Deobandi Books

خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول

1 - 56
مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب کے بڑے بڑے اشتہارات بیشتر اخباروں میں دیکھے۔ ان اشتہاروں میں ’’مسجد کی سنگ بنیاد‘‘ رکھنے پر مبارک باد پیش کی گئی تھی۔ غالباً اشتہار کا مضمون بنانے والے کے پیش نظر ’’بنیاد‘‘ تھی جو مونث ہے۔ لیکن خود اس جملے کی بنیاد ہی غلط ہے۔ یہاں ’’کی‘‘ کی جگہ ’’کا‘‘ ہونا چاہیے، یعنی ’’مسجد کا سنگِ بنیاد‘‘۔ ان اشتہارات پر کروڑوں روپے صرف ہوئے ہوں گے۔ اگرکسی پڑھے لکھے کاپی رائٹر کی خدمات بھی حاصل کرلی جاتیں تو کیا حرج تھا! بات اسی ایک جملے کی نہیں، اور کئی مقامات پر دیکھنے، پڑھنے میں آیا کہ مذکر، مونث کی بنیاد دوسرے لفظ پر رکھی گئی۔ ایسے میں ترتیب کو الٹ کر دیکھ لیا جائے جیسے سنگِ بنیاد کا مطلب ہے ’’بنیاد کا سنگ‘‘۔ اس سے بات واضح ہوجائے گی۔
تیر، تکا اکثر استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: لگ گیا تیر، نہیں تو تُکّا۔ قیاس آرائی، اندازہ، اٹکل کو بھی تکا لگانا کہتے ہیں۔ طالب علموں (یا طالبانِ علم جن پر یہ تہمت ہے) سے بھی سننے کو ملتا ہے کہ سوال کا جواب تو آتا نہیں تھا، بس تکے لگائے۔ تُکّا اصل میں بغیر نوک کے تیر کو کہتے ہیں جو تیراندازی کی مشق میں کام آتا تھا۔ اب تو تیراندازی کا فن ہی ختم ہوتا جارہا ہے، اس کی جگہ آتشیں اسلحہ نے لے لی ہے۔ کلاسیکی ادب کی فرہنگ میں رشید حسن خان نے ایک مثال ’’تُکّا سی داڑھی‘‘ کی دی ہے جس کا مطلب ہے وہ بڑی ڈاڑھی جو رخساروں پر نہ ہو۔ رشید حسن خان نے ’’داڑھی‘‘ کو ’دال‘ سے لکھا ہے اور عام طور پر یہی لکھا جاتا ہے، لیکن لغت میں یہ ’ڈال‘ سے ہے یعنی ڈاڑھی۔ بابائے اردو نے بھی اپنی انگریزی اردو لغت میں BEARD کا ترجمہ ’ڈاڑھی‘ ہی کیا ہے۔ تاہم دستیاب اردو لغات میں وضاحت ہے کہ ڈاڑھی اور ڈاڑھ فصیح ہیں۔ لکھنؤ میں ’ڈال‘ کو ثقیل سمجھ کر داڑھی بولا اور لکھا جاتا ہے۔ لیکن ڈر، ڈبہ، ڈاکا، ڈومنی وغیرہ کو ’دال‘ سے ادا نہیں کیا جاتا۔ ممکن ہے اس بارے میں کوئی صاحبِ علم دلیل لے آئے کہ فلاں فلاں لغت میں ڈاڑھی دال ہی سے ہے۔ ہماری دال تو گلنے سے رہی۔ ہمارا خیال ہے کہ جس کی ڈاڑھی گھنی اور لمبی ہو وہ ’ڈال‘ ہی سے بولے اور لکھے جیسے مولانا فضل الرحمن کی ہے۔ ویسے ایک ڈاڑھی ایسی بھی ہوتی ہے جو محض ’’غبار‘‘ ہوتی ہے۔ ایسی ڈاڑھی ہمارے سابق وزیراطلاعات قمر زماں کائرہ صاحب کی ہے۔ معروف سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی ڈاڑھی بھی ’’غباری‘‘ تھی، بس شیو کرانے کی تہمت نہیں تھی۔ عام عرب بھی ڈاڑھی بڑھانے کے نام پر ہونٹوں کے نیچے چند بال چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بے اختیاری ڈاڑھی ہے۔
ایک مذہبی علمی رسالہ ’’البرہان‘‘ نظر سے گزرا۔ اس میں ایک جملہ ہے ’’ہمارا طالب علمانہ اور عاجزانہ استدعا ہے‘‘۔ گمان غالب ہے کہ یہ کمپوزنگ کا سہو ہے ورنہ استِدعا (اِس۔ تِد۔عا) مونث ہے اور اس میں ’ث‘ پر زبر نہیں ہے جب کہ کچھ لوگوں کو بولتے سنا ہے۔
آج کل ملک بھر میں بڑی پکڑ دھکڑ ہورہی ہے اور جو پکڑے جاتے ہیں اُن سے ’’پوچھ گچھ‘‘ بھی ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز پر پوچھ کے ساتھ ’’گچھ‘‘ کے مہمل کا تلفظ مختلف سننے میں آتا ہے۔ کوئی گاف پر زبر لگاتا ہے اور کوئی پیش۔ یہ گِچھ ہے یعنی گاف کے نیچے زیر۔ آپ چاہیں تو اسے ’’بالکسر‘‘ کہہ لیں۔ اصل میں ہماری تحریر کالمانہ ہوتی ہے، عالمانہ نہیں۔ اسی لیے کوئی کوئی بات عالموں کی سمجھ میں نہیں آتی، مگر بقول میرؔ ’’گفتگو لیکن مجھے عوام سے ہے‘‘۔ اور عوام ہیں کہ کسی طرح مونث سے مذکر ہونے پر تیار نہیں۔ عطاالحق قاسمی جیسا عالم زادہ اور بڑا کالم نگار بھی عوام کو مذکر کا درجہ دینے پر تیار نہیں اور ٹی وی چینلز کا تو کہنا ہی کیا۔
رشید حسن خان نے داڑھی تو دال سے قرار دی ہے لیکن بلند آواز سے رونے پیٹنے کو ’’ڈاڑھ مار کر‘‘ لکھا ہے اور سند میں ایک شعر دیا ہے:
کہاں وے کنویں اور کدھر آبشار
کوئی دل میں رووے، کوئی ڈاڑھ مار
مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاڑھ کی جمع ڈھاڑیں اور بلند آواز سے رونے کو بھی ’’ڈھاڑیں‘‘ مار کر رونا کہتے ہیں۔
’’زبان و بیان‘‘ کے عنوان سے ایک صاحب قربان انجم روزنامہ ’امت‘ میں بہت اہم اور مفید کالم لکھ رہے ہیں۔ ہم ان سے ضرور استفادہ کرتے ہیں۔ تاہم 13 جنوری کے کالم میں انہوں نے بھی ’’اغلباً‘‘ استعمال کیا جو صحیح نہیں ہے، ’’اغلب‘‘ یا ’’غالب‘‘ سے کام چلا لیتے۔
ایک ٹی وی چینل پر الفاظ کو توڑ کر لکھنے کا رواج اب شاید کچھ کم ہوگیا ہے ورنہ تو ہمیں گمان تھا کہ الفاظ کو بھی توڑ کر ’’ال فاظ‘‘ لکھا جائے گا۔ دواخانے والا ہمدرد ہم درد ہوجائے گا۔ لیکن یہ توڑ پھوڑ کچھ نئی نہیں ہے۔ ہم جناب رشید حسن خان کی ’’اردو املا‘‘ دیکھ رہے تھے۔ موصوف نے ہر جگہ ’بلکہ‘ کے دوٹکڑے کرکے ’’بل کہ‘ لکھا ہے۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے ہمزہ کے ٹکڑے نہیں کیے ورنہ تو ’’ہم زہ‘‘ لکھنے سے کون روکتا۔ ’ہمزہ‘ اور ’واو‘ کے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’جن لفظوں کے آخر میں واو ہو، اور واو سے پہلے کوئی حرفِ علت ساکن ہو، اس صورت میں واو پر ہمزہ نہیں لکھا جائے گا۔ عام تحریروں میں کبھی تو اس واو کو صحیح طور پر ہمزہ کے بغیر ہی لکھا جاتا ہے اور کبھی اس پر ایک عدد ہمزہ مسلط کردیا جاتا ہے، جب کہ اس کا محل ہوتا ہی نہیں۔ وہ جو ایک خو سی پڑ گئی ہے، یہ اسی کا کرشمہ ہوتا ہے‘‘۔
یہ بات دل کو لگتی ہے۔ ہمزہ کے بغیر مزا نہیں آتا۔ جناب منظر عباسی نے ’’لئے، دئے‘‘ لکھنے کے حوالے سے یہی عذر پیش کیا تھا کہ برسوں کی عادت ہے۔ بات صرف واو کی نہیں، ایک اور جگہ بھی ہمزہ علماء کے نزدیک جائز نہیں جیسا کہ منظر عباسی نے ’’بابائے اردو‘‘ کے حوالے سے غلطی کی نشاندہی کی تھی۔
