Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

35 - 56
دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 
               خاکساری اور انکساری پر ہمارا کالم(۷تا۱۳  اپریل) فرائیڈے اسپیشل کے ذمہ داران کو اتنا پسند آیا کہ اگلے ہفتے بھی وہی لگادیا تاکہ جو پڑھنے سے رہ گیا ہو وہ بھی پڑھ لے۔اس کالم کے حوالے سے عزیزم کلیم چغتائی نے تبصرہ کیاکہ انکسا ر کو انکساری لکھنے کا جرم عرصہ دراز تک ان سے بھی سرزد ہوتارہاتا آنکہ استادِ محترم مشکور حسین یاد نے تحریری توبیخ کی کہ یہ آپ کیا انکساری لکھتے رہتے ہیں، درست لفظ انکسار ہے۔
                اس پر بھی کلیم چغتائی باز نہ آئے تو دوسرے بڑے استادِ محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو سمجھانا پڑا کہ انکسارسے کام لینا یا انکسار سے پیش آنا درست ہے،انکساری درست نہیں۔کلیم چغتائی مزید لکھتے ہیں کہ متوّفی کے معنی بالکل درست دیے ہیں یعنی مارنے والا۔لیکن لغت میں یہ لفظ ان اعراب کے ساتھ نہیں ملا۔وہاں لفظ متّوفیٰ دیا گیا ہے جس کے معنی ہیں:مراہوا ،جہاں سے گزراہوا۔
                ہم کئی بار سمجھا چکے ہیں کہ طالب علم کی جمع طلبا غلط ہے۔طلبا طلیب کی جمع ہے۔صحیح لفظ طلبہ ہے۔کچھ لوگوں نے فون کرکے توجہ دلائی ہے کہ خود فرائیڈے اسپیشل میں ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر نے اپنے مضمون میں طلبا استعمال کیا ہے ۔کیا فرائیڈے اسپیشل کے ذمہ داران کو تصحیح نہیں کردینی چاہیے تھی؟اب ہم کیا کہیں،خود جسارت میں بھی ’’طلبا‘‘شائع ہوجاتاہے جس سے لگتا ہے کہ سعی رائیگاں جارہی ہے ،لیکن ایسا نہیں ہے ،کہیں نہ کہیں اثر ضرور ہورہا ہے،بس جہاں ہونا چاہیے وہاں بے نیازی ہے۔جسارت کے ایک کالم نگار محمد سمیع بڑے کہنہ مشق مضمون نگار ہیں اور ایک دینی جماعت سے تعلق کی بنا پر توقع کی جاسکتی ہے کہ زبان کی مبادیات کا علم ہوگا ۔ان کا ایک مضمون جسارت میں شائع ہوا جس میں انہوں نے چھوٹ کے بجائے بار بار’’چھٹی‘‘استعمال کیا ہے۔مثلاً’’دہشت گردوں کو چھٹی ملی ہوئی ہے‘‘۔چھوٹ اور چھٹی کا فرق پہلے بھی واضح کیا جاچکا ہے۔محمد سمیع کی اس غلطی کی تصحیح بھی نہیں کی گئی۔کیا دہشت گردکسی اسکول میں پڑھتے ہیں کہ چھٹی کی گھنٹی بجنے کا انتظار کریں گے؟چھوٹ کے ساتھ عموماً’’کھلی ‘‘کا سابقہ استعمال کیا جاتا ہے،یعنی ’’کھلی چھوٹ مل گئی‘‘۔چھوٹ ہندی کا لفظ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں مثلاًرہائی ،آزادی ،فرصت ،چھٹکارا،تخفیف،کمی۔بے تکلفانہ مزاح ۔بے ساختہ اور خوبصورت چیز کو بھی کہتے ہیں۔پر تو ،عکس ،چمک کے معنوں میںبھی آتاہے۔مثلاً یہ شعر
فلک پہ عقدِ ثریا ہے نہ عقدِپرویں ہے
بڑی ہے چھوٹ  اسی آبدار  سہرے کی
