دعوت اس بات کے لیے نہ تھی کہ دنیاکی مادی رونق میں کچھ اور اضافہ ہو، ایرانیوں اور رومیوں نے اس میں اگر کچھ کسر چھوڑ دی ہو تو وہ پوری ہو جائے، تمدن کی نازک خیالیوں اور خوش خرامیوں میں کچھ اور ترقی ہو، دنیا کی یہ زندگی زیادہ آرام و راحت اور عیش و لذت کے ساتھ گزرے، وہ اس کے لیے بھی نہیں تھی کہ غرناطہ ،قرطبہ، اشبیلیہ اور تاج محل وجود میں آئیں ، یا یونانی فلسفوں کی مومی شمعوں اور شعر و ادب کے فانوس خیال سے تہذیب اسلامی کا کوئی شیش محل تیار کیا جائے، اگر یہ بات تھی تو یہ رومی و ایرانی کچھ بُرے نہ تھے، اور آج بھی یہ امریکی اور روسی بھی کچھ زیادہ قابل ملامت نہیں ۔
یہ اُسوۂ نبوی اس بات کے لیے تھا کہ ایک ایسے مطیع و فرمانبردار بندہ کی طرح زندگی گزاری جائے جو اپنے مالک حقیقی کا وفا دار ہو، اس کا چاہنے والا اور اس سے ڈرنے والا ہو،اس کی زندگی امید و بیم کے درمیان گزرے، اس کی رحمت پر اس کو کامل اعتماد ہو، اور اس کے عذاب کا پورا خوف ہو، اور جب قیامت میں وہ اپنے اللہ کے حضور میں پیش ہو تو سرخرو ہوکر اور نفس مطمئنہ کے ساتھ:
{یٰٓأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ، اِرْجِعِيٓ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً، فَادْخُلِيْ فِيْ عِبَادِي،ْ وَادْخُلِيْ