Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

14 - 56
دار۔و۔گیر پر پکڑ 
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجناب ندیم نے اطلاع دی کہ یہ تو دو الگ الگ الفاظ ہیں یعنی دار۔و ۔ گیر۔ اور پھر ماہرین نے دارو گیر شروع کردی۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن ضلع رحیم یار خان کے صدر محمد انور علوی نے لاہور سے متوجہ کیا ہے کہ ’’آپ نے دار و گیر کے عطف کو دار سے جوڑ کر دارو بنادیا‘ العجب‘‘۔ ہم نے کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا بلکہ ماہرین سے پوچھا تھا کہ دار و گیر میں دارو کیوں ہے۔ محمد انور علوی نے مزید دو غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ایک تو یہ کہ ’’قرون مظلمہ کا ترجمہ DARK AGE دیا ہے جبکہ قرون جمع ہے قرن کی، تو پھر ترجمہ بھی AGES ہوگا‘‘۔ بجا اور درست۔ دوسری ’’یہ کلیہ تو معروف ہے کہ جو عوام کی زبان پر چڑھ گیا وہی صحیح ہے۔ اس سلسلے میں جو دو اصطلاحیں ہم نے پڑھی سنی ہیں وہ ’غلط العام‘ اور ’غلط العوام‘ ہیں۔ ان میں سے اول الذکر صحیح بلکہ فصیح، جبکہ دوسری غلط‘‘۔ یہ بھی صحیح ہے اور ہم اس کے لیے اپنی مصروفیت کو جواز نہیں بناسکتے۔ ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ ہیڈ ماسٹروں کے ہیڈ بھی اس سلسلے کو مفید پاتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں تو کسی طالب علم کی یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہیڈ ماسٹر سے براہِ راست کلام کرسکے، الاّ یہ کہ سرزنش کے لیے طلب کیا جائے۔ ہمارے لیے یہ اطلاع دلچسپ ہے کہ ہیڈ ماسٹروں نے بھی اپنی تنظیم بنارکھی ہے۔ ویسے کیا اس کا اردو میں ترجمہ نہیں ہوسکتا مثلاً ’ضلعی تنظیم صدر مدرسان‘ یا ’صدر مدرسوں کی ضلعی تنظیم‘۔ محمد انور علوی اس پر ضرور غور کریں۔
جب ہم دوسروں کی غلطیاں پکڑتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہماری غلطی کی نشاندہی بھی کی جائے۔ یہ کام منظر عباسی صاحب بڑے اہتمام سے کرتے ہیں ۔
لاہور سے جناب افتخار مجاز نے پوچھا ہے کہ صحیح لفظ ’اَہم‘ ہے یا ’اِہم‘؟ لغت کے اعتبار سے تو صحیح اَہم (الف پر زبر) ہے لیکن ایسے کئی الفاظ ہیں جو اردو میں آکر لیٹ جاتے ہیں۔ اہلِ پنجاب ’’اَحمد‘‘ کا تلفظ بہت صحیح اور عربی قاعدے کے مطابق (الف پر زبر) ادا کرتے ہیں، لیکن اہم یا احمد جیسے الفاظ کا تلفظ اردو میں زیر اور زبر کے درمیان ادا کیاجاتا ہے۔ عربی کا ایک لفظ ہے ’’لِین‘‘۔ مونث ہے اور اس کا مطلب ہے نرمی۔ ساکن ’و‘ اور ’ی‘ کی وہ آواز جب ان سے پہلے کوئی حرف مفتوح آئے مثلاً طَور۔شَے۔ لِین سے لینت ہے یعنی نرمی، ملائمت۔
افتخار مجاز نے ایک اور مخبری کی ہے۔ لکھتے ہیں: ایک میگزین میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ایک کتاب کے بارے میں لکھتے ہوئے ترجمہ کی گئی چند لائنیں کوٹ کی ہیں (حوالہ دیا ہے)’’میں نے کچھ عرصہ اس بات پر غور و فکر کیا کہ آیا مجھے یہ یادداشتیں ’’آغاز سے شروع‘‘ کرنی چاہئیں۔‘‘یہ پرتگالی کی ترجمہ شدہ کتاب میں مترجم کی سطح ہے جو ڈاکٹر صاحب کو پسند آئی ہے۔ اگر یہ کسی پرتگالی کتاب کا ترجمہ ہے تو ممکن ہے پرتگالی میں آغاز سے شروع کیا جاتا ہو۔ لیکن یہ تو ہمارے اخبارات میں بہت عام ہے، یعنی آغاز اور شروع کی یکجائی ۔ ہوسکتا ہے انعام الحق جاوید کی نظر سے یہ جملہ نہ گزرا ہو جس کا کھوج افتخار مجاز نے لگایا ہے۔ بعض لوگ کھوج کو مونث بھی بولتے ہیں یعنی ’’کھوج لگائی‘‘۔ لیکن یہ پکّا پکّا مذکر ہے۔
ایک اور لفظ برقی ذرائع ابلاغ پر تواتر سے سننے میں آرہا ہے ’’کال عدم‘‘۔ اب چونکہ یہ کالعدم لکھا جاتا ہے تو ضروری ہوا کہ اسے پڑھا بھی ’’کال عدم‘‘ جائے۔ غنیمت ہے کہ ابھی ’’بالکل‘‘ کو کسی نے اسی طرح ’’بال کل‘‘ کہنا شروع نہیں کیا۔ اور کہتے بھی ہوں تو ہم نے نہیں سنا۔
جناب محمود شام بہت ہی سینئر صحافی ہیں، اتنے کہ جب ہم اسکول میں تھے تو انہیں نوائے وقت میں پڑھا کرتے تھے۔ وہ ایک رسالہ ’اطراف‘ کے نام سے بھی نکال رہے ہیں۔ اس میں بھی پروف کی کئی غلطیاں ہوتی ہیں، تاہم 2015ء کے آخری اور 2016ء کے پہلے شمارے میں صفحہ 10 پر ایک ذیلی سرخی ہے ’’عدم برداشت عدم تحفظ کو جنم دیتی ہے‘‘۔ شاید برداشت کی نسبت سے ’’دیتی ہے‘‘ لایا گیا ہے، لیکن اس کا تعلق ’’عدم‘‘ سے ہے جو مذکر ہے۔ چنانچہ صحیح جملہ یوں ہوتا ’’عدم برداشت عدم تحفظ کو جنم دیتا ہے‘‘۔ ممکن ہے مضمون نگار خاتون نے سوچا ہو کہ جنم دینا تو مونث کا کام ہے، مذکر کا نہیں۔
ہم لغت میں تصدیق کررہے تھے کہ واقعی کھوج مذکر ہے یا نہیں۔ کھ سے شروع ہونے والے الفاظ میں ایک لفظ ’’کھنّس‘‘ پر نظر پڑی۔ یہ کھنس پنجاب میں تو بہت عام ہے اور بعض لوگ اس کا تلفظ ’’خنس‘‘ بھی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے رہے کہ یہ خالص پنجابی لفظ ہے، لیکن لغت کے مطابق یہ ہندی سے اردو میں آیا ہے گو کہ اردو میں اس کا استعمال نہیں دیکھا۔ کھنّس کا مطلب ہے: نفرت، حقارت، دشمنی، بیر، عداوت، غصہ، حسد، رشک وغیرہ۔عوامی بول چال میں کہتے ہیں ’’اس نے اپنی کھنّس مجھ پر نکالی‘‘۔ کھنس سے ’’کھنسانا‘‘ ہے، مگر یہ تو اہلِ پنجاب بھی استعمال نہیں کرتے۔
خیبرپختون خوا کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک سیدھے آدمی ہیں۔وہ بھی اقتصادی راہداری پرتنقید میں حصہ لیتے ہوئے دو رویہ کو ’’دو روّیہ‘‘ کہہ رہے تھے۔ ’’کال عدم‘‘ والی مشکل یہاں بھی ہے کہ رویہ اور روّیہ (تشدید کے ساتھ) ایک ہی طرح لکھا جاتا ہے تو پھر بولا بھی ایک ہی طرح جائے گا۔ ممکن ہے پرویز خشک نے ایک ہی لفظ سے دونوں کام نکالے ہوں یعنی رویّے کی شکایت بھی کردی۔ لیکن قابل
تعریف بات یہ ہے کہ اردو اُن کی مادری زبان نہیں لیکن وہ اردو بولتے ہیں، چنانچہ تلفظ میں کسی گڑبڑ کی پکڑ نہیں کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ کتنے ہی ایسے ’’اہلِ زبان‘‘ ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے لیکن غلط سلط تلفظ کرتے ہیں۔ اور خود ہمارا تلفظ کون سا سوفیصد صحیح ہے!
جہاں تک ’’رویہ‘‘ کا تعلق ہے تو یہ ’’رو‘‘ سے ہے اور فارسی کا لاحقہ فاعل ہے، چلنے والے کا معنیٰ دیتا ہے جیسے تیزرو، راہرو۔ مرزا غالب کا مشہور شعر ہے:
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نَے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب میں
رخش کا مطلب گھوڑا ہے، لیکن جانے کیوں بعض لڑکیوں کے نام رخشی رکھ دیے جاتے ہیں! رو فارسی مصدر رفتن سے صیغہ امر ہے۔ ’ر‘ پر پیش لگادیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے: منہ، چہرہ، شکل صورت، سامنے کا حصہ، سبب، وجہ، رعایت، لحاظ، امید، تمنا، آرزو، حیلہ، بہانہ وغیرہ۔ روپوش، روسیاہ، روپکار (تحریر، حکم، پروانہ)، روداد وغیرہ۔ جہاں تک روّیہ کا تعلق ہے تو یہ بھی فارسی سے آیا ہے اورآج کل تو بہت ہی آرہا ہے۔ مذکر ہے اور مطلب ہے: دستور، رسم و رواج، چال چلن، برتاؤ، روش، وضع وغیرہ۔ ایک ’رو‘ روئیدن مصدر سے صیغہ امر ہے جس کا مطلب ہے: اگنے والا…… جیسے خودرو، وغیرہ۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter