یہ دنیا دار الاسباب ہے۔ اس دنیامیں جو جس طریقہ کا سبب اختیار کرے گا اسی کے مطابق نتیجہ بھی پائے گا، تو جو اپنے سر پر فرشتوں کی علامت کو سجاکراپنے ظاہر کو فرشتوں کی طرح بنائیگا، تو اللہ سے امید ہے کہ اللہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن کو بھی درست کر دے گا ۔
﴿۳﴾
عَنْ سَالِم عَنْ اَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْاِسْبَالُ فَیْ الْاِزَارِ وَالْقَمِیْصِ وَالْعِمَامَۃِ مَنْ جَرَّ مِنْھَا شَیْٔاً خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ
(مشکوۃ۔ بحوالہ ابو داوٗد والنسا ئی وابن ماجۃ)
حضرت سالم ؓ اپنے والد حضرت عبد اللہ ابن عمرسے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘اسبال یعنی لٹکانا ، ازار ، کرتے، اور عمامہ میں ہے، جو شخص ان کپڑوں سے کچھ لٹکاکر غرور و تکبر سے کھینچے گاتو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی طرف( بہ نظر کرم)نہیں دیکھے گا’’۔
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسبال یعنی کپڑے کو شرعی مقدار سے زائد لٹکانے کی کراہت کو بیان کیاہے اور جہا ں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار اور قمیص میں اسبال کو ممنوع قرار دیا ہے ،وہیں پر عمامہ کے متعلق بھی ارشاد فرمایا کہ عمامہ میں بھی اسبال جائز نہیں ہے ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح ازار اور قمیص ایک مومن کا لباس ہے ،اسی طرح عمامہ بھی مومن کے لباس کا ایک جز ہے ، اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار اور قمیص کے ساتھ عمامہ کا بھی ذکر فرمایاجس کا مطلب یہ ہے کہ عمامہ میں اسبال سے اجتناب کرتے ہوئے عمامہ پہنناچاہیے۔