سنگ گراں بن کر ہمارے راستہ میں حائل ہوگئی ہیں ۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے تو اہل حرفت و اہل صنعت اور بڑے تاجروں کو کارخانے اور مل قائم کرنا چاہیے تھا، اور ان کے منافع سے ان بڑے کاموں کا چلانا چاہیے تھا جس کے نہ ہونے سے مسلمان غربت و لاوارثی اور مایوسی و نیم دلی کے احساس میں مبتلا ہیں ، اور یہ احساس روگ کی طرح ان کے پورے اجتماعی وجود میں پھیل رہا ہے۔
سیرت رسول اللہ ﷺ کا تقاضا اور پیغام نماز بھی ہے، اور زکوٰۃ بھی، حج بھی اور روزہ بھی، تبلیغ دین بھی، غریبوں کی خدمت بھی، یتیموں کی اعانت بھی، لیکن کم از کم یہ تو نہ بھولنا چاہیے کہ اس کا پیغام قربانی و ایثار بھی ہے، دین کی راہ میں اور دین کے دوسرے تقاضوں کے لیے اپنی جان و مال نثار کرنابھی ہے، نہ ختم ہونے والی کوشش اور بے عذر خدمت و اطاعت کا جذبہ بھی ہے۔
چند یتیموں کی اعانت و سرپرستی یقیناً بجا ہے(اگرچہ افسوس ہے کہ اس سے بھی اب غفلت بڑھ رہی ہے)، لیکن جب پوری قوم کی حالت ایک یتیم سی ہوگئی ہو، تو اس وقت اس کی طرف توجہ کرنا بھی اور رسول اللہ ﷺکی امت کے لیے اپنا مال خرچ کرنا، اپنے دنوں کا آرام اور راتوں کی نیند حرام کرلینا اور اس کے لیے بے قرار و بے چین رہنا بھی سیرت