Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

53 - 56
ادھم یا اودھم ۔۔۔ 
دیکھتے ہیں ’’چراغ تلے‘‘ کیا کیا کچھ ہے۔ 11 ستمبر کے اخبار جسارت کے ادارتی صفحہ پر حسیب عماد کا مضمون ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ’’ایک بندر شیر کی خدمت پر معمور تھا۔‘‘ موصوف کو شاید ’مامور‘ اور ’معمور‘ کا فرق نہیں معلوم، یا پھر بندروں کے لیے ’معمور‘ ہی بہتر لگا ہوگا۔ بیشتر لکھنے والے ’جن‘ اور ’جس‘ کا استعمال غلط کرتے ہیں، جیسے اسی مضمون کا ایک جملہ ہے ’’سفید فام نسل جن کے آبا و اجداد نے‘‘۔ نسل چونکہ واحد ہے اس لیے یہاں ’جس‘ آنا چاہیے تھا۔ ’جن‘ جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’سفید فام نسلیں جن کے آباو اجداد نے۔ ۔ ۔ ‘‘ یہ غلطی بہت عام ہے اور خبروں میں بھی نظر آتی ہے۔ 
اسی طرح لکھنے اور تقریر فرمانے والے ’علاوہ‘ اور ’سِوا‘ میں فرق روا نہیں رکھتے جس کے بارے میں طوطی کی صدا رائیگاں جاتی ہے۔ عمران خان کا تو زبان و بیان سے کوئی علاقہ نہیں اس لیے وہ اگر یہ غلطی کریں تو روا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک دلچسپ انٹرویو میں کہا کہ ’’پرویز خٹک کے علاوہ سب ناتجربہ کار تھے‘‘۔ یہاں ’علاوہ‘ کے استعمال کا مطلب ہے کہ پرویز خٹک بھی ناتجربہ کار تھے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ بحرِ علم کے شناور، بہترین کالم نگار، شاعر اور ادیب جناب عطاء الحق قاسمی بھی ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ میں فرق نہیں کرتے۔ وہ ہمارے پسندیدہ کالم نگار ہیں اس لیے ہم انہیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ 11 ستمبر کے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ’’(قدرت اللہ) شہاب صاحب کے ’علاوہ‘ سب سے بے تکلفی کا تعلق تھا۔‘‘ یہاں ’علاوہ‘ کے بجائے ’سوا‘کا محل تھا، لیکن ’علاوہ‘ کا مطلب یہ ہوا کہ قدرت اللہ شہاب سے بھی بے تکلفی کا تعلق تھا جیسا کہ ان حضرات سے تھا جن کے نام قاسمی صاحب نے گنوائے ہیں۔ 
آج کل ایک غلطی بہت عام ہے اور وہ ہے ’’روہنگیا کے مسلمان‘‘۔ جسارت کے تازہ سنڈے میگزین میں بھی یہی غلطی ہے، حتیٰ کہ ایک سرخی ہے ’’روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم‘‘۔ جیسے روہنگیا کوئی جگہ ہے۔ تاہم موسیٰ غنی کے اس مضمون کے متن میں یہ غلطی نہیں ہے۔ یعنی یہ غلطی سرخی نکالنے والے کی ہے۔ روہنگیا ایک قوم ہے، ایک نسلی اور لسانی اکائی۔ میانمر ہی کے حوالے سے ایک صوبے راکھین کا نام کہیں رکھائین اور بہت سے اخبارات میں رخائین لکھا جارہا ہے۔ لیکن اس پورے خطے میں ’خ‘ نہیں بولا جاتا۔ 
سنڈے میگزین ہی میں ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کے مضمون میں بھی یہ غلطی نظر آئی ہے کہ ’’اب یہ مظلوم روہنگیا کے لوگ کہاں جائیں‘‘۔ یہ ’سراج‘ تلے اندھیرا ہے۔ 
محترم شکیل ترابی کے ایک مضمون (9 ستمبر۔ جنگ) میں ایک نیا لفظ پڑھنے کو ملا۔ وہ لکھتے ہیں ’’چھری کندھ ہوچکی ہے‘‘۔ ممکن ہے یہ کمپوزنگ کی غلطی ہو ورنہ بغیر ’ھ‘ کے بھی چھری کند ہوجاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ چھری بہت ہی کھنڈی ہو تو اسے کندھ کیا جاتا ہو۔ داغؔ کا ایک شعر پڑھ (یا سن) لیجیے: 
کچھ کچھ نگاہِ شرم میں تیزی بھی چاہیے 
دل ہو گا ایسی کُند چھری سے حلال کیا 