                چھوٹ پڑن ،کسی چیز کا کسی چیز پر عکس پڑناوغیرہ سمیت اس ایک لفظ کے کئی معنی ہیں ۔چنانچہ کھلی چھوٹ کا مطلب ہے کچھ بھی کرنے ،کہنے کی آزادی ،جیسے آج کل بہت سے سیاسی رہنماؤں کو ملی ہوئی ہے۔
                محترم ڈاکٹر حسین احمد پر اچہ نے ’’انگریزی یا اردو‘‘ کے عنوان سے ایک اہم مضمون لکھا ہے۔لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ’’دھوکہ‘‘ کے بجائے ’’دھوکا ‘‘لکھتے ،اور اگر ہمارا اعتبا رنہیں تو لغت دیکھ لیں۔
                ہمارے لاہوری دوست جناب افتخار مجاز کو ایک کہنہ مشق کالم نگار سے شکوہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایک کالم میں ’’اجلافیہ‘‘کا مشکل لفظ استعمال کرڈالا اور وہ اس کا مطلب پوچھتے پھرے ۔آخر ایک لغت سے معلوم ہوا کہ یہ اشرافیہ کا متضاد ہے ۔وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مشکل الفاظ استعمال کرنے سے کہنہ مشق کالم نگار کا قدبڑھ جاتا ہے؟لیکن اس کا فائدہ تو ہواکہ افتخار مجاز کی لغت میں ایک لفظ کا اضافہ ہوگیا ۔مشکل لفظ استعمال کرنے ہی سے قابلیت کا اظہار ہوتا ہے ۔بہرحال اس طرح ہمارے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ در اصل ’’اجلاف ‘‘عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔یہ اشراف کی ضد ے حالانکہ اشرافیہ سے ضد مہنگی پڑجاتی ہے۔اَجلاف کا مطلب ہے زذیل، کمینے۔اس کا واحد جِلف ہے (ج بالکسر)جو اردو میں مستعمل نہیں ہے۔عجیب بات ہے کہ ذرائع ابلاغ میں’’اشرافیہ‘‘طنزاًاستعمال ہوتاہے جب کہ یہ لفظ شریفوں کے لیے ہے۔جس کالم نگار نے ’’اَجلافیہ‘‘استعمال کیا ہے ،سوچ سمجھ کر کیا ہوگا بجائے اس کے کہ کسی کو کمینہ اور رزیل کہاجائے ۔کبھی کبھار مشکل الفاظ بھی استعمال کرلینے چاہئیں تاکہ پڑھنے والوں کو مطلب جاننے کا تجسس ہو،جیسے افتخار مجاز کوہوا۔
                دو الفاظ ایسے ہیں جو الجھن میں ڈالے رکھتے ہیں’’دوہرا‘‘اور’’دوہائی‘‘پریشانی یہ ہے کہ ان الفاظ میں’و‘آتاہے یا نہیں۔لیکن لغات نے بھی عدالت عظمیٰ کی طرح کوئی واضح فیصلہ نہیں دیا۔دوہائی بر وزن خدائی ہندی کا لفظ اور مونث ہے ۔مطلب فریاد ،داد خواہی، استغاثہ،پناہ ،بچاؤ ،امن خواہی،قسم ،واسطہ۔رنگین کا شعر ہے:
میرے گھر چلیے اسی میں ہے بھلائی آپ کی
آج میں ہر گز نہ چھوڑوں گا  دوہائی آپ کی
                دوہائی پکارنا ،کسی فریادی کالفظ دوہائی زبان پر لانا ،دوہائی پھرنا یعنی منادی ہونا۔محسن کا شعر ہے:
وہ توحید کی اک دوہائی پھری
کہ دورِبتاںسے خدائی پھری
                یہاں تک تو دوہائی میں’و‘ ہے ،لیکن استاد ذوق کا شعر ہے:
نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا
اے فلک گر تجھے  اونچا نہ سنائی دیتا
                آتشؔ کا شعر ملاحظہ کیجیے:
اشتیاقِوصلت میں جان لب تک آئی ہے
عشق نے ستایا ہے  ،  حسن کی دہائی ہے
                اب ہم کس کی دوہائی دیں کہ اس میں’و‘ہے یا نہیں۔شاید اس کا انحصار اس پر ہوکہ دہائی یا دوہائی کس زور کی ہے۔ایسا ہی معاملہ دوہرا کا ہے۔صاحبِ نور اللغات مولوی نورا لحسن نیر کا رجحان ’’دُہرا‘‘کی طرف ہے،یعنی بغیر’و‘ کے۔یہ بھی ہندی کا لفظ اور مذکر ہے۔ مونث کے لیے دہری استعمال کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر دہرا حصہ ،دہر ا بدن وغیرہ دیا گیا ہے۔منیر کا شعر ہے:
کسی  وقت  کوئی  کاتبِ  اعمال  سے   بچے
ہیں دہرے دہرے خفیہ نویس اک بشر کے ساتھ
                دہراہوجانا یعنی جھک جانا،دوتہ کرنا ۔لیکن اسی کے ساتھ دوتہ کا مطلب دیا ہے دوہرالپیٹا۔دہری بات،دہری آواز ،دہری سواری وغیرہ۔اور پھر ’دوہرے اخراجات ‘بھی دیاہے ۔اب بتائیے کس کو صحیح مانیں؟علمی اردو لغت نے نور اللغات کی نقل کرتے ہوئے صرف دہرادیاہے۔
                سہ ماہی’بیلاگ‘ کا شمارہ جنوری تا مارچ ،اپریل میں ہم تک پہنچا ہے ۔یہ عزیز جبران انصاری کی کاوشوں کا ثمرہی نہیں ثمر دار شجر ہے۔عزیز جبران انصاری اردو زبان کے حوالے سے بھی مفید مشورے دیتے اور رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔اس شمارے میں انہوں نے قدیم املا اور جدید املا کا موازنہ کیا ہے۔انہوںنے ’’ان شاء اللہ‘‘کو بھی جدید املا میں شامل کردیا ہے ،حالانکہ قرآن کریم کے نزول کو تو ۱۴۳۸ برس سے بھی زیادہ عرصہ ہوگیا اور تب سے اب تک قرآن کریم میں یہی املا یعنی ان شاء اللہ ہے جس کوکچھ لوگوں نے بگاڑ کر انشاء اللہ کردیا۔اسی طرح ’’السلام علیکم‘‘ کو بھی جدید املا نہیں کہا جاسکتا کہ یہی صحیح ہے۔بہتر تھا کہ جدید املاکے بجائے اس کا عنوان صحیح املا ہوتا ۔ السلام علیکم کو ’’اسلام علیکم ‘‘کردینا توہماری اپنی جہالت ہے،اس کا قدیم وجدید سے کیا تعلق !اسی طرح لیے،کیے ،دیجیے کو جدید املا قرار دیا ہے،جب کہ سیکڑوں سال پہلے مرتب کی ہوئی لغات میں یہ جدید املا ہی قدیم ہے۔ انھیں ،تمھیں ،جنھیں کو بھی جدید املا نہیں قرار دیا جاسکتا کہ پرانا املا یہی ہے اور سید مودودی ؒ نے بھی اپنی تفسیر میں یہی املاکیا ہے۔ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا اصراربھی یہی ہے کہ انھیں ،تمھیں وغیرہ کو دوچشمی ’ھ‘سے لکھنا ہی صحیح ہے، حتی ٰکہ دولھا کو بھی لٹکن والی ’ہ‘ یعنی دولہا لکھنے سے دولھا خود نہ لٹک جائے اور ممکن ہے کہ فصحا اس کا نکاح منسوخ کرادیں۔
                ہم ماہرلسانیات ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے لیکن ہماری رائے ہے کہ انھیں ،تمھیں وغیرہ لکھنے سے املا تو صحیح ہوجائے گا مگر لکھنے والوں کو دشواری ہوگی جس طرح چاہییں (دو یے کے ساتھ ) میں دشواری ہوتی ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter