Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

9 - 13
حدیثِ قرطاس اور اہلِ سنت کا موقف !
حدیثِ قرطاس اور اہلِ سنت کا موقف

ایک صاحب نے حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید  سے چند سوالات لکھ کر بھیجے اور اس کے جواب کا تقاضا کیا،حضرت نے اپنی زندگی میں ان سوالات کا جواب اسے ارسال کردیاتھا،اس کی چوتھی اور آخری قسط ”جو حدیث قرطاس و فرقہ ناجیہ اور اس کے دلائل پر مشتمل ہے“۔افادہ عام کی غرض سے ہدیہ قارئین ہے۔ (ادارہ)

۳:․․․رہا آپ کاتیسرا سوال کہ:”مولاناشبلی نعمانی کی کتاب ”الفاروق“ میں پڑھا:وقت وصالِ رسول،حضور نے قلم دوات مانگا اور حضرت عمر نے دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے“اس بات سے میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے، شاید حضور وقت ِوصال خلیفہ کے بارہ میں تحریری طور پر حکم دینا چاہتے تھے، جسے اس وقت قبول نہ کیاگیا“
میرے مخدوم !یہ آپ کے ذہن کی پیداوار یا محض آپ کاوسوسہ نہیں،بلکہ روز اول سے اہل تشیع ”حدیث قرطاس “کے حوالے سے حضرت عمر پر کیچڑ اُچھالتے آرہے ہیں اور اکابر اہل سنت نے ہر زمانے میں اس کامفصل ومدلل جواب دیاہے۔واقعہ قرطاس کانہایت آسان اور عام فہم انداز میں جن جن حضرات نے جواب لکھاہے، ان میں سے حضرت اقدس مولانامحمد نافع دامت برکاتہم محمدی شریف جھنگ ،نے اپنی کتاب”فوائد نافع“حصہ اول میں اس کابہت ہی عمدہ جواب دیاہے، بہتر ہوتا کہ آپ اس کے ص:۱۶۶سے ۱۹۹ کامطالعہ فرمالیتے۔
تاہم آپ کی آسانی کے لیے اس سے اور دوسرے اکابر کی تصانیف میں سے چند اقتباسات یہاں نقل کیے دیتا ہوں،ملاحظہ ہوں:
اول:․․․آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض وفات کے آخری دنوں ربیع الاول کے پہلے عشرہ کے یوم الخمیس شدت مرض میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرطاس طلب فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس کی روایت ملاحظہ ہو:
”سفیان بن عیینة عن سلیمان الاحول عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال :یوم الخمیس ،ومایوم الخمیس؟یوم اشتد برسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجعہ۔ فقال ایتونی اکتب لکم کتابا لا تضلون بعدہ ،فتنازعوا۔ ولاینبغی عند النبی تنازع، قال دعونی فماانا فیہ خیر مماتسئلونی عنہ۔ قال اخرجواالمشرکین من جزیرة العرب واجیزواالوفد بنحو ماکنت اجیزہم․․․․الخ“ (مسند ابی یعلیٰ،ص:۳۲ج؛۳ :۲۴۹۵ طبع بیروت)
”یعنی حضرت عبداللہ ابن عباسکہتے ہیں کہ خمیس کادن کیا ہے ؟خمیس کایوم وہ ہے کہ جس میں جناب اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کادرد شدت اختیار کرگیا تواپنے حاضرین مجلس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: (قرطاس)لاوٴ، میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے۔اس پر (حاضرین مجلس میں) اختلاف اور تنازع ہوا ،جب کہ نبی اقدس کے پاس تنازع مناسب نہیں،تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے چھوڑیے، میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہترہے جس کے متعلق تم مجھ سے سوال کرتے ہو،پھر آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کے متعلق حکم فرمایا کہ: جزیرة العرب سے مشرکین کو نکال دو اور وفود کے ساتھ بہتر سلوک کرو․․․․․“
اسی خمیس کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت سنبھل گئی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں متعدد اہم امور ارشاد فرمائے ۔سوال یہ کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرطاس کے ذریعہ خلافت علی  سے متعلق کوئی دستاویز لکھناچاہتے تھے اور حضرت عمر نے قرطاس نہ دیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں اس کااعلان کیوں نہ فرمایا؟
دوم:․․․آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمیس کے دن قرطاس کامطالبہ فرمایا اور اس کے بعد تقریباً چار دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقید حیات رہے اور آئندہ سوموار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماکر رفیق اعلیٰ سے جاملے،سوال یہ ہے کہ ان چار دنوں میں معارضہ کرنے والے لوگ کبھی نہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہوئے ہوں گے اورتخلیہ کے مواقع بھی میسر آئے ہوں گے تو ان اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علی کی وہ تحریرکیوں نہ لکھوائی؟ اور اس مسئلہ کو کنارے کیوں نہ لگایا؟؟
چنانچہ علامہ بیہقی  نے دلائل النبوہ میں اس کو بایں عبارت لکھاہے :
”ولوکان ما یرید النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یکتب لہم شیئاً مفروضاً لایستغنون عنہ ،لم یترکہ باختلافہم ولغطہم لقول اللّٰہ عزو جل” بلغ ماانزل من ربک“ کمالم یترک تبلیغ غیرہ بمخالفة من خالفہ ومعاداة من عاداہ“ (دلائل النبوة ص:۱۸۴، ج: ۷ باب ماجاء فی ھمہ بان یکتب لاصحابہ کتاباً)
ترجمہ:․․․ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی واجب امر جس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا کے لکھوانے کا ارادہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور کرنے کی وجہ سے اُسے ترک نہیں فرماسکتے تھے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: تمہارے رب کی طرف سے جو چیز تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ،اس کو پہنچائیے“ ،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کی مخالفت اور دشمنوں کی دشمنی کی وجہ سے تبلیغ دین کا عمل کبھی ترک نہیں فرمایا تھا۔“
اس سے واضح ہوا کہ قرطاس منگوانے اور کچھ لکھنے سے حضرت علی کی خلافت کی سند اور دستاویز لکھوانا مقصود نہیں تھا،بلکہ دوسرے اہم امور تھے، جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے خطبات میں اس کا اظہار واعلان فرمادیا۔ اگر خلافت علی لکھوانا مقصود ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بعد کے ایام میں اس کی تحریر لکھوادیتے یاکم از کم اپنے خطبات میں اس کا اعلا ن فرمادیتے ،کیونکہ ارشاد الٰہی ”بلغ ماانزل الیک من ربک“ کا تقاضا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اس کا اعلان واظہار فرمادیتے ۔واللہ اعلم
سوم:․․․جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرطاس کے مطالبہ پر حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف سے بچانے کے لیے قرطاس دینے کی ضرورت نہیں سمجھی، اسی طرح حضرت علی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرطاس نہ دینے کاعمل دُھرایا تھا،ملاحظہ ہو:
”عن علی بن ابی طالب قال: امرنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان آتیہ بطبق یکتب فیہ مالاتضل اُمتہ من بعدہ فخشیت اماتفوتنی نفسہ ، قال:قلت:انی احفظ واعی،قال اوصی بالصلوٰة والزکوٰة وماملکت ایمانک۔“ (مسند احمد،ج:۱،ص:۹۰مسند علی البدایة والنھایة،ج:۵،ص۲۳۸طبع دارالفکربیروت)
ترجمہ:․․”․ حضرت علی بن ابی طالب  فرماتے ہیں کہ (مرض الوفات کے دوران) ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طبق(قرطاس) لانے کے لیے ارشاد فرمایا، تاکہ اس میں وہ بات تحریر کردیں جس سے امت آپ کے بعد گمراہی میں نہ پڑے۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ آپ کی طبیعت کی پریشانی دیکھ کر مجھے خوف ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میری عدم موجودگی میں انتقال نہ ہوجائے،تو میں نے عرض کیا کہ: آپ ارشاد فرمائیں ،میں اس فرمان کو محفوظ کروں گا اورنگاہ میں رکھوں گاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز،زکوٰة کی ادائیگی اور غلاموں ،لونڈیوں کے بارہ میں نیک سلوک کی وصیت فرمائی۔“
اس روایت سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جو کام ․․․قرطاس نہ دینے کا․․․حضرت عمر نے کیا تھا،ٹھیک وہی کام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی کیاتھا، اگر اس کی وجہ سے حضرت علی مطعون نہیں قرار پاتے تو حضرت عمر پر اس کی وجہ سے کیوں طعن وتشنیع کیا جاتا ہے؟؟
چلیے! اگر اس کی وجہ سے حضرت عمر مطعون قرار پاتے ہیں تو اہل تشیع اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارہ میں کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے؟
چہارم:․․․اگر تعصب وعناد کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ قرطاس کے باوجود حضرت عمر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرطاس نہ دینا دراصل اسی محبت وعقیدت کی وجہ سے تھا جس کی بنا پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح حکم کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے”رسول اللہ“ کا لفظ مٹانے سے انکار کیاتھا۔اگر اس موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ عمل قابل ملامت نہیں ،بلکہ زیادتی محبت وعقیدت کا مظہر تھا،تو اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ کاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کی شدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت پہنچانا کیونکر باعث طعن وتشنیع ہے؟
پنجم:․․․․اس سب سے ہٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ قرطاس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت نماز کے لیے حکم دینا اور یہ فرماناکہ:
”یأبی اللہ والموٴمنون الا ابابکر“(ابوداوٴد،ج:۲ص:۲۸۵ کتاب السنة،باب استخلاف ابی بکر)․․․”اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان ابوبکر  کے سواسب کا انکار کرتے ہیں“․․․کیااس کی واضح دلیل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرطاس کامطالبہ کرنا،خلافت علی کی دستاویز لکھوانے کے لیے نہیں تھا۔اُمید ہے کہ یہ چند معروضات آپ کی تشفی کے لیے کافی ہوں گی۔
۴:․․․آپ کا یہ فرمانا کہ:”وہ کونسا فرقہ ہے جس کے بارہ میں جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے؟ اورکیا اہل تشیع فرقہ ہے یا مسلک؟“
میرے مخدوم! آپ کے اس سوال کا جواب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود احادیث شریفہ میں دے دیا ہے،چنانچہ فرقہ ناجیہ کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان ہمارے لیے حرف آخر کادرجہ رکھتا ہے، چنانچہ مشکوٰة شریف میں ہے:
”عن عبداللّٰہ بن عمروٍ قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :لیأتین علیٰ امتی کمااتیٰ علیٰ بنی اسرائیل حذوالنعل بالنعل حتی ان کان منہم من اتی اُمَّہ علانیة لکان فی اُمَّتی من یصنع ذالک ،وان بنی اسرائیل تفرقت علیٰ ثنتین وسبعین ملة وتفترق اُمتی علیٰ ثلٰث وسبعین ملةکلہم فی النار الاملة واحدة،قالوا من ھی یارسول اللّٰہ؟ قال:ماانا علیہ واصحابی،رواہ الترمذی۔“ (مشکوٰة ،ص:۳۰ )
ترجمہ :․․․حضرت عبداللہ بن عمرو رضی ا للہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت ، بنی اسرائیل کی ایسی اتباع کرے گی جیسے جوتے کا ایک پیر دوسرے کے مطابق ہوتا ہے، حتی کہ اگر بنی اسرائیل کے کسی (بد بخت )نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت میں کا کوئی․․․بدبخت․․․بھی ایسا کرے گا۔ بے شک بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں بٹے تھے ،اور میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹے گی۔ یہ سب کے سب سوائے ایک کے جہنم میں جائیں گے،عرض کیاگیا:یارسول اللہ!یہ نجات پانے والافرقہ کون سا ہے؟فرمایا:جو لوگ اس راستے پر قائم رہیں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔“
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کون حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے راستے پر ہیں؟ اور کون ان کی مخالفت پر ہیں؟ بھلا وہ لوگ جو یہ کہتے ہوں کہ تمام کے تمام صحابہ سوائے چند ایک کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نعوذباللہ!مرتد ہو گئے تھے،اور وہ ان تمام حضرات کوجنہوں نے اپنی جان،مال،آل ،اولاد،عزت، آبرو،اور گھر ،بار غرضیکہ سب کچھ کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ ابروئے چشم پرقربان کردیاتھا،منافق و کافر کہتے اورلکھتے ہوں اور موجودہ قرآن کو ان کا مرتب کیا ہوا صحیفہ کہتے ہوں اور وہ حضرات صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے خلاف زبان طعن دراز کرتے ہوں اور حضرات صحابہ کرام  کو ناقابل اعتماد جانتے ہوں،وہ صحابہ کرام  کے راستے پر ہوسکتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو جنتی فرقے کی خود بخود نشان دہی ہو جاتی ہے۔ بس اتنا ہی کو کافی سمجھیں۔
اس آخری جواب سے یہ بھی واضح ہواہوگا کی اس حیثیت سے کہ چونکہ شیعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ۷۳ فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے ،اس لیے اس کو فرقہ کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں،لیکن چونکہ انہوں نے ”ماانا علیہ واصحابی “سے الگ راہ اختیار کی ہے،اس لیے اگر ان کے لیے ”مسلک “کا نام تجویز کیاجائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اسی سے یہ بات بھی واضح ہوجانی چاہیے کہ اکابر واسلاف کی کتب میں اہل تشیع کے لیے اگر کہیں شیعہ فرقہ اورکہیں شیعہ مسلک کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے تو دونوں میں کوئی منافات نہیں۔بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح اور درست ہیں۔مگر یہ طے ہے کہ یہ بے چارے کم از کم ”ماانا علیہ واصحابی“ کے اعزاز سے محروم ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رہنے اور ان بھولے بھالے لوگوں کو راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ڈاکٹر صاحب!اس وقت دنیا بھرمیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ،ملت کفر کی یلغار اور امت مرحومہ کی بے بسی ا وربے کسی کے علاوہ بطور خاص پاکستان کے موجودہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ان حساس موضوعات پر لکھا اور شائع کیاجائے،اور ملک کو مزید اختلاف وافتراق سے دوچار کیاجائے،بطور خاص جب کہ مسلکی تعصب وعناد اس حد کو پہنچ چکا ہو کہ مخالف کی معقول بات پر کان دھرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہو،اورمخالف کی دلیل کا جواب گولی سے دینے کا چلن ہو،ایسے میں کچھ لکھنا یا بولنا بہر حال مشکل ضرور ہے۔تاہم آپ کے سوالات اور مخلصانہ انداز استفسار سے مجبور ہو کر میں نے یہ چند بے ربط صفحات لکھے ہیں۔
تاہم یقین جانیے! اس تحریر سے کسی کی دل آزاری نہیں،بلکہ اظہار حقیقت مقصود ہے، لہذا اگر اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوگئی ہو تومیں اس پر پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
اگر اس تحریر میں کوئی بات خلاف واقعہ لکھی گئی ہے یا اس میں کوئی غلط انتساب ہواہے تونشان دہی پر ممنون ہوں گا،بلکہ کسی واقعی غلطی پر متنبہ ہونے پر نہ صرف بلاحیل وحجت اس سے رجوع کرلوں گا،بلکہ اس پر معذرت بھی کروں گا۔اللہ تعالیٰ اس تحریر کو قبول فرماکر میری نجات آخرت اور آپ کی راہ نمائی کا ذریعہ بنائے۔آمین۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: کبھی کبھی ننگے پاؤں چلناسنت اورصحت کیلئے مفید ہے !
Flag Counter