واو لکھتے ہوئے بار بار ہمزہ لگانے کو جی چاہتا ہے، لیکن ہاتھ روک لیتے ہیں۔ رشید حسن خان کہتے ہیں کہ ’’اگر واو پر ہمزہ لکھا جائے تو آخری حرف واو اور اس سے پہلے والے حرف کے بیچ میں ایک مزید متحرک حرف کا اضافہ ہوجائے گا اور اس طرح لفظ کی صورت ہی بدل جائے گی، بل کہ یوں کہیے کہ صورت مسخ ہوجائے گی‘‘ (جانے کس طرح)۔ انہوں نے مثال دی ہے کہ جیسے ایک لفظ ہے: پاو( سیر کا چوتھا حصہ) یہاں آخری حرف واو ہے اور اس سے پہلے الف ہے۔ اگر اس کو پاؤ لکھا جائے تو وہ تین حرفی لفظ (پاو) اب چار حرفی بن گیا (پا ء و) اور اب یہ پانا مصدر کا فعل ہوگیا جاؤ، آؤ، کھاؤ کی طرح۔ یعنی ایک لفظ جو اسم تھا، فعل میں تبدیل ہوگیا۔
اور ہم اس سوچ میں ہیں کہ چودھری شجاعت کا ’’مٹی پاؤ‘‘ ہمزہ کے ساتھ ہے یا بغیر ہمزہ کے۔ ۔ ۔ !
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔ 1 1
3 شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ 2 1
4 پام آئل کے درخت ۔۔۔ 3 1
5 مکتبۂ فکر اور تقرری— 4 1
6 امالہ کیا ہے ۔۔۔ 5 1
7 میں نے جانا ہے ۔۔۔ 6 1
8 شمس الرحمن فاروقی کا اعتراض ۔۔۔ 7 1
9 اردو میں لٹھ بازی 8 1
10 اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ 9 1
11 نقص ِامن یا نقضِ امن 10 1
12 اتائی یا عطائی ۔۔۔ 11 1
13 نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ 12 1
14 اعلیٰ یا اعلا 13 1
15 دار۔و۔گیر پر پکڑ 14 1
16 ’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ 15 1
17 تلفظ میں زیر و زبر۔۔۔۔ 16 1
18 ’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ 17 1
19 گیسوئے اردو کی حجامت۔۔۔۔ 18 1
20 فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ 19 1
21 تلفظ کا بگاڑ 20 1
22 املا مذکر یا مونث؟ 21 1
23 پِل اور پُل 22 1
24 فی الوقت کے لئے 23 1
25 مَلک، مِلک اور مُلک 24 1
26 طوطی عرب میں نہیں پایا جاتا 25 1
27 متروکات سخن 26 1
28 مڈھ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ؟ 27 1
29 استاد نے یہی پڑھایا ہے 28 1
30 بیرون ممالک کیا ہوتا ہے 29 1
31 پھر گومگوں ۔۔۔ 30 1
32 ممبئی سے ایک عنایت نامہ 31 1
33 امڈنا یا امنڈنا 32 1
34 خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں 33 1
35 بجائے خود اور بذات خود 34 1
36 دوہرا یا دہرا ۔۔۔ 35 1
37 روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ 36 1
38 تلفظ کی بحث … 37 1
39 نشست اور شکست کا تلفظ — 38 1
40 اش اش پر اعتراض ۔۔۔ 39 1
41 تشہیر بمعنی رسوائی ۔۔۔ 40 1
42 کہ اور کہہ کی بحث۔۔۔ 41 1
43 حامی اور ہامی ۔۔۔ 42 1
44 وتیرہ یا وطیرہ ۔۔۔ 43 1
45 فوج کا سپہ سالار ۔۔۔ 44 1
46 تار۔ مذکر یا مونث؟ 45 1
47 نیک اختر ۔۔۔۔ 46 1
48 لیے اور لئے کا آسان نسخہ 47 1
49 باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ 48 1
50 فرنگی بیماریاں 49 1
51 نوچی کا بھونڈا استعمال 50 1
52 پھولوں کا گلدستہ ۔۔۔۔ 51 1
53 تلفظ کی قرقی ۔۔۔۔ 52 1
54 ادھم یا اودھم ۔۔۔ 53 1
55 گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ 54 1
56 ۔ کاکس یا کاسس بازار — 55 1
57 ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔ 56 1
Flag Counter