وہ مرزا داغ دہلوی کا زمانہ تھا،‘ اب ان کے اس مشورے کی ضرورت نہیں رہی۔ 
ماہنامہ ’قومی زبان‘ کے تازہ شمارے (ستمبر 2017ئ) میں مدیر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ’’قومی زبان سے ہماری بے اعتنائی‘‘ کے عنوان سے بہت اچھا اداریہ لکھا ہے، لیکن انہوں نے اداریے میں عدالتِ عظمیٰ (سپریم کورٹ) کو عدالتِ عالیہ لکھا ہے، جب کہ عدالتِ عالیہ ہائی کورٹ کو کہتے ہیں۔ اس شمارے کے سرورق پر اردو کے حوالے سے جس خبر کا عکس دیا گیا ہے اُس میں واضح طور پر ’’سپریم کورٹ کا حکم‘‘ لکھا ہے۔ اب اگر سپریم کورٹ کو عدالتِ عالیہ کہا جائے تو ہائی کورٹ کو کیا کہیں گے؟ اس سے قطع نظر قومی زبان سے بے اعتنائی پر بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ 
’اعتنا‘ کا ذکر آیا تو لگے ہاتھوں اس کی بھی وضاحت ہوجائے۔ فارسی کی ایک مثل ’’درخورِاعتنا‘‘ اردو میں بہت عام ہے۔ اِعتِنا (بالکسر و کسر سوم) عربی کا لفظ اور مونث ہے۔ مطلب ہے غم خواری کرنا، اہتمام، پروا وغیرہ ۔ 
میرؔ کا شعر ہے: 
نہ اٹھا نہ حضرت کی تعظیم کی 
نہ کچھ اعتنا کی نہ تسلیم کی 
حالیؔ نے اسے مذکر کہا ہے جیسے ’’غزل کی طرف زیادہ اعتنا نہیں پا یا جاتا۔‘‘ 
اب جیسے چاہے استعمال کرلیں۔ 
ایسے ہی ایک لفظ ’اُدھم‘ ہے (الف پر پیش) یہ اودھم بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس کو بھی اساتذہ نے مذکر اور مونث دونوں طرح باندھا ہے اور دوسروں پر چھوڑ دیا ہے۔ 
لغت کے مطابق ہندی اور سنسکرت میں یہ لفظ ’’اُدّیم‘‘ تھا یعنی ہاتھ پاؤں چلانا، شوروغل، ہنگامہ۔ پہلے اودھم (واؤ معروف کے ساتھ) لکھا اور بولا جاتا تھا، اب اتنا ادھم مچا کہ واؤ غائب ہوگیا یا کم بولا جاتا ہے۔ 
عموماً مذکر بولا جاتا ہے لیکن بعض شعراء نے مونث استعمال کیا ہے۔ مثلاً داغؔ کا یہ شعر: 
شور ہے قلقل مینا کا چلو آؤ پیو 
مغ بچوں نے بھی مچا رکھی ہے کیا کیا اودھم 
اب کچھ برقی ذرائع ابلاغ کے لطیفے۔ 
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف 10 ستمبر کو مظاہرے ہوئے تو ’سچ‘ ٹی وی نے پٹی چلائی’’ کریہ کریہ احتجاج ہورہا ہے‘‘۔ بولنے کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ کچھ لوگوں کے حلق سے ’ق‘ نہیں نکلتا اور وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ یہ قینچی والا ’ق‘ ہے یا کتّے والا۔ لیکن لکھنے میں یہ عذر مانع نہیں۔ بولنے میں ’’کریہ کریہ‘‘ کہا جائے تو لکھنے میں تو ’قریہ‘ لکھ دو، یا پھر جگہ جگہ، شہر شہر احتجاج لکھ دیا جائے۔ ’ق‘ ویسے بھی بڑا مظلوم ہے۔ حیدرآباد دکن والے اسے ’خ‘ کردیتے ہیں، قاضی جی ’’خاضی جی‘‘ ہوجاتے ہیں، اور مقدر اگر پنجاب میں ’مکدر‘ ہوجاتا ہے تو دکن میں ’مخدر‘۔ ایک ٹی وی چینل لاہور سے خبر دے رہا تھا جس میں لاہور کے مشہور علاقے سنت نگر کو ’سنّت‘ بروزن منّت کہہ رہا تھا۔ حیرت ہے کہ خبر پڑھنے والا لاہور ہی کا تھا اور سنت نگر سے ناواقف۔ یہ سادھو، سنت والا سنت نگر ہے۔ قرآن و سنت والا سنّت نگر نہیں۔ لیکن کیا پتا اب اس محلے کا نام بھی بدل دیا گیا ہو جیسے ’بھگوان پورہ‘ باغبان پورہ، ’کرشن نگر‘ اسلام نگر، اور کراچی میں ’رام باغ‘ آرام باغ ہوگیا۔ 
وفاقی وزیر دانیال عزیز کو زبان و بیان سے کیا تعلق۔ چنانچہ اگر وہ کہتے ہیں کہ ’’بالائے طاق پر رکھ دیا‘‘ تو یہ ان کو زیب دیتا ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter