی والدہ کے لیے لکھا تھا کہ
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ تیرے درکی نگہبانی کرے
          سبزۂ نورستہ کا مطلب تو بتادیا لیکن ہمارے برابر میں ایک بڑے ادیب وشاعر جناب منظرایوبی بیٹھے تھے انہوں نے تلفظ بھی درست کر دیا ۔سچی بات ہے کہ ہم نورستہ کو ’ر‘  پر زبر کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں ۔جیسے نیا رستہ۔معلوم ہوا کہ یہ نورُستہ ہے اور’ ر‘ پر پیش ہے۔ فارسی کا لفظ ہے ،رستنی سے رُستہ ہے ۔رستنی کا مطلب ہے اگنے والی چیز،سبزہ وغیرہ۔اُس وقت تو عزت رہ گئی لیکن ہمیں فکر لاحق ہوگئی کہ اچانک ہی کسی نے ایسے لفظکا مطلب پوچھ لیا جو ہمیں نہ آتاہو تو بڑی شرمندگی ہوگی۔فرائیڈے اسپیشل کے اس سلسلے کی وجہ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ ہم ماہرِلسانیات قسم کی چیزہیں۔ ایک ماہر لسانیات نے بتایا کہ ان سے جب کوئی کسی لفظ کے معانی پوچھتا ہے تو وہ قریب میں رکھی لغت دیکھ کر بتادیتے ہیں ۔لیکن جب لغت دسترس میں نہ ہوتو؟
          ’سِوا‘اور ’علاوہ‘ کا فرق پہلے بھی بتایا گیا ہے لیکن ہمارے صحافی بھائیوں پر اب تک واضح نہیں ہوسکااور گڑبڑ ہوجاتی ہے ۔مثال کے طور پر منگل ۹مئی کے ایک اخبار کی سرخی ہے :
          ’’مکہ اور مدینہ کے علا وہ سعودی عرب کو تباہ کردیں گے ‘‘۔یہاں علاوہ کا مطلب ہے کہ مکہ اور مدینہ کو بھی تباہ کریں گے ،جب کہ دھمکی دینے والے نے مکہ اور مدینہ کو چھوڑکر پورے سعودی عرب کو لپیٹ میں لیا ہے ،چنانچہ یہاں علاوہ کے بجاتے سوا استعمال ہونا چاہیے تھا۔
          عزیزم کلیم چغتائی ایک بار پھر مخاطب ہیں ۔کہتے (یا لکھتے )ہیں کہ’’آپ کا کالم پڑھ کر دوہری خوشی ہوتی ہے اور میں خوشی سے دوہرا ہوجاتاہوں!‘‘
          آپ نے دوہر ااور دُہراکی ادبی فقہی بحث چھیڑی ہے کہ ان میں مباح کون سا ہے اور مکروہ کون سا !میرا خیال ہے کہ دونوں میں سے کسی سے کراہت مناسب نہیں ہے،بلکہ اس قبیلے کے دیگر الفاظ کا بھی ادبی مقاطعہ کرنا درست نہ ہوگا ،مثلاًدُگنا اور دوگنا تِگنا اور تین گناوغیرہ۔آپ نے اساتذہ کے جو اشعار بطور مثال درج فرمائے ہیں ان سے تو یہی لگتاہے کہ شعر کے وزن کے مطابق ’’دوہائی ‘‘یا ’’دُہائی‘‘دی گئی ہے ۔یہ تو سہولت ہے ،اس کو ردکرنا کفرانِ نعمت ہوگا۔(ہم نے رد کب کیا؟)میں ایک ناقابل ذکر طالب علم ہوں لیکن مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ جنہیں ،انہیں ،انہی وغیرہ میں ’’ن‘‘ کے بعد ہائے ہوز(لٹکن والی ’ہ‘)ہی ہونی چاہیے ۔اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ دیگر حروف مثلاً’د‘’ڈ‘’ت‘’ٹ‘کے بعد دوچشمی ہ(ھ)لگائیں تو ان حروف کی آواز نمایاںطور پر تبدیل ہو جاتی ہے ،جب کہ ’ن‘ کے بعد ’ھ‘لگانے سے’’ نیم دلانہ سی‘‘صوتی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ’دولہا‘،’چولہا‘کا معاملہ ہے ۔بلکہ ’دُلہا ‘میں تو لٹکن والی ’ہ‘لازماً آویزاں کرنی پڑتی ہے۔‘‘
          دوچشمی کا معاملہ یہ ہے کہ سید مودودی ؒنے اپنی تفسیر اور دیگر تحریروں میں انھیں،جنھیں وغیرہ میں دوچشمی ہ ہی استعمال کی ہے اوردور جدید کے اردو کے استاد جناب رؤف پاریکھ نے بھی اسی پر زور دیا ہے ،جس کا ذکر گزشتہ کالم میں ہوچکاہے۔
          ’ہی‘کے استعمال کے بارے میں ہم اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھاتے رہے ہیں کہ ’ہی‘کا تعلق جس لفظ کے ساتھ ہوگا یہ اسی کے ساتھ آئے گا ۔ان دونوں کے درمیان کوئی اور لفظ نہیں آئے گا ۔یہ غلطی جسارت میں بھی ہوتی ہے ۔اس حوالے سے رشید حسن خان (مرحوم)سے رجوع لاتے ہیں۔ انہوں نے ’ہی‘کے استعمال کے لیے ایک جملے کی مثال دی ہے ’’یہ خط ڈاکٹر صاحب کے ہی ہاتھ میں دینا‘‘ اس جملے میں ’ہی‘ کا تعلق ڈاکٹر صاحب سے ہے،اس لئے یوں لکھنا چاہیے تھا:’’یہ خط ڈاکٹر صاحب ہی کے ہاتھ میں دینا ‘‘۔ ’کے ‘نے بیچ میں آکر جملے کو خراب کردیا ۔مثال کے طور پر ایک اور جملہ دیکھیں’’وہ دہلی میں ہی ملازمت ڈھونڈیں گے ‘‘اس جملے میں ’ہی‘کا تعلق دہلی سے ہے اس لیے یوں لکھنا چاہیے تھا :’’وہ دہلی ہی میں ملازمت ڈھونڈیں گے۔‘‘
          ایک صاحب نے تلفظ کی بحث کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ان الفاظ میں ہی تلفظ کی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں جو استعمال میں زیادہ آتے ہیں۔‘‘بات تو ٹھیک ہے مگر اندازبیان اچھا نہیں۔’’ان الفاظ میں ہی‘‘کس قدر بھدا ٹکڑا ہے ،روانی نام کو نہیں۔اچھا اب اسے یوں لکھیے ’’انھی الفاظ میں تلفظ کی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں‘‘ ۔’میں ہی ‘کے مقابلے میں ’انھی الفاظ‘میں روانی زیادہ ہے اور بیان کا حسن بھی ہے۔اس سے معلوم ہو ا کہ ’ان ہی‘کے بجائے ’انھی ‘لکھنا زیادہ بہتر ہے۔لیکن لکھنے والے حسنِبیان کے بجائے حسنِ صورت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔احمد ندیم کا شعر ہے:
بس اسی شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن ترے حسنِ بیاں تک دیکھوں
          موصوف حسنِ بیان کے بہانے حسنِ صورت دیکھتے رہے ۔بہرحال اب ’ہی‘کا استعمال واضح ہوگیا ہوگا ۔اس کے ساتھ ایک دوچشمی ہ ’انھی‘بیچ میں آگئی ۔’انھی‘ املا مرکب لفظ ہے ۔یہ’ان‘اور’ہی‘سے ملا کر بنا ہے ۔’ہی‘میں شوشے دار’ہ‘ہے جسے ہائے ہوزبھی کہتے ہیں۔’انھی‘ میں یہی ’ہ‘دو چشمی ہ میں بد ل گئی ۔اس طرح تلفظ آسان ہوگیا ۔’ان ہی‘میں’ہ‘ کی آواز الگ سے نکلتی ہے۔ ’انھی ‘میں نون کی آواز ’ھ‘ میں مل جاتی ہے اور اس طرح دوحرفوں کی الگ الگ آوازیں ایک بن جاتی ہیں اوراس طرح تلفظ کے لحاظ سے اس میں سبک پن پیدا ہوجاتا ہے اور روانی آجاتی ہے۔دولھا میں بھی دوچشمی ہ لگا کردیکھیںتو وہ بھی سبک اور رواں ہوجائے گا ،بعد میں خواہ سبک سر رہے ،  امید ہے کہ کلیم چغتائی کے اس خیال کا جواب مل گیا ہوگا کہ دوچشمی ہ لگائیں تو اب حروف کی آواز نمایا ں طور پر تبدیل ہوجاتی ہے، جب کہ ’ن‘کے بعد دوچشمی ہ لگانے سے نیم دلانہ سی صوتی تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ لیکن یہی نیم دلانہ سی صوتی تبدیلی مطلوب ہے۔
          ہمیں اس سے تو اتفاق ہے کہ ’انھیں‘،’جنھیں‘وغیرہ میں دوچشمی ہ کے بجاتے ہائے ہوز استعمال کیا جائے تو لکھنے میںآسانی ہوتی ہے،لیکن لغات اور ماہرینِ لسانیات متفق ہونے پر تیار نہیں ۔ جیسے’چاہییں‘میں املا کے اعتبار سے دو’’ے‘‘آنے دچاہییں،مگر کتنے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں،کیونکہ ’چاہئیں‘لکھنا آسان ہے۔
          لغت دیکھیں تو اس میں بھی ’’دولھا‘‘دوچشمی ہ کا سہرا باندھے کھڑا ہے۔یہ ہندی کا لفظ ہے۔امیر کا شعر ہے:
تو  اگر  دولھا  بناتی  ہے  انہیں  اے  تیغِ  ناز
بدھیاں زخموں کی کشتوں کے بدن میں کیوں نہیں
          بَدھیاں (پہلاحرف بالفتح)دولھا کو سرخ جوڑا پہنا تے اور بدھیاں ڈالتے ہیں۔ویسے بعض لغت نویس دولھا کے بارے میںکلیم چغتائی سے بھی متفق ہیں۔اب جانے کون’ھ‘ سے دولھا بنااور کون لٹکن والی ’ہ‘سے۔
          چلتے چلتے یونہی ایک ذکر ۔ایک اخبار میں ایک مضمون کی سرخی ہے ’’زبان کا ہذیان‘‘ ۔یہاں زبان کی ضرورت نہیں ہے۔ہذیا ن تو ہوتا ہی زبان سے ